محرم الحرام اور غیر اسلامی رسومات

مولانا شہنواز عالم رضوی

 (کلکتہ)

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا اور حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے۔ محرم الحرام کی دسویں تاریخ جسے "یومِ عاشورہ” کہا جاتا ہے بہت ہی اہمیت و فضیلت والا دن ہے – اسی دن حضرتِ آدم عليہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔ اسی دن حضرتِ ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے آپ کو "خلیل الله کا لقب ملا اور آپ نے نمرود کی آگ سے چھٹکارا پایا – اسی دن حضرتِ موسٰی کلیم اللہ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و  استبداد سے نجات ملی اور فرعون اپنے لشکر سمیت دریا میں غرقاب ہوگیا اسی دن حضرتِ ادریس اور حضرتِ عیسٰی علیہما السلام آسمانوں پر اٹھائے گئے۔اسی دن حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے زندہ و سلامت باہر تشریف لائے – اسی دن حضرتِ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے جانثاروں نے میدانِ کربلا میں شہادت کا جام پی کر حق کا جھنڈا اونچا کیا۔

لیکن افسوس صد بار افسوس کہ ہم ان مقدس و مکرم ایام میں بھی خدا و رسول کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے  عشرہء محرم الحرام میں خوب خوب عبادت خداوندی کرتے ہوئے دین و دنیا میں سرفرازی حاصل کرنے کے بجائے خرافات و فضولیات کے دلدل میں پھنس کر اسی میں ڈوب جاتے ہیں۔

محرم الحرام میں اکثر پائے  جانےوالے وہ خرافات و فضولیات جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ سب کے سب افعال کارِ ناجائز و گناہ و حرام ہیں اس کا خلاصہ نیچے کے سطروں میں ملاحظہ فرمائیں۔

تعزیہ داری کے نام پر زبردستی غریبوں کے گھروں میں گھس گھس کر چندہ لینا اور منع کرنے والوں کو یا کم دینے والوں کو دھمکیاں دینا انہیں تنگ کرنا یہ عام بات ہے۔

عَلَمْ،  تعزیہ،  مہندی، ان کی منت،  گشت،  چڑھاوا،  ڈھول تاشے،  مرثیے،  ماتم،  مصنوعی کربلا جانا یہ سب باتیں حرام و ناجائز و گناہ ہیں۔ ( فتاوٰی رضویہ جلد 24صفحہ 496)

حضرتِ امام حسین کے نام پر بچوں کو فقیر بنانا اس کے گلے میں جھولی ڈال کر گھر گھر اس سے بھیک منگوانا ناجائز و حرام ہے ۔ یونہیں فقیر بن کر بلا ضرورت و مجبوری بھیک مانگنا اور ایسوں کو بھیک دینا دونوں حرام ہیں ( فتاوٰی رضویہ جلد 24صفحہ 494)

عوام میں مشہور ہے کہ حضرتِ امام قاسم کی شادی کربلا میں ہوئی، ان کو دولہا بنایا گیا، ان کو مہندی لگائی گئی اور مہندی کی تاریخ 7 محرم،  کہیں 8 محرم،  اور کہیں 13 محرم جھوٹی بات بتا کر جاہلوں نے اس کا نام مہندی رکھ دیا ۔

خلاصہ یہ ھیکہ مہندی کی رسم اور اس سے متعلق  جو واقعات ہیں سب من گھڑت اور  فضولیات پر مبنی ہیں اور اس کے نام پر جو کچھ خرافاتیں اور جاہلانہ حرکتیں ہوتی ہیں یہ سب ناجائز و گناہ و حرام ہیں۔(مفہوم عبارت فتاوٰی رضویہ جلد 24 صفحہ 500/501)

حضرتِ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ حقوق انسانیت کے تحفظ کے عظیم رہبر اور علمبردار ہیں ان کی شہادت کی شمع سے پھوٹنے والی روشنی  آج بھی انسانیت کو حریت، خود داری اور خود اعتمادی سے منور کر رہی ہے۔ انہوں نے "اقتدار” کی نہیں بلکہ "کردار” اور امت مسلمہ کی فلاح و بہبود کی جنگ لڑی۔ وہ مفادات کے لیے نہیں بلکہ انسانی اعلی اقدار کے فروغ کے لیے میدان کارزار میں اتر ے۔

 آپ  نے بقا ئےامن و سلامتی اور استحکام دین اسلام کی خاطر مقدس رشتوں کو رضا الہی کے لیے قربان کر دیا وہ صرف مسلمانوں کے امام اور راہنما نہیں بلکہ پوری انسانیت کے امام اور راہنما ہیں، ان کے نقوشِ قدم انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں۔

شہادت حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہی پیغام عالمِ اسلام کو ملا کہ حکمِ خداوندی اور حکمِ رسولِ اعظم صلی الله عليه وسلم کے آگے  اپنی جان، اپنا مال،  اپنا گھر بار، وقت و آرام، عیش وعشرت سب کچھ قربان کر دینا چاہئے اور اس محبت و عقیدت کو رسمی نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے عملی جامہ پہنا کر زندگی کے روپ میں ڈھال کر حقیقی زندگی کے طور پر اپنایا جائے۔

آج اشد ضرورت ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر پیغام حسین کو اپنائیں اور عام کریں -باللہ کریم ہمیں صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، فیضان حضرتِ امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مالامال فرمائے آمین بجاہِ سید المرسلین صلی الله عليه وسلم

تبصرے بند ہیں۔