محکمۂ شرعیہ کاقیام اور ہماری ذمہ داریاں

شریعت مطہرہ کےاصول و قوانین انسانی زندگی کے تمام شعبوں؛عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق سب کو حاوی ہیں،شریعت کے قوانین میں وہ تقسیم نہیں جو آج کی بیشتر حکومتوں کے دستوروں میں پائی جاتی ہے، کہ ایک قسم کو پرسنل لاء (Personal Law)یعنی احوالِ شخصیہ کا نام دیا جاتا ہے؛جو کسی انسان کی شخصی اور عائلی زندگی سے متعلق ہوتی ہے۔دوسری قسم مشترک قانون(Common Law) کے نام سے معروف ہے، جو کسی ملک کے تمام باشندوں کے لیے یکساں ہوتے ہیں،اسلام اس تقسیم کا قائل نہیں، انسانی مسائل خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی،تمدن وثقافت اور مال وزر سے اُن کا تعلق ہو یا اخلاقی بے راہ روی اور جرائم سے،سب کاحل شریعتِ اسلامیہ میں یکساں طور پر موجودہے، اور ہر مسلمان پر ان تمام احکام کی پیروی ضروری اورلازمی ہے، اس کے قوانین میں شخصی اختیار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

انسانی معاشرےمیں تنازعات و اختلافات کوئی انوکھی چیز نہیں ؛بل کہ مزاج و مذاق کےتنوع سے ان کا پیدا ہوناناگزیرہے ؛جن کے حل کے لئے ہمیں دیگر شعبوں کی طرح خدا اور رسول ہی کی جانب رجوع کاحکم دیاگیاہے ،ہمارے مسائل کا حل اسی میں پوشیدہ ہے اور اطاعت خداو رسول ہم پر فرض ہے، مسلمان کی شان یہی کہ وہ سرکار دو عالم ﷺکی ہر ادا کا دیوانہ ہوتا ہے ، تاریخ کےصفحات گواہ ہے کہ صحابہ کو جب کوئی مسئلہ پیش آتا تو نبی اکرم ﷺ کے پاس ایسے دوڑے آتے جیسے شدید پیاس میں انسان کنوئیں کی جانب دوڑتا ہے ، اور اپنے مسائل کا حل پالیتے ،آن کی آن میں مسئلہ حل ہوجاتا،تشنگی سیرابی میں تبدیل ہو جاتی،چناں چہ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا جہاں کہیں اسلامی پرچم لہرایاگیا، جس زمین پر بھی مسلمانوں نے قدم رکھا وہاں مسلمان قاضی پہونچے اورکتاب وسنت کی روشنی میں فیصلے صادرکئے۔

ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں بھی ؛جس میں ہر شہری کو مذہبی آزادی حاصل ہے اس وقت سے پرسنل لاء پر عمل درآمدکی اجازت ہے ؛جب کہ مادر وطن سامراجی پنجۂ استبداد میں جکڑاہو تھاچناں چہ اس وقت کے اکابر علماءکی مسلسل محنت و جدوجہد سے ۱۹۳۷ءمیں شریعت اپلیکیشن ایکٹ بنا،اس قانون کے مطابق عائلی مسائل میں فریقین کے مسلمان ہونے کی شرط کےساتھ شریعت اسلامی کو عرف ورواج پر بالا دستی حاصل ہوئی پھرملک کو انگریزوں کے تسلّط سے آزاد کرانے کی جدوجہد شروع ہوئی تو مسلمانوں نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اس زمانے میں کانگریس اور جمعیت علماء آزادی کی جدوجہد کرنے والی سب سے بڑی جماعتیں تھیں چناں چہ کانگریس نے اپنے متعدد سالانہ اجلاسوں کی قراردادوں میں مسلم پرسنل لا کے تحفظ کے مسئلے کو شامل کیااور مسلمانوں کو یقین دہانی کرائی کہ آزادی کے بعدمسلم پرسنل لا کا تحفظ کیا جائے گا اور اس میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔لیکن آزادی کے بعد جب آئین مرتب ہوا تو اس میں اقلیتوں کے پرسنل لا کے تحفظ سے متعلق ایک لفظ بھی نہیں شامل کیا گیا،بلکہ’ رہ نما اصول‘ کے حصے میں یہ دفعہ شامل کی گئی کہ حالات سازگار ہونے پر حکومت یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے کیے کوشش کرے گی۔

موجودہ حالات، اسلامیان ہند کے لئے نہایت پرخطر اور خوفناک ہیں،ہرطرف سے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی بات ہورہی ہے؛بل کہ حالیہ چند سالوں سے ملک کو ایک مخصوص رنگ میں رنگنے کی کوششیں بھی جاری ہیں ؛ایسےمسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ نظامِ قضاء قائم کریں، شرعی پنچایتیں اور تصفیہ کمیٹی بنائیں ،اپنے تنازعات کو ان اداروں میں لے جائیں اور وہاں سے جو فیصلہ ہو اسے بہ سروچشم قبول کریں ۔

جمعیۃ علماء کا مستحسن اقدام :

جمعیت علماء ہندوستانی مسلمانوں کی ایک نمائندہ تحریک ہے؛جس نے اپنے کاموں میں دارالقضاءاور محاکم شرعیہ کے قیام کو خصوصی اہمیت دی ہے اور اس سلسلے میں اپنے مختلف اجلاسوں میں قراردادیں منظور کی ہیں ۔نیزعملی طور پر بھی اس کے لیے مستقل کوشاں ہے اور اس کی محکمہ شرعیہ کمیٹی کی جانب سے مختلف شہروں میں محکمۂ شرعیہ قائم ہے۔

دارالقضأ اور محاکم شرعیہ ہمارے لئے کسی نعمت عظمٰی سے کم نہیں ؛جہاں ہمارے مسائل بھی حل ہوتے ہیں اور ہمارے دینی تقاضوں پر بھی عمل ہوتا ہے ساتھ ہی اس سے ہمارے عائلی قوانین بھی محفوظ ہو جاتے ہیں جیسے وراثت،نکاح،فسخِ نکاح،طلاق،ایلاء،ظہار، لعان، خلع، نفقہ، مہر، ثبوتِ نسب، امانت، جائیداد،حقِ شفعہ، ہبہ اور اوقاف وغیرہ

قیام کے مقاصد:

محکمۂ شرعیہ اس لئےقائم کیا جائےتاکہ انصاف کو شرمندہ نہ ہو نا پڑے، آسانی کے ساتھ اور کم سے کم وقت میں لوگوں کو انصاف ملے، فیصلہ قرآن و حدیث اور احکام الہی کے مطابق ہو اور مسئلہ فریقین کی موجودگی ہی میں بے غباراورواشگاف ہو جائے ۔

ہماری ذمہ داریاں :

شریعت کے تحفظ کا سب سے بہتر ین طریقہ یہ ہے کہ ہم خوداس پردل وجان سے عمل پیرا ہوں، صرف غیروں سے احتجاج اور شکوہ کرنے کےبجائےعملی اقدامات کےذریعہ اسلامیات کے تعلق سے بیدارمغزی کا ثبوت دیں ،ہمارا دعوی ہےکہ شریعت اسلامی میں عورتو ں او ربچوں کو سب سے زیادہ انصاف دیا گیا ہے ، تو ہمیں اس دعوی کو اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا ۔

ہمیں چاہیے کہ نکاح نامہ میں شریعت کی روشنی میں ایسی شرائط شامل کریں جو نز اع کو دور کرنے کے لیے محکمہ شرعیہ کی طرف رجوع میں معاون بنیں اورلوگوں کو عدالتوں کے چکر کاٹنے سے بچایا جا سکے ۔

اخیر میں مفکر اسلام مولانا زاہدالراشدی کی اس اہم تجویز پر بات ختم کرتےہیں ،مولانامحترم اپنے مضمون‘‘ بھارت میں غیر سرکاری شرعی عدالتوں کا قیام’’میں تحریرفرماتے ہیں:

‘‘ہمارے نزدیک سب سے زیادہ ضرورت عوامی سطح پر دینی شعور کو بیدار کرنے اور اجتماعی معاملات میں دینی راہ نمائی کو قبول کرنے کا احساس پیدا کرنے کی ہے اور اس سے بھی زیادہ ضرورت دینی اخلاقیات کو عملی زندگی میں لانے کی ہمہ گیر جدوجہد کی ہے۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کواس بات کے لیے تیار کرنا بھی ضروری ہے کہ ہر معاملہ میں عدالت اور سرکاری دروازہ کھٹکھٹانے کے بجائے جو معاملات وہ کسی سطح پر خود طے کر سکتے ہیں، انھیں عدالت اور سرکار کے دروازے سے باہر ہی نمٹا لیا جائے۔ اس سے جھگڑوں میں بھی کمی آئے گی اور عدالتوں پر کام کا بوجھ بھی کم ہوگا، مگر اس کے لیے محنت کی ضرورت ہے، مناسب منصوبہ بندی درکار ہے، ٹیم ورک اور مسلسل ورک کا حوصلہ چاہیے جس کے لیے ہم میں سے شاید کوئی بھی تیار نہ ہو اور یہی ہماری قومی زندگی کا سب سے بڑا روگ ہے۔ خدا کرے کہ ہم اپنی سوچ اور ترجیحات پر ایسی نظر ثانی کر سکیں جو ہماری معاشرتی زندگی میں کسی مثبت تبدیلی اور انقلاب کی نوید بن جائے’’۔ آمین یا رب العالمین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔