توسّل بالذات :کتاب وسنت کی روشنی میں

وسیلہ عربی زبان کا لفظ ہے؛جس کے لغوی معنی مرتبہ ،درجہ،سبب ، تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
مجمع البحار میں ہے:الوسيلة اصلها مايتوسل به الى شئ ويتقرب به
( کسی شیٔ سے کسی چیز کا قرب حاصل کرنا)
(ملاحظہ ہو: مصباح اللغات،القاموس ،لسان العرب )
اورشریعت مطہرہ میں توسل سے مراد اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ؛ چاہے وہ انبیاء، صالحین اور اولیاء سے دعا کروا کرہو یا عمل صالح ، طاعت
اورعبادت کاواسطہ دے کر یا انبیاء و صالحین کی جاہ، حرمت، برکت کا سوال کرکے خواہ وہ(بزرگان دین) زندہ ہوں یا وفات پاچکے ہوں۔
اس تفصیل سے وسیلے کی کل تین قسمیں معلوم ہوئیں :توسل بالدعاء، توسل بالاعمال اور توسل بالذات ،توسل کی یہ تینوں اقسام اہل السنۃ وا لجماعۃ کےنزدیک مسلّم ہے ۔
چناں چہ اہل السنۃ و الجماعۃ کتاب وسنت کی روشنی میں نہ صرف اس کے قائل ہیں؛بل کہ اجابت دعاء میں اس کو موٴثربھی سمجھتے ہیں،ہاں واجب و ضروری نہیں گردانتے۔
ذیل میں وسیلے کی تیسری قسم (توسل بالذات) کو دلائل وبراہین کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

وسیلے کا ثبوت کتاب اللہ سے :

اللہ رب العزت اپنے کلام میں فرماتے ہیں :وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ (مائدہ :۳۵)
خدا کی طرف وسیلہ تلاش کرو۔
امام ابو عبد اللہ الحاکم رحمۃ اللہ علیہ (م۴۰۵ھ) نے حضرت حذیفہ ؓ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان:
وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ (اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو) کے بارے میں یہ بات بیان کی ہے:

لقد علم المحفوظون من أصحاب محمد ﷺ أن ابن أم عبد الله من أقربهم إلى الله وسيلة
(المستدرک علی الصحیحین: ج:۳ص:۳۷ کتاب التفسیر تحت سورۃ المائدۃ)
ترجمہ: بے شک نبی کریم ﷺ کے اصحاب میں سے محفوظ کرنے والے حضرات نے جان لیا کہ ابن ام عبد اللہ (حضرت عبد اللہ بن مسعود) وسیلہ کے طور پر اللہ تعالیٰ کی جانب ان حضرات میں سے اقرب ہیں۔
شیخ الاسلام علامہ زاہد بن الحسن الکوثری رحمہ اللہ (م۱۳۷۱ھ)اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:

والوسيلة بعمومہا تَشْمَل التوسل بالاشخاص، و التوسل بالاعمال۔۔۔ اما شمول الوسیلۃ فی الآیۃ المذکورۃ للتوسل بالاشخاص فلیس برای مجرد و لا ہو بماخوذ من العموم اللغوی فحسب بل ہو الماثور عن عمر الفاروق ؓ الخ۔
(مقالات الکوثری: ص۲۸۶)
ترجمہ: اس آیت میں لفظ ”الوسیلۃ“اپنے عموم کے پیشِ نظر ذاتوں کے وسیلہ کو بھی شامل ہے اور اعمال کے وسیلہ کو بھی۔۔۔ آیت مذکورہ میں وسیلہ کا توسل بالاشخاص کو شامل ہونا محض رائے سے نہیں ہے اور نہ ہی لفظ کے عمومِ لغوی کا نتیجہ ہے بلکہ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:

ھٰذَا وَاللہِ الْوَسِیْلَۃُ اِلَی اللہِ عَزّوَجِلّ بخدا! یہ عباسؓ اللہ کے حضور وسیلہ ہے۔الخ۔
آگے علامہ کوثری ؒنے کئی ایک آثار ذکر فرمائے ہیں جن سے توسل بالاشخاص ثابت ہوتا ہے۔
’’وسیلہ ‘‘ذوات واعمال دونوں کو اس لئے شامل ہے کہ وسیلہ سے مراد ”قربت“ ہے، جیسا کہ عامہ مفسرین نے فرمایا ہے۔ (دیکھیے تفسیر الدر المنثور، تفسیر ابن کثیر، تفسیر جلالین وغیرہ)
اسی طرح اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا(سورۃ النساء:۶۴)
ترجمہ: اور جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اگر یہ اس وقت آپ کے پاس آ کر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو یہ اللہ کو بہت معاف کرنے والا، بڑامہربان پاتے۔
امام مالک بن انس المدنی (م۱۷۹ھ) اسی آیت سے جوازِ وسیلہ پر استدلال کرتے ہیں۔ چنانچہ منقول ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ منصور مدینہ منورہ آیا اور اس نے امام مالک سے دریافت کیا :

استقبل القبلۃ و ادعو ام استقبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم؟ فقال: و لم تصرف وجہک عنہ و ہو وسیلتک و وسیلۃ ابیک آدم علیہ ا لسلام الی اللہ یوم القیامۃ؟ بل استقبلہ وا ستشفع بہ فیشفعہ اللہ۔ قال اللہ تعالیٰ: و لو انہم اذ ظلموا انفسہم الایۃ.
( الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ: ج:۲ص:۲۶ الباب الثالث فی تعظیم امرہ و وجوب توقیرہ)
ترجمہ: میں قبر نبوی کی زیارت کرتے وقت دعا کرتے ہوئے قبلہ رخ ہوں یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کروں ؟ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: اے امیر! آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے منہ کیوں موڑتے ہیں حالانکہ وہ تمہارے لیے اور تمہارے جد اعلیٰ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے روزِ قیامت وسیلہ ہیں ، بلکہ اے امیر! آپ کو چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب متوجہ رہیے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت کے طلب گار رہیے، اللہ ان کی شفاعت قبول فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اگر یہ اس وقت تمہارے پاس آ کر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو یہ اللہ کو بہت معاف کرنے والا، بڑامہربان پاتے۔

وسیلے کا ثبوت سنّت رسول اللہ سے:

(۱)عن عثمان بن حُنَيْف : أن رجلا ضرير البصر أتى النبي صلى الله عليه و سلم فقال ادع الله لی أن يعافيني . فقال ( إن شئت أخرت لك وهو خير . وإن شئت دعوت ) فقال ادعه . فأمره أن يتوضأ فيحسن وضوءه . ويصلي ركعتين . ويدعو بهذا الدعاء (اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بمحمد نبي الرحمة . يا محمد إني قد توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى . اللهم فشَفِّعْه فِيَّ )
(رواہ ابن ماجہ واحمدفی مسندہ :رقم الحدیث ۱۷۱۷۵وقال الحاکم :هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه)
اس روایت میں رسول اللہ ﷺ نے نابینا صحابی کو بذاتِ خود یہ الفاظ بتائے:
یَا مُحَمَّدُ اِنِّیْ تَوَجَّھْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ:
اے محمدﷺ میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا۔
ـــــــــظاہر ہے اس میں شخصیت کا وسیلہ ہے،عمل کا نہیں۔اِس حدیث کو اس کے ظاہری معنٰی سے پھیر کر کوئ دوسرا معنٰی نکا لنا ہوائے نفس کی پیروی میں تحریف کا ارتکاب کہلاۓ گا۔نیز اس روایت پر کوئ نقد بھی نہیں کرسکتا،کیوں کہ محدثین کی ایک جماعت نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔
(۲)حدثنا سفیان الثوری عن عاصم الاحول عن انس بن مالک قال:لما ماتت فاطمة بنت اسد بن هاشم ام علی، دخل علیها رسول الله صلی الله علیه وسلم فجلس عند راسها فقال: رحمک الله یا امی…
فلما فرغ دخل رسول الله صلی الله علیه وسلم فاضجع فیه وقال:الله الذی یحیی و یمیت و هو حی لایموت، اغفرلامی فاطمة بنت اسد و لقنها حجتها و وسع علیها مدخلها بحق نبیک والانبیاء الذین من قبلی، فانک ارحم الراحمین، ثم کبر علیها اربعا، ثم ادخلوها القبر هو والعباس وابوبکر الصدیق رضی الله عنهم۔
(المعجم الاوسط للطبرانی)
حضرت فاطمہ بنتِ اسد ؓ کی اس طویل روایت میں یہ الفاظ آۓ ہیں:
بِحَقِّ نَبِیِّکَ وَالْاَنْبِیَاءِ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِی.
اے رب!یہ دعاء قبول فرما، اپنے نبی اور ان سے پہلے انبیاء کے وسیلہ سے۔
اس حدیث کے سارے راوی علاوہ روح بن صلاح کے ثقہ و معتبر ہیں،روح بن صلاح کے بارے میں بھی حاکم نے فرمایا ہے ــــ یہ معتبر اور ثقہ ہیں۔
ابنِ حبّان نے بھی ان کو ثقہ و معتبر راویوں میں شمار کیا ہے۔اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ وسیلہ میں زندوں اور مردوں کے درمیان کوئ فرق نہیں۔
اس روایت میں صاف لفظوں میں انبیاء کی جاہ و منزلت سے وسیلہ کاثبوت موجود ہے۔
(۳)امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:
أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا قَالَ فَيُسْقَوْنَ
(صحیح البخاری، باب سوال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا، رقم الحدیث:۹۶۴)
ترجمہ: جب لوگ قحط میں مبتلا ہوتے توحضرت عمر بن خطابؓ، عباس بن عبدالمطلبؓ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! ہم تیرے پاس تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ لے کر آیا کرتے تھے تو تو ہمیں سیراب کرتا تھا، اب ہم لوگ اپنے نبی کے چچا (عباس رضی اللہ عنہ) کا وسیلہ لے کر آئے ہیں، ہمیں سیراب کر۔
راوی کا بیان ہے کہ لوگ سیراب کئے جاتے( یعنی بارش ہوجاتی)۔
دیکھئے استسقاء (بارش کی دعاء) کے سلسلہ میں حضرت عمرؓ کے یہ الفاظ
وَاِنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا ـ
ــ اے اللہ !ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ لاتے ہیں،اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ صحابہ نے خود صحابہ کا وسیلہ لیا ہے،جیساکہ یہاں حضرت عباس ؓ کی شخصیت کا وسیلہ عیاں ہے۔
علامہ ابنِ عبد البرنے استیعاب میں اس واقعہ کی تفصیل اس طرح ارقام فرمائی ہےکہ
حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں عام رمادہ ۱۷؁ھ کے اندر سخت قحط سالی ہوئی،حضرت کعبؓ نے حضرت عمرؓ سے عرض کیا:امیر المؤمنین!بنی اسرائیل جب اس طرح کی قحط سالی میں مبتلا ہوتے تو انبیاء علیہم السلام کے رشتہ داروں کے وسیلہ سے بارش کے لئے دعاء کرتے۔حضرت عمر ؓنے فرمایا :اچھا تو یہ رسول اللہ ﷺ کے چچا،آپ کے والد کے بھائی ،اور بنو ہاشم کے سردار’’ حضرت عباسؓ ‘‘موجود ہیں۔یہ کہہ کر حضرت عمرؓ حضرت عباس ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے قحط سالی کا شکوہ کیا۔

وسیلہ علماء امت کی نظر میں :

چناں چہ علامہ تقی الدین علی بن عبد الکافی ابن علی السبکی الشافعی (م۷۵۶ھ)لکھتے ہیں:
ان التوسل بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم جائز فی کل حال قبل خلقہ وبعدخلقہ فی مدة حیاتہ فی الدنیا وبعد موتہ فی مدة البرزخ
(شفاءالسقام للسبکی: ص۳۵۸)
ترجمہ: نبی اکرمﷺ کا توسل لینا ہر حال میں جائز ہے چاہے آپ کی تخلیق سے پہلے ہو، آپ کی پیدائش کے بعد آپ کی دنیوی زندگی میں ہو یا آپ کی وفات کے بعد آپ کی برزخی زندگی میں ہو۔
اسی طرح علامہ احمد بن محمد القسطلانی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ(م ۹۲۳ھ)لکھتے ہیں:
و ینبغی للزائر ان یُکثِرَ من الدعاء و التضرع و الاستغاثۃ و التشفع و التوسل بہ ﷺ (المواہب اللدنیۃ: ج۳ص۴۱۷الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف الخ)
ترجمہ: زائر کو چاہیے کہ بہت کثرت سے دُعا مانگے، گڑگڑائے،فریادکرے، شفاعت کی دعا کرے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ پکڑے۔
مسندالہندحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (م۱۱۷۶ھ) فرماتے ہیں:
ومن ادب الدعاء تقدیم الثناء علی اللہ و التوسل بنبی اللہ لیستجاب.
(حجۃ الله البالغۃ ج:۲ص:۶)
ترجمہ: اور دُعا کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی تعریف اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ کو مقدّم کیا جائے تاکہ دُعا کو قبولیت کا شرف حاصل ہو۔

امام ابوبکر احمد بن علی خطیب بغدادی علی بن میمون سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کہتے سنا کہ:
اني لأتبرك بأبي حنيفة وأجيء إلى قبره في كل يوم يعني زائرا فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين وجئت إلى قبره وسألت الله تعالى الحاجة عنده فما تبعد عني حتى تقضى
( تاریخ بغداد للخطیب: ج:۱ ص:۱۰۱ باب ما ذکر فی مقابر بغداد الخ)
ترجمہ: میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے وسیلے سے برکت حاصل کرتا ہوں ہر روز ان کی قبر پر زیارت کے لیے حاضر ہوتا ہوں اور اس کے قریب اﷲ تعالیٰ سے حاجت روائی کی دُعا کرتا ہوں۔ اس کے بعد بہت جلد میری دعا پوری ہو جاتی ہے۔
علامہ ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ ’’الخیرات الحسان‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: واضح رہے کہ علماء اور اہل حاجات ہمیشہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کی زیارت کرتے اور اپنی حاجات براری میں ان کا وسیلہ پکڑتے رہے ہیں۔ ان علماء میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں۔
(الخیرات الحسان: ص:۱۲۹)

علامہ ابن تیمیہ (م ۷۲۸ھ)
علامہ شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:نبی اکرم ﷺ کا وسیلہ لینا جائز ہے یا نہیں؟ ? تو شیخ نے کہا: الحمد اللہ ! نبی اکرم ﷺپر ایمان اور آپﷺ کی اطاعت اور آپ ﷺ کی محبت ، آپ ﷺ پر صلوۃ و سلام ، آپ (ﷺ) کی دعا و شفاعت اور اسی طرح آپ (ﷺ) کے افعال بندوں پر واجب قرار دیے گئے ہیں ،اورآپﷺ کو وسیلہ بنانا باتفاق المسلمین مشروع ہے۔
اور صحابہ کرام ، آپﷺ کی حیات مقدسہ میں آپ سے توسل کیا کرتے تھے اور آپ کے وصال مبارک کے بعد انہوں نے آپ کے چچا عباس سے بھی توسل کیا جس طرح وہ آپ ﷺسے توسل کیا کرتے تھے۔ (مجموع فتاوی ابن تیمیہ /ج:۱ ص:۱۴۰مطبع سعودی عرب)

قاضی محمد بن علی شوکانی(م۱۲۵۰ھ )
غیر مقلدین کے پیشوا قاضی محمد بن علی شوکانی نے اپنی کتاب ”تحفۃ الذاکرین“ میں لکھتے ہیں:
ويتوسل إلى الله سبحانه بأنبيائه والصالحين أقول ومن التوسل بالأنبياء ما أخرجه الترمذي۔۔۔ من حديث عثمان بن حنيف رضي الله عنه۔۔۔ وأما التوسل بالصالحين فمنه ما ثبت في الصحيح أن الصحابة استسقوا بالعباس رضي الله عنه عم رسول الله صلى الله عليه وسلم
(تحفۃ الذاکرین:ص:۵۶)
ترجمہ: اللہ کی جانب اس کے انبیاء اور صالحین سے توسل کیا جائے گا، انبیاءعلیہم السلام سے توسل کرنے کے باب سے وہ حدیث ہے جسےامام ترمذی رحمہ اللہ وغیرہ نے حضرت عثمان بن حنیف سے روایت کیا ہے۔۔۔ صالحین سے توسل کرنے کے باب سے صحیح بخاری میں یہ حدیث موجودہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے استسقاء کیا۔

جناب وحید الزمان حیدرآبادی (م۱۳۳۸ھ )
علامہ وحید الزمان اپنی کتاب ”ہدیۃ المہدی“میں قاضی شوکانی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
والتوسل الی اللہ تعالیٰ باھل الفضل والعلم ھو فی الحقیقۃ توسل باعمالھم الصالحۃ ومزایاھم الفاضلۃ، وقال فی مقام اٰخر: لاباس بالتوسل بنبی من الانبیاء او ولی من الاولیاء او عالم من العلماء والذی جاء الی القبر زائرا ًاودعااللہ وحدہ وتوسل بذلک المیت کان یقول: اللھم انی اسالک ان تشفینی من کذا واتوسل الیک بھذا العبد الصالح، فھذا لاترددفی جوازہ انتھیٰ مختصراً (ہدیۃ المہدی: ص:۴۸،۴۹)
ترجمہ: ۔’’ اللہ تعالیٰ کی جانب اہل فضل اور اہل علم کے ذریعے توسل کرنا درحقیقت ان کے اعمال صالحہ اور ان کے اوصاف فاضلہ سے توسل کرنا ہے‘‘۔
قاضی شوکانی ایک اور جگہ کہتے ہیں کہ ” انبیاء میں سے کسی نبی سے، اولیاء میں سے کسی ولی سے یا علماء میں سے کسی عالم سے توسل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جو بندہ قبر کے پاس آیا، اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اس قبر والے سے اس طرح توسل کیا کہ اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ فلاں مرض سے مجھے شفاء بخش اور اہل صالح بندہ سے تیری جانب توسل کرتا ہوں، تواس کے جائز ہونے میں کوئی تردد نہیں ہے “انتہیٰ مختصراً۔

تبصرے بند ہیں۔