مودی حکومت میں اردو کا زوال

قمر تبریز

اردو کے ساتھ حکومتوں کا متعصبانہ رویہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاہم، مودی حکومت نے اردو کی جڑ کاٹنے میں جو تیزی دکھائی ہے، وہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ یہ واقعی تشویش کی بات ہے۔ تین سال قبل جیسے ہی مرکز میں بی جے پی حکومت آئی، سب سے پہلے اس نے اردو کو تمام سرکاری اداروں سے ختم کرنا شروع کردیا۔ وزارتِ داخلہ کے ذریعے جموں و کشمیر اَپڈیٹ کے نام سے جو میگزین اردو میں شائع ہوتی تھی، اسے مودی حکومت نے بند کروا دیا۔ وزارتِ خارجہ کی ویب سائٹ انگریزی اور ہندی کے علاوہ اردو میں بھی ہوا کرتی تھی، جسے بی جے پی نے مرکزی حکومت پر قابض ہوتے ہی بند کروا دیا۔

دوردرشن کے جس چینل کا نام ’ڈی ڈی اردو‘ ہے، اس میں خبروں اور دو چار پروگراموں کے علاوہ اردو زبان و ادب یا تہذیب و ثقافت سے متعلق کچھ بھی نشر نہیں ہوتا۔ بلکہ ڈی ڈی اردو پر آج کل دوسری تہذیب وثقافت کو پیش کرنے کی کوشش زیادہ کی جا رہی ہے۔ یہی نہیں، ریاست جموں و کشمیر پر مبنی دور درشن کے چینل، ڈی ڈی کشیر پر پہلے جتنے پروگرام اردو میں دکھائے جاتے تھے، ان میں سے زیادہ تر اب بند ہو چکے ہیں۔ قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے، جہاں گزشتہ دو تین سال سے اردو کی ترویج و اشاعت پر کم پیسے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ ہر پروگرام کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ فنڈ کی کمی ہے۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ سیمیناروں کے نام پر لاکھوں روپے ڈکار جانے والے اردو کے نام نہاد پروفیسران اور ماہرین لسانیات کو یہ سب نظر نہیں آ رہا ہے۔ اردو کی کھانے والے اپنی دنیا میں مست ہیں۔ ان کی زبان پر حرفِ شکایت تک نہیں۔ سیمیناروں میں وہ خوب لمبی لمبی ہانکتے ہوئے نظر آ جائیں گے، لیکن میدانِ عمل میں ان سب کی حالت ’زیرو‘ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ آج تک آپ کو ایسا کوئی بھی اردو کا پروفیسر نہیں ملے گا، جس نے کبھی یہ آواز اٹھائی ہو کہ وزارتِ فروغِ انسانی وسائل کے ماتحت کام کرنے والے تحقیقی ادارہ، این سی ای آر ٹی میں اردو کا گلا کیوں گھونٹا جا رہا ہے۔ اردو کی نصابی کتابیں وقت پر شائع کیوں نہیں ہوتیں یا پھر این سی ای آر ٹی سے اردو کی پوسٹ کیوں ختم کر دی گئی۔

این سی ای آرٹی کی اردو زبان کی کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع میں بغیر کسی رکاوٹ کے اس لیے چلتا رہا، کیوں کہ پبلی کیشن ڈپارٹمنٹ میں دو لوگوں کو پروڈکشن اسسٹنٹ فار اردو کے عہدے پر مقرر کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک کا نام تھا سمیع اللہ اور دوسرے کا سید محمد مسلم۔ بعد میں جب سمیع اللہ صاحب آئی سی ایچ آر کے ڈائریکٹر بن گئے اور سید محمد مسلم پروموشن کی بنیاد پر پروڈکشن آفیسر بنا دیے گئے، تو اردو کے پروڈکشن اسسٹنٹ کے ان دونوں خالی عہدوں کو دوبارہ کبھی نہیں بھرا گیا، اور اب تو پروڈکشن آفیسر سید محمد مسلم بھی ریٹائر ہو چکے ہیں۔ بعد کے دنوں میں جب پروفیسر کرشن کمار این سی ای آرٹی کے ڈائریکٹر بنے، تو ان کے زمانے میں اردو کے ان دونوں عہدوں کو ڈی ٹی پی آپریٹر کے عہدوں میں تبدیل کر دیا گیا، یہ دونوں عہدے اردو کے نام پر ضرور تھے، لیکن تھے ٹیکنیکل۔ ان دونوں عہدوں کی وجہ سے اردو کی کتابوں کی بروقت اشاعت میں پہلے کبھی کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ اب ان دونوں عہدوں کے کافی دنوں سے خالی پڑے رہنے کی وجہ سے اردو کتابوں کی اشاعت پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے۔

اسی طرح پہلے این سی ای آرٹی کے پبلی کیشن ڈپارٹمنٹ میں اردو کے دو پروف ریڈر ہوا کرتے تھے، محمد معظم الدین اور ناہید جمال۔ ناہید جمال 2008 میں ریٹائر ہو چکی ہیں، لیکن ان کی جگہ اب بھی خالی پڑی ہوئی ہے۔ اردو پروف ریڈر کے یہ دونوں عہدے جنرل کیٹیگری کے تھے، لیکن بعد میں این سی ای آرٹی کے پبلی کیشن ڈپارٹمنٹ کی یونین نے اردو پروف ریڈر کے یہ دونوں عہدے لڑ کر واپس لے لیے اور کہا کہ ہم اسے اردو کو نہیں دے سکتے۔ اسی طرح پہلے یہاں پر اردو کے کاپی ہولڈر محمد اسلم ہوا کرتے تھے، جو اَب پروموٹ ہو کر یو ڈی سی بن چکے ہیں، لیکن ان کے ذریعے چھوڑی گئی اردو کاپی ہولڈر کی سیٹ اب بھی خالی پڑی ہوئی ہے۔ پبلی کیشن ڈپارٹمنٹ میں اردو کے ساتھ دھاندلی کا یہ سلسلہ یہیں نہیں تھمتا، بلکہ اس کی داستان ابھی اور بھی طویل ہے۔ پہلے پبلی کیشن ڈپارٹمنٹ میں اردو، ہندی اور انگریزی کے سیل ہوا کرتے تھے، جو سب کے سب الگ ہوا کرتے تھے۔ اس سے ایک فائدہ یہ ہوا کرتا تھا کہ وہاں کے ملازمین کو اپنے اپنے سیل میں سینئرٹی کے لحاظ سے پروموشن مل جایا کرتا تھا، لیکن بعد میں کہا گیا کہ اب کوئی سیل نہیں ہوگا اور پروموشن کامن سینئرٹی کے حساب سے ملا کرے گا۔ ظاہر ہے، اس سے سینئرٹی کی بنیاد پر پہلے سے امیدوار بنے بیٹھے ملازمین کا کافی نقصان ہوا، اس کے علاوہ دوسرا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اب پروموشن لیاقت کے حساب سے نہیں بلکہ اقربا پروری کے حساب سے ہو رہا ہے۔

این سی ای آرٹی کی اردو کی کتابوں کی اشاعت میں ہونے والی دیری کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عام طور پر یہاں کی اردو کتابوں کی تعدادِ اشاعت 200-300 ہوا کرتی ہے۔ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے پہلے یہاں کا پبلی کیشن ڈپارٹمنٹ چھوٹے پرنٹنگ پریس کو کتابوں کی چھپائی کا ٹھیکہ دیا کرتا تھا، جو بڑی آسانی سے ان کتابوں کو کم یا زیادہ تعداد میں چھاپ دیا کرتے تھے، لیکن گزشتہ چند سالوں سے کتابوں کی چھپائی کا ٹھیکہ بڑے پرنٹرس کو دے دیا گیا ہے۔ یہ پرنٹرس انگریزی اور ہندی کی کتابوں کو جلد از جلد اس لیے چھاپ دیتے ہیں، کیوں کہ اُن کی تعدادِ اشاعت ہزاروں میں ہوتی ہے، لیکن اردو کی کتابوں کی تعدادِ اشاعت کم ہونے کی وجہ سے وہ انہیں چھاپنے سے سرے سے منع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ 200-300 کی تعداد میں کتابیں نہیں چھاپ سکتے۔ اب اس کی وجہ سے این سی ای آرٹی کے پبلی کیشن ڈپارٹمنٹ کو اردو کی کتابوں کو چھپوانے کے لیے دَر دَر کی ٹھوکریں کھانی پڑ رہی ہیں، اِن کتابوں کی چھپائی کا اس وقت کوئی بھی معقول انتظام نہیں ہے۔

جہاں تک ہندوستان میں اردو زبان کے فروغ کا معاملہ ہے، تو یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو کا اپنا کوئی علاقہ نہیں ہے۔ اس حقیقت کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں۔ مثبت یوں کہ ہندوستان کی دیگر زبانوں کی طرح اردو کا اگر کوئی مخصوص علاقہ نہیں ہے، تو اسے ملک گیر زبان کی حیثیت خود بخود حاصل ہو جاتی ہے، کیوں کہ میڈیا، فلم اور ہندوستانی عوام کی عام بول چال کی زبان ہر جگہ اسی کو استعمال کیا جاتا ہے، بھلے اسے کوئی اور نام دے دیا گیا ہے۔ منفی پہلو یہ ہے کہ دیگر زبانوں کو علاقائی حیثیت حاصل ہونے کی وجہ سے ان علاقوں کی حکومتیں ان کے تحفظ کے لیے کاربند ہیں جیسے کرناٹک میں کنڑ، تمل ناڈو میں تمل، مہاراشٹر میں مراٹھی، پنجاب میں پنجابی اور بنگال میں بنگالی وغیرہ، لیکن اردو کو چونکہ کوئی علاقائی حیثیت حاصل نہیں ہے، اس لیے کوئی بھی حکومت اس کی بقا اور تحفظ کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔ ان تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے گجرال کمیٹی نے حکومت ہند کو مشورہ دیا تھا کہ اردو کی حیثیت ہندوستان میں مرکزی زبان کی ہے، اس لیے اس کے تحفظ کی ذمہ داری بھی مرکزی حکومت کی بنتی ہے۔

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تحریک آزادی کی قومی زبان آسان اردو ہی تھی، جسے مہاتما گاندھی نے ’ہندوستانی‘ کا نام دیا تھا۔ بعد میں جب ملک آزاد ہوا تو ہمارے قومی رہنماؤں نے اس پر بھی غور کیا کہ آخر آزاد ہندوستان کی قومی زبان کیا ہوگی۔ اس سلسلے میں 1938 میں پٹنہ، بہار میں انڈین نیشنل کانگریس اور انجمن ترقی اردو (ہند) میں ایک معاہدہ ہوا تھا، جس کی رو سے ہندوستانی، دیوناگری اور اردو دونوں اسکرپٹ میں آزاد ہندوستان کی قومی زبان مان لی گئی تھی۔ اس پر انجمن ترقی اردو (ہند) کی طرف سے مولوی عبدالحق اور گاندھی جی، اور کانگریس کی طرف سے ڈاکٹر راجندر پرساد نے دستخط کیے تھے۔ کانگریس نے یہ معاہدہ گاندھی جی کی ایما پر ہی کیا تھا، لیکن تقسیم کے بعد کے حالات میں کانگریس اپنے وعدے پر قائم نہ رہ سکی اور 1950 میں آئین ساز اسمبلی میں اتفاق رائے سے، صوری ووٹ سے ہندی، دیوناگری اسکرپٹ میں ہندوستان کی قومی زبان مان لی گئی اور اردو کو ملک کی دوسری علاقائی زبانوں کے ساتھ دوسری قومی زبانوں کی فہرست میں آٹھویں شیڈول میں شامل کیا گیا۔

آج حالت یہ ہے کہ اتر پردیش، جو کسی زمانے میں اردو کا گہوارہ ہوا کرتا تھا، وہاں آج اردو میڈیم کا ایک بھی اسکول نظر نہیں آتا۔ اندرکمار گجرال کمیٹی نے ملک میں سہ لسانی فارمولہ کی وکالت کرتے ہوئے، تیسری علاقائی زبان کے طور پر اردو کو پڑھانے کی تجویز پیش کی تھی، لیکن حکومت نے اس پر بھی کوئی دھیان نہیں دیا اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ سنسکرت، جو ایک قدیم کلاسیکی زبان تھی، اسے اب جدید کلاسیکی زبان کا درجہ دے کر سہ لسانی فارمولے کے تحت تیسری زبان کے طور پر طلبہ کو پڑھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

1 تبصرہ
  1. عرفان احمد کہتے ہیں

    مضمون بہت عمدہ ہے اور خاصی تحقیق سے لکھا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو کی خستہ حالت کی ذمہ داری ریاستی و مرکزی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے، تاہم خود اہلِ اردو اپنی زبان کی ترویج و اشاعت کے لیے کیا کررہے ہیں؟ ہم نے کتنے وفد حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے بھیجے؟ حکومتوں کو کتنے خطوط لکھے، میمورنڈم دیے؟ اردو کی اشاعت کے لیے کتنی مہمیں چلائیں؟ اردو کی نام نہاد تنظیموں کا دائرہ کیا صرف مشاعروں اور سیمینار کروانے تک محدود ہونا چاہیے یا پھر اس سے آگے بڑھ کر انہیں اپنے علاقوں میں اردو سیکھنے سکھانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے؟ کسی مقبول زبان کو جبراً ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں ایسی پالیسیاں ضرور بنائی جاسکتی ہیں جس سے رفتہ رفتہ زبان عوام کے استعمال سے ختم ہوجائے۔ اسکولوں سے حکومتوں اور اداروں کی غیر محررہ پالیسیوں کے سبب اردو ختم ہورہی ہے۔ اہل اردو اپنی نئی نسلوں کو دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو سکھانے پر بھی توجہ دیں تو امید ہے کہ مستقبل میں وہ اپنی زبان و تہذیب کے متمول وسائل سے بہرہ مند رہیں گے۔ بہرحال اردو کی حالت زار کی ذمہ داری حکومتوں کے ساتھ ساتھ اپنوں کی بھی ہے جنھوں نے اردو کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا۔
    مضمون نگار کو مبارک باد کہ انھوں نے اس نازک موضوع پر قلم اٹھایا۔ تاہم اس مضمون میں جابجا زبان و بیان کی غلطیاں کھٹک رہی ہیں۔ اردو کا مضمون ہو، اردو کی حمایت میں ہو اور اس میں اردو کی غلطیاں پائی جائیں یہ بڑا ظلم ہے۔ صرف چند مثالیں ملاحظہ ہوں: "۔۔۔اب دونوں عہدوں کے کافی دنوں سے خالی پڑا رہنے کی وجہ سے۔۔۔”، "ملازمین کا کافی نقصان ہوا”۔ ان فقروں میں لفظ ’کافی‘ کا استعمال غلط ہے۔ صحیح لفظ ہونا چاہیے تھا ’خاصا‘ یا ’بہت‘ یا ’بڑا‘ وغیرہ۔ کافی کے معنی ہیں اتنا ہی جتنے کی ضرورت ہے۔
    "۔۔۔انہیں چھاپنے سے سرے سے منع کر دیتے ہیں۔” منع کرنے کا مفہوم ہے کسی بات سے روکنا۔ یہاں "انکار کردیتے ہیں۔” ہونا چاہیے تھا۔
    مضمون نگار نے اردو کے اداروں میں اردو کے عملے کی خالی اسامیوں کو پُر نہ کیے جانے کی طرف جو توجہ دلائی ہے، وہ واقعی ان کی اردو کے تئیں دردمندی کا غماز ہے۔ میں ڈاکٹر تبریز کو اس شان دار مضمون کے لیے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

تبصرے بند ہیں۔