مدارس اسلامیہ کی عصری معنویت (آخری قسط)

 چھٹی صدی ہجری میں  نورالدین زنگی نے حلب، حماۃ، حمص اوربعلبک میں  بڑے بڑے  مدرسے قائم کیے۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ نورالدین کی عظمت اور فخر کیلیے اتنا ہی کافی کہ اس نے دمشق میں  دارالحدیث تعمیر کرایا جو اسلامی دنیا میں  پہلا دارالحدیث تھا۔ یوں  تو دمشق میں  اٹھارہ دارلحدیث تھے لیکن سب سے ممتاز ویگانہ نوریہ دارلحدیث تھا۔جس کی زیارت کے لیے دوردراز سے لوگ آتے تھے۔ ابن عساکر اس کے شیخ الحدیث تھے۔ اس زمانہ میں  دوسرا بڑا مدرسہ عادلیہ تھا جو دمشق کے مدرسہ شافعیہ میں  امتیازی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کے مدرسین بھی بڑے پائے کے عالم مثلاً ابن خلکان، جلال الدین القزوینی،  اورابن مالک النحوی تھے۔ حتیٰ کہ ابن خلکان نے اپنی مشہور تاریخ وفیات اس مدرسہ میں  مرتب کی تھی۔

  اسی طرح اندلس سسلی میں  ابتداء میں  تعلیم و تدریس کے لیے علیحدہ عمارتوں  کا دستور نہ تھا۔ عموما ً مساجد میں  ہی تفسیر و حدیث اور لغت اور نحو کی تعلیم دیجاتی تھی۔ ہاں  قرطبہ غرناطہ اور اشبیلیہ کی جامع مسجدیں  مرکزی درسگاہیں  تھیں  ماخذ کا بیان ہے کہ جامعہ قرطبہ میں  فقہ کے علاوہ فلکیات، ریاضی اورطب کی تعلیم کا بھی انتظام تھا۔ طلباء ہزاروں  کی تعداد میں  موجودتھے۔ اور وہ یہاں  سے فراغت کے بعد حکومت میں  بڑے عہدوں  پر فائز ہوتے تھے۔ نیز جامع غرناطہ میں فقہ و فلسفہ کے علاوہ طب کی اور کیمیا کی بھی تعلیم دیجاتی تھی۔ مشہور مورخ اور شاعر لسان الدین الخطیب اس درسگاہ کا مہتمم تھا۔ ان درسگاہوں  پر عموماً یہ کتبہ کندہ ہوتا تھا۔ کہ دنیا کی عمارت چارستونوں  پر قائم ہے۔ عقلمندوں  کا علم، بڑے آدمیوں  کا عدل و انصاف، صلحاء کی دعا اور بہادروں  کی شجاعت۔

ماخذ میں  لکھا ہے کہ ابن جبیر نے 580ھ میں  صقلیہ دورہ کیا تھا اس کا بیان ہے کہ اٹلی کی اکثر مساجد میں  تعلیم قرآن کے مدارس تھے اس سرزمین سے بڑے بڑے محدث فقہاء صوفیہ اور ارباب ادب پیدا ہوئے صقلیہ کے اسلامی علوم و فنون کے اثر سے اٹلی میں  تعلیم کے متعدد مراکز قائم ہوگئے ان میں  اٹلی کے مدرسہ طبیہ کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ اس کی داغ بیل مسلمانوں  نے ڈالی تھی یہ یورپ میں  سب سے پہلا طبی مدرسہ تھا۔ جسے مسلمانوں  نے اٹلی میں  قائم کیا اور اس کے ذریعہ یورپ علم طب سے آشنا ہوا مدرسہ کے نصاب کی بیشتر کتابیں  عربی زبان میں  تھی۔ اس طرح شمالی اٹلی کے شہر ہیڈا میں  مسلمان اساتذہ کی نگرانی میں  ایک یونیورسٹی قائم ہوئی جس میں  مسلمان، یہود اور عیسائی اساتذہ تعلیم دیتے تھے اور اس میں  مختلف علوم و فنون کی تعلیم دیجاتی تھی۔ ابن رشد کے فلسفہ کو اسی جامعہ میں  بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ یعنی اٹلی کے مدارس و جامعات اور عربی کتب کے ذریعہ سے یورپ میں  نشاۃ ثانیہ اور آزادخیالی کی بنیاد پڑی۔

 شبلی نے اپنے سفر نامہ میں  لکھا ہے کہ مدارس رشیدیہ کی تعداد ۸ ۶ا تھی مگرجب سلطان عبدالمجیدخاں  ثانی تخت پر متمکن ہوا تو مدارس رشدیہ کی تعداد 405 ہوگئی۔ان کے بیان کے مطابق قسطنطیہ میں  ہرقسم کے مدارس وجامعات تھیں  ان میں  نیز بڑے کالج تھے اور اسکولوں  میں اہم ترین یہ تھے(1) مکتب حریبہ شاہانہ، فوجی مدرسہ تھا۔  (2) مکتب سلطانی: اعلیٰ تعلیم کی درسگاہ تھی جس میں  تمام علوم و فنون فرانسیسی زبان میں  پڑھائے جاتے تھے علوم دینیہ کے علاوہ حساب جبر و مقابلہ، جغرافیہ، ہندسہ،  کیمسٹری، طبعیات اور الکٹرسٹی کی تعلیم بھی دیجاتی تھی۔ (3)مکتب ملکیہ : یہ سول سروس کالج تھا۔ (4)مکتب الحقوق میں  قانون اور اس کی تاریخ کی تعلیم دیجاتی تھی۔ (5) مکتب ہندسہ انجیرنگ کالج (6) مکتبہ طبیہ  میڈیکل کالج تھا۔

  مذکورہ بالا سطور کی روشنی میں  یہ کہنا مناسب ہوگا کہ مسلمانوں  میں  پڑھنے پڑھانے مدارس و جامعات قائم کرنے کا شوق کس قدر غالب تھا۔یعنی یہ ہماری تابناک تاریخ ہے مگر آج ہم نے روشن ماضی کو پس پشت ڈال دیا اور تعلیم کے میدان میں  دنیاکی تمام اقوام سے پیچھے ہیں  اس لیے ضرورت ہے ایک بار پھر روشن ماضی سے سبق حاصل کریں  تاکہ مسلمانوں  میں گرتے تعلیمی معیار کو دوبارہ زندہ کیاجائے۔

  یہی وجہ تھی کہ انھوں  نے زیور تعلیم سے مزین ہوکر پودی دنیا کے سامنے بڑی آن بان اور شان کے ساتھ زندگی گزری، مگرافسوس اس بات کا ہے جو قومیں  علم نام کی کسی شئی سے واقف نہیں تھیں  آج وہ دنیا کے ہرمیدان میں  مسلمانوں  سے سبقت لے جارہی ہیں  جب کہ پوری دنیائے انسانیت کو علوم و فنون سے روشناس کرانے میں  مسلمانوں  کا کافی رول رہا ہے۔ وہ سب سے پیچھے ہیں ۔

 جب تک ہمارے معاشرے میں  علم کی خوشگوار فضا نہیں  چلے گی اس وقت تک یقینا ہم ہرطرح سے پسماندہ شمار کیے جاتے رہیں  گے اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی نسل کو دینی و عصری علوم سے لیث کرکے میدان عمل میں  اتاریں ۔

 اور اپنے سماج و ملک میں  تعلیم کو عام کریں ۔

عصری چیلنج

 آج مدارس کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے کبھی انھیں  دہشت و بربریت کا اڈہ بتایا جاتا ہے تو کبھی مدارس کے نصاب کو تحریف کرنے کی بات ہوتی ہے اور کبھی مدرسہ بورڈ کا افیون کھلانے کی پر زور حمایت کیجاتی ہے یہ بھی عرض کرتاچلوں  کہ ہندوستانی مدارس دینہ کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈہ کی مہم کی شروعات 2001 میں  ملک کی داخلی سلامتی سے متعلق وزارتی گروپ کی اس شر انگیز رپورٹ سے ہوئی جس میں  کھلے طور پر اور خاص طور پر سرحدی علاقوں  کے مدارس کو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں  ملوث دکھانے کی کوشش کی گئی رپورٹ میں  مدارس پر عالمی اسلامی اتحاد نظریے کے علم برادر ہونے کا بھی الزام عائد کیا گیا تھا۔ حالانکہ مدارس خود اس قدر بکھرے ہوئے اور مسلکی اختلاف کے شکار ہیں  کہ خود مدارس کے درمیان بھی اتحاد پیدا ہونا مشکل ہے۔ ایسے میں  ان پر عالمی اسلامی اتحاد کا الزام محض مذاق نظر آتا ہے۔

مدارس کو اس وقت خارجی سطح پر جو چیلنجز لاحق ہے ان میں  سب سے بڑا یہ ہے کہ یہ انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہیں ۔ دوسرا چیلنج یہ ہے کہ مدارس کے نظام تعلیم اور طبقہ علماء سے متعلق خود مسلمانوں  کے جدید تعلیم کے حامل ایک بڑے طبقے کے درمیان پیدا ہونے والی  بے اعتمادی ہے۔ اس طبقے کی طرف سے مدارس اور طبقہ علماء پر یہ ا عتراض کیاجاتا ہے کہ وہ معاصر زندگی کے حقائق سے آشنا نہیں  ہیں  اور دور جدید کے تقاضوں  سے انھوں  نے عمداً چشم پوشی اختیار کررکھی ہے۔ اس میں  ایک حلقہ بلاشبہ معاندین پر مشتمل ہے لیکن دوسرے حلقے میں  سنجیدہ و مخلص اور ثقہ افراد بھی شامل ہیں ۔ بلکہ خود علماء اور فاضلین مدارس کی ایک تعداد بھی اس میں  شامل ہے جو اسی بات کے پر زور حامی ہیں  کہ مدارس کے اصل اور مطلوبہ کردار کو بحال کرنے کے لیے بڑی سطح پر اس میں  تبدیلی لائی جائے۔ اس طرح داخلی سطح پر مدارس کے نظام و نصاب کی اصلاح و تجدید کا سوال بھی مدارس کی بقائو فروغ کے لیے نہایت اہم ہے۔  مدارس کے ذمہ داران اور ارباب حل و عقد کی طرف سے ان دونوں  سطحوں  پر اقدام کی ضرورت ہے۔

 یہ مسلم حقیقت ہے کہ دینی مدارس اسلام کی تقویت۔ شریعت کی حقانیت مذہب کی حفاظت اور ایمان کی طہارت  کے ضامن ہوتے ہیں ۔ یہ مدارس ہی کا فیضان ہے کہ جن کے توسط سے انسانوں  میں  خدمت خلق کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور حق و باطل میں  خصوصی امتیاز پیدا کرنا انھیں  کاطرہ ہے۔ انھیں  مدارس کے وجودسے اسلام و شریعت اور دین و ایمان کی شمعیں  تمام انسانیت کے لیے رحمت و راحت اور بقا و تحفظ کا سامان فراہم کرہی ہیں ۔مگر افسوس کہ کچھ شر پسند عناصر انھیں  کے وجود کو خطرہ محسوس کررہے ہیں  ان کی بڑھتی مقبولیت دشمنان اسلام کے لیے برداشت نہیں  ہورہی۔

مدارس میں  موجودہ نصاب تعلیم:

  یہ مسئلہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کہ مدارس کے نصاب تعلیم میں  تبدیلی کی جائے یا نہیں ؟ جبکہ تاریخ شاہد ہے کہ مدارس کے نصاب میں  وقتاً فوقتاً تبدیلی ہوتی رہی ہے،  بڑی بڑی جامعات کی بنیاد مسلمانوں  نے رکھی اور ان میں  دینی علوم کے ساتھ عصری علوم پڑھائے جاتے تھے اور ان کے نصاب تعلیم میں  دین و دنیا کی کوئی تفریق نہیں  تھی۔ بلکہ اسلامی مدرسہ بغداد، قاہرہ، دمشق حلب، فارس، مراکش، قرطبہ میں  عقائد و عبادات، کتاب و سنت کی تشریحات، فقہ کے ساتھ ساتھ فلکیات، ہندسہ،اقلیدس،  ریاضیات کیمیا، علم حیوان و نباتات تشریح الاجسام کے علاوہ جملہ سائنسی علوم اور صنعتی وزرعی علوم کی تعلیم کا بہترین اہتمام تھا۔

  دراصل سرسید نے بھی اس مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام کیا تھا۔ وہ ایک ایسے نظام تعلیم کے خواہاں  تھے کہ جس میں  دین اور دنیادونوں  کاامتزاج پایا جاتا ہو اور وقت کے تقاضوں  کے مطابق قوم کی نئی نسل خودکو پروان چڑھائے سرسید کا مشہور قول بھی ہے،فسلفہ ہمارے دائیں  ہاتھ میں  ہوگا اور نیچرل سائنس بائیں  ہاتھ میں  اور کلمہ لاالہ الااللہ کا تاج سرپر ان کے تعلیمی رجحانات کا یہ سب سے بڑا ترجمان ہے۔ ہاں ابتدائی صدیوں  کی تاریخ اس بات پرشاہد ہے کہ ہمارے اسلاف علوم وفنون کی ترقی ایجادات میں  قافلہ سالار نظر آتے ہیں ۔  میں  یہ بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتاہوں  کہ عصری علوم میں  کو ئی اضافہ ایسا نہیں  ہے جو مسلمانوں  کا رہین منت نہ ہو۔ خود ہمارے ہندوستان میں  انگریزوں  سے قبل علوم دینہ کے ماہر ہونے کے ساتھ ماہرین ریاضیات طبعیات مورخین واطباء پیدا ہوئے ان کے علمی کارنامہ سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مدراس کے نصاب تعلیم میں  واقعی ترمیم کی جائے۔ اور سائنس یا دیگر علوم شامل نصاب کرلیے جائیں ۔ اس سلسلے میں  راقم کی رائے یہ ہے کہ اگر ہم مدارس میں  عصری علوم کو بحیثیت مضمون پڑھانے کے قائل نہیں  ہیں  اس کے باوجود ہمیں  اپنے نصاب تعلیم پر نظر ثانی کرنے کی  بے حد ضرورت ہے۔ مدارس میں  جو علوم دینہ پڑھائے جاتے ہیں ۔ وہ عمومایہ ہیں  قرآن، حدیث، اصول حدیث، فقہ و اصول فقہ، منطق،نحو و صرف، بلاغت و فصاحت وغیرہ ان مضامین کے ساتھ ارباب مدارس کو حسب ذیل مضامین شامل کرنے کی ضرورت ہے (1)تاریخ اسلام (2)سیاسیات (3)سماجیات (4)تاریخ مذاہب (5) فقہ الا قلیات (6)صحافت (7)اردو ادب (8)صنعت و حرفت۔  یہ تمام مضامین دینی ہیں  ان کوہم مضمون کی حیثیت سے اپنے نصاب میں  جگہ دیں  تبھی جاکر ہمارا نصاب صحیح معنوں  مکمل و مدلل ہو گا۔ کیونکہ یہ سب علوم ہم بڑھاتے ہیں  مگر مضمون کی حیثیت سے نہیں  پڑھاتے ان کو اگر بحیثیت سبجیکٹ مدارس اپنے نصاب تعلیم میں  شامل کرلیں  تو یقینا یہ قوم و ملت اور مدارس اسلامیہ کے فضلا ء کے لیے نہایت سود مند اور وقت کے تقاضوں  کے مطابق انتہائی مفید ہوگا۔

 کیونکہ فضلائے مدارس کے لیے معاش کا اہم مسئلہ ہے۔ حضرت سفیان ثوریؒ کاقول ہے کہ لولا المال لدینا النمتدل بنا الامراء  اگر ہم علماء دین  کے پاس مال نہ ہوتو امراء ہمیں  اپنے ہاتھ کارومال بنالیں ۔ اس قول کے تناظر میں  آج کی صورت حال پر غور کریں  توایسا محسوس ہوتا ہے کہ واقعتاً معاشی مجبوریوں  نے فضلاء مدارس کی ایک بہت بڑی تعداد کودینی اسپرٹ اور اصل مشن سے بے گانہ کردیاہے۔ اس اعتبار سے مدارس میں  تکنیکی تعلیم کو بھی بقدر ضرورت شامل کیا جانا وقت کا اہم تقاضا ہے۔

مدارس کی عصری معنویت:

  مدارس اسلامیہ کا وجود مسلم ہے، ان کی خدمات کا اعتراف پوری دنیا نے کیا ہے، ان کی افادیت و اہمیت کی وضاحت کے لیے صرف یہ اعتراف کافی ہے کہ آج نئی نسل تک جو اسلام پہنچا ہے وہ انھیں  کی بدولت پہنچا انھیں  مدارس میں  خالق کی طرف سے مخلوق کی طرف نازل کردہ احکام کی تعلیم دی جاتی ہے جو پوری دنیا کے لیے امن امان اور سکون و اطمینان کا بیش خیمہ ہیں ۔

  موجودہ زمانے میں  مدارس کی اہمیت و معنویت کیا ہے یہ ایک اہم مسئلہ ہے، مدارس سے فراغت کے بعد فضلاء  مدارس کا سماج کی تعمیرو ترقی میں  کیا رول ہوتا ہے مدرسہ کا نصاب تعلیم ان کے روزگارمیں  کس قدر معین و مدد گار ثابت ہوتاہے۔ دراصل ہمیں  اپنے نظریات میں  تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارا یہ تصور کہ ہم صرف اخروی تیاری کے لیے کام کرتے ہیں  تو میں  کہہ سکتا ہوں  کہ یقینا یہ بالکل غلط ہے کیونکہ قرآن و حدیث کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہے کہ معاش اور وسائل معاش کواختیار کرنابھی عبادت ہے۔ مدارس کی عصری مقبولیت میں  چار چاند لگانے کے لیے حسب ذیل چیزیں  اگر شامل کرلی جائیں  تو یقینا یہ امت محمدیہ کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا۔

  (1)درس و تدریس، رشد و ہدایت اور دعوت و تبلیغ کے لیے مختلف زبانوں  کا سیکھ کر اسلام کا پیغام پہنچانا۔ کیونکہ قرآن میں  مذکور ہے کہ انبیاء اکرام اپنی قوم کی زبانوں  میں  ہی دعوت دیتے تھے مگر افسوس ہمارے مدارس میں زیادہ تراردو بولنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ (2)برادران وطن سے ربط و تعلق، افہام و تفہیم اور پیغام رسانی بھی علماء کی اہم ترین ذمہ داری ہے اور اس کے لیے لازمی ہے کہ ہم برادران وطن کی زبان، ان کے عقائد و مذاہب کی معلومات ہونا ضروری ہے۔ (3) طلباء مدارس کی اکثریت، باالعموم اس بات سے بے خبر ہوتی ہے کہ ان کی مدارس میں  آمد کا مقصد کیا ہے۔ اور فراغت کے بعد ان کا میدان کیا ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ عموماً ہمارے مدارس فراغت کے بعد عصری تعلیم اوراس کے مواقع کی طرف رہنمائی تو دوسری بات اس پہلو پر گفتگو کو شجر ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ارباب مدارس کو چاہیے کہ وہ طلباء مدارس کی عصری تعلیم کی طرف کافی حد تک رہنمائی کریں ۔ ان تمام باتوں  کے باوجود اس پر آشوب دور میں مدارس کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں  کیا جاسکتا ہے جس جانفشانی کے ساتھ وہ خدمت انجام دے رہے ہیں  بلا شبہ وہ لائق ستائش اور قابل تعریف ہے بڑے کرب کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ موجودہ وقت میں  ہمارے طلبا کے اندر فعالیت، سودمندی، خود اعتمادی، مستقل مزاجی اور سنجیدگی کم ہی نظر آتی ہے اس لیے ان کی عظمت کو دوبالا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم فضلاء و مدارس کی صحیح خطوط پر رہنمائی کریں  تاکہ ملک و قوم اور سماج کی ترقی میں  معنی و مدد گار ثابت ہوں ۔

تبصرے بند ہیں۔