مدارس علم کے گہوارے ہیں!

محمد سمیع

آجکل لوگ لوگ مدارس سے بہت زیادہ کتراتے ہیں۔ بہت کم ہی لوگ اپنے بچوں کو مدارس کی تعلیم سے اراستہ کراتے ہیں۔ معاشرے کے غریب لوگ جو انگریزی اسکول کے اخراجات کو برداست نہی کرستے وہی لوگ اپنے بچوں کو مدرسے بھیجتے ہیں۔ لو گ کہتے ہیں کہ مدارس میں جدید تعلیم نہی دی جاتی ہے۔ وہاں پر اچھے اورماہر استاذ نہی ہوتے ہیں جو بہتر طریقے سے بچوں کو تعلیم دیں سکیں۔ کچھ لوگوں کا گمان ہیکہ مدارس کے لو گ دقیانوس ہوتے ہیںاور تنگ نظری کے شکار ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہےکہ مدارس میں پڑہنے کے بعد انسان کسی لایق نہی ہوتا،صرف مسجد اور مدرسے کے ارد گرد چکر لگاتا رہتا ہے اور چند روپیے کےتنخواہ کے خاطرغیر پڑہے لکھے ٹرسٹی حضرات کی ہاں میں ہاں ملاتا رہتا ہے۔ مختصر یہ کہ مدرسےسے فارغ طلباء  نہ ہی مدرسے میںا ور نہ ہی مسجد میںاپنا کویی ٔ مقام بنا پاتے ہیں اور نہ ہی دنیاوی کسی امور میں کارہاے ٔ  نمایاں انجام دے پاتے ہیں۔

لوگوں کی یہ راے کسی حد تک مدارس کے متعلق صحیح بھی ہے لیکن کامل طور سے مدرسے کے متعلق ایسی راے رکھنا درست نہی ہے۔ تھوڑی بہت کمی ہر ادارے میں ہوتی ہے۔ سو فیصد کمال تو صرف اللہ ہی کی ذات کو حاصل ہے۔ بقیہ ساری چیزیں ناقص اور فنا ہونے والی ہیں۔ مدارس میں جو بھی کچھ نقایص ٔ  موجود ہیں اسکا ذمہ دار پورا معاشرہ ہے۔ مدارس کو ہم جیسے ہی انسان چلاتے ہیںلہذا نقص اور کمی کا ہونا لازمی ہے۔ ضرورت کا تقاضا یہ تھا کہ ہم مدارس کی خرابیوں کودور کرتے لیکن خرابی دور کرنے کی بات بہت دور ہے ہم مدارس کو بہت ہی توہین کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اب آپ ہی سوچیےکہ جب آپ اپنے گھر کے غبی الذہن اور شرارتی بچے کو مدارس بہیجتے ہیں اور ذہین اور شریف بچے کو انگریزی اسکول میں بھیجتے ہیں۔ یہ سراسر  نا انصافی ہےکہ ہم دنیا پڑہانے کے لیے شریف اورذہین بچے کا انتخاب کرتے ہیںاور اللہ کا دین پڑہانے کے لیے کندذہن اور شرارتی بچوں کا  انتخاب کرتے ہیں۔ اگر ہمارا رویہ مدرسےکے ساتھ سوتیلا رہا توہم مدارس سے کیسے اچھے عالم کی توقع کرسکتے ہیں۔ کہیں ایسا ہوتا ہیکہ آپ ببول کا درخت لگایں اور اس سے آم توڑ کر کھایں ٔ۔ یہ قدرت کا قانون ہے کہ جیسا بوےگے ویسا ہی کاٹوگے۔ آج مدارس کے ساتھ کچھ ایسی طرح کا ماجرہ ہے۔ اگر ہم قرون وسطی کے مدارس پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں بے شما ر شخصیتیں ملتی ہیں جنہوں نے دیناکے سامنے اسلام کو پیش کرنے میںنمایاں رول اداکیا ہے۔ یہ لوگ علم دین کے ساتھ علم دنیا میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ امام زکریا رازی کا شمار قدیم مفسرین میں ہوتا ہےلیکن آپ مفسر کے ساتھ ساتھ کمیسٹر ی میں بھی کمال کی مہارت رکھتے تھے۔ اسکے علاوہ آپ علم طب سے بھی واقف تھے۔ اس طرح سے علماء دین کی ایک طویل فہرست ہے جو علم دین کے ساتھ علم دنیا میں بھی مہارت رکھتے تھے۔

راقم الحروف کی رایے ٔ  بھی مدارس کے متعلق کچھ مثبت نہی تھی لیکن جب میں نے مدارس کے بارے میں مطالعہ کرنا شروع کیا اوربہت سارے شخصیات سے واقفیت ہویی ٔ  جنہوں نے علم ہنر کی اشاعت میں کارہایے نمایاں انجام دیے ہیں۔ مدرسے کےمتعلق میری سوچ میں کچھ تبدیلی واقع ہویی ٔ  لیکن میں بھی اسی طرح کی شخصیات کو اپنے دور میں تلاش کررہا تھاجو دین کے ساتھ عصری علوم میں بھی مہارت رکہتے ہوں۔ کافی دنوں سے یہ جستجو جاری تھی کی میری ملاقات پرو فیسرعرفان شاہد سے ہویی۔ ویسے تو میں کیی سالوں سے انکو جانتا ہوںکہ یہ معاشیات کے پروفیسر ہیں۔ متعدد کالجوں اور ینورسٹیوں میں ایم بی اے اور ایم کام کے طلبا ٔکو معاشیات پڑہاتے ہیں۔ میں مسلسل انکے مضامین کو اخبارات میں پڑہتا رہتا تھا۔ پروفیسرعرفان شاہد بہت سارے عصری موضوعات پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔ یہ کیی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ پروفیسر شاہد برطانیہ سے تعلیم حاصل کی ہےاور کافی عرصے تک درس و تدریس کے فرایض انجام دے چکے ہیں۔ اسکے میڈلسٹ اور افریقہ کے بہت سارے ینورسٹیوں میں بحیثیت وزٹنگ پروفیسرکے کام کررہے ہیں لیکن یہ نہی معلوم تھا کہ وہ مدرسہ کے طالب علم ہیں اور یہ بات بامشکل کسی ادارے کو معلوم ہوگا کہ یہ ایک مدرسےکا طالب علم ہیں۔ اور وہ یہی مدرسہ ہے جسے دنیا آج حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے چہ جایے کہ دینی تعلیم کے غرض سے اپنے بچوں کو مدرسے بھیجے۔ پروفیسر عرفان شاہد ایک علمی شخصیت ہے۔ علم معاشیات آپ کا پسندیدہ مضمون ہے۔ آپ معاشیات کے علاوہ دوسرے علوم سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔ بسا اوقات  فزکس، کیمیسٹری، تاریخ، جغرافیہ، علم ریاضی اور علم الاحسا ء پر گفتگو کرتے ہیں اور مخاطب یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ شاید یہ انکا اصل مضمون ہے۔ لیکن ان کا اصل مضمون معاشیات، فقہ اور اسلامی تاریخ ہے۔ یہ تمام چیزیں ایک چھوٹی سی زندگی میں حاصل کر لینا حیرت انگیز ہے لیکن اسکے باوجود بھی میںعرفان شاہد صاحب سے بہت زیادہ متاثر نہی ہوا۔ کیونکہ یہ قدرت کی دینابہت سارے اقسام کی مرکب ہے۔ اس میںبے شمار صلاحیتوں کے لوگ بستے ہیں لیکن جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ فرفر روانی کے ساتھ انگریزی میں گفتگو کرنے والا یہ انسان ایک مدرسہ سے فارغ ہے جہاں پر انگریزی، ساینس اور معاشیات پڑہانا کفر سے کم نہی سمجھا جاتا ہے۔ بہر کیف آجکل مدارس کی تعلیم میں کچھ تبدیلی واقع ہویی ہے،اس سے انکار نہی ہے لیکن عرفان شاہد کی اس کاوش نے مجھے ایک لمحہ کے لیے حیرت میںڈال دیااور میں تعجب میں پڑ گیا یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ میری حیرت میں اور اضافہ ہوگیاجب مجھے یہ معلوم ہوا کہ یہ شخص انگریزی اور اردو زبان میں درس قران بھی دیتا ہے،اسکے علاوہ جمعہ کے خطبے بھی دیتا ہےاور بیرون دنیا کے متعدد اخبارات میں اسلام کی ترجمانی بھی کرتا ہے لیکن کبھی بھی اپنے ان کارناموں کی تشہیر نہی کرتا۔ ورنہ اجکل لوگ ایک مضمون لکھ لیں یا ممبی سے پونہ ہوایی جہاز سے کرلیں۔ فوراً  اسکی تصویر فیس بک اور سوشل میڈیا پر اویزاں کر دیتے ہیں۔

عرفان شاہد کے کارناموں کے انکشاف نے میرے نظریے کو تبدیل کردیا۔ اب یہ بات واضح ہوگیی کہ مدرسے میں کویی خرابی نہی ہےبلکہ خرابی ہم میں ہے۔ ہم مدرسے میں جس طرح کے افرادکو بھیج نگے اسی طریقے کے پروڈکٹ  وہاں سے فارغ ہوکر باہر نکلیں گے۔ جو حضرات مدارس ے متعلق احساس کمتری کے شکار ہیں انہیں اس انسان سے ضرور ملنا چاہیے۔ آج دینا کو ایسے ہی عالم کی ضرورت ہےجو دین اور دینا  کا  بہترین علم رکھتے ہوں۔ پروفیسر عرفان شاہد  دین و دینا دونوں علوم کا سنگم ہے۔ ہمارے سماج میں ایسے عرفان شاہد کی بڑی ضرورت ہے۔

عرفان شاہد نے اس علمی سفر کو طے کرنے کے لیےایک طویل عرصہ مدارس اورینورسٹیوں میں لگایا ہے اور متعدد مما لک کا سفر بھی کیا۔ خود بھی علم حاصل کیا اور دوسروں کو بھی اپنا علم دیا۔ عرفان شاہد کا علمی سفر ایک طویل داستان ہےجسکا احاطہ اس مختصر مضمون میں کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اگر اس پر کویی کتاب لکھی جایے یقینا ہمارے طلباء کے لیے بہت مفید ثابت ہوگی باالخصوص مدارس کے طلباء کے لیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔