2019ء سے پہلے مسلمان فیصلہ کریں کہ کیا کیا جائے!

حفیظ نعمانی

2014ء کا الیکشن ہو یا اس کے بعد ہونے والا اسمبلی کا الیکشن ہو یا بلدیاتی الیکشن ہر الیکشن وکاس اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرہ سے شروع ہوتا ہے اور پھر گلی کوچوں میں ہوتا ہوا وہ اجودھیا اور رام مندر پر آجاتا ہے یا ہندو مسلمانوں کے درمیان دیوار کو اور مضبوط کردیتا ہے۔ پہلا الیکشن جو نریندر مودی صاحب نے وزیر اعظم کے اُمیدوار کی حیثیت سے لڑا تھا اس میں سب سے زیادہ زور ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘، گجرات ماڈل اور کانگریس مکت بھارت پر دیا تھا اور جیسے جیسے الیکشن شباب پر آیا اس میں وہ ساری گندگی مل گئی جو ملک کی جہالت اور فرقہ پرستی کی دین ہے۔

اس وقت گجرات کا الیکشن اس جگہ پر آگیا ہے اب بس ووٹ ڈالنا باقی ہیں اور انجام قریب آتے آتے سب کا ساتھ سب کا وکاس تو دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے اب مسئلہ یہ ہے کہ کپل سبل ایڈوکیٹ سنی وقف بورڈ کے وکیل ہیں اور سبل کہہ رہے ہیں کہ میں ان کا وکیل نہیں ہوں۔ یا کانگریس کے ایک کبھی کے بڑے لیڈروں میں سے ایک مسٹر منی شنکر اَیئر نے وزیر اعظم کو نیچ آدمی کہہ دیا اور وزیر اعظم نے الیکشن کے پہلے مرحلہ کی آخری تقریر میں حسب عادت گجراتی زبان میں خوف شور مچایا کہ گجراتیو کانگریسی لیڈر نے تم کو نیچ ذات کہہ دیا اور کہا ہے کہ وہ اونچی ذات کے ہیں۔ اور دیواروں پر پوسٹر لگ گئے کہ مسلمان احمد پٹیل کو گجرات کا وزیر اعظم بنانے کے لئے کانگریس کو ووٹ دو۔

کپل سبل ہوں یا سلمان خورشید یہ پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں اور اگر آج اجودھیا کے مسجد مندر مسئلہ میں مسلمانوں کے وکیل ہیں تو کل کسی مسئلہ میں ہندوؤں کے وکیل ہوسکتے ہیں یہ اگر سپریم کورٹ میں کوئی بات کہتے ہیں تو وہ بات نہ کانگریس کی ہے اور نہ تمام مسلمانوں کی بلکہ صرف ان کی ہے جس کے وہ وکیل ہیں۔ وکیل اور ڈاکٹر ایک جیسی حیثیت کے مالک ہوتے ہیں۔ اترپردیش کی سیاست میں سی بی گپتا اور ڈاکٹر فریدی ایک دوسرے کے بدترین مخالف تھے۔ ایک بار ٹرین میں دونوں دہلی جارہے تھے کسی اسٹیشن پر گاڑی دیر تک رُکی تو ڈاکٹر فریدی نے ساتھیوں سے معلوم کیا کہ کیا ہوا؟ انہیں بتایا گیا کہ گپتا جی کو دل کا دورہ پڑا ہے ڈاکٹر کا انتظار ہے۔ ڈاکٹر فریدی کے بیگ میں ہنگامی ضرورت کی تمام دوائیں رہتی تھیں وہ بیگ لے کر گئے اور گپتاجی کے کیبن میں داخل ہوتے ہی انہوں نے ان کو دیکھا اور بیگ سے انجکشن نکالا۔ گپتا جی کے ساتھی گھبرائے تو ڈاکٹر صاحب نے جھڑک دیا اور کہا کہ اس وقت میں ڈاکٹر ہوں اور گپتا جی کے انجکشن لگاکر خالی شیشی ان کے ساتھیوں کو دے دی کہ اسے رکھ لو اس کے علاوہ اور کوئی علاج نہیں تھا۔

حضرت مولانا علی میاں آنکھ کا آپریشن کرانے یوروپ کے کسی ملک میں گئے تھے وہاں معلوم ہوا کہ سب سے ماہر ڈاکٹر یہودی ہیں مولانا نے تاریخ ٹال دی اور حضرت شیخ الحدیث کو خط لکھ کر مشورہ مانگا کہ میں ایک یہودی ڈاکٹر سے آپریشن کراؤں یا انکار کردوں؟ حضرت شیخ نے جواب دیا کہ اسپتال میں وہ یہودی یا نصرانی نہیں ڈاکٹر ہیں اور آپ یہودی مخالف عالم نہیں مریض ہیں اللہ کا نام لے کر آپریشن کرایئے۔

مسجد اور مندر کا تنازعہ اجودھیا میں ہے اور مقدمہ دہلی میں چل رہا ہے اور کس وکیل نے کیا کہا اور کیوں کہا کی بحث گجرات میں ہورہی ہے؟ 2014 ء میں مودی جی ہر تقریر میں گجرات ماڈل کا ذکر کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ گجرات یعنی گھر گھر بجلی کھیت کھیت پانی اور پھر بتاتے تھے کہ انہوں نے کیسے اتنی بجلی بنائی اور کیسے اتنا پانی نکالا اور بعد میں کہتے تھے کہ ان کی حکومت بنی تو پورا ملک گجرات بن جائے گا ہر کسی کے بینک کھاتہ میں 15 لاکھ روپئے آجائیں گے اور مہنگائی کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ آج مودی جی سن رہے ہیں یا نہیں یہ تو وہ جانیں لیکن کانگریس کے انتخابی منشور میں کہا گیا ہے کہ کانگریس کی حکومت بنتے ہی کسانوں کا قرض معاف کردیا جائے گا اور انہیں 16 گھنٹے بجلی اور مفت پانی دیا جائے گا۔ ہم جیسے لوگ انتظار کررہے تھے کہ جہاں گھر گھر بجلی آرہی ہے وہاں 16 گھنٹے بجلی تم کیا دوگے اور جہاں کھیت کھیت پانی ہے وہاں پانی کیسا؟ لیکن مودی جی نے زبان دانتوں میں دبالی ہے اور انتہا یہ ہے کہ جب کوئی رپورٹر سبزی منڈی میں قدم رکھتا ہے تو ہر سبزی پر لگاکر آسمان پر اُڑنے لگتی ہے پیاز 70 روپئے، ٹماٹر 90 روپئے، پالک 40 روپئے اور کھان پان کے وزیر پاسوان کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ اور وزیر اعظم خاموش۔

اقتصادیات کے ماہر سابق وزیر اعظم جو کہہ رہے ہیں کہ مودی جی نے گجراتیوں کو دھوکہ دیا تو اس کا مطلب اب سمجھ میں آرہا ہے کہ 99 فیصدی نوٹ بینکوں میں واپس آگئے اور اب بھی باقی ہیں کالا دھن سب سفید ہوگیا اور لاکھوں مزدور، کاریگر اور پڑھے لکھے گھر آکر بیٹھ گئے اس وجہ سے گجرات کا الیکشن نہ نوٹ بندی پر رہا نہ جی ایس ٹی پر نہ بیکاری اور بے روزگاری پر کیونکہ وزیر اعظم منھ دکھانے کے قابل نہیں رہے انہوں نے اسے مندر اور مسجد اور سوم ناتھ مندر راہل کی طرف موڑ دیا جو اُن کا محبوب موضوع ہے اب تو سنجیدگی سے اس مسئلہ پر غور کرنا چاہئے کہ ملک میں الیکشن نہ ہو اور اگر ہونا ہی ہے تو پانچ سال میں ایک بار ہو یا آخری بات یہ ہے کہ مسلمان فیصلہ کرلیں کہ وہ الیکشن میں صرف ووٹ دیں گے اس کے علاوہ کسی طرح کا حصہ نہیں لیں گے اس لئے کہ ہر الیکشن نفرت کی دیوار کو اور اونچا کردیتا ہے جس کا نقصان مسلمانوں کو ہوتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔