کیفی اعظمی کے آوارہ سجدے

محمد اشہر سوداگر

( جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی)

آوارہ سجدے کیفی اعظمی کا تیسرا مجموعہ کلام ہے، جو ۱۹۷۴ء میں شائع ہوا۔ اس سے پہلے ان کے دو مجموعے منظرِ عام پر آئے، ’’جھنکار‘‘ ان کا پہلا مجموعہ کلام ہے، جس میں انہوں نے رومان اور انقلا ب کا عمدہ امتزاج پیش کیا ہے، تاہم اس مجموعے کی زیادہ تر نظمیں رومانی ہیں ۔  یہ رومان کوئی معمولی قسم کا رومان نہیں ہے بلکہ اس میں اعلیٰ شاعری کے بہترین نمونے موجود ہیں ۔ اس پورے مجموعے میں کیفی رومان اور حسن و جمال کی کیفات سے متاثر نظر آتے ہیں ۔ رودادِ محبت کی باریکیوں کو جس طرح سے انہوں نے اپنی شاعری میں پیش کیا ہے، وہ کوئی غیر معمولی صلاحیت رکھنے والا شاعر ہی پیش کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ان کی نظم’’اندیشہ‘‘،’’تجدید‘‘،’’تم‘‘،’’تصور‘‘،’’مجبوری‘‘،’’ملاقات‘‘، ’’پشیمانی‘‘،’’نقش ونگار‘‘ رومانی شاعری سے لبریز ایسی نظمیں ہیں ، جن میں انہوں نے نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکنیں شامل کر دی ہیں ۔ یہاں ان کی نظم تصور کا ایک بند ملاحظہ ہو جس کے لفظ لفظ سے حسن چھلکتا ہے اور روانی پھوٹتی ہے۔

یہ جسمِ نازک، یہ نرم باہیں ،حسین گردن،سڈول بازو
شگفتہ چہرہ،سلونی رنگت،گھنیرا جورا، سیاہ گیسو
نشیلی آنکھیں، رسیلی چتون، دراز پلکیں ،مہین ابرو
تمام شوخی،تمام بجلی، تمام مستی، تمام جادو
ہزار جادو جگا رہی ہو
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو

یہ کیفی کی شاعری کا پہلا دور ہے، جس میں انہوں نے رومانی شاعری کی تمام کیفیتوں بخوبی و بحسن پیش کیا۔ کیفی کی شاعری کا دوسرا رخ انقلابی اور احتجاجی ہے۔ جو ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر آنے کے بعد انہوں نے تخلیق کیا۔ جب ہم ان کا دوسرا مجموعہ کلام آخرِ شب کا مطالعہ کرتے ہیں ،اندازہ ہوتا ہے یہ پورا مجموعہ انقلابی اور احتجاجی شاعر کی نذر ہو گیا، اس میں بعض نظمیں ایسی ہیں ، جس میں انقلاب اور احتجاج کا پہلو اتنا شدید ہو گیا ہے، ان میں سوائے گھن گرج کے کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔ کیفی کا دوسرا مجموعہ آخرِ شب رومان سے انقلاب تک کا ایک طویل سفر ہے، جس کو انہوں نے طے کیا۔ ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر کیفی نے خوب گھن گرج اور صحافتی انداز میں شاعری کی، اس طرح ان کی شاعری کا زیادہ تر حصہ انقلابی، احتجاجی اور وقتی شاعری کی نذر ہو گیا۔ اس بات کا احساس انہیں بھی ہوا، لیکن اس وقت کافی دیر ہو چکی تھی، چناچہ کچھ دنوں تک ان پر خاموشی طاری رہی، یعنی آخری شب کے بعد ان کا کوئی مجموعہ منظرِ عام پر نہیں آیا۔ کبھی کبھی ایک دو نظمیں کسی اخبار اور رسائل میں نظر آ جاتیں ۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک آزاد ہو چکا تھا۔ ملک ترقی کی راہ پر گامزن تھا، یہاں جمہوری نظام قائم ہوا۔ ہندوستانی سماج بڑی تیزی کے ساتھ نئی کروٹیں لے رہا تھا۔ زندگی بڑی تیزی کے ساتھ تغیر پزیر ہو رہی تھی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے یہاں کے لوگوں کی زندگی کو مشین کی طرح تیز رفتار بنا دیا۔ اس دوڑتی بھاگتی زندگی میں کسی انسان کا دوسرے سے کوئی واسطہ نہیں رہ گیا، تمام انسانی رشتے محدود ہو تے گئے، لوگ صرف اپنی ذات تک سمٹ کر رہ گئے، سماج سے اجتماعیت کا تصور ختم ہوتا ہوا معلوم ہونے لگا، لوگ انفرادیت کے قائل ہوتے گئے،انسانی زندگی محدود دائرے میں قید ہونے لگی اور انسان خود کو تنہا محسوس کرنے لگا۔ اس پورے عمل میں اب وہ پرانے انسانی رشتے برقرار نہ رہ سکے، جو کبھی ہندوستانی تہذیب و تمدن کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ ان نئے حالات نے ادب کو بھی کافی متاثر کیا۔ اب سماج کی اس تبدیلی کے سبب اس کے تقاضے بھی بدل گئے، جب سماج میں تبدیلی رونما ہوئی ادب میں اس کا عکس آنا لازمی ہو گیا۔ اس بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ادب میں جدیدیت کا تصور وجود میں آیا۔ مختلف شعرا و ادبا ترقی پسند تحریک کے مارکسی نظریات کو چھوڑ کر جدید یت کی طرف متوجہ ہوگئے،جس سے اب وہ نئے تجربات و افکار سے آشنا ہوتے ہیں اور ان کے شعور میں پختگی پیدا ہو جاتی ہے، ان کے اندر سوچنے اور سمجھنے کی ایک نئی کرن بیدار ہوتی ہے غرض جدیدیت کی اس تحریک نے اردو ادب میں ایک نئی روح پھونک دی، جس سے اردو ادب میں ایک نئی ہلچل پیدا ہو گئی، خاص طور پر نئی نسل اس سے کافی متاثر ہوئی۔

کیفی ان تبدیلوں کا بڑی خاموشی سے مشاہدہ کر رہے تھے اور ان سب حالات کو اپنے اندر جذب کرنے کی حتیٰ الامکان کوشش کرتے رہے۔ جس سے ان کے اندر ہی اندر ایک نیا انقلاب پنپ رہا تھا۔ در اصل کیفی اس وقت ممبئی میں مقیم تھے، وہاں کے حالات ان سب واقعات سے سب سے زیادہ متاثر کن تھے۔ کیفی جیسے حساس شخص نے خود اس شہر میں رہ کر جد و جہد کی اور فٹ پاتھ پر رات بتائی ہے۔ اس لئے ان سب کے اثرات تمام ترقی پسند شعرا سے کہیں زیادہ ان پر نمایا ہوتے ہیں ۔ ان حالات کا تجربہ کرنے کے بعد کیفی کی شاعری میں تبدیلی آنا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے بلکہ یہ اس معاشعرے کا تقاضا تھا، اگر کیفی خود کو تبدیل نہ کرتے تو آج ان کو اردو شاعری میں جو وقار’’ آوارہ سجدے‘‘ نے بخشا ہے وہ کبھی نہیں ملتا اور ان کی شاعری گھن گرج اور احتجاج میں گم ہو کر رہ جاتی۔ کیفی نے اندر ہوئی تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔

’’انسان ہمیشہ اپنے ماحول اور ماحول کے ساتھ اپنے آپ کو بدلتے رہنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ میری شاعری کا موضوع یہی عظیم جد و جہد ہے‘‘۔ (کیفی اعظمی، دوچار باتیں ،آوارہ سجدے،ص۔ ۲۶۹)

کیفی اس مقصد میں کامیاب ہوئے،خود کو نئے سانچے میں ڈھال لیا۔ جب ہم آوارہ سجدے کا بغور مطالعہ کرتے ہیں ، بخوبی اندازہ ہوتا ہے، یہ مجموعہ ’’جھنکار ‘‘اور’’ آخرِ شب‘‘ سے بلکل مختلف ہے۔ کیفی نے سماج میں ہونے والی تبدیلیوں کو بڑی شدت سے محسوس کیا اور انہیں اپنے مزاج کے مطابق شعر کے سانچے میں ڈھال دیا۔ یہی وجہ ہے ان کی شاعری میں مارکسی نظریات کے ساتھ ساتھ جدیدیت کی آمیزش نظر آتی ہے۔ سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ اس میں تہنائی کا احساس، زندگی کی حقیقتوں اور اس کی پیچیدگیوں کا اظہار آزادنہ طور پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس مجموعے میں فکر کے ساتھ ان کے فن میں بھی کافی تبدیلی رونما ہوئی،اندازِ بیان میں ایک طرح پختگی اور گھن گرج کے بجائے روانی، سلاست اور موسقیت کا احساس ہوتا ہے۔ باتوں کو سیدھے سادے انداز میں کہنے کے بجائے رمز و کنایہ اور علامتوں کا سہارا لے کر پیش کرتے ہیں ۔ زندگی اور اس کے مسائل کی ترجمانی پہلے سے زیادہ وسیع تر شکل میں دکھائی دیتی ہے۔ اب محض سیاست اور انقلاب ان کے لئے کافی نہیں تھا بلکہ شاعری کے فنی محاسن اور اس کی جمالیات کی طرف ان کی توجہ مرکوز ہوتی ہے، جس سے ان کی شاعری میں انداز بیان کے ساتھ ساتھ پر کاری کا بھی احساس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آوارہ سجدے کی دوسری نظم ’’نیا حسن ‘‘دیکھئے۔

کتنی رنگیں ہے فضا کتنی حسیں ہے دنیا
کتنا سرشار ہے ذوقِ چمن آرائی آج
اس سلیقے سے سجائی ہے بزمِ گیتی آج
تو بھی دیوارِ اجنتا سے اتر آئی ہے
تیرے قامت میں ہے انساں کی بلندی کا وقار
دخترِ شہر ہے، تہذیب کا شہکار ہے تو
اب نہ جھپکے گی پلک اب نہ ہٹیں گی نظریں
حسن کا میرے لئے آخری معیار ہے تو
یہ تیرا پیکرِ سیمیں یہ گلابی ساری
دست محنت نے شفق بن کے اڑھا دی تجھ کو
جس طرح سے محروم ہے فطرت کا جمال رنگیں
تربیت نے وہ لطافت بھی سکھا دی تجھ کو

اس نوع کی اور بھی نظمیں ، ’’دعوت‘‘،’’ایک بوسہ‘‘،’’ مکان‘‘، ’’آوارہ سجدے‘‘، ’’عادت ‘‘،’’نذرانہ‘‘،’’ پیار کاجشن ‘‘،’’اجنبی ‘‘وغیرہ میں کیفی کے فکر و فن کی صلابت اور پختگی برابر ظاہر ہوتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے، انہوں نے نے معیاری شاعری کے تمام رموز و نکات کو ان چند دنوں کی خاموشی میں با آسانی حاصل کر لیا ہو۔ جس سے ان کی شاعری میں ایک نئی علویت پیدا ہو گئی ہے۔
کیفی اعظمی تا عمر ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے بلکہ اس تحریک میں ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتے ہیں ، اس لئے اب بھی ان کی شاعری میں اس تحریک کے اصول و ضوابظ جا بجا نظر آتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ان کی نظم ’’دھماکہ‘‘،’’ دوسرا طوفان‘‘،’’فرغانہ‘‘،’’ ماسکو ‘‘،’’لینن ‘‘،’’مکان‘‘، ’’چراغاں ‘‘، ’’دائرہ‘‘،اور’’ بنگلہ دیش ‘‘میں ان کے مارکسی نظریات کی بازگشت صاف سنائی دیتی ہے۔ نظم ماسکو سے ایک دو بند دیکھئے۔

پرچمِ امن بلند اور بلند اور بلند
تیرے سائے سے نکل کے میں کہاں جاؤں گا
ماسکو ساز اٹھا، ساز اٹھا ساز اٹھا
آج ہر گیت اس ساز پہ میں گاؤں گا
کیسے خاموش رہوں گا کہ ابھی تک دل میں
پچھلے ہی شورِ قیامت کی دھمک باقی ہے
میری جھلسی ہوئی یادوں میں گھٹی سانسوں میں
اب بھی بارود کی تھوڑی سی مہک باقی ہے
کتنی مشکل سے یہ ٹوٹے ہوئے دل جوڑے ہیں
ان کے ٹکڑوں کو دوبارہ نہ بکھرنے دیں گے
راہیں جاتی ہیں جو میخانے سے میخانے تک
ہم ادھر سے کبھی فوجیں نہ گزرنے دیں گے

ان نظموں میں بلند آہنگی، گھن گرج اور خطابت اور جذباتیت وہ نہیں ، جو ان کی ابتدائی نظموں میں پائی جاتی تھیں ۔ اس کے بر عکس اس مجموعے کی نظموں میں ایک طرح کی سگفتگی کا احساس ہوتاہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے، یہاں فن، مواد اور ہیت کیفی کے جذبے میں تحلیل ہو کر نظم کے سانچے میں ڈھل گئے ہوں ۔ یہی وجہ ہے کیفی کا یہ مجموعہ ان کی داخلی کیفیات کی بہترین نمائندگی کرتا ہے۔ یہاں کیفی کی رومانیت حقیقت پسندی،انسان دوستی اور جدیدیت کا تصور مل جل کر کیفی کی شاعری ایک نیا روپ اختیار کر لیتی ہے۔ اس منزل پر پہنچ کر ان کے فن کا خلوص اور احساس ایک نئی معنویت سے دوچار ہوتا ہے۔ مگر احتجاج لے کو دبانے میں وہ پوری طرح کامیاب نہیں ہو پائے۔ ان کی نظم مکان کا ایک بند دیکھئے جس میں احتجاجی پہلو صاف ظاہر ہوتا ہے۔

آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نید آئے گی
سب اٹھو، میں بھی اٹھوں تم بھی اٹھوتم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی

اس نظم میں ان کا احتجاجی انداز ان کی پہچان کے طور پر سامنے آتا ہے۔ دراصل کیفی کو عام انسانوں سے کافی لگاو تھا بلکہ انسانیت ہی ان کا مذہب تھااور جب بھی ان کے ایمان وہ ایقان میں دخل اندازی ہوئی، ان کے لہجے میں تیزی اور تندی پیدا ہو گئی۔ نظم ’’آوارہ سجدے‘‘ اس کی سب سے بہترین مثال ہے۔ ’’دائرہ‘‘،’’ مکان‘‘،’’ ابنِ مریم‘‘،’’ آخری رات‘‘،’’ دوسرا طوفان‘‘ وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جن میں ان کے احتجاجی اندازن کو صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ان نظموں میں احتجاج کے ساتھ طنز کا پہلو بھی نمایاہے، جس سے ان کی شاعری میں مزید نشتریت کا اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مجموعہ کلام’’ آوارہ سجدے ‘‘میں ان کی دیگر نظمیں ’’دائرہ‘‘،’’ ابنِ مریم‘‘،’’ مکان‘‘،’’ زندگی‘‘،’’ دھماکہ‘‘،’’ سومناتھ ‘‘،’’بہروپنی‘‘، ’’دعوت‘‘،’’ نیا حسن‘‘،’’ چراغاں ‘‘،’’ سانپ‘‘،’’ دوسرا بن باس‘‘ وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جو اس بات کا ثبوت مہیا کرتی ہیں کیفی کی شاعری میں بھی شعریت کے اعلیٰ ترین نمونے موجود ہیں ۔ ان کی پر کاری سے متعلق ڈاکٹر آصف زہری نے بڑی دلچسپ بات لکھی ہے۔

’’میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ایک بوسہ، مکان، اور آوارہ سجدے جیسی نظموں کی تخلیق کے ساتھ اور کمیونسٹ اکائی کے ٹوٹنے کے ساتھ انہین ادبی بصیرت اور تخلیقی نروان حاصل ہوا۔ جب انہوں نے کسی کی رہنمائی کے بجائے اپنی ذات پر بھروسہ کیا صدائے دل اور اس کی باز گشت پر غور کیا تب ان کی نظموں میں گہرائی اور گیرائی آئی،بلکہ اپنا مخصوص اسلوب و آہنگ واضح کرنے میں کامیاب ہو سکے‘‘۔ (ڈاکٹر آصف زہری،کیفی اعظمی کا تخلیقی نروان،کیفی اعظمی فن اور شخصیت،مرتب،ڈاکٹر شباب الدین،ص۔ ۱۹۷)

’’جھنکار‘‘ سے لے کر آوارہ سجدے تک اگر کیفی کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے، بخوبی اندازہ ہوگا، اردو ادب کی تاریخ میں خاص طور سے ترقی پسند حلقے میں کیفی کے علاوہ کوئی دوسرا شاعر نہیں ہو اہے جس نے خود کو حالات کے ساتھ ساتھ بدل لیا ہو۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، خیالات بدلتے ہوئے اکثر لوگوں کی شاعری میں دیکھاہے، مگر حالات کے مطابق لب و لہجے کی جو تبدیلی کیفی کے یہاں ملتی ہے، وہ کسی اور کے یہاں مشکل سے ملے گی۔ غرض یہ ’’آوارہ سجدے تک پہنچنے کے بعد کیفی کی فکری تشکیل کے ارتقا نے کمال کے اس جوہر کو دریافت کر لیا، جہاں پہنچ کر ان کافن اور شعور کافی پختہ ہو جاتا ہے اور ان کی فکر میں ایسی پختگی اور صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے، جس سے وہ اپنے احساس کے ذریعے کسی بھی موضوع کو علامتوں استعاروں اور دیگر شعری وسائل اور فنی لوازمات کے ذریعے پیش کرنے میں بے حد کامیاب ہو ئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کیفی کی شاعری کی آخری مجموعہ’’ آوارہ سجدے‘‘ کو ان کے فن کی معراج تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی مجوعہ پر انہیں متعدد اعزاز و ایوارڈ بھی ملے اور اسی مجوعے کی بنا پر انہیں ادب میں وہ مقام بھی حاصل ہو ا جس کے وہ حقدار تھے۔

تبصرے بند ہیں۔