مدارس کے فارغین اور روزگارکے مواقع

ڈاکٹرافضل مصباحی

(اسسٹنٹ پروفیسر، ڈاکٹرہری سنگھ گورسنٹرل یونیورسٹی، ساگر، مدھیہ پردیش۔) 

دینی اداروں کے طالب علموں کی حالت اس وقت کسی حدتک پریشان کن ہوتی ہے، جب وہاں سے وہ فارغ ہونے لگتے ہیں ۔ آٹھ دس برسوں پرمشتمل مولوی، عالم اور فاضل وغیرہ کی سندلینے کے بعدان سے اہل خانہ کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں ، لیکن بسااوقات خودانہیں معلوم نہیں ہوتاہے کہ اب کرناکیاہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ حالات کے تقاضوں سے ناواقفیت اور دستیاب روزگارکے مواقع سے لاعلمی ہے۔ عام طورپراسلامی دینی اداروں میں کاؤنسلنگ کاکوئی انتظام ہوتاہے اور نہ ہی طلبہ کومستقبل کے لائحۂ عمل کے بارے میں بتایاجاتاہے۔ یہاں کیمپس سلیکشن کاتصوربھی ناپیدہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں معمولی تبدیلی توآئی ہے، لیکن یہ دال میں نمک برابرہے۔ اسی لئے ان نوجوانوں کومیدان عمل میں آکربے پناہ دشواریوں کاسامناکرناپڑتاہے۔

عموماًلوگوں کایہی مانناہے کہ دینی اداروں کے فارغین کے لئے مدرسہ، مسجداور مکتب کے علاوہ دوسرے میدانوں میں روزگارکے مواقع دستیاب نہیں ہیں ۔ اسی وجہ سے بہت سے لوگ اپنے بچوں کو دینی اداروں میں صرف اس لئے نہیں بھیجتے ہیں کہ آخرپڑھنے کے بعد وہ کریں گے کیا؟ اس طرح کی سوچ محض اس لئے پروان چڑھتی ہے کہ مدارس کے تعلیم یافتہ افرادکے لئے دانستہ یاغیردانستہ طورپرزندگی کے کچھ شعبے مختص کردئے گئے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ انہیں ان شعبوں تک محددوکردیاگیاہے، حالانکہ ایسابالکل نہیں ہوناچاہئے تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دینی تعلیمی اداروں کے کچھ فارغین مذکورہ شعبوں کے علاوہ تجارت، مطب، کاشتکاری، عصری تعلیمی اداروں اورمعدودے چند سیاست وغیرہ میں جگہ بنالیتے ہیں ، لیکن ایسے افرادکی تعدادانگلیوں پرگنی جاسکتی ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ کچھ ایسے شعبوں کوتلاش کیاجائے، جہاں علماء اپنی صلاحیتوں کااستعمال کرسکیں ۔ لگے ہاتھوں وہاں تک رسائی کے لئے لازمی تعلیمی استعداداور صلاحیت کی نشاندہی بھی ضروری ہے۔

سب سے پہلے دینی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں کہ یہاں وہ جو تعلیم حاصل کررہے ہیں ، یہ ان کے لئے نعمت غیرمترقبہ ہے۔ ان کے اہل خانہ کوبھی مطمئن رہناچاہئے کہ مدارس میں ان کے بچوں کو جوتعلیم دی جارہی ہے، اس کی اہمیت دنیوی اور دینی دونوں اعتبارسے مسلم ہے۔ لہٰذا ان اداروں کے طلبہ دلجمعی سے علم حاصل کریں ۔ ان کی یہی محنت مستقبل میں کام آئے گی۔ جس قدر محنت سے وہ یہاں علم حاصل کریں گے، آنے والے دنوں میں انہیں اس کا فائدہ بھی اسی اعتبارسے ہوگا۔ اسی سے ان کی بنیادمضبوط ہوگی اور آئندہ ترقی کی راہیں بھی ہموارہوں گی، بشرطیکہ آگے بڑھنے کاجذبہ ہو۔

عالم دین ہونے کایہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ وہ مدرسہ میں مدرس، مسجدکا امام اور مکتب کا استاذ ہی بننے پرمجبورہے یاوہ اسی کے لائق ہے، بلکہ علم دین حاصل کرنے کا مقصدیہ ہے کہ وہ اپنی زندگی اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں بسرکرے اور اپنے گھروالوں ، رشتہ داروں اور ملنے جلنے والوں کی بھی رہنمائی کرے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے واضح لفظوں میں حکم دیاہے؛ ترجمہ:’’تم اپنے آپ کواوراپنے گھروالوں کوجہنم کی آگ سے بچاؤ‘‘۔ اس حکم کی تعمیل دینی معلومات کے بغیرناممکن ہے۔ البتہ علم دین کے حصول کاتقاضہ یہ ہے کہ علماء جہاں بھی رہیں ، وہاں ان کی عالمانہ شان برقراررہے۔ اگرمدرسہ میں تدریس، مسجدمیں امامت یاکسی مکتب میں پڑھانے کاموقع مل جائے توٹھیک، ورنہ انہیں دیگرشعبوں میں قدم رکھنے کے لئے بھی ذہنی طورپرآمادہ رہناچاہئے اور اس کے لئے پیشگی تیاری بھی کرنی چاہئے۔ یادرہے! مذکورہ تین شعبے ہی مدارس کے فارغین کاانتظارنہیں کررہے ہیں ، بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں ان کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہم پیشگی تیاریوں کاجائزہ لیتے ہیں :

انگلش اور کمپیوٹرکی جانکاری

پیشگی تیاریوں کے سلسلے میں میراماننایہ ہے کہ مدرسوں میں وہ جو علم حاصل کررہے ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ انگلش اور کمپیوٹرکی تعلیم بھی حاصل کرلیں ۔ یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ آج کے دور میں انگلش اور کمپیوٹرکی جانکاری کے بغیرمستقبل کی راہیں محدودہوجاتی ہیں ۔ اس وقت انگریزی زبان کسی مخصوص قوم،  ملت یا خطے کی زبان نہیں رہ گئی ہے بلکہ اسے بین الاقوامی زبان کادرجہ حاصل ہے اوراس کی اہمیت روزروشن کی طرح واضح ہے۔ اسلام کی تبلیغ کے لئے بھی اس زبان کاجانناضروری ہے۔ اس لئے مدارس کے تمام طلبہ کوانگلش اور کمپیوٹرکی تعلیم بہرصورت حاصل کرنی چاہئے۔ اسی طرح مدارس کے فارغین (علماء)خواہ وہ کسی بھی شعبے میں مصروف عمل ہوں ، وہ انگلش اور کمپیوٹرکی تعلیم کے لئے لازماًاپناوقت نکالیں ۔ مساجدکے ائمہ کو خصوصی طورپراس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد وہ خوداپنے اندرایسی تبدیلی محسوس کریں گے، جس کاتصور وہ اس کے بغیرنہیں کرسکتے ہیں ۔ تبلیغ دین کے نقطۂ نظرسے بھی دیکھیں توانگلش اور کمپیوٹرکی جانکاری کے بعدعلماء اپنے آپ کودنیاسے جوڑنے میں کامیاب رہیں گے اوران کادائرۂ کارکافی وسیع ہوجائے گا، ساتھ ہی اکناف عالم میں کہاں کیاہورہاہے، اس کے بارے میں وہ باخبرہوسکیں گے۔ کمپیوٹرکی تعلیم کے بعد وہ اسلام کی تعلیمات کوبین الاقوامی سطح پرعام کرنے کے اہل ہوسکتے ہیں ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ ایک شخص اسی وقت اپنے آپ کودنیاسے جوڑسکتاہے، جب وہ انگریزی جانتاہواور اس زبان میں اپنی بات دوسروں کوسمجھانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

کمپیوٹرکے استعمال کی صلاحیت کاجہاں تک تعلق ہے، اس سلسلے میں لوگوں کویہ معلوم ہے کہ قومی اردوکونسل، نئی دہلی نے اس کے لئے جگہ جگہ مراکزقائم کررکھے ہیں ۔ ان مراکزسے استفادہ کیاجاسکتاہے۔ بیشترمرکزی وریاستی یونیورسٹیزمیں ’ڈپلومہ ان کمپیوٹرآپریٹر‘ کاکورس کرایاجاتاہے، جہاں سے آسانی کے ساتھ کمپیوٹرکی تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے۔ ان کے علاوہ تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ایسے ادارے موجودہیں ، جہاں بہت کم خرچ میں کمپیوٹرکی تعلیم دی جاتی ہے۔

انگریزی اور کمپیوٹرکی معلومات کے بعد فوری طورپرجوفائدہ ہوگا، وہ یہ کہ اس وقت بہت سے اسکولوں میں اسلامک اسٹڈیز (اسلامیات) پڑھانے کے لئے اساتذہ رکھے جارہے ہیں ، لیکن انہیں انگلش میڈیم سے پڑھاناہوتاہے۔ اگرہمارے علماء انگلش کے جانکارہوں اور ان کے اندراسے بولنے او رلکھنے پڑھنے کی صلاحیت ہو تووہ ان اسکولوں میں آسانی کے ساتھ تدریسی فریضہ انجام دے سکتے ہیں ۔ یہ کام بعینہ مدرسوں میں تدریسی فریضہ انجام دینے جیساہے۔ اگر کمپیوٹرجانتے ہیں تو اسلامیات کی تدریس کے لئے اسمارٹ کلاسیزکاسہارالے سکتے ہیں ۔ اس طرح انگلش میڈیم اسکولوں کے طلبہ کوآسانی کے ساتھ اسلامیات کی تعلیم دی جاسکتی ہے۔ انگلش اور کمپیوٹرکی جانکاری کایہ ایک معمولی فائدہ ہے، جس کامیں نے ذکرکیاہے۔ اس کے علاوہ اس کے بے شمارفوائدہیں ، جن کااندازہ اپنے آپ ہوجائے گا۔

اسلامی سمرکلاسیز

اسی سلسلے کی ایک کڑی پرائمری اسکولوں کے بچوں تک دینی علوم کاپہنچاناہے۔ انگلش، ہندی اور اردومیڈیم اسکولوں کے طلبہ تک اسلامی تعلیمات کاپہنچاناعلماء کرام کادینی فریضہ ہے۔ اس کے لئے کئی طریقے اپنائے جاسکتے ہیں ۔ اسکولوں کے اوقات کے علاوہ گھنٹے دوگھنٹے انہیں دینی تعلیم دی جاسکتی ہے۔ اس عظیم مقصدکے لئے گرمی کی طویل چھٹیوں کوبھی استعمال میں لایاجاسکتاہے۔ موسم گرما میں تقریباً دوماہ کی تعطیل کلاں ہوتی ہے۔ اس موقع پراگر’سمرکلاسیز‘کاانتظام کیاجائے اور’سمر کیمپ برائے اسلامی تعلیمات‘ Summer Camp for Islamic Studies))کااہتمام کیاجائے تو یہ ایک مصروفیت اور آمدنی کاذریعہ ثابت ہوسکتاہے۔ مثال کے طورپر گرمی کے ایام میں کوئی بھی اسکول کرائے پرلے کرمسلم بچوں کودینی تعلیم دی جاسکتی ہے اور اس کے لئے فیس بھی وصول سکتے ہیں ، لیکن یہ کام منظم طریقے سے کرناہوگا اور اسکولوں میں تعلیم وتعلم کاجوطریقہ ہے، اس کواپناناہوگا۔ پاورپوئنٹ پرزنٹیشن(پی پی ٹی)اور اسمارٹ کلاسیزکے ذریعہ اگر طلبہ کودینی تعلیم دی جائے، تو ان کی دلچسپی بڑھے گی اور کم وقت میں انہیں زیادہ سے زیادہ سکھایابھی جاسکتاہے۔

درس وتدریس کامیدان

اگرعلماء دینی اداروں سے فارغ ہوکریونیورسٹیزکارخ کرتے ہیں ، تو اس کے بے شمار فوائد ہیں ۔ اس کے لئے انہیں وہاں دوران تعلیم بہارمدرسہ بورڈ، اترپردیش مدرسہ بورڈ، مولاناآزاداردویونیورسٹی(مانو)، اندراگاندھی اوپن یونیورسٹی(اگنو)یاکسی بھی فاصلاتی تعلیمی ادارے سے آئی۔ اے۔ (انٹرآف آرٹس) یامساوی درجے کاامتحان پاس کرناہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یونیورسٹیزمیں گریجویشن، پوسٹ گریجویشن، ایم فل اورڈاکٹریٹ وغیرہ میں آٹھ دس سال محنت کرنی پڑتی ہے، لیکن اس کے بعد جو کامیابی ملتی ہے، اس کی بات ہی کچھ اورہے۔ یوں بھی کسی بھی میدان میں مہارت حاصل کرنے کے لئے برسوں درکارہوتے ہیں ، لیکن مذکورہ کورسیزکی تکمیل کے بعد یونیورسٹیزاور کالجزمیں اسسٹنٹ پروفیسر، ایسوسی ایٹ پروفیسراورپروفیسروغیرہ بن سکتے ہیں ۔ اس طرح تدریسی شعبوں کے علاوہ انتظامی شعبوں میں بھی ملازمت حاصل کرسکتے ہیں ۔ مدارس کے طلبہ اگرتوجہ دیں تو آئی اے ایس، آئی پی ایس، آئی ایف ایس وغیرہ دیگرمقابلہ جاتی امتحانات میں اچھی کامیابی کے امکانات ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مدارس کا تربیتی نظام ہے، جو کسی بھی ہدف تک پہنچنے میں معاون ثابت ہوگا۔ یونیورسٹیزمیں تعلیم حاصل کرنے کے بعد پرائیویٹ اور سرکاری اداروں میں ملازمت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔ یونیورسٹیزکے میدان میں آکر آسانی کے ساتھ دین کی تبلیغ کامستحکم فریضہ بھی انجام دیاجاسکتاہے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعدسوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی بڑھ جاتی ہیں اور ذہن بھی وسیع ہوجاتاہے۔ لہٰذادینی اداروں کے فارغین کو اس سلسلے میں ضرورغوروفکرکرناچاہئے۔

پیشہ ورانہ تربیتی کورسیز

دینی اداروں کے فارغین اگرکسی میدان میں سال دوسال کاتربیتی کورس یاڈپلومہ وغیرہ کرلیں ، تو اس سے انہیں میدان عمل میں آنے میں بڑی آسانی ہوگی۔ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی، جواہرلعل نہرویونیورسٹی، نئی دہلی، البرکات اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، علی گڑھ اور انڈیااسلامک کلچرسنٹر، نئی دہلی وغیرہ میں پیشہ ورانہ تربیتی کورسیزکرائے جاتے ہیں ۔ ان اداروں میں کمپیوٹراور ڈیجیٹل کلاسیزکے ذریعہ تربیتی کورسیزکا انتظام ہے، جن میں انگریزی، کمپیوٹر، صحافت، دینیات، دعوت وتبلیغ، این جی او وغیرہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس طرح کے کورسیزکرنے کے بعدطلبہ کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور انہیں بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ دنیاکتنی وسیع ہے اور ان کے لئے کہاں کہاں کیسے کیسے مواقع دستیاب ہیں ۔

صحافت یعنی میڈیاکامیدان

قرآن کریم اور احادیث کریمہ میں جگہ جگہ میڈیاکے لئے رہنمااصول ملتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جس روز ’دین مکمل ‘ ہونے کااعلان کیا، اسی دن گویا زندگی کے تمام شعبوں کے لئے رہنماہدایات دے دی گئیں اور حکم دیاگیا، ’’اسلام میں مکمل طورپرداخل ہوجاؤ‘‘۔ توکیاصحافت جیسے شعبے کو اسلام نے یوں ہی چھوڑدیاہوگا؟کیا قرآن کریم اور احادیث کریمہ میں اتنے اہم شعبہ کے لئے تعلیمات نہیں ہوں گی؟ ایسانہیں ہوسکتاہے۔ ہمیں اسلام کی تعلیمات میں جگہ جگہ میڈیایعنی صحافت کے لئے رہنماہدایات ملتی ہیں ۔ اس موضوع پرتفصیلی بحث کسی اورموقع پرہوگی۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس پرخاص توجہ دے کراس شعبے کے لئے کام کریں اور دنیاکے سامنے ایک متبادل نظام پیش کریں ۔ علماء کرام اگرچاہیں تووہ اس میدان میں آگے بڑھ سکتے ہیں ، لیکن اس کے لئے ایک مشن کے طورپرکام کرناہوگا۔ تجارتی نقطۂ نظرسے بھی یہ شعبہ انتہائی اہم ہے۔

اخبارات میں مواقع

اخبارات میں دوطرح کے مواقع دستیاب ہیں :

1۔ آپ خود اپنااخبارنکالیں ۔ اس کے لئے بڑی پونجی کی ضرورت ہے۔ اگراپنے پاس پونجی ہے فبہا، ورنہ سرمایہ داروں کی مدد لیکر اس میدان میں قدم رکھاجاسکتاہے۔ اگرایساکرنے میں آپ کامیاب ہوتے ہیں تویہ آپ کے لئے اور آپ جیسے بہت سے افرادکے لئے روزی روٹی کاذریعہ بھی ہوسکتاہے اور سماج کی خدمت کاموقع بھی ہاتھ آسکتاہے، ساتھ ہی اس کے توسط سے دین کی تبلیغ کافریضہ بھی اداکیاجاسکتاہے۔

2۔ آپ اخبارات میں کسی بھی عہدے پرکام کرسکتے ہیں ۔ اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ آپ اخبارات میں کیاکیاکرسکتے ہیں ؟ ایڈیٹر، سب ایڈیٹر، رپورٹر، ٹرانسلیٹر(مترجم)، پروف ریڈر، کمپیوٹرآپریٹر، مارکیٹنگ ایگزیکٹواورسرکولیشن آفیسروغیرہ عہدوں پرآپ کورس کر کے یا بغیرکورس کئے بھی کام کرسکتے ہیں ۔ اخبارات کے تمام شعبوں میں مدارس کے فارغین کیلئے یکساں مواقع ہیں ۔ اردواخبارات میں بڑی تعدادمیں مدارس کے فارغین پہلے سے کام کررہے ہیں ۔ اگرتھوڑی توجہ دیں تو ہندی و انگریزی اخبارات اورٹیلی ویژن میں بھی اپنی جگہ بناسکتے ہیں ۔ اگرایساہوجاتاہے تواس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔

ریڈیو: اسلامی ریڈیوچینل(ایف۔ ایم کی شکل میں ) اس کی اجازت لی جاسکتی ہے۔ ایف۔ ایم چینل کی طرح سماج اور معاشرے کے لئے کارآمداسلامی تعلیمات کاسلسلہ کیوں نہیں شروع کیاجاسکتاہے؟اخلاقیات کی جو تعلیمات اسلام نے دی ہیں ، وہ دیگرمذاہب کے پیروکاروں کے لئے بھی اہم ہیں ، بلکہ موادکی ترتیب اس طرح دی جاسکتی ہے جو سب کے لئے یکساں طورپر کارآمدہو۔ پورے سماج کو مدنظررکھ کرپیش قدمی کریں تواس کااچھاپیغام جائے گا۔ یہ ایسامیدان ہے جوپوری طرح خالی ہے۔ بس سوچنے، سمجھنے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

ترجمہ نگاری 

مدارس کے فارغین کے لئے ترجمہ نگاری کافن انتہائی کارآمد ثابت ہوسکتاہے۔ عام طورپریہاں کے فارغین اردوزبان جانتے ہیں ۔ اس لئے وہ عربی،  ہندی، انگلش، فرانسیسی، چینی، ترکی اور اسپینی وغیرہ زبانوں میں سے کوئی ایک زبان سیکھ کر ترجمہ نگاری کے میدان میں بہ آسانی آسکتے ہیں ۔ دوزبانوں پرمہارت ہواور ان میں ترجمہ نگاری کواپناپیشہ بنالیں ، توروزگار کے لئے یہاں وہاں بھٹکنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ سفارت خانوں ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، بین الاقوامی کمپنیوں ، بڑے اسپتالوں ، تعلیمی اداروں ، این سی ای آرٹی، سی بی ایس ای، یونی سیف، یونیسکو، سیاحتی مقامات اوربیرونی ملکوں سے آنے والے تاجروں اوربے شمارسرکاری وغیرسرکاری اداروں کے لئے ترجمہ نگاروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ مدارس کے طلبہ اگرعربی زبان بولنے، عربی سے ترجمہ کرنے، عربی میں مضامین وغیرہ لکھنے کی صلاحیت پیداکرلیں ، توپورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ انہیں ادھرادھرہاتھ پیرمارنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔

قابل غورپہلویہ ہے کہ دینی اداروں میں جب عربی میں لکھی ہوئی ساری کتابیں پڑھائی جاتی ہیں اور اساتذہ ان کتابوں کوپڑھاتے بھی ہیں ، توآخرکیاوجہ ہے کہ ان میں عربی زبان بولنے اور اپنامافی الضمیر اداکرنے کی صلاحیت پیدانہیں ہوپاتی ہے۔ طلبہ توطلبہ، بہت سے اساتذہ عربی زبان بولنے پرقادرنہیں ہوپاتے ہیں ۔ اس کے برخلاف جوطلبہ انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں ، انہیں ہائی اسکول تک انگریزی زبان بولنے، انگریزی میں بحث ومباحثہ کرنے اورانگریزی میں مضامین وغیرہ لکھنے کی صلاحیت پیداکردی جاتی ہے۔ وہاں کے تمام اساتذہ انگلش بولنے اور انگلش میں پڑھانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں ۔ اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ آخردینی مدرسوں میں آٹھ دس برسوں میں یہ صلاحیت کیوں نہیں پیداہوپاتی ہے؟ آخرکمی کہاں رہ جاتی ہے؟ اس پرمدارس کے ذمہ داروں اور اساتذہ کومل جل کرغورکرناہوگا۔

اسلامی بینک 

علماء کرام کے لئے اسلامک بینکنگ(اسلامی بینک کاری) کامیدان کئی اعتبارسے اہم ہے۔ پوری دنیامیں اسلامک بینکنگ سسٹم تیزی سے رائج ہورہاہے۔ گزشتہ دنوں ریزروبینک آف انڈیانے بھی اس کی اجازت دے دی ہے۔ ظاہرہے جیسے جیسے اس کادائرۂ کار بڑھے گا، ویسے ویسے اسلامی اقتصادیات کے ماہرین کی ضرورت محسوس ہوگی۔ علماء کرام اگراسلامی اقتصادی نظام پراپنی گرفت مضبوط کریں اور اس میں مہارت حاصل کرلیں تو میں سمجھتاہوں کہ اس میدان میں ان کے لئے بے پناہ امکانات ہیں ۔ اس کے لئے اسلامی تجارت کے علاوہ ریاضی، اکنامکس اور کامرس وغیرہ کی معلومات بھی ضرور ی ہے۔

2009میں راقم الحروف کو بریٹش کونسل (British Council) کی دعوت پرایک وفدکے ساتھ برطانیہ جانے کااتفاق ہواتھا۔ اس سے کچھ ہی دنوں قبل پوری دنیاکومعاشی بحران کاسامناکرناپڑاتھا۔ چنانچہ برطانیہ میں اسلامی بینک کے اہلکاروں نے ہندوستان سے برطانیہ کے دورہ پرآئے وفدکوبتایاکہ عالمی معاشی بحران سے تمام بینک متاثرہوئے اور انہیں بری طرح خسارے کاسامناکرناپڑا۔ اس کی وجہ انہوں نے سودی نظام کوبتایا۔ البتہ اسلامی بینک کواس کانقصان نہیں ہوا، جہاں غیرسودی نظام نافذہے۔ یہ پہلاموقع تھاجب عالمی برادری کواسلام کے غیرسودی نظام کااحساس ہوا۔ اس کے بعدکئی بڑے بینکوں نے اپنے یہاں اسلامک بینکنگ کاڈیپارٹمنٹ کھولا۔ ماحصل یہ کہ علماء کرام کئی طریقے سے اس کافائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔

اس لئے مدارس کے ذمہ داران کوچاہئے کہ وہ اپنے یہاں اسلامی طریقۂ تجارت کی تعلیم پرخاص توجہ دیں ، اس کے لئے الگ سے ڈیپارٹمنٹ کھولیں اورماہرین اقتصادیات کی خدمات حاصل کرکے ایسے کورسیزڈیزائن کریں ، جنہیں پڑھ کر علماء آسانی کے ساتھ بینکوں میں ملازمت حاصل کرسکیں ،  ساتھ ہی تجارت اور سرمایہ کاری کے میدان میں وہ شرعی نقطۂ نظرسے دنیاکی رہنمائی کرنے کی صلاحیت اپنے اندرپیداکرسکیں ۔ یقینی طورپر مسلمانوں کے علاوہ دوسروں کوبھی اس سے فائدہ پہنچے گا۔ ذراغورفرمائیں ! وراثت، ترکہ، خریدوفروخت، تجارت اور تمام طرح کے لین دین شرعی نقطۂ نظرسے ہونے لگیں توکیااس کااجران علماء کرام کونہیں ملے گاجو اس کارخیرمیں مصروف ہوں گے اور اپنی خدمات انجام دیں گے؟ وراثت، ترکہ، تجارت اورخریدوفروخت وغیرہ کے تعلق سے اب تک جوفتوے دئے گئے ہیں ، وہ کب عوام الناس کے کام آئیں گے؟علماء کرام اگران کامطالعہ کریں ، انہیں سہل اندازمیں عام لوگوں کے سامنے پیش کریں اورعوام کی رہنمائی کافریضہ انجام دیں تو اس سے اچھی بات اورکیاہوسکتی ہے؟

حلال مصنوعا ت کی انڈسٹریز

اسی نوعیت کا ایک اہم میدان حلال مصنوعات کی انڈسٹریزکاہے۔ ہم آئے دن سوشل میڈیامیں پڑھتے ہیں کہ فلاں فلاں پروڈکٹ میں خنزیرکی چربی کااستعمال کیاگیاہے، فلاں فلاں مصنوعات میں الکحل کی آمیزش پائی جاتی ہے اور فلاں فلاں مصنوعات میں حرام اشیاء کااستعمال کیاجاتاہے۔ اس طرح کی ناجائزاشیاء سے مسلمانوں کوبچنے کامشورہ بھی دیاجاتاہے، لیکن میری معلومات کے مطابق ہندوستان میں ابھی تک اس سلسلے میں کوئی منظم کام نہیں ہواہے۔ اس طرح کے شکوک وشبہات سے بچنے کے لئے ’حلال مصنوعات کی انڈسٹریز‘کوضرورمتعارف کرایاگیاہے،  لیکن حلال مصنوعات کی حصولیابی جوئے شیرلانے کے مترادف ہے۔ ہاں ! یہ امیدکی ایک کرن ضرورہے۔ علماء اگردلچسپی لیں تو لوگوں کی توجہ اس کی طرف مبذول کرائی جاسکتی ہے۔ یوروپی ملکوں میں اس کارواج عام ہے۔ وہاں کے مسلمان ہم سے زیادہ بیدارہیں ۔ برصغیرہندوپاک میں ابھی تک اس تعلق سے بیداری نہیں آئی ہے۔ یہاں اگراس سلسلے میں بیداری آجائے یاپیداکردی جائے توحلال انڈسٹریزکے قیام کے لئے غیرمسلم تاجروں کوبھی اسلامیات کے ماہرین کی ضرورت پڑے گی، جوانہیں مشورے دے سکیں گے کہ اسلامی نقطۂ نظرسے کیاجائزاور کیاناجائزہے۔ اس کے علاوہ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیاحلال وحرام کے فرق کو واضح کرنے کے لئے کوئی ایساشعبہ قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے،  جہاں سے اس بات کی تصدیق کی جائے کہ کن مصنوعات میں حرام اجزاء پائے جاتے ہیں اور کن میں نہیں ؟

میں سمجھتاہوں کہ یہ تحقیق طلب اورانتہائی اہم کام ہے، جس کی طرف علماء کی توجہ بالکل نہیں ہے۔ جن یونیورسٹیزمیں اسلامیات اوراسلامی تھیالوجی کے شعبہ جات ہیں ، اگروہ یہ ذمہ داری قبول کریں ، تو اپنے آپ میں یہ ایک بڑاکام ہوگا اور اگرعلماء یہ فریضہ انجام دیں ، تو یہ ان کی مصروفیت کاایک مستقل ذریعہ بھی ہوسکتاہے۔ اس وقت جواشیائے خوردونوش مارکیٹ میں دستیاب ہیں ، ان کے ریپرپراجزائے مشمولات کی فہرست ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ’کوڈورڈ‘ کااستعمال کیاجاتاہے۔ مشمولات کی فہرست دیکھ کراور کورڈورڈ سے کیامراد ہے، اس کی صحیح جانکاری حاصل کرکے مسلمانوں کی رہنمائی ایک اہم مسئلہ ہے۔ برطانیہ کے متعدد شاپنگ مالز میں حلال اشیاء کے لئے الگ سے سیکشن مختص کئے جاتے ہیں اور صاف لفظوں میں لکھاہوتاہے، ’HALAL‘۔ اس کامطلب ہے کہ ان اشیاء میں اسلامی نقطۂ نظرسے حرام اجزاء کااستعمال نہیں کیاگیاہے۔ غورطلب امریہ ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جواس سلسلے میں محتاط ہیں ؟اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دورمیں بہت سی چاکلیٹ، چونگم، مشروبات، بسکٹ اور کھانے پینے کی اشیاء میں شرعی طورپرحرام اجزاء کااستعمال کیاجاتاہے۔ آئس کریم میں خنزیرکی چربی کااستعمال عام ہے۔ اس کے علاوہ دیگراشیاء میں بھی حرام جانوروں کی چربی اور الکحل وغیرہ کااستعمال کیاجاتاہے۔ چین اور دیگرغیرمسلم ملکوں سے جواشیائے خوردونوش آتی ہیں ، ان کے بارے میں تصورکرکے ہی کلیجہ منہ کوآنے لگتاہے۔ الامان والحفیظ!کیایہ عام مسلمانوں کے لئے اہم مسئلہ نہیں ہے او راس کی طرف ہمیں توجہ نہیں دینی چاہئے؟

این جی اواورٹرسٹ 

این جی او( نان گورنمنٹ آرگنائزیشنز)کو اردومیں ’ غیرحکومتی تنظیم‘ کہتے ہیں ۔ علماء کرام این جی اواور ٹرسٹ بناکرتعلیمی، تہذیبی، ثقافتی، سماجی، معاشرتی،  معاشی اورادبی ہرطرح کی سرگرمیوں کوآگے بڑھاسکتے ہیں ۔ مسلمان خاص طورپرعلماء کرام اور ائمہ عظام اس میدان میں سرگرم نہیں ہیں ۔ حالانکہ یہ ایک ایسامیدان ہے، جس میں آکروہ خودکفیل ہوسکتے ہیں اوربڑاسے بڑاکارنامہ انجام دے سکتے ہیں ۔ اس وقت بین الاقوامی سطح پر این جی اوزکی اہمیت مسلم ہے۔ قومی اور ریاستی حکومتوں کوہمیشہ این جی اوزکی ضرورت پڑتی ہے اور ان کے ذریعہ ہرعلاقے میں بڑاسے بڑاکام لیاجاتاہے۔ قدرتی آفات کے موقع پر این جی اوزکی سخت ضرورت پڑتی ہے۔ بہت سی بین الاقوامی تنظیمیں تعلیم، صحت اور روزگار وغیرہ کے لئے علاقائی این جی اوزکی مددلیتی ہیں ، لیکن علماء کرام اس میدان میں کہاں نظرآتے ہیں ؟ ان میں سے بیشترکواس کے بارے میں سرے سے معلوم ہی نہیں ہے۔ ظاہرہے، اس طرح انہیں اس کی اہمیت کااندازہ کیسے ہوسکتاہے؟ چندعلماء اور ائمہ آپس میں مل کراین جی اوبناسکتے ہیں اور کام کاکوئی بھی میدان منتخب کرسکتے ہیں ۔

عام طورپرلوگوں کوشکایت رہتی ہے کہ علماء اپنے فلاحی کاموں کومسلمانوں تک محدودرکھتے ہیں ۔  یہ بات کسی حدتک درست بھی ہے۔ علماء اگرسماجی اورفلاحی کاموں کادائرہ دوسروں تک وسیع کردیں توبرادران وطن کے مابین جودوریاں ہیں ، ان میں کمی آئے گی اور علماء کے تعلق سے کچھ لوگوں میں جوغلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ، ان کا ازالہ بھی کسی حدتک ہوگا۔

سیاست کامیدان

گزشتہ دنوں اترپردیش کے انتخابات میں علماء کے درمیاں آپسی رسہ کشی کودیکھتے ہوئے،  اس کاذکرکئے بغیرآگے بڑھناچاہ رہاتھا، لیکن یہ دیانتداری کے خلاف تھا۔ اس لئے ضروری سمجھاکہ سرسری طورپرہی سہی یہاں اس میدان کابھی ذکرکیاجائے۔ سیاست کامیدان ایمانداراور ملت کے لئے اخلاص کاجذبہ رکھنے والے علماء حضرات کے لئے پوری طرح خالی ہے۔ میں حیران ہوں کہ آخرمخلص علماء اس میدان میں کیوں نہیں آتے ہیں ؟ اگر علماء نہیں آئیں گے، ملت اور قوم کی قیادت نہیں کریں گے، توظاہرہے دوسرے لوگ اس پر قابض ہوں گے۔ اس لئے علماء کوہرحال میں سیاست میں آناچاہئے اور وارڈ ممبرسے لے کرپارلیمنٹ تک کاسفرطے کرناچاہئے۔ تب جاکرملت کی نمائندگی ہرجگہ ہوسکتی ہے اور صاف ستھری سیاست کی بنیادرکھنے میں کامیابی مل سکتی ہے۔ اس وقت سیاست میں بدعنوانیوں کادوردورہ ہے، اس سے نجات کے لئے دیانتدارعلماء کااس میدان میں آنابے حدضروری ہے۔ دیانتدارعلماء جب اس میدان میں آئیں گے، تب جاکرصاف ستھری سیاست کاتصور کیاجاسکتاہے اور ملت کے مسائل آسانی سے حل ہوسکتے ہیں ۔

منظم کوشش

مذکورہ شعبوں میں رہنمائی کے ساتھ ضروری سمجھتاہوں کہ کچھ اپنے تجربات بھی قارئین کی خدمت میں پیش کروں ۔ میراتجربہ ہے کہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے منظم ہونااور وقت کی پابندی ضروری ہے۔ نمازکی پابندی اس کے لئے بے حدکارآمدہے۔ نمازکی فرضیت اپنی جگہ مسلم ہے، البتہ اس کی وجہ سے نمازیوں کو جو فائدے ہوتے ہیں ، اس کی مثال دنیامیں کہیں اورنہیں ملتی ہے۔ اس کا اہم ترین فائدہ وقت کی پابندی ہے۔ مثال کے طورپرنمازکے اوقات کی مناسبت سے اپنے کام کی زمرہ بندی کی جاسکتی ہے۔ فجرکے بعد فلاں کام، ظہرکے بعد یہ کام، عصرکے بعد چہل قدمی، مغرب کے بعد فلاں کام اور عشاء کے بعد فلاں فلاں کام۔ اس طرح آپ منظم ہوجاتے ہیں اور میراتجربہ رہا ہے کہ کسی بھی طرح کی کامیابی حاصل کرنے کے لئے منظم ہونابے حدضروری۔ نمازکی وجہ سے آپ کی تعلیم اورآپ کے دیگرکاموں میں جو برکت ہوتی ہے، وہ کامیابی کے حصول میں سونے پرسہاگہ کاکام کرتی ہے۔

وسعت قلب ونظر

مدارس کے فارغین جب یہاں سے نکل کردوسروں کے درمیان جاتے ہیں تو ان کواندازہ ہوتاہے کہ وہ کس دنیامیں تھے اور کس دنیامیں آگئے۔ ظاہرہے، ہم میں سے کوئی بھی جب دوسروں کے درمیان جاتاہے، تو ان کے لئے اپنے دل میں جگہ بناتاہے۔ یعنی کسی سے ملیں گے تواس کاطریقہ کیاہوگا، ان سے کس طرح بات کریں گے، اس کی تربیت بھی ضروری ہے۔ اس کے لئے وسعت قلبی کی اشد ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کورسیزکافی معاون ثابت ہوتے ہیں ۔ عام طورپر دینی اداروں کے فارغین جس طرح کی محدود سوچ لے کرنکلتے ہیں ، اس سے تھوڑاہٹ کرانہیں سوچناہوگا۔ تب جاکرمیدان عمل میں کامیابی کے امکانات روشن ہوں گے۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    مدارس کے طلبا بہتر کیرئیر کے لئے!

    1۔ اس چیز کو یقینی بنائیں کہ ان کی عربی زبان کی مہارت “ادب الجاہلی” کا احاطہ کرتی ہو کیونکہ اسے سمجھے بغیر فہم قرآن میں نقص رہ جانے کا احتمال ہوسکتا ہے۔

    2- جس مکتب فکر کے مدرسے میں بھی تعلیم حاصل کریں’ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اپنے مکتب فکر کی آراکی دلیل کا علم حاصل کریں۔

    3۔ اپنے مکتب فکر کے ساتھ ساتھ دیگر مکاتب فکر کی آرا اور متعلقہ دلیل کا بھی علم ہو۔ اس کے لئے ہر مکتب فکر کے اوریجنل مصادر علم سے رجوع کریں ورنہ غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں.

    4-مختلف مکاتب فکر کےفقہی اصولوں کو مخالفانہ و معاندانہ نظروں سے دیکھنے کی بجاۓ ان کو معاون و مفید گردانیں اور سب کے فقہی اصول و قواعد سے فائدہ اٹھائیں۔

    5-کسی بھی دوسرے شعبہ علم مثلاً عصری علوم و نیچرل سائنسز کے سامنے کسی بھی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہ ہوں بلکہ پوری خود اعتمادی کے ساتھ اپنے شعبہ علم میں گہرا رسوخ پیدا کریں.

    6۔ خود کو عصری علوم کے حاملین سے برتر سمجھنے کی غلطی دوسری انتہا ہے کس کا کوئی جواز نہیں کیوں کہ علوم سارے کے سارے اللہ ہی کے ہیں۔ اس سے معاشرہ مولوی و مسٹر کی تقسیم سے محفوظ ہو جاتا ہے.

    7- روزگار و معاش سے غفلت کی غلطی نہ کریں اور اپنے آپ کو صرف مسجد یا مدرسہ تک محدود نہ سمجھیں کیونکہ اس طرح ویژن محدود رہ جانے اور معاشرے پر انحصار پیدا ہو جاتا ہے جو کہ محمود نہیں.

    8- اپنی سند کے ساتھ ساتھ بیچلرز و ماسٹرز لازمی کریں بلکہ فی زمانہ اسے فرض عین سمجھیں۔ کوشش کریں کہ یہ ڈگریاں عملی ذندگی میں غیر متعلق نہ ہوں.

    9- اردو’ عربی کے علاوہ ایک مزید بین الاقوامی زبان مثلاً انگلش’ فرنچ’ جرمن’ چائنیز میں مہارت پیدا کریں.

    10- سرکاری اداروں’ مقابلے کے امتحان میں دل چسپی لیں اور خود کو معاشرے سے متعلق بناتے ہوئے اپنے علم شرعی کے ذریعے اپنا مثبت کردار ادا کریں.

    واللہ المستعان

تبصرے بند ہیں۔