مدرسوں کی روح اور اُن کا مقصد

حفیظ نعمانی

مدرسوں سے متعلق ہم جو لکھ رہے ہیں وہ نہ شاید کتابوں میں کہیں ملے گا اور نہ اب کوئی اس نسل کا باقی ہے جو اس کی تفصیل بتا سکے۔ ہم نے ان بزرگوں سے سنا ہے جن کا اوڑھنا بچھونا دارالعلوم دیوبند، اس کی ترقی اور اس کی حفاظت تھی۔ دارالعلوم سے جب لڑکے عالم بن کر نکلنے لگے تو ان میں سے چند لڑکے حیدر آباد گئے اور وہاں نظام حیدر آباد کے ذاتی دفتر میں کام کرنے لگے۔ ایک سال کے بعد نظام حیدر آباد کے ایک وزیر کا خط دارالعلوم دیوبند کے مہتمم کے نام آیا۔ اس میں لکھا تھا کہ آپ کے مدرسہ کے پانچ لڑکے حضور نظام کے ذاتی دفتر میں کام کررہے ہیں ان کی علمی صلاحیت کا یہ حال ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے عہدوں کے افسروں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ عہدیداروں کو فیل کردیا ہے۔ ان لڑکوں میں صرف ایک کمی ہے کہ یہ حساب میں ماہر نہیں ہیں اگر مدرسہ میں حساب کی تعلیم کا انتظام کردیا جائے تو حضور نظام کا حکم ہے کہ دارالعلوم سے آنے والے تمام لڑکوں کو سرکاری دفتر میں لگا لیا جائے۔

یہ خط حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ جو دارالعلوم کے نگراں تھے ان کی خدمت میں پیش کیا گیا اور حضرت مولانا گنگوہی اسے لے کر حضرت حاجی امداد اللہ کی خدمت میں گئے جو سب کے بزرگ تھے اور دونوں رونے لگے کہ ہم سے کہاں چوک ہوگئی؟ ہم نے تو ایسا نصاب بنایا تھا کہ ہمارے مدرسہ سے نکلنے والے لڑکے اللہ کے کام کے علاوہ کسی کام کے نہ ہوں۔

آج کے زمانہ میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایسا کیوں تھا؟ 1857 ء کے بعد مان لیا گیا تھا کہ ہم انگریزوں سے ہار گئے اب مسلمانوں کی جان کو بھی بچانا ہے اور دین کو بھی اور دین کو اس وقت بچایا جاسکتا ہے کہ جب ملک کے ہر گوشہ میں دین کی بات بتانے والے ہوں اور مسلمانوں کو اپنے دین پر عمل کرنے والا بنائیں۔ جو لڑکے عالم بن کر نکلیں گے وہ مسجدیں آباد کریں گے مسلمانوں کو نماز کا پابند بنائیں گے ان کے بچوں کو پڑھائیں گے اور دین کی باتیں بتائیں گے۔ اگر ان کو عیسائی بنانے کی کوشش کی گئی تو اس کا مقابلہ کریں گے۔ اور کوشش کریں گے کہ ہر گائوں میں ایک حافظ ہوجائے۔

اگر تاریخ اٹھاکر دیکھا جائے تو اس وقت سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ مسلمان شکست کے بعد عیسائی نہ ہوجائیں اور اس کے لئے اگر بزرگوں نے تعلیم کا ایسا نظام بنایا کہ عالم بننے کے بعد وہ اللہ کے کام کے علاوہ کسی کام کے نہ ہوں تو یہ اُن کی دانشمندی تھی۔ آج ان ہی مدارس میں کمپیوٹر بھی چل رہے ہیں انگریزی بھی پڑھائی جارہی ہے اور وہاں سے نکلنے والے لڑکے ہر میدان میں نظر آتے ہیں۔

ہم مسلمانوں میں یہ بیماری ہے کہ ان کے نزدیک گلی کوچوں اور ہر جگہ جو انگلش میڈیم اسکول کھلے ہیں وہ سب ڈاکٹر، انجینئر اور آئی اے ایس، پی سی ایس بنا رہے ہیں۔ ہر ایجنسی کے سروے کے مطابق مدرسوں میں پڑھنے والے صرف پانچ فیصدی ہیں ان میں پانچ فیصدی لڑکوں میں حافظ قرآن بھی ہیں وسیم رضوی جیسے مسلمان نہیں سمجھیں گے کہ اگر مدرسوں میں حافظ قرآن نہ ہوتے تو اسلامی شریعت بھی حضرت موسیٰؑ کی توریت اور حضرت عیسیٰؑ کی انجیل اور زبور جیسی بن جاتی کہ پوری دنیا میں ایک نسخہ بھی ان کا نہیں ملے گا۔ اللہ رب کریم نے فرمایا ہے کہ ’’قرآن کو ہم نے ہی اتارا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‘‘  اور یہ حفاظت کا طریقہ ہے کہ دنیا میں کروڑوں حافظ ہیں کیا یہ معجزہ نہیں ہے کہ عرب کے علاوہ کوئی عربی نہیں جانتا اس کے باوجود عربی زبان کی 600  صفحات کی کتاب ان کو یاد ہے جن کی زبان عربی نہیں ہے۔ کیا دنیا کی کسی کتاب کے حافظ کوئی پیش کرسکتا ہے؟

اب رہی یہ بات کہ مدرسوں سے کیسے نکل رہے ہیں اور کیسے نہیں نکل رہے؟ ہندوستان میں اسلام پر اکثریت کے حملے ہورہے ہیں 95  فیصدی بچے دنیاوی تعلیم بھی حاصل کررہے ہیں اور پانچ فیصدی مدرسوں میں دین کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اگر ا ن مدرسوں کو بند کردیا جائے تو دین کی حفاظت کون کرے گا؟ اور دین کی حفاظت نہیں ہوگی تو پھر جانوروں میں اور ہم میں کیا فرق رہ جائے گا؟ ملک میں لاکھوں مساجد ہیں وہاں امام اور مؤذن کی ضرورت ہے کروڑوں مسلمانوں کو ضرورت ہے کہ کوئی مسئلہ بتائے خود پروردگار نے مسلمانوں کو ’کنتم خیر اُمت‘‘  خیر اُمت کہا ہے۔ آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ مسلمان مرد اور عورتیں کتنی فکر کرتی ہیں کہ جو گندگی لگی ہے وہ کیسے پاک ہوگی؟ ذراسی ہوا خارج ہونے سے وضو کیوں ٹوٹ گیا بینک کا سود حرام ہے یا حلال؟ آج کل بحث چھڑی ہے کہ جھینگا حرام ہے۔ اگر وہ مچھلی ہے تو حلال ہے نہیں ہے تو حرام۔ یہ ساری باتیں مدرسوں سے ہی معلوم ہوں گی جس دن مدرسے نہ رہے وہ دن بدترین ہوگا اور پھر شریعت ہی داغدار ہوجائے گی۔

 مسلمانوں میں ایک طبقہ وہ ہے جس کا نظریہ یہ ہے کہ تعلیم صرف وہ حاصل کرنا چاہئے جس سے سرکاری نوکری ملے آج لاکھوں ہندو اور مسلمان نوجوان ہیں جو ڈگریاں بغل میں دبائے گھوم رہے ہیں۔ ہندوستان میں تو آج اس کی ضرورت ہے کہ اس کی مخالفت کی جائے کہ بچوں کو سرکاری تعلیم دی جائے۔ ہر مسلمان کیلئے اچھا یہ ہے کہ وہ اگر صاحب حیثیت ہے تو بچوں کو تجارت میں لگائے ورنہ حساب کی ضروری تعلیم اور دینی تعلیم کے بعد ایسا بنائے کہ وہ سیلس مین بنے۔ یا ایسے ہنر سیکھے جس کی ہر گھر میں آج ضرورت ہے اور سال دو سال میں وہ خود کارخانہ کا مالک بن جائے۔ ڈاکٹر بنانے کیلئے کروڑوں کی ضرورت ہے اور انجینئر اب بھیک مانگتے ہیں۔ اگر آپ نے پنے بچے کو اچھا انسان اور اچھا مسلمان بنا دیا تو آپ کامیاب ہیں اس کے بعد بھی یقین نہ ہو تو آکر ہمیں دیکھ لیجئے جو رب کریم کا کرم ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    دین اسلام میں مدرسہ کی روایت بہت قدیم ہے۔ پہلا مدرسہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے متصل وہ چبوترہ تھا، جہاں حضور جناب رسالت مآبؐ سے براہ راست فیض یاب ہونے والوں کا ہر وقت ہجوم رہتا، اور جنہیں تاریخ میں اصحاب صفہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسلام میں تحصیل علم کی بے پناہ تاکید آئی ہے۔ علم مرد و زن ہر دو کےلئے لازم ٹھہرا۔ حصول علم کو ایک مسلسل عمل قرار دیا گیا۔ مہد سے لے کر لحد تک کی تاکید آئی اور پھر اس گوہر نایاب کی تلاش میں اگر دور دراز مقامات، حتٰی کہ چین تک بھی جانا پڑے، تو کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ اس ترغیب و تاکید کا نتیجہ تھا کہ دنیائے اسلام میں درس و تدریس کے مراکز کا ایک جال سا بچھ گیا۔ جن میں دینی و دنیوی دونوں طرح کی تعلیم دی جاتی تھی۔ قرآن، حدیث اور فقہ کےساتھ ساتھ طبیعات، فلکیات، فن تعمیر، سیاسیات اور زبان و ادب جیسے جدید اور عملی علوم بھی شامل نصاب تھے۔ پھر جوں جوں مسلمانوں میں علمی انحطاط آتا گیا، جدید علوم مدارس کے نصاب سے غائب ہوتے چلے گئے اور انہیں کلیتاً دینی علوم کےلئے وقف کردیا گیا۔ اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ اس دوران زمانہ قیامت کی چال چل گیا اور دنیا کی مکمل کایا کلپ ہوگئی۔ کوئی انسٹی ٹیوشن اگر ساکت و جامد رہا، تو وہ دینی مدارس ہیں۔ وہی صدیوں پرانا نصاب، وہی طرز تدریس، وہی معلم اور وہی متعلم، جن کے والدین انہیں دنیا میں لانے کے علاوہ کوئی بھی ذمہ داری اٹھانے کے روا دار نہیں۔ سو مدرسوں میں چھوڑ جاتے ہیں

تبصرے بند ہیں۔