وسیم رضوی: یہاں کی خاک سے انساں بنائے جاتے ہیں! 

نازش ہما قاسمی

مدارس اسلامیہ کا کردار تعمیر ملک و ملت کیلئے کسی سے مخفی نہیں ہے، مدارس اسلامیہ نے ہمیشہ ملک میں امن و شانتی اور صلح و آشتی کا پیغام دیا ہے، قومی یکجہتی کیلیے قربانیاں دی ہیں ؛ محبت کا پیغام عام کیا ہے، نفرت کو شکست دی ہے، مدارس نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جسے تاریخ کے اوراق کما حقہ بیان کرنے سے عاجز و قاصر ہیں ، مدارس اسلام اور اہل اسلام کیلئے وہ مضبوط قلعہ ہیں جس سے ہر طرح کی باطل طاقتیں ٹکرا کر پاش پاش ہوئی ہیں ، مدارس نے مسلم اقوام کی کردار سازی کے ساتھ ساتھ ان کے عقائد کو طاغوتی فتنوں سے محفوظ رکھا ہے، باطل نے جب کبھی مسلم عوام کے ایمان و ایقان پر شب خون مارنے کی کوشش کی ہے تو ان ہی مدارس کے ذریعہ ان کا سد باب کیا گیا ہے، مدارس نے خود کو محض مسلموں کیلئے خاص نہیں رکھا ہے، بلکہ اس نے دیگر اقوام کا بھی بھر پور تعاون کیا ہے۔

چنانچہ ہندوستان کے دورِ اسیری میں مدارس نے وہ نمایاں کردار ادا کیا ہے جسے ملک کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ہے، 1857 کے بعد مسلسل مدارس کی جانب سے انگریزوں کے خلاف تحریکیں وجود میں آئیں جس کے نتیجہ میں بے شمار علماء کو سخت ترین آزمائش کے دور سے گزرنا پڑا، آزادی ہند کی خاطر مدارس کے فارغین نے جیلوں کو آباد کیا، تختہ دار پر لٹکے، لیکن باطل کے سامنے سرنگوں نہیں ہوئے، توپ کے دہانے پر کھڑے رہ کر بھی آزادی ہند کا نغمہ گایا لیکن فرقہ پرستوں کے آباواجداد کی طرح کبھی سودے بازی نہیں کی، کبھی مدارس کے جیالوں اور جاں نثاروں نے ہمت نہیں ہاری، لیکن افسوس ہے کہ ان ہی اداروں پر آزادی کے بعد سے ہی وقتا فوقتا شر پسند عناصر لب کشائی کرتے رہے ہیں ، اسے بدنام کرنے کی حتی الامکان کوششیں کیں ، لیکن مدارس اپنے پاک و صاف کردار کی بنا پر ہمیشہ سے ایسے بدبختوں کے شروروفتن سے محفوظ رہے، انہیں شر پسند عناصر میں ایک نام کا اور اضافہ ہوا ہے، شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی، جس نے بی جے پی کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے، آر ایس ایس سے اپنی محبت جتانے کیلیے مدارس اسلامیہ پر بیہودہ اور بے بنیاد قسم کے الزامات کی بوچھاڑ کی ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور یوپی کے وزیر اعلی کو خطوط لکھ کر مدارس کے سسٹم کو بدلنے کی مانگ کی ہے، وسیم رضوی نے فارغین مدارس کو قوم و ملت پر بوجھ قرار دیا ہے، اور اپنی بات میں زور پیدا کرنے کیلئے مدارس پر دہشت گردی جیسا ناپاک اور بیہودہ الزام لگانے کی کوشش کی ہے، انہوں نے طنزیہ لہجے میں کہا ہے کہ مدارس اسلامیہ کے فارغین بے روزگار ہوتے ہیں ، کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں ، انہیں شاید یہ نہیں پتہ کہ مدارس اسلامیہ کے طلبہ کو قناعت پسندی کی بھی تعلیم دی جاتی ہے، وہ روکھی سوکھی کھاکر بھی مست رہتے ہیں ، تاریخ گواہ ہےکہ کبھی کسی مولوی نے معاشی تنگی کی وجہ سے خودکشی نہیں کی، اس کے برعکس جس دنیا کی وہ مثال دیتے ہوئے مدارس کو گری ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں ، ہردن کہیں نا کہیں  بے روزگاری کے سبب مجبور ہوکران کی لاشیں لٹکی ہوئی پائی جاتی ہیں ۔

وسیم رضوی کا بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب پورے ملک کے مسلمان حکومت کی مسلم مخالف پالیسی سے پریشان  ہیں ، مسلمانوں کی شریعت میں مداخلت کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ صاحب مسلمانوں سے ان کی آخری امید بھی ختم کرنے کی بات کررہے ہیں .

مدارس کا وجود بقاء اسلام کیلئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ انسانی زندگی کیلئے ہوا اور پانی، اگر انسانی زندگی سے ہوا پانی ختم ہوجائے تو اسے موت کے سوا اور کچھ میسر نہیں ہوگا، مدارس کا وجود اگر ختم ہوجائے تو ہندوستان سے اسلام کی روح ہی نہیں محبت و اخوت کا نظام ختم ہوجائیگا، مدارس کو اسکول میں اگر تبدیل کردیا جائے تو اس کے نقصانات بھی اپنی جگہ مسلّم ہیں ، ہمارے ملک کے سرکاری اسکولوں کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، ملک کا کوئی بھی شخص اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں بھیجنے کیلئے تیار نہیں ہے اور پرائیویٹ اسکول کی فیس کی استطاعت غریب لوگوں میں نہیں ہے، اور مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے عموما وہ طلبہ ہیں جن کے ماں باپ بمشکل اپنا گزارہ کرپاتے ہیں ، جبکہ مدارس اپنے طلبہ کو تعلیم سمیت دیگر ضروریات بھی فراہم کرتا ہے، اور بھی بے شمار سوالات ہیں لیکن صرف اس ایک سوال کا کوئی حل وسیم رضوی کے پاس ہے؟ اگر ہاں تو پھر آج بھی ہمارے ملک کی تعلیمی شرح اتنی کم کیوں ہے؟ کیوں وسیم رضوی صاحب جھونپڑپٹیوں میں بسنے والوں کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھا رہے ہیں ؟ان غریب بچوں کیلئے وسیم رضوی نے کتنے معیاری اسکول قائم کئے ہیں ؟ وسیم رضوی کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مدارس میں علماء کرام بوریوں اور ٹوٹی چٹائیوں پر بیٹھ کر انسانیت کی تعمیر کا اہم فریضہ انجام دیتےہیں ، اور مدارس کی اسی خاک سے انسان بناتے ہیں ۔

شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد نے درست تبصرہ کیا ہے کہ آخر جو شخص چاروں طرف سے کرپشن میں گھرا ہوا ہے، جس پر کرپشن کے بے شمار الزامات ہیں ، حکومت نے ایسے شخص کو بے لگام کیوں چھوڑ رکھا ہے؟ کیوں اس کے خلاف کاروائی نہیں ہوتی ہے؟ اب اگر اسے گرفتار نہیں کیا گیا تو ہم لکھنؤ کی سڑکوں پر آکر احتجاج کریں گے۔، مختار عباس نقوی اور ظفر سریش والا نے بھی وسیم رضوی کے بیان کی مذمت کی ہے، مرکزی اقلیتی وزیر مختار عباس نقوی نے تو اسے پاگل قرار دیتے ہوئے سوال کیا ہے کہ میں بھی مدرسے کا پڑھا ہوا ہوں کیا میں دہشت گرد ہوں ۔؟

اس تعلق سے جمعیۃ علمائے مہاراشٹر (ارشد مدنی) نے عملی قدم اٹھاتے ہوئے اس بدبخت کے خلاف ہتک عزت کرنے کے لیے بیس کروڑ روپیے ہرجانے کا نوٹس بھیجا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ وہ پوری قوم سے معافی مانگیں ، جمعیت علمائے ہند کے بروقت اور مناسب اقدام کی ستائش کرتے ہوئے دیگر مسلم تنظیموں کو بھی آگے آنا چاہیے، دیوبندی، بریلوی اہل حدیث، جماعت اسلامی اور شیعہ برادری کی تنظیمیں سبھی اپنی تنظیموں کی جانب سے اسے نوٹس بھیجیں اور عدلیہ میں گھسیٹیں تاکہ ایسے بدبختوں کی زبان پر تالا لگایا جاسکے، انہیں سبق سکھایا جاسکے اورمستقبل میں اس طرح کے فتنوں کا سد باب کیا جا سکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔