مذہبِ شیعت کی ساری فلاسفی ان کی خود ساختہ اور قران مخالف ہے

آصف علی

(1) آلِ محمد
(2) امامت
(3) اہلبیت
(4) وصی، ولایت، حجت کےگردگھومتی ہے.

میں نے خود ساختہ اور قران مخالف اس لیے کہا کہ۔قرانِ کریم میں ہے:

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا •    33/40

یعنی محمد ﷺ تمام نوعِ انساں کے کسی بھی نرینہ فرد کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں،اللہ کو ہر شے کا علم ہے۔

یہاں ذرا اس آیت کے آخری الفاظ ۔۔

وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا

 غور فرمایئے کہ:

خدا نے ان الفاظ کا ستعمال کس بنا پر ضروری سمجھا ہے؟ اولادِ نرینہ کی نفی فرماتے ہوۓ،صرف اس لیئے کہ،وہ جانتا تھا کہ آنے والے وقتوں میں یہ لوگ، آلِ محمدﷺ کا نام استعمال کرکے کیا کیا کریں گے۔۔۔۔انہوں نے ، آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام استعمال کرکے،ختمِ نبوت کے مشن،علمِ وحی کو آگے چلنے سے روک کر۔۔۔۔ کیا کیا ۔۔۔۔اصطلاحات استعمال کرکے کہ وہ، ختمِ نبوت کو توڑ دیں گے،اسی لیئے خدا نے کہا کہ وہ ہر شے کا علم رکھتا ہے کہ۔۔۔

اس کے بعد آنے والی قومیں کیا کیا گُل کھلائیں گی_

میں آلِ محمد ﷺ کے غلط اور جعلی و خلافِ قران کےلیئے قران سے ایک اور دلیل عرض کروں کہ:

رب ذوالجلال کا حکم ہے کہ ۔۔ اَدْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ (33/5)

یعنی ہر ایک کو ان کے باپوں کے نام سے پکارو یہ عدل و انصاف والی بات ہے اللہ کے ہاں۔

لفظ آل۔ جن جن نسبتوں سے قران میں آیا ہے پیشِ خدمت ہے۔

آلِ فرعون، آلِ موسیٰ، آلِ ھارون، آلِ ابراھیم، آلِ عمران، آلِ یعقوب، آلِ لوط، اور آلِ داؤد ۔۔۔۔ اب، انکے علاوہ قران میں کہیں بھی ،آلِ محمد ﷺ کی نسبت کا کوئی ذکر نہیں۔

اگر ذکر ہوتا تو اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (33/56 میں۔۔ صَلُّوا عَلَيْهِ میں
وَ آلِہ ۔۔۔۔ کا اضافہ ضرور کرتا

اس آیت (33/40) میں آنے والا لفظ،

"خاتم النبیین”

اسی آیت کے تمام الفاظ کا احاطہ کررہا ہے، جو کہ اس آیت کا مقصود بھی ہے۔

اگر آپ غور فرمائیں تو آج تک تمام انبیاۓ کرام ایک ہی آل، سے سلسلہ در سلسلہ چلے آۓ ہیں۔یعنی یہ تمام انبیاء اپنی آل سے باہر مبعوث نہیں ہوۓ۔ ایک ہی آل کی لڑی سے منسلک ہیں،اورسب ہی جانتے ہیں کہ، آل کا سلسلہ ہمیشہ اولادِ نرینہ سے ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے اولادِ نرینہ دے کر واپس اس لیئے لی کہ آپ کو "خاتم الانبیاء” ڈکلیئر کرنا مقصود تھا۔تاکہ اس کے بعد کسی پیغمبر کی ضرورت نہ رہے۔

اگر خدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولادِ نرینہ کو ،زندہ رکھتا تو لازم تھا کہ یہ سلسلہ انبیاء،ایسے ہی چلتا رہتا، لیکن چونکہ خدا کو یہ سلسلہ بند کرنا مقصود تھا، اسی لیئے اس آیت میں اولادِ نرینہ کی نفی کرکے اس سلسلہ کو ہمیشہ کیلیئے ختم کردیا۔آخری الفاظ ۔۔۔وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ۔۔۔ اسی آیت کا مکمل احاطہ کررہے ہیں۔

قرآن  اور  امام (امــــــــــــــامـــــــــــــت )

امام، Noun – leader, guide, record, highway

لفظ امام، مفرد کےصیغہ کے ساتھ قران میں، کل،7 بار استعمال ہوا ہے۔

1- پہلی بار،فرمایا کہ  فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ وَإِنَّهُمَا لَبِإِمَامٍ مُبِينٍ 15/87

یعنی ہم نے ان سے انتقام چکا دیا اور یہ دونوں ( قومِ لوط اورقومِ مدائن کی( جاے وقوع) عام اور معروف ھائی وے پر واقع ہیں ۔۔۔۔ یہاں امام ، سڑک، کو کہا گیا ہے۔

2- امام کا دوسرا لفظ سورہ یٰس میں اس طرح آیا ہے ۔۔۔۔۔۔

إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ 36/12

ہم مردہ (قوقوں) کو حیات بخشتےہیں تو ان کےماضی اور مستقبل کی تاریخ لکھتے ہیں اور ان کے (اگلے پچھلے) سارے کردار ۔۔۔ ان

کی فائل میں منضبط کردیتے ہیں۔یعنی اعمال نامہ کی کتاب میں۔

3- تیسری بار لفظ امام، جناب ابراہیم علیہ السلام کو بطور عہدہ اور لقب دیا گیا ہے،کہ ۔۔

إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا 2/124

4- چوتھی بار امام کا لفظ استعمال ہوا ہے کہ

وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً11/17

یعنی( قران کی حقانیت کے ثبوت اور شہادت کےلیئے غور کرو )کہ اس سے پہلے جو کتاب ، موسیٰ کو پیشوائی کےلیئے رحمت بنا کر دی گئی تھی_

(جس طرح موسیٰ نے اپنی پیشوا کتاب سے فتوحات اور شادابیاں حاصل کی تھیں، اسی طرح یہ تمہارا قران ، کتابِ موسیٰ کی طرح کا امام ہے۔)

5- پانچویں بار امام کا لفظ استعمال ہوا ہے کہ ۔۔۔۔

مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا 25/74

میں یہاں پوری آیت کا ترجمہ نہیں کررہا صرف آخری جملہ کا مفہوم عرض کررہا ہوں کہ ۔۔۔۔۔ اے میرے اللہ ہم سب کو صاحبِ تقویٰ کا امام بنادے۔ مطلب کہ  اس آیت میں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ ۔۔۔ ہر کوئی امام بننے کی دعا مجھ سے طلب کرے۔

6- چھٹی بار لفظ امام کے استعمال میں پھر دوبارہ ،جناب موسیٰ علیہ السلام کی کتاب ہی کو امام کہا گیا ہے کہ:

وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً 46/12

7- ساتویں بار جو استعمال ہوا ہے اس میں فرمایا گیا کہ :

يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ 17/71

یعنی روزِ قیامت جب ہم بلائیں گے جُملہ لوگوں کو، ان کے دیئے ہوۓ اعمال نامہ کی کتاب سمیت۔

اسی آیت کا اگلا حصہ ہے کہ :

فَمَنْ أُوتِيَ کِتابَهُ بِيَمينِهِ فَأُولئِکَ يَقْرَؤُنَ کِتابَهُمْ وَ لا يُظْلَمُونَ فَتيلاً ۔۔۔ 17/71 ۔۔۔۔

یہاں اس آیت میں قران نے اپنی تفسیر سمجھا دی کہ ۔۔۔۔ اس آیت میں امام سے مراد، کتب نامہ، اعمال والی ہے، ۔۔۔

مطلب کہ اللہ نے پورے قران میں اپنے رسول محمد ﷺ کو امام نہیں کہا، اس لیئے کہ قران کی آیتوں سے کھلواڑ کرنے والے سازشی لوگ، کہیں امامت کےعہدہ کو،جعلی آل کی میراث نہ بنا سکیں ۔۔۔۔۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ یہ اب، جعلی آل، بناۓ بھی بیٹھے ہیں۔

ا لـکـــــــــــــــــو ثــــــــــــــــــر

جسوقت مخالفین، آپ ﷺ کو اولادِ نریہ نہ ہونے کا طعنہ دیتے تھے۔۔۔ سورہ ال کوثر میں اسی سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ:
ہم نے تمیں "الکوثر” (خیرِ کثیر۔۔۔ خیر کی کثرت سے بھرا قران) عطاکیا۔

اور دنیا نے دیکھا کہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ۔۔۔۔ اسی کی وجہ سے، "لعلی خلق عظیم” جیسے عہدے پر فائز ہوئی، اور۔۔۔

ورفعنا لک ذکرک

کی گواہی بھی اس سورت کے آخر میں دی کہ تیرے مخالفین ھو الابتر ہیں۔ختمِ نبوت کا دروازہ توڑنے کےلیئےانہوں نے امامت، ولایت، وصی اور اور فلسفہ آل کی اصطلاحیں ایجاد کیں۔

ولایت کے سلسلے میں،ایک جگہ یہ بھی کہا گیا کے معراج کے وقت، آپ کو نبوت دینے سے پہلے، علی کی ولایت کو تسلیم کرنے کا بھی کہا گیا،اس میں تین شرطیں، آپ ﷺ سے منوائیں گئیں، جن میں آخری شرط،یہ تھی کہ، آپ اپنے بھائی علی کی ولایت کا اقرار بھی کریں۔
ولایت، و ل ی، ولی میں ،ت،کا اضافہ کرکے ، لفظ، ولایت تخلیق کیا گیا ہے۔ آیئے دیکھیں لفظ ولی کہ متعلق قران کیا فرمارہاہے۔

107: أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ(البقرہ)

تمہیں معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت خدا ہی کی ہے، اور خدا کے سوا تمہارا کوئی دوست اور مدد گار نہیں.

ایک جگہ،

واللہ ولی المؤمنین،3/48

یعنی مؤمنیں کا ولی بھی اللہ ہے۔

اس میں مؤمنیں کا لفظ قابلِ غور ہے،یعنی جو اللہ کو ولی نہ مانے، اور اللہ کی ولایت میں کسی اور کو شریک تصور کرے گا، وہ قران الحکیم کی روشنی میں مؤمن نہیں ہوسکتا۔

116: إِنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (التوبہ)

خدا ہی ہے جس کے لیے آسمانوں اور زمینوں کی بادشاہت ہے۔ وہی زندگانی بخشتا ہے (وہی) موت دیتا ہے اور خدا کے سوا تمہارا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہے۔

"اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ۔

ولی وہ ہوسکتا ہے جو موت اور زندگی پر کنٹرول رکھتا ہے۔

22: وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ(العنکبوت)

اور تم زمین اور آسماں میں اللہ کو عاجز نہیں بھی نہیں بنا سکتے ،کمزور بھی نہیں کرسکتے،(جب یہ حقیقت ہوئی تو پھر) خدا کے سوا تمہارا کوئی ولی اور نصیر نہیں ہے۔

یعنی،بےشک زمیں اور آسماں میں تم اللہ کو کہیں عاجزبھی نہیں بناسکتے،شکست بھی نہیں دے سکتے۔(جب یہ حقیقت ہوئی تو پھر،) تمہارے لیئے اللہ کے سوا،کوئی اور ولی اور کوئی نصیر نہیں ہوسکتا، یعنی جس پر عجز لاگو ہوسکے،وہ ولایت کا مستحق نہیں ہے۔

45: وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِأَعْدَائِكُمْ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفَىٰ بِاللَّهِ نَصِيرًا (النساء)

اور خدا تمہارے دشمنوں سے خوب واقف ہے اور خدا ہی کافی کارساز ہے اور کافی مددگار ہے.

یعنی،اللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اسلیئے ولی ہونے میں ولایت کیلیئے اللہ ہی کافی ہے،یعنی جو شخص ولایت کے معاملہ میں اللہ کو کافی نہیں سمجھتا، اللہ کو ناکافی سمجھتے ہوۓ،کسی اور کو ولی اور صاحبِ ولایت قرار دیتا ہے، یا اپنے لیئے اللہ کے سوا کسی اور کو نصرت کرنے والا سمجھتا ہے،تو اسکا یہ طرزِ عمل،اور نظریہ،خلافِ قران ہوگا۔

میرے خیال میں قران نے ان آیات میں، ولایت کی ویلیو کو کھول کھول کر،الٹرا ساؤنڈ کردیا ہے۔ اب اللہ سے دعا ہے کہ وہ لوگوں کو اپنے قران سے خلوص والی وابستگی نصیب فرماۓ (آمین)

بڑے بڑے فقیہ عالم کے امام ابو حنیفہ۔مالک، شافعی، احمد بن حنبل ، کو کیا سمجھتے ہیں؟جنہوں نے حدیث سازی اور فقہ سازی پر، خود کو امام مشہور کئے ہوۓ ہیں۔

انہوں نے،قران کے خلاف اپنی کئی گھڑی ہوئی روایات کو احادیثِ رسول کا نام دے کر، کئی سارے فرقے اماموں کے ناموں سے مشہور کئے ہوے ہیں۔اگر آپ ،”لایمسہ الاالمطھرون” ہوکر کر غور فرمائیں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ سب بنیادی اور مرکزی لحاظ سے ،سارے کے سارے، پہلے شیعہ ہیں،کیسے؟

ملاحظہ کیجیئے:

چہاردہ امامی

دوازدہ امامی

شش امامی

چہار امامی

یک امامی۔

یہ سب جدا جدا ناموں کے ساتھ مشہور ہیں۔

یہ چاروں امام،زیدی شیعہ تھے،اس لحاط سے دیکھا جاۓ تو ہم سب مسلمان،حنفی مارکہ "زیدی شیعہ” ہیں۔

اور لفظ "سنت” تو قران کا نام ہے۔

اور ان شیعاؤں نے،اسے قران سے چوری کرکے اپنی بنائی ہوئی روایات کو سنت کے نام سے مشہور کردیا ہے، جنہیں انہوں نے اسے،اقوالِ رسول کا نام دے رکھا ہے۔

اگر یقین نہ آۓ تو ان کےشیعہ عالم،علامہ تیجانی سماوی، کی کتاب،جو آج بھی اردو زبان میں مارکیٹ میں دستیاب ہے کہ

شیعہ ہی اہلِ سنت  ہیں!

اس کا مطلب یہ ہے کہ، سنی اور شیعہ، ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔ اس لئے کہ ان دونوں کا مرکزی رہنما علم،
قران مخالف اور قران دشمن روایات ہیں، جنہیں یہ احادیث کا نام دیتے ہیں،اور ان احادیثوں پر چلنے والے سب لوگ شیعہ ہیں۔

اور پھر یہ علیحدہ بات ہے کہ،وہ کن کن ناموں سے مشہور ہیں۔

کیا یہ امام، امتِ مسلمہ کے تمام مسائل کو حل کرچکے ہیں؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔