ٹو پارٹی سسٹم اور ہم 

 ممتاز میر

   قریب دس بارہ سال قبل کلدیپ نیر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ملک کو ٹو پارٹی سسٹم کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔یہ بات آج گجرات کے انتخابی نتائج کے بعد کم سے کم ہمارے لئے تو بالکل واضح ہو چکی ہے۔اب وہ مسلم لیڈر اور دانشور بھی جو کانگریس سے نفرت کرنے لگے تھے گذشتہ تین سالوں میں بی جے پی کے ’’پھٹکے‘‘کھانے کے بعدگجرات میں کانگریس کی فتح کی دعائیں مانگ رہے تھے۔

اس بات کا بڑے چاؤ سے اظہار کر رہے تھے کہ گجرات میں مقابلہ ون ٹو ون ہے۔ووٹ تقسیم نہیں ہونگے اور کانگریس جیت جائے گی۔گو گجرات میں کانگریس ہار چکی ہے مگر ہمارے دانشور کہہ رہے ہیںکانگریس ہار کر بھی جیتی ہے اور بی جے پی جیت کر بھی ہاری ہے۔آئندہانتخابات مین امید قوی ہے کہ کانگریس بی جے پی کو ہرا دے گی۔یہ ہے برہمن عقل۔کتنی آسانی سے ملک کو ٹو پارٹی سسٹم پر واپس لے آئی ہے۔اب کوئی نہیں چاہتا کہ عام آدمی پارٹی یا سماجوادی یا بی ایس پی ،ایم آئی ایم یا کوئی بھی اور پارٹی اس سسٹم میں دخل اندازی کرے ۔

سب بھول چکے ہیں کہ اس ملک میں کانگریس کا کیارول رہا ہے؟ کانگریس ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلمانوں کے تعلق سے ننگی ہوتی جارہی ہے ۔ اور ہمارے لیڈروںکے نزدیک وہ اور زیادہ قابل قبول ہوتی جارہی ہے۔مگر یہ ہم ہی نہیں عوام کا ایک بہت بڑاطبقہ سمجھتا ہے کہ کانگریس سےبہتر بی جے پی ہے۔بی جے پی کی وجہ سے کم سے کم یہ تو یاد رہتا ہے کہ اس ملک کے حکمراں مسلمانوں کے دشمن ہیں۔

  اب یہ پرانی بات ہو چکی ہے کہ برہمن مقتدرہ اس ملک میں ٹو پارٹی سسٹم چاہتا ہے۔ایک کانگریس اور دوسری بی جے پی۔یہ بالکل امریکی سسٹم کی نقل ہے جہاں صیہونی مقتدرہ ریپبلکن اور دیموکریٹ کو کنٹرول کرتی ہے۔ہوا یہ کہ ۲۰۱۴ کے قومی انتخابات مین بی جے پی کو جس چمتکار نے فتحیاب کیا تھا وہ یہ حساب نہیں رکھ سکا کہ کانگریس کو کتنی نشستیں ملنی چاہیئں۔اپنی فتح کے لئے manipulate کرتے ہوئےبرہمن مقتدرہ یہ نہیں دیکھ سکا کہ پہلی پارٹی(کانگریس)اپوزیشن کی لیڈر شپ کے قابل بھی نہیں رہ پارہی ہے ۔یہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہے کہ کانگریس صرف اقتدار سے باہر نہین ہوئی ہے بلکہ اپوزیشن کے لائق بھی نہیں رہی ہے ،اور یہ چمتکار ہے برہمن مقتدرہ کی نالائقی کا۔

قومی انتخابات کے بعد دو ریاستوں کے انتخابات ہوئے ۔پہلی دہلی اور پھر بہار۔یہ دونوں انتخاب صاف شفاف ہوئے ،معلوم نہیں کیوں؟شاید اسلئے کہ دلی کا اقتدار تو ایک نگر نگم(کارپوریشن) سے زیادہ ہے نہیں۔اور بہار میںشاید خوش فہمیاں سر چڑھ گئی ہوںیا وہ خود کو آزماناچاہتی ہو۔دہلی میں تو عام آدمی پارٹی نے برہمن مقتدرہ کی دونوں پارٹیوں کو صاف کردیا۔وہاں کوئی تیسری پارٹی میدان میں تھی ہی نہیںاسلئے ووٹوں کی تقسیم کا سوال ہی نہ تھا۔اس کا صاف اور صریح مطلب یہی ہے کہ عوام دونوں ہی پارٹیوں کو پسند نہیں کرتی۔اس کا ایک مطلب اور تھا کہ وطن عزیز کے سیاسی افق پر کسی تیسری یا چوتھی پارٹی کے ابھرنے کے کافی مواقع ہیں۔دہلی کے بعد بہار کا الکشن ہوا اوربی جے پی اپنے تمام منفی ہتھکندے اپنانے کے باوجود الکشن ہار گئی۔یہ تھا بہار میں برہمن مقتدرہ کی دوسری پارٹی کا حال۔پہلی پارٹی کانگریس نے مہا گٹھ بندھن کی BیاC  ٹیم کے طور پر الکشن لڑا تھا ۔بس یہیں سے برہمن مقتدرہ یاThink Tank کے دماغوں میں ہلچل مچ گئی اس طرح تو ٹو پارٹی سسٹم کا خواب شرمندہء تعبیر ہونے سے رہا۔انھوں نے پھر سے کانگریس کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا ’’ابھیان‘‘ شروع کیا ۔اس کی پہلی منزل پنجاب اسمبلی انتخابات تھے۔ہم وہاں کے Exit Poll کی جھلکیاں یہاں دکھاتے ہیں .

AAP           SAD/BJP            INC

News24/Todays Chanakya— 54-63           9-14               54-63

India Today/Axis—-42-51               4-7                         62-71

India Tv/C Voter—–59-67             5-13                41-49

؎ یہ ایکزٹ پول تھے ۔اب آئیے نتائج بھی دیکھ لیں۔کانگریس کو ۷۷ سیٹیں ملی۔۔عاپ کو صرف ۲۰ اور بی جے پی ،شرومنی اکالی دل کو ۱۸۔۔یہ تو وطن عزیز کا ہر شخص جانتا ہے جتنی نفرت بی جے پی عاپ سے کرتی ہے اتنی ہی نفرت کانگریس بھی کرتی ہے ۔کیوں؟جبکہعاپ سیکولر بھی ہے۔نان کرپٹ بھی ہے ۔بی جے پی کی دشمن بھی ہے پھر تو دشمن کا دشمن دوست ہونا چاہئے ۔مگر عاپ پر آکر یہ اصول فلاپ ہو جاتا ہے ،کیوں؟اسلئے کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی برہمن مقتدرہ کی پارٹیاں ہیں۔اور اب ان دونوں کو ہی ہندوستان پر راج کرنا ہے۔

  اب گجرات انتخابات میں بی جے پی کے ۹۹ کے مقابلے کانگریس کو ۸۰دلا کر کانگریس کو دوبارہ ٹو پارٹی سسٹم کی ایک پارتی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ورنہ گذشتہ چند سالوں کی کارکردگی سے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کانگریس دھیرے دھیرے وطن عزیز کی سیاست سے غائب ہو جائے گی اور اس کی جگہ عام آدمی پارٹی،سماجوادی ،بہوجن سماج پارٹی ترنمول کانگریس وغیرہ پر کریں گی۔بہار میں جے ڈی یو اور آر جے ڈی کے گٹھ بندھن کا جیتنا اس بات کا اشارہ تھا کہ غیر برہمن پارٹیاں اب متحد ہو کر الکشن جیتا کریں گی۔مگر یہ ممکن نہیں ہو سکتا۔سیاں بھئے کوتوال۔الکشن کمیشن ان کے ساتھ ہے۔یہاں تک کہ گجرات میں جہاں جہاں وی وی پیٹ مشینوں کا استعمال ہوا ہے وہاں وہاںcounter checking سے گڑ بڑیوں کی نشاندہی ہوئی ہیںمگر الکشن کمیشن دور از کار تاویلات کرکے معاملے کو سنبھال رہا ہے اور کانگریس بھی اس پر سر تسلیم خم کر رہی ہے ۔ہم ۲۰۱۴کے قومی انتخابات سے ای وی ایم مشینوں کو مینیج کرنے کے تعلق سے لکھتے آرہے ہیںاس تعلق سے اب تک سنجیدہ اور مسلسل احتجاج صرف کیجریوال اور ممتا بنرجی نے ہی کیا ہے ۔کانگریس چونکہ برہمن مقتدرہ کی ہی ایک پارٹی ہے اسلئے وہ احتجاج نہیں کر یگی احتجاج کا صرف ناٹک کرے گی۔حکومت اگر ایماندار ہوتی تو وہ خود ہی بیلیٹ پیپرسے انتخاب کروانے کیپیشکش کرتی۔مگر ایسا نہین ہوگا۔دیگر سیاسی پارٹیوں کو اس کے لئے الکشن کمیشن کو مجبور کرنا ہوگا ۔اور اس کام پر ابھی سے لگنا ہوگا۔

   کم سے کم مسلمان عوام تو یہ جانتی ہے کہ بابری مسجد کا قضیہ از اول تا آخر کانگریس کا ہی کھڑا کیا ہوا ہے۔دسمبر ۱۹۴۹ میںجب بابری مسجد میں مورتیاں رکھی گئیں تب ریاست اور مرکز دونوں جگہ کانگریس کی حکومت تھی۔ریاستی وزیر اعلیٰ پنڈت گووند بلبھ پنت پنڈت نہرو کے بار بار کہنے پر بھی مورتیاں ہٹانے کو تیار نہ ہوئے۔خود نہرو نے ایودھیا کا دورہ مورتیاں رکھے جانے کے تین ساڑھے تین ماہ بعد کیا ۔جس مسجد میں۴۶۲ سالوں سے لگاتار نماز پڑھی جارہی تھی اس میں نماز پڑھنے سے مسلمانوں کو قانوناً روک دیا گیا اور ۴ دن کے رام للا کی پوجا کی اجازت دے دی گئی اور ’’انگریزوں کے زمانے کے بیرسٹر چاچا نہرو‘‘دیکھتے رہے۔پھر ۱۹۸۶ میں ان کے بڑے نواسے آنجہانی راجیو گاندھی نے بابری مسجد کا تالہ کھول کر شلا نیاس کروا کر شاید نانا کی روح کو سکون پہونچانے کی کوشش کی ۔دس سال پہلے ان کے برادر خورد نے ایمرجنسی کے دوران ترکمان گیٹ کے مسلمانوں کواجاڑ کر ان پر گولیاں چلوا کر اپنی والدہ کی جانشینی کی سند حاصل کی تھی ۔ایمرجنسی کی خر مستیوں کی بنا پر ہی ان کی والدہ اس بری طرح الکشن ہاریں تھی کہ خود اپنی سیٹ بھی نہ بچا پائیں۔یہیں سے ان کے دل میں مسلمانوں کے تعلق سے ڈر بیٹھ گیا ۔آخر وہ جن سے ڈریں نہیںانھوں نے انھیں ماردیا۔پھر بابری مسجد پر پہلا حملہ ۱۹۸۹ میں ہوا ۔اس وقت ملائم سنگھ یادو ریاستی وزیر اعلیٰ تھے ۔انھوں نے اپنے راج دھرم کا ایماندارانہ استعمال کرتے ہوئے کارسیوکوں سے بابری مسجد کو بچایا جس کی بنا پر انھیں مولانا ملائم سنگھ کا خطاب دیا گیا۔مگر ۱۹۹۲ میں ریاستی تخت پر بی جے پی کا وزیر اعلیٰ تھا اور مرکزی اقتدار پر کانگریس کے پندت نرسمہا راؤ براجمان تھے جو اندر سے خاکی چڈی والے تھے۔کانگریس میں چند ہی لوگ ہونگے جو اندر سے خاکی چڈی والے نہ ہوں۔کہا جاتا ہے کہ یوپی کی بیوروکریسی نے پنڈت گووند بلبھ پنت کو خاکی چڈی والوں کے خلاف دو ٹرنک بھر کے ثبوت دئے تھے جن کی بنیاد پر خاکی چڈی کا وجودمٹایا جا سکتا تھا مگرریاستی وزیر اعلیٰ تھا پنڈت وہ بھی کانگریسی۔۔۔خیر ۔تو جب بابری مسجد شہید کی جا رہی تھی کہتے ہیں تب پنڈت نرسمہا راؤ خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔بابری مسجد کے تعلق سے آج تک جتنے بھی فیصلے آئے ہیں وہ سب کے سب کانگریس کے ہی دور اقتدار میں آئے ہیں ۔

برسوں ہوئے کانگریس نے سیکولرزم کا مکھوٹا اتار کر نرم ہندتو کی پالیسی اپنا لی ہے۔جس کا وضح ثبوت گجرات انتخابات میں کانگریس کے رویے سے ملتا ہے۔راہل گاندھی نے گجرات کا الکشن جیتنے کے لئے سیکولرزم کی پھٹی پرانی چادر اتار کر اپنے آپ کو ایک مکمل ہندو لیڈر کے طور پر پیش کیایہاں تک کے چھچھورے آدمیوں کی طرح اپنے جینؤ کی بھی نمائش کی ۔گھڑی گھڑی مندروں کے چکر لگائے۔مسلمانوں کا نام تک لینا گوارہ نہ کیا مسلمانوں کے درمیان اپنے سب سے بڑے کامریڈاحمد پٹیل کو بھی اپنے سے دور رکھا۔مگر یہ بھی غنیمت ہے۔ کانگریس کی تاریخ مسلمان لیڈروں کے تعلق سے بڑی خوفناک ہے ۔۱۹۸۶ میں ایک مسلم ایم پی ہوا کرتے تھے جو بعد میں وزیر جنگلات بھی رہے۔مرحوم ضیاء الدین انصاری۔شاہ بانو کے مقدمے کا تازہ تازہ فیصلہ آیا تھا اور پورے ملک کے طول و عرض میں سلم پرسنل کے لئے مسلمانوں نے ہنگامہ مچا رکھا تھا۔مرحوم نے پارلیمنٹ میں پرسنل لاء کی حمایت میں گرما گرم تقریریں کردیں۔بعد میں ان پر بڑے رکیک الزامات لگائے گئے ۔انھوں نے استعفیٰ دے دیا ۔کہتے ہیں کہ اسی صدمے نے ان کی جان لے لی۔ایک اور ایم پی ہوا کرتے تھے یونسسلیم۔ان کے دل میں بھی قوم کا بڑا درد تھا ۔انھیں بھی بے آبرو ہو کر کوچہء سیاست سے نکلنا پڑا تھا۔عبدالرحمٰن انتولے کاواقعہ تو بس ایک دہائی پرانا ہے۔یہ وہ شخص تھا جو اندرا گاندھی کے ساتھ اس وقت بھی کھڑا رہا جب سارے کانگریسی اندرا کا ساتھ چھوڑ گئے تھے ۔مگر ۱۱ْْ؍۲۶پر سوال اٹھانے کے جرم میں اسے No Where کرکے چھوڑ دیا گیا حالانکہ ۱۱؍۲۶پر سوال اٹھا کر تو سنگھ پریوار کو نقصان پہونچایا جا سکتا تھا۔اور پرانی باتیں کیوں؟کیا آج کانگریس پوری مسلم لیڈرشپ صاف نہیں کر چکی ہے؟جعفر شریف،رفیق زکریا وغیرہم کی سطح کا کوئی لیڈر کہیں نظر آرہا ہے؟آج کانگریس میں جو بھی مسلمان نظر آرہے ہیں وہ خود اپنے لیڈر ہیںاور ’’موم کی ناک ‘‘ہیں۔

  آج مسلم پرسنل کا مسئلہ جہاں پہونچ چکا ہے وہ بھی کانگریس ہی کی مہربانی ہے۔کانگریس اگر چاہتی تو مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کا راستہ برسوں پہلے بند ہو جاتا۔مگر برہمن مقتدر کی بی ٹیم کو غذا اور مسلمانوں کو ستانے کا موقعہ ملتا رہے ،ہندؤں میں ان کا اسکور بڑھتا رہے اس لئے یہ مسائل جان بوجھ کر زندہ رکھے گئے ورنہ ٹو پارٹی سسٹم وجود میں آتا کس طرح؟ایسا ہی معاملہ انسداد فرقہ وارانہ بل کا بھی ہے ۔کانگریس نے ۲۰۰۴ کے انتخابات کے دوران اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا کہ فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لئے ایک قانون بنائے گیمگر یہ ایک لالی پاپ تھا ۔مسلمانوں کے مفادات میں یا تو کوئی بل پاس نہیں ہوتایا پھر برسوں لگ جاتے ہیں پاس ہونے میں۔اور ایسا اسلئے ہے کہ کانگریس کی ڈرائیونگ سیٹ پر جو طبقہ ہے وہ اندر سے خاکی چڈی ولا ہے۔اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ کانگریس جیتی ہے یا مرتی ہمیںاس سے کیا؟ہماری بھلائی اسی میں ہے کہ ہم کانگریس اور بی جے پی مکت بھارت کے لئے جدو جہد کریں۔ہم میں اب مزید آزمائش کیطاقت نہیں۔پھر حضور ﷺبھی فرماگئے ہیں کہ ۔۔مومن ایک سوراخ سے دوبارہ ڈسا نہیں جاتا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔