مرحوم

افتخار راغبؔ

مال و دولت بھی ہمارے پاس ہے

ہر سہولت آج ہم کو راس ہے

اپنی عظمت کا بھی کچھ احساس ہے

کامرانی کی بھی دل کو آس ہے

ہاں مگر وہ دبدبہ باقی نہیں

عزم ہے پر حوصلہ باقی نہیں

ہم کئی فرقوں میں بٹ کر رہ گئے

ذات تک اپنی سمٹ کر رہ گئے

اہلِ دنیا دیں سے ہٹ کر رہ گئے

اہلِ دیں دنیا سے کٹ کر رہ گئے

دین و دنیا لے کے چلنا تھا ہمیں

وقت سے آگے نکلنا تھا ہمیں

دنیا داری کے نشے میں چور ہم

فہم سے قرآن کی ہیں دور ہم

آپ ہی گڑھنے لگے دستور ہم

کیوں نہ ہوں پھر بے کس و مجبور ہم

کم نسب آنکھیں دکھاتے ہیں ہمیں

جانور جینا سکھاتے ہیں ہمیں

خیر خواہی جب بھی دکھلاتے ہیں وہ

مسئلوں میں ہم کو الجھاتے ہیں وہ

بن بلائے ہی چلے آتے ہیں وہ

جانے کیا کیا نوش فرماتے ہیں وہ

حکمراں ہو کر بھی ہم محکوم ہیں

چلتے پھرتے ہیں مگر مرحوم ہیں

تبصرے بند ہیں۔