افتخار راغبؔ
پچیس بار ہار چکا ہوں میں انتخاب
"کب سے ہُوں کیا بتاؤں جہانِ خراب میں”
…
اک روز ہی ہوا ابھی میکے گئے ہوئے
"آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں”
…
اَن کے مطالعے میں ہے اب صرف فیس بک
"میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں”
…
جز آب اور کیا ہے یہاں جو ہے شک تمھیں
"ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں”
…
آفس سے مسڈ کال بھی دینے لگے ہیں لوگ
"ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں”
…
پہلی سہاگ رات ہی کی طرح اب کے بھی
"جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں”
…
کرنی پڑے گی پھر مجھے دوبارہ استری
"ہے اک شکن پڑی ہوئی طرفِ نقاب میں”
…
کس نے غزل سنائی ترنم میں چیخ کر
"جس نالے سے شگاف پڑے آفتاب میں”
…
بے بحر شاعروں کو بھی یارب عطا ہو وہ
"جس سِحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں”
تبصرے بند ہیں۔