مرزا غالب کی غزل پر شگفتہ تضمین

افتخار راغبؔ

پچیس بار ہار چکا ہوں میں انتخاب

"کب سے ہُوں کیا بتاؤں جہانِ خراب میں”

اک روز ہی ہوا ابھی میکے گئے ہوئے

"آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں”

اَن کے مطالعے میں ہے اب صرف فیس بک

"میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں”

جز آب اور کیا ہے یہاں جو ہے شک تمھیں

"ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں”

آفس سے مسڈ کال بھی دینے لگے ہیں لوگ

"ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں”

پہلی سہاگ رات ہی کی طرح اب کے بھی

"جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں”

کرنی پڑے گی پھر مجھے دوبارہ استری

"ہے اک شکن پڑی ہوئی طرفِ نقاب میں”

کس نے غزل سنائی ترنم میں چیخ کر

"جس نالے سے شگاف پڑے آفتاب میں”

بے بحر شاعروں کو بھی یارب عطا ہو وہ

"جس سِحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں”

تبصرے بند ہیں۔