ختم ہونے کو اب کہانی ہے

افتخار راغبؔ

ختم ہونے کو اب کہانی ہے

اے انا تیری مہربانی ہے

دل ہے سینے میں یا دیارِ شوق

یا محبت کی راجدھانی ہے

تم نے دیکھا ہے میری آنکھوں میں

خوش گمانی ہی خوش گمانی ہے

 اتفاقاً تھا تجھ کو پانا بھی

تجھ کو کھونا بھی ناگہانی ہے

 میرے صحرا میں لائیے تشریف

گر مری خاک ہی اڑانی ہے

 کیا نظر آگیا خدا معلوم

دیدہء آگہی میں پانی ہے

میری آنکھوں میں صرف وہ راغبؔ

اُس کی آنکھوں میں بے کرانی ہے

تبصرے بند ہیں۔