امتحان سے گزرتی اہل غزہ کی خوں آلود عید

ڈاکٹر ایاز احمد اصلاحی

آج غزہ سے تعلق رکھنے والے بعض فلسطینی دوستوں سے براہ راست بات ہوئی اور غزہ میں اسرائیل کے دہشت گرد و درندہ صفت فوجیوں کے ہاتھوں  ہوئے تازہ قتل عام  پر تفصیل سے تبادلہ خیال ہوا، اس گفتگو کے دوران انھوں نے کہا ہم اپنی آزادی و تحفظ اقصی کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے، اور "ہمیں معلوم ہے کہ اپنے وجود کی بقاء کے لئے  ہمیں اپنی جنگ خود لڑنی ہے اور ہمارا سب سے بڑا سہارا بس ہمارا خدا ہے، نعم المولی و نعم النصیر، حسبنا اللہ و نعم الوکیل”۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ اسی غزہ کے بہادر سپاہی ہیں ، جس کا غاصب و ظالم اسرائیل نے 2007  سے مسلسل   فضائی، بحری اور بری محاصرہ کر رکھا ہے؟

  یہ وہی غزہ ہے جس کو اہل عرب و عالم اسلام نے مرنے کے لئے تنہا چھوڑ دیا ہے، یہ وہی غزہ ہے جو حماس کی غیور اسلامی قیادت میں اپنے اور القدس دونوں کے تحفظ کے لئے ایک دہائی سے زائد مدت سے بے سرو سامانی کے عالم میں بھی اسرائیل کے بالمقابل سینہ تانے کھڑا ہے؟  اب حال یہ ہے کہ سعودیہ سمیت بیشترعرب ممالک اس فلسطینی شہر کی کوئی فوجی و سیاسی مدد کرنا تو دور کی رہی، وہ اسرائیل  کے مقابلے میں کسی بین الاقوامی پلیٹ فارم سے، سفارتی سطح پر ہی سہی، اپنے ان مظلوم بھائیوں کی  ادنی و رسمی حمایت کا بھی حوصلہ نہیں دکھا پا رہے ہیں، مسئلہ فلسطین سے ان کے اس گریز کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت انھیں اپنے مظلوم بھائیوں کی حمایت کے مقابلے میں اپنے امریکی و صہیونی آقاؤں اور ہم نوا دوستوں کو راضی رکھنا زیادہ ضروری محسوس ہو رہا ہے۔ اس صورت حال سے شہ پا کر  اب اسرائیل  بھی ظلم و جبر کی تمام حدیں پار کر تا جا رہا  ہے، اب تو اس  کا جب جی چاہتا ہے وہ بس ایک راکٹ کا بہانہ بناکر اس ساحلی شہر پر دہشت گردانہ حملہ کرکے وہاں کے بے قصور باشندوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا اور آباد محلوں کو کھنڈر میں تبدیل کر دیتا ہے۔

2008 سے 2014 تک اس کی طرف سے غزہ پر تین باقاعدہ حملے ہو چکے ہیں، اس کے علاوہ جب بھی اس کے فو جیوں کا جی چاہتا ہے وہ غزہ سرحد پر موجود عام بے گناہ فلسطینیوں پر گولیاں چلا کر انھیں ہلاک و زخمی کر تے رہتے ہیں۔۔ وہ ہر روز غزہ کے اس پار بسے نہتے فلسطینیوں اور ان کی کشتیوں کو اپنی توپوں اور بندوقوں کا نشانہ بناتے ہیں اور جب بین الاقوامی سطح پر فلسطینیوں پر اس کے مظالم کے خلاف احتجاج ہو تا ہے تو یہ یہ نا جائز صہیونی ریاست بڑی بے حیائی سے اس کی کوئی نہ کوئی تاویل کر لیتی ہے۔14 مئی کو رونما ہونے والا وہ خونی واقعہ بھی غزہ کے ساتھ برسوں سے روا رکھی گئی، اسی صہیونی بربریت کی ایک تازہ مثال ہے جسے وقوع پذیر ہوئے ابھی زیادہ دن نہیں گذرے ہیں، اور جس میں اب تک100 سے زائد  فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔

 یہ کھیل اسی وقت سے جاری ہے جب غزہ نے انتفاضہ کے بل پر 2005  میں اسرائیل سے آزادی 5 ( Israeli disengagement from Gaza) حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی، گو کہ انٹرنیشنل دباؤ اور انتفاضہ کے خوف سے اس شیطانی صہیونی قوت نے غزہ و غرب اردن سے اپنا قبضہ وقتی طور سے اس وقت ہٹا تو لیا تھا  لیکن اس آزادی کو جان بوجھ کر "نیم خود مختاری” تک محدود رکھا گیا تا کہ یہ فلسطینی ریاست شیطانی صہیونی ریاست اور اس کے بڑھتے جرائم کے خلاف کبھی چیلنج نہ بن سکے۔

اپنے اسی  مکارانہ منصوبے کی تکمیل یا دوسرے لفظوں میں گریٹر اسرائیل کے ناپاک منصوبے کو پورا کرنے کے لئے اسرائیلی حکام آج بھی  ان دونوں غیر خود مختار علاقوں کو اسرائیل عظمی کا حصہ سمجھتے ہیں ، اسی لئے مصرو سعودیہ کو اس صہیونی مکر میں شامل کر کے اہل فلسطین کو صحرائے سینا میں بھیجنے اور وہیں پر انھیں ایک بے دانت جیسی قوم کی طرح بسانے کی تجویز برسوں سے زیر غور ہے۔   اس وقت اس مسئلے پر سعودی اور بعض دوسرے عرب حکمرانوں کے ساتھ اسرائیل مسلسل رابطے میں ہے اور اپنے روڈ میپ کے مطابق منزل کی طرف سازشانہ خاموشی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔

اس وقت غزہ بظاہر اسرائیل کی ایک بڑی جیل بنا ہوا  ہے، وہ ہر وقت اس کے بمبار طیاروں اور میزائلوں کی زد میں رہتا ہے، تجزیہ کاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ  تقریبا 10 سال سے غزہ میں کوئی بھی ایسا رمضان نہیں گذرا جب اسرائیل نے یہاں کے نہتے  فلسطینیوں کو بلا وجہ نشانہ بنا کر شہید یا زخمی نہ کیا ہو ۔ ان مظلوموں کے امتحان کا تازہ سلسلہ مئی میں شروع ہوا اور پورے رمضان وہ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا، مسلم دنیا پورے آرام و سکون سے افطار و سحر کرتی رہی اور غزہ کے  معصوم شہری غاصبوں کے ہاتھوں شہید اور زخمی ہوتے رہے،  تازہ ترین واقعہ 9 جون  کا ہے جب حیثم الجمال نامی چودہ سال کا کمسن بچہ اسرائیلی میزائل کے گولوں سے شہید ہوگیا، اس بچے کی ماں ورد الجمال کے یہ الفاظ کوئی کیسے بھول سکتا ہے جس نے عید کے دن اپنے بچے کو یاد کرتے ہوئے میڈیا والوں کو نمناک آنکھوں سےاپنے لخت جگر کے لئے خاص عید کے لئے رکھے نئے جوتے اور کپڑوں کو دکھاتے ہوئے  کہا کہ:

"یہ میری زندگی کی تاریک ترین عید ہے”۔

  غرہ میں اسرائلی دہشت گردی کی وجہ سے 14 مئی سے لیکر اب تک جاں بحق ہونے والوں کی تعداد130 اور زخمیوں کی تعداد 14000 سے آگے نکل چکی ہے۔  اس تازہ قتل عام کو چھٹ پٹ واقعات کے طور سے دیکھنا  بالکل غلط ہوگا، بلکہ میں تو اسے  غزہ پر اسرائیل کے چوتھے حملے کے طور سے دیکھتا ہوں، اس حملے کی شدت اور اسرائیل  کی خطرناک عسکری جارحیت کی وجہ سے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسے قاتلانہ اقدام  "Murderous Assault”کا نام دیا ہے۔

حالات بظاہر مایوس کن ہیں لیکن فلسطینیوں کی پر عزم باتوں اور یقین و ایمان سے بھرے ہوئے ان کے کلمات سن کر   مجھے اندازہ ہی نہیں یہ یقین ہے کہ جب  تک اہل اسلام میں فلسطینیوں کی طرح روح اسلام اور روح مزاحمت باقی رہے گی اس وقت تک مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے ثبوت کے لئے اسرائیلی قبضے کے خلاف 70 سال سے جاری کبھی نہ تھکنے والی فلسطینی جد و جہد کا نام لے لینا ہی کافی ہے، اب دیکھئے نا، پورے رمضان وہ سر حد پر تپتے صحرا میں ڈٹ کر القدس پر بڑھتے اسرائیلی قبضے اور وہاں بنے امریکی سفارت خانے کے خلاف اپنے غم غصہ کابے خوفی کے ساتھ  اظہار کرتے رہے، انھیں اپنی اس جرات کی ہر روز کوئی نہ کوئی قیمت چکانی پڑتی ہے،  یہاں تک کہ عین عید کے دن بھی، نماز عید کے چند گھنٹوں بعد ہی بزدل و بے شرم اسرائیلی فوجیں برج الاحمر کے قریب شہری مکانوں کے علاوہ فلسطینی تحریک آزادی حماس کے ٹھکانوں پر بلا کسی وجہ کے بمباری کرنے سے باز نہیں آئیں۔

لیکن آزاد و باغیرت قوم کی طرح اہل فلسطین نے پورے غزہ میں عید الفطر کا تیوہار بغیر کسی خوف کے منایا ، ان کے چہروں پر مایوسی کا ہلکا سا سایہ بھی دیکھنے کو نہیں ملا اور ان کے خطبات عید میں، ماضی کی طرح اس بار بھی، فلسطین و مسجد اقصی کی آزادی کی صدا پورے جوش و جذبہ کے ساتھ بلند ہوئی, حماس کے سربراہ اسمعیل.ھنیئہ جنھوں نے عام شہریوں کے ساتھ کھلے میدان میں نماز عید ادا کی،  نے اس موقع سے حماس کے ذریعہ جاری تحریک مزاحمت کی معنویت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ یہ ہمارا عزم و حوصلہ ہی ہے اور یہ فلسطینیوں کے حق واپسی اور محاصرہ غرہ کے اختتام کے لئے ہمارا مسلسل احتاج ہی ہے کہ جس کے سبب  آج  اقوام متحدہ طاقت کے بے جا استعمال پر اسرائیل کی  مذمت کر رہی ہے اور اس کے خلاف جنرل اسمبلی میں قرادادیں لائی جارہی ہیں۔

UN General Assembly resolution blaming Israel for the Gaza violence "shows that the marches of return and breaking the siege revived the Palestinian issue and imposed the issue on the international agenda” (The New Arab:15 June, 2018)

اس طرح حماس کے قائدین  نے عید کی مقدس ساعتوں میں آزادی فلسطین کے لئے اپنے مضبوط ارادوں کو ایک بار پھر دہرایا اور دشمن پر یہ واضح کردیا کہ اہل فلسطین اس کے مظالم سے گھبرا کر ہار نہیں مانیں گے اور جہاد آزادی یوں ہی جاری رہے گا۔ حماس کے مجاہد قائدین  سے اہل غزہ کی والہانہ محبت اس روز دیدنی  ہوتی ہے۔ اس عید کے موقع پر بھی مجھے غزہ کا ہر منظر ایمان افروز اور قائدین تحریک کا ہر لفظ حوصلہ بخش محسوس ہوا۔ ہم عید کے پر مسرت موقع پر اپنے جانباز فلسطینی بھائیوں کو اپنا سلام پیش کرتے ہیں اور صہیونی دشمنوں کے مقابلے میں ان کی کامیابی کے لئے رب العزت سے دعا کرتے ہیں۔ اللہ کی مدد قریب ہے۔ ان شاء اللہ۔

نوٹ:

 فلسطین پر میری تازہ تحریر، جو فیس بک اور ویب سائٹ دونوں پر موجود ہے،کے حوالے سے کچھ دوستوں کے درد انگیز  تبصروں  کے نتیجے میں یہ چند مصرعے بھی اسی موضوع سے تعلق رکھتے ہیں،  شعور سے شعر کی منزل تک پہنچنے میں دل کو درد ،ٹیس  اور سوز دروں کے کتنے ہی مرحلون سے گذرنا پڑتا ہے تب جا کر معانی الفاظ کے قالب میں ڈھلتے ہیں۔ یہ چند اشعار اپ بھی ملاحظہ فرمائیں:

آج  پھر  درد کا طوفان  ہے آیا دل میں
آج  پھر شور  قیامت کا ہے برپا دل مین 
میں نے ہر لفظ میں اک زخم چھپا رکھا ہے
آج اقصی کے شہیدوں کا ہے میلا دل می
اس کی تعبیر  میں تسخیر جہاں مضمر ہے 
میں نے ایسا بھی ہے اک خواب بسایا دل میں
اس کی تنویر سے روشن ہے ابھی  شام حرم
میں نے ایسا بھی ہے اک دیپ جلایا دل میں

تبصرے بند ہیں۔