مریض عشق ہوں میں، دوائی دے دے 

  حبیب بدر

مریض عشق ہوں میں ، دوائی دے دے 
پیاس سے خشک ہے یہ لب، پانی دے دے 

ستمگر بہت ہیں یاں  اہل کرم کے بھیس میں 
ستم کرتے ہی رہیں گے انھیں رسوائی دے دے 

بہت رسوائی ملی دنیا کو اپنا بنا کر مجھے
بہت عزت ملے گی گر تو تنہائی دے  دے  

فراق یار میں مرغ بسمل سا تڑپا ہوں میں 
وصال دوبارا نہ ہوں تو اورجدائی دے دے

ہر شخص مبتلا ہے خود غرضی میں  اے خدا
نکما میں ہی بچا مطلب کی خدائی دے دے 

تبصرے بند ہیں۔