مریم جمیلہ: مغر ب کی بے باک ناقد

سہیل بشیر کار

گذشتہ صدی سے مغربی تہذیب نے اگرچہ اہل مشرق کی زندگیوں کو کافی زیادہ متاثر کیا ہے۔ تاہم عالم اسلام کے مفکرین نے مغرب کی تہذیبی بنیادوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ خود مغرب سے عالم اسلام کو ایسے افراد ملے جنہوں نے نہ صرف اپنی تہذیب کے کمزور پہلوؤں سے لوگوں کو آگاہ کیا بلکہ دلائل سے ثابت کیاکہ اسلام کی تہذیب کس طرح مغربی تہذیب سے بہتر ہے۔ جہاں مغرب سے عالم اسلام کو محمد پکتھال، محمد اسد اور مراد باف مین جیسے جلیل رجال ملے، وہی خواتین میں مریم جمیلہ جیسی عظیم خاتون بھی ملیں۔

اسلام قبول کرنے سے قبل مریم جمیلہ کا نام مارگریٹ مارکوش تھا۔ ۱۹۳۴ء میں جرمنی کے یہودی خاندان میں پیدا ہوئیں ۔ تلاش حق کے کے بعد نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ ہجرت بھی کی۔ مریم جمیلہ نے جہاں اپنے کردار سے اسلام کی دعوت کوپیش کیا، وہیں ۳۴کتابیں اور ۲۰۰ سے زائد کتابوں پر تبصرہ بھی کیا۔ مریم جمیلہ کی تحریر کی خاص بات یہ ہے کہ وہ بات دلائل سے کرتی ہیں لیکن کہیں بھی معذرت خواہانہ لہجہ اختیار نہیں کرتی۔ چونکہ مغربی تہذیب میں پلی بڑی تھی لہذا مغرب کے سراب سے واقف تھی۔

اسی عظیم خاتوں کی زندگی پر ۴۸ صفحات پر مشتمل زیر تبصرہ کتاب ’’مریم جمیلہ مغرب کی بے باک ناقد‘‘ وادی کشمیر کے نوجوان اسکالر مجتبیٰ فاروق نے لکھی ہے۔ عزیزی مجتبی فاروقؔ ہندوستان کے مشہور تحقیقی ادارہ ’تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ ‘سے وابستہ ہیں ۔آئے دن موصوف کے مضامین برصغیر کے مختلف جرائد اور رسائل اوروادی کے مؤقراخباروں بالخصوص ’کشمیرعظمٰی‘اور’مومن‘ میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔زیر تبصرہ کتاب کو مصنف نے دو ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ باب اول میں حیات و خدمات اور باب دوم میں مریم جمیلہ کے اہم افکار کا جائزہ پیش کیا ہے۔موصوفہ کے بچپن کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ اُنہیں بچپن سے ہی تلاش حق تھی، لکھتے ہیں : ’’مارگیٹ بچپن ہی سے متلاشی ذہنیت، سنجیدہ اور حساس واقع ہوئی تھیں ۔ وہ ہر وقت لائبریری میں کتابوں کے ڈھیرمیں غرق رہتی تھیں ۔ ‘‘(صفحہ ۹ )

موصوفہ نے حق کی تلاش میں اپنے آبائی مذہب یہودیت اور دیگر مذاہب کا مطالعہ کیا لیکن ذہنی تسکین نہ ملی۔ تلاشِ حق میں انہوں نے عربوں کی تاریخ پڑھنی شروع کی وہ لکھتی ہے، ’’عربوں کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت کے متعلق پبلیک لائبریریوں میں جس قدر کتابیں ملیں ، میں نے پڑھ ڈالیں ، باوجود ان کتابوں کے اکثر مضامین کا لب و لہجہ بڑی حد تک معاندانہ تھا۔ان کتابوں کے مطالعہ سے یقین ہو گیا کہ عربوں کے خلاف یہودیوں کا پروپگنڈا یکسر نا انصافی پر مبنی ہے۔ ‘‘(صفحہ ۱۰ )۔

۱۹۵۳ء میں موصوفہ سخت بیمار ہوتی ہے انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے آخری ایام گزار رہی ہے لیکن اس دوران بھی ان کی حق کی تلاش جاری رہتی ہے۔ عزیزی مجتبیٰ فاروق اپنے کتاب میں مریم جمیلہ کے حوالے سے لکھتے ہیں ۔’’ مجھے لگ رہا تھا کہ میں سمند ر میں تیر رہی ہوں ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں اور کہاں جاؤں ؟ میری حا لتِ زار پرنہ اصلاح یافتہ یہودیت، نہ بنیاد پرست یہودیت اور نہ اتھیکل کلچر اور بہایت نے کوئی تسکین اور دلاسہ دیا۔‘‘( صفحہ ۱۱ )

اس دوران انہوں کے قرآن کریم کا مطالعہ شروع کر دیا پہلے انہیں ایک عیسائی عالم کا ترجمہ کیا ہوا قرآن ملا لیکن جلد ہی انہیں مشہور نو مسلم اور عظیم مترجم محمد مرڈیوک پکتھال کا ترجمہ ملا۔ مصنف لکھتے ہیں ’’ تلاش حق کے دوران ان کو ایک دن ایک دکا ن پر محمد مرڈیوک پکتھال کا ترجمہ قرآن ملا اس کے دیبایچہ اور متن کو پڑھ کر وہ بے حد متاثر ہوئیں اور ان کو وحی الٰہی سے حقیقی آگاہی ہوئی۔ (صفحہ ۱۲ )

اس ترجمہ سے انہوں نے خوب استفادہ کیا اور ساتھ ہی عبداللہ یوسف علی اور مولانا عبدلماجد دریا آبادی کے تراجم کا بھی مطالعہ کیا۔ ساتھ ہی مشہور نو مسلم محمد اسد کی کتا ب Road to Maccaکا مطالعہ کیا قبول حق کی اس کہانی سے وہ اسلام کی بہت قریب آئی اس کے بعد انہوں نے سیرت کا بھی گہرائی سے مطالعہ کیا۔ قرآن پاک کے بارے میں مریم جمیلہ کی سوچ کاتزکرہ کرتے ہئے مصنف لکھتے ہیں ۔ ’’ اس نے میری زندگی کے اُن تمام سوالوں کا جواب فراہم کر دیا جن کا مجھے کہیں جواب اور نہیں مل سکتا تھا۔‘‘(صفحہ ۱۴ )

اس دوران اِن کو عالم اسلام کے عظیم مفکر مولانا مودودیؒ کا ایک مضمون زند گی بعد موت کا ترجمہ Life After Deathپڑھنے کا موقع ملا۔ مضمون سے وہ بہت متاثر ہوئی اور مولانا مودودی سے رابطہ قائم کیا۔ موصوفہ نے مولانا کو کئی خطوط لکھئے۔ جن کا مولانا نے تفصیلی سے جواب دیا۔ یہ خطوط کتابی صورت میں دستیا ب ہے۔ ۲۴ مئی ۱۹۶۱ ؁ء کو مارگیٹ مارکوس نے قبول اسلام کااعلان کیا اور اپنا نام مریم جمیلہ پسند کیا۔ مریم جمیلہ قبولِ حق کے بعد کہتی ہے ’’ میں نے اسلام اپنے آباء و اجداد کے میراث اور قوم سے نفرت کی بنیاد پر قبول نہیں کیا، بلکہ میری خواہش کے پیچھے تکمیل کا جذبہ کار فر ما تھا۔‘‘(صفحہ ۱۶ ) وہ مزید لکھتی ہے ’’ میں نے قریب المرگ مذہب کو چھوڑ کو ایک ایسے متحرک، آفاقی اور انقلابی مذہب کو اختیار کیا ہے جو عالم گیر اقتدارِ اعلیٰ سے کم تر کسی چیز پر قناعت نہیں کر تا۔ ‘‘(صفحہ۱۶ )

مولانا مودودی ؒ نبض شناش تھے انہوں نے مریم جمیلہ کے خطوط سے ہی اندازہ کیا تھا کہ اس بچی میں کافی صلاحیتیں ہیں اور ان صلاحیتوں کے پروان چڑنے اور مغربی تہذیب کو جواب دینے کے لیئے اُنہیں پُرسکون ماحول کی ضرورت ہے۔ اس بات کے پیش نظر مولانا، مریم جمیلہ کو پاکستان ہجرت کرنے کی دعوت دیتے ہیں جو کہ مریم جمیلہ قبول کرتی ہے۔ مجتبیٰ فاروق لکھتے ہیں ’’ اسلام کی خاطر ہجرت اپنے آپ میں ایک بہت بڑی قربانی ہے جو اس عظیم خاتون نے دورِ حاضر میں پیش کی۔ انہوں نے اسلام کی خاطر سب کچھ ترک کر دیا، گھر کی آسائشیں چھوڑ دیں ۔ زیب و ذینت سے منہ موڑا۔ ظاہری چمک دمک سے لیس مغربی تہذیب کو ٹھکرایا۔ مغربی فکرو عمل سے بے نیازی کی راہ اپنائی۔ انہوں نے نہ صرف اپنا ملک، اپنی زبان اور اپنے وطن کو خیر باد کہا بلکہ سب سے بڑھ کر اپنے والدین اور اعزا و اقرباء کو چھوڑا۔‘‘( صفحہ ۱۸ )

قبول حق کے بعد انہوں نے مثالی زندگی گزاری وہ پیکر عمل تھی۔ مولانا مودودی ؒ کے مشورے پر ان کا نکاح جماعت اسلامی کے ایک کارکن محمد یوسف خان سے ہوا۔ جن کے عقد میں پہلے سے ہی ایک بیوی تھی لیکن عمل کی اس پیکر خاتون نے مثالی ازدواجی زندگی گزاری۔ اُن کی بیٹی مایہ خانم کہتی ہے ’’وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے فکر مند رہتی اور اس کام کو سب سے اہم سمجھتی تھی۔ ‘‘(صفحہ ۲۱ )

۳۱ اکتوبر ۲۰۱۲ ؁ ء کو ۷۸ سال کی عمر میں اُن کا انتقال ہوا اور ان کی وصیت کے مطابق اُن کی تدفین اُن کے سوکن کے پا س کی گئی۔ باب اول میں ہی عزیزی مجتبیٰ فاروق نے مریم جمیلہ کی لکھی ہوئی ۱۷ کتابوں کا مختصر تعارف بھی خوبصورت طریقے سے پیش کیا ہے۔

باب دوم میں مصنف نے مریم جمیلہ کے افکار کا مختصرمگر بھر پور جائزہ ۸ ذیلی عنوان کے تحت لیا ہے۔موصوفہ کے فکری کارناموں کا جائزہ لیتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں ’’ انہوں نے اپنی تحریروں میں کبھی معذرت خواہانہ انداز اختیار نہیں کیا، ہمیشہ باطل افکار و نظریات کے خلاف اقدامی رُخ اختیار کیا۔ ان کی تمام تحریریں مصلحت پسندی سے پاک ہیں ۔ وہ ایسی داعیہ اور مصنفہ ہیں جنہوں نے ایک طرف مغربی تہذیب کی نظریاتی اور فکری بنیادوں پر انتہائی بے باکی سے حملے کئے تو دوسری طرف بہترین قوتِ استدلال کے ذریعے اسلام کی نظریاتی اور فکر ی بنیادوں کی قرآن و سنت پر مبنی تشریح و توضیح کی۔ تیسری جانب انہوں نے عصرِ حاضر کے سلگتے ہوئے مسائل کا حل پیش کیا۔‘‘(صفحہ ۲۷)

اُس وقت عالم اسلام جدیدیت سے کافی مرعوب تھا۔ موصوفہ ہمیشہ عالم اسلا م کی مغرب سے متاثر ہونے والے مفکرین سے ہمیشہ نالاں تھیں اور انہوں نے اُن کی کُھل کر تنقید بھی کی۔ وہ لکھتی ہے ’’ یہ تمام جدیدیت پسند اپنے اپنے حالات کے ادنیٰ درجے کی پیدوار ہیں ۔ اس پر مستزادیہ کہ احساس کم تری میں مبتلا ہیں ۔ اسی سبب سے وہ مغربی سامراجیت کے پنجۂ استبداد کی تذلیل کو قبول کرنے کے بعد مشرق پر پوری طرح چھا گئے۔ ‘‘(صفحہ ۴۲ )

مریم جمیلہ جدیدیت سے مرعوب مفکرین کو مشورہ دیتی ہے۔’’ ہمیں نہ صرف دفاعی پوزیشن میں رہنے سے گریز کرنا چاہئے، بلکہ اقدامی انداز اختیار کرنا چاہئے اور قرآن و سنت کو حکم بنا کر مسائل کا حل پیش کرنا چاہئے۔ یہی وہ واحد علاج ہے جو نوعِ انسانی کو تباہی اور اجتمائی خود کشی سے بچا سکتا ہے۔‘‘(صفحہ ۴۳ )حالانکہ وہ ٹکنالوجی کے خلاف نہ تھی مگر انہیں مغرب کی فکری زعم میں مبتلا ہونا پسند نہ تھا مصنف پروفیسر جان وول لکھتے ہیں ۔ ’’ مریم جمیلہ ٹکنالوجی سے استفادہ کی حامی ہیں ، لیکن جدیدیت پسندوں کے فکری مغالطوں کے خلاف ہیں ۔‘‘(صفحہ۸ ۲ )

موصوفہ چاہتی تھی کی امت اعلیٰ تعلیم حاصل کریں لیکن یہ تعلیم انہیں اسلام سے دور نہ کریں ’’ مریم جمیلہ کا خیال ہے کہ قرآن و حدیث کی تعلیمات سائنس اور ٹکنالوجی کی راہ میں حائل نہیں ہیں ، چنانچہ وہ علم کی ہر شاخ کو حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’ حقائق پر مبنی علم نوع انسانی کی مشترکہ میراث ہے۔ اس میں امریکہ اور یورپ کی بالادستی ہے۔ ‘‘(صفحہ ۳۸ )

مسلمانوں کا نظام تعلیم کیساہو نا چاہئے اس سلسلے میں موصوفہ چاہتی تھی۔’’سب سے پہلے مساجد کو خصوصی اہمیت دینی چاہئے۔ جہاں سے ہم بچوں اور جوانوں کو تعلیم دے سکیں ۔ دوسری بات یہ کہ تعلیمی اداروں میں عربی زبان کو ترجیحی بنیادوں پر پڑھانا چاہئے اور اس کو قومی زبان کی حیثیت دینے کے ساتھ ذریعہ بیان Media of instructionبھی بنانا چاہئے۔ ہر بچے کو نہ صرف تجوید اور تلاوت بلکہ قرآنی آیتوں کو معنی و مفہوم بھی سکھانا چاہئے۔ تیسری بات یہ کہ قرآن کو پورے نصاب میں مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہئے اور دوسرے مضامین کو قرآن کے نظریہ کے مطابق پڑھانا چاہئے، تاکہ مذہب اور سیکولرزم (مادیت) کے درمیان فرق کو دور کیا جاسکے۔ اس طرح سے پورا نصاب تعلیم مکمل طور پر ہم آہنگ بن جائے گا۔(صفحہ ۳۷ ) عزیزی مجتبیٰ فاروق نے موصوفہ کے فکری کام کا جائزہ لیتے ہوئے اُن کی اسلامی تہذیب کے بارے میں بھی قاری کو آگاہ کیا ہے۔ ’’ اسلام ایک آفاقی دین ہے۔ اس کے دروازے تمام بنی نوع انسان کے لئے کھلے ہوئے ہیں ۔ یہاں دیگر مذاہب کے علم برداروں کے برعکس ہمیں پیشہ وار مبلغین کی ضرورت نہیں ، بلکہ ہر مسلمان بہ جائے خود ایک مبلغ ہے۔ ‘‘(صفحہ ۳۳ )

موصوفہ یہ جانتی تھی کہ علمائے کرام کو اُمت کی تعمیر میں اہم رول نبھانا ہے لیکن موجودہ دور کے علماء سے انہیں شکوہ بھی تھا۔’’ جب مغرب کی مادی برتری ظاہر ہو گئی تب علماء سے ایک فاش غلطی ہوئی کہ وہ مغربی فکر و تہذیب کا مقابلہ کرنے کے بجائے باہمی مسلکی اختلافات میں اُلجھ گئے۔ ‘‘(صفحہ۴۳ ) موجودہ حالات میں وہ علماء کو اپنے ذمہ داری یا د دلاتے ہوئے لکھتی ہے ’’ وہ فروعی مسائل کو بالائے طاق رکھ کر اُمت کے نازک حالات کو بھانپ کر قرآن و حدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کی بھر پور رہنمائی کریں ۔‘‘( صفحہ ۴۴ ) اور ساتھ ہی وہ علماء کرام کو اپنے عظیم ماضی کی یاد بھی دلاتی ہے۔ ’’ ہماری تاریخ مین علماء ہمیشہ عیش و عشرت اور راحت و طمانیت کی زندگی سے دور اور صبر و استقامت کے ساتھ شدائد و آلام برداشت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ امام ابوحنیفہ ؒ، امام مالک ؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام ابن تیمیہؒ، اور شیخ مجدد الف ثانی ؒ جیسی عبقری شخصیات نے اہل باطل کے غلط افکار کی توثیق کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔ اسی کردار کو آج بھی ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ‘‘(صفحہ۴۴)

مصنف نے مریم جمیلہ کے اہم افکار کے تحت عور ت اور اسلام، اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کا بھی مختصر جائزہ لیا ہے۔ اتنے مختصر صفحات اور عام فہم اسلوب میں عالم اسلام کی مایہ ناز عالمہ اور مجاہدہ کی زندگی اور افکار کا جائزہ لینا مصنف کا کمال ہے۔ مصنف مبارکباد کے مستحق ہے ان کی یہ کتاب ہندوستان کے مشہور اور معتبر ادارہ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ امید ہے یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی۔

تبصرے بند ہیں۔