مری حقیقت مری کہانی سے مختلف ہے

احمد کمال حشمی

یہ خامشی ہے، یہ بے زبانی سے مختلف ہے
یہ لفظ اپنے سبھی معانی سے مختلف ہے

جو نقش اول ہے نقش ثانی سے مختلف ہے
مری حقیقت مری کہانی سے مختلف ہے

نہ بام اپنا، نہ در ہے اپنا، نہ گھر ہے اپنا
یہ لامکانی ہے، بےمکانی سے مختلف ہے

مرے لبوں پر جو مسکراہٹ تھی، وہ نہیں اب
نئی جو تصویر ہے، پرانی سے مختلف ہے

ہے اہلِ دیروحرم نے دیروحرم میں لکھا
ندی کا پانی ندی کے پانی سے مختلف ہے

غریب کے دل میں بھی تمنا جواں ہے، لیکن
کنیز ہے وہ، محل کی رانی سے مختلف ہے

حسیں بہت ہیں مگر وہ سب سے الگ حسیں ہے
سمجھ لو جیسے شراب پانی سے مختلف ہے

بغیر سینچے غموں کی فصلیں نمو ہیں پاتی
یہ دل کی کھیتی تو باغبانی سے مختلف ہے

کماؔل اِس میں خسارہ ہے، فائدہ ہے اُس میں
غزل کا لہجہ قصیدہ خوانی سے مختلف ہے

تبصرے بند ہیں۔