دو پیمانے

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

فریدہ بانوکی جوان پیشانی پردوبیٹوں کی پیدائش کے بعدہی بیوگی کاایسازخم لگا، جس نے دن میں ہی اُسے تارے دکھادئے، فریدہ بانوکی شادی کے ابھی صرف چار سال ہی ہوئے تھے کہ اُن کے شوہراس دارِفانی سے کوچ کرگئے اورشادی کے موقع سے سجائے ہوئے حسین خوابوں کامحل ا چانک زمیں بوس ہوگیا، اس کی حالت اس پودے کی سی ہوگئی، جس میں ابھی صرف دوکلیاں ہی چٹخ پائی تھیں کہ جڑسے اکھاڑبھینک دیاگیا۔

وہ ہروقت روتی رہتی، اپنی بیوگی سے زیادہ رونااپنے ان دوبچوں پرتھا، جوابھی موت وحیات کی کشمکش سے بالکل ناواقف تھے؛ لیکن مرورِ ایام اوراعزہ واقرباکی تسلی آمیز کلام نے زخم کومندمل کرنے میں بڑی مددکی اورتقریباً تین چار مہینے میں وہ اس قابل ہوسکی کہ مصافِ زندگانی میں استقامت اختیارکرسکے۔

فریدہ بانوکے شوہربہت زیادہ دولت مندتونہیں تھے؛ البتہ کچھ زمین جائدادتھی،جوپُرکھوں سے ملی ہوئی تھی، انہی میں فریدہ بانوکواپنے اوراپنے بچوں کے لئے ایساکیمیاء تلاش کرناتھا، جوآتشِ بھوک کومٹااورتعلیم وترقی کے لئے ذریعہ بن سکے، ا یسے کیمیاء کوتلاش کرنافریدہ بانوکے لئے کوہ کنی سے کچھ کم نہ تھا؛ لیکن اس کے سوا چارہ بھی تونہ تھا؛ چنانچہ اس نے ’’ہمت ِمرداں ، مددخدا‘‘ پربھروسہ کرتے ہوئے کشاورزی شروع کی، ابتدامیں توکافی پریشانیوں کاسامناکرناپڑا؛ لیکن پھریہ عادت بن گئی، اورجب کسی چیزکی عادت بن جاتی ہے توسخت ترین ہونے کے باوجودبھی وہ نرم ترین بن جاتی ہے، یہی فریدہ کے ساتھ بھی ہوااورشدہ شدہ کشتیِٔ حیات ساحل کی طرف بڑھنے لگی۔

فریدہ کے دونوں بچے بھی اب شعورکی منزل پرقدم رہے تھے؛ اس لئے فریدہ کواُن کی تعلیم کی فکردامن گیرہوئی، تا ہم اُس کے لئے یہ خوش آئندبات تھی کہ اس کے اپنے محلہ میں دینی تعلیم کانظم تھا، جہاں دوسرے علاقائی بچے بھی زیرتعلیم تھے، ایک دن فریدہ بھی اپنے دونوں بچوں کولے کروہاں کے ہیڈمعلم کے پاس پہنچی اوراُن کے داخلہ کی بات کی، یہ سن کرہیڈ معلم نے کہا:

’’ان بچوں کے لئے تومیں خودآپ کے پاس آنے والاتھا، اگربچے کچھ پڑھ لکھ جائیں گے تواچھاہوجائے گا‘‘۔

عمومی طورپردینی اداروں میں یتیم وغریب بچوں سے کسی طرح کی فیس نہیں لی جاتی ہے؛ بل کہ بعض دفعہ توحسب استطاعت اُن کے جیب خرچ کے لئے مدرسہ ہی انتظام کرتاہے، لہٰذاان بچوں کے سلسلہ میں ہیڈ معلم صاحب نے بھی کسی طرح کی کوئی فیس نہیں لی اورداخل کرلیا،جہاں ان دونوں نے پانچویں درجہ تک تعلیم حاصل کی، بچے چوں کہ ذہین تھے؛ اس لئے دوسرے اساتذہ بھی کافی خیال رکھتے تھے، مدرسہ میں چوں کہ پانچ ہی درجہ تک تعلیم ہوتی تھی؛ اس لئے اب خودان بچوں کو مزیدتعلیم کی فکرہوئی، جس کا اظہاران لوگوں نے ہیڈ معلم صاحب سے کیا، ہیڈ معلم صاحب نے ان کوتسلی دیتے ہوئے کہا:

’’تم لوگوں کوفکرمندہونے کی ضرورت نہیں ، انشاء اللہ میں تم لوگوں کاداخلہ دوسرے ادارہ میں کراؤں گا‘‘۔

ہیڈ معلم صاحب سے یہ خوش خبری سن کروہ بھی خوش ہوگئے اورمعلم صاحب کی رہنمائی میں داخلہ کی تیاری میں مصروف ہوگئے، پھرجب رمضان المبارک کامبارک مہینہ ختم ہوگیاتوہیڈمعلم صاحب نے دونوں کاداخلہ یوپی کے ایک بڑے ادارہ میں کرادیا، جہاں سے اُن لوگوں نے سندِفضلیت حاصل کی، پھردونوں الگ الگ اداروں میں تدریس کافریضہ انجام دینے لگے۔

اب فریدہ بانوکے دن پھرنے والے تھے، اس کے صبرکا میٹھاپھل ملنے والا تھا، اتنے سالوں سے اس نے جن پودوں کی سینچائی کی تھی، اب وہ پودے تناور درخت بن کرپھل دینے والے تھے، وہ خوش ہورہی تھی اوردل ہی دل میں ان ٹوٹے ہوئے خوابوں کوجوڑنے کاعزم کررہی تھی، جوشوہرکے اچانک انتقال کی وجہ سے ریزہ ریزہ ہوکررہ گئے تھے؛ لیکن پھریہ سوچنے لگی کہ اگرٹوٹے ہوئے خوابوں کوجوڑبھی دیں تودراڑتوباقی رہے گی، اُسے کس طرح ختم کیاجاسکتاہے؟

بہرکیف! اب دونوں بچے کھانے کمانے کے لائق ہوئے توگھرمیں بھی فراخی آئی، تاہم فریدہ بانوکوان کی شادی کی فکردامن گیرتھی، ایک دن جب بڑابیٹاچھٹیوں میں گھر آیاہواتھا، موقع کوغنیمت جان کرفریدہ بانونے کہا:

’’بیٹا! اب میں بوڑھی ہوچکی ہوں ‘‘، ابھی وہ اتناکہہ پائی تھی کہ بیٹے نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا:

’’کس نے کہاماں ؟تو توجوان ہے‘‘۔

لیکن بیٹے کی بات کوان سنی کرتے ہوئے اس نے کہا:

’’میری ہڈیاں بھی کمزورہوگئی ہیں ؛ اس لئے میں چاہتی ہوں کہ تمہاری شادی کردوں ‘‘۔

شادی کانام سن کربڑے بیٹے پرسکتہ طاری ہوگیا، وہ سمجھ نہیں پارہاتھاکہ خوش ہویا ماتم کرے؛ کیوں کہ اُسے معلوم تھا کہ یہ ایک ایسافلسفہ ہے، جسے نہ سمجھاجاسکتاہے اورناہی سمجھایاجاسکتاہے، اس نے کچھ لوگوں کوشادی کے بعدخوش باش دیکھاتھا، جب کہ کچھ لوگوں کوجگرپاش دیکھا تھا؛ اس لئے اسے سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ ماں کوکیاجواب دے؟ لیکن اُسے معلوم تھا کہ صاد کئے بناکوئی چارابھی نہیں ؛ اس لئے اس نے اپنی ماں سے کہا:

’’جوآپ بہترسمجھیں ‘‘۔

ماں بیٹے کا یہ جواب سن کرخوش ہوگئی اورلڑکی کی تلاش شروع کردی، کچھ ہی دنوں کے بعدقریبی گاؤں کی ایک لڑکی سے اپنے بڑے بیٹے کارشتہ پکاکردیا، پھرچھ مہینہ کے بعد اس سے اپنے بیٹے کی شادی رچادی۔

چھوٹے بیٹے کوابھی اس سے فارغ ہی رکھا، جوا س گھرکی ضرورت بھی تھی؛ کیوں کہ ابھی یہ گھردودوافرادکے اخراجات برداشت کرنے کامتحمل نہ تھا؛ اس لئے چھوٹابیٹا مکمل طورپرگھرکی ضرورت کی تکمیل کے لئے وقف رہا، وہ جوکچھ بھی کماتا، اپنی ماں کے اُن ہاتھوں میں رکھ دیتا، جوبیوگی کی چکی پیس پیس کرگھس چکے تھے، یہ سلسلہ تقریباً پانچ سال تک چلتارہا، پھرجب گھرکچھ خوش حال ہوگیاتوماں چھوٹے بیٹے کی شادی کے لئے فکرمندہوئی ، پھرایک اچھی سی لڑکی دیکھ کراس کی بھی شادی کرادی۔

چھوٹابیٹاشادی کے بعدبھی اپنے فرض کی ادائے گی میں سبک خرامی کے ساتھ جٹارہا، اب بھی وہ اپنی آمدنی ماں کے ہی ہاتھ میں دیتا، بیوی نے بھی کبھی اس کابرانہیں منایا؛ البتہ وہ آہستہ روی کے ساتھ کبھی کبھاراپنے شوہرسے یہ کہتی:

’’میری بھی کچھ ضرورتیں ہوتی ہیں ، کچھ روپے مجھے بھی دے دیاکریں ‘‘۔

بیوی کا یہ مطالبہ کچھ برابھی نہیں تھا؛ لیکن چھوٹابیٹا’’گھرگھرہستی‘‘ کے جس ٹٹوپرسوارتھا، وہ اسے کبھی زمین پرپیرہی رکھنے نہیں دیتاتھاکہ بیوی کی ضرورت کو’’ضرورت‘‘ سمجھ سکتا، حالاں کہ سسرال میں ایک بیوی کی ضرورت کی تکمیل کے لئے شوہرہی پرانحصارہوتاہے؛ کیوں کہ پورے سسرال میں وہی سب سے قریب ہوتاہے اورجوسب سے قریب ہوتاہے، اسی سے اپنی ضرورت کہی جاتی ہے؛ لیکن اگروہی قریب ترین آدمی بدل جائے توبھرے پورے ہونے کے باوجودسسرال ایک ایساصحرامعلوم ہونے لگتاہے، جہاں پیاس بجھانے کے لئے پانی کا ایک قطرہ نہ ہو، جہاں پیٹ بھرنے کے لئے جنگلی بیریاں تک نہ ملے اورجہاں سستانے کے لئے شجرسایہ دارنہ دکھائی دے؛ بل کہ ہرطرف ریت کے منھ کھولے ہوئے تودے نظرآئیں ، جوہواکی تندی کے ساتھ ساتھ آگے ہی کوبڑھتے آئیں۔

ایک دن چھوٹابیٹاگھرپرتھا، وہ سونے کی تیاری کررہاتھا، تبھی اس کے کانوں میں آوازآئی:

’’اماں ! چھوٹی کی شکایت چھوٹے بابوسے کی یانہیں ؟‘‘۔

’چھوٹی‘اور’چھوٹے بابو‘کے نام پرچھوٹابیٹاچونکا؛ کیوں کہ اس کی بیوی کوگھرپرچھوٹی کے نام سے ہی پکاراجاتاتھا، وہ سوچنے لگاکہ اُس کی بیوی نے ایساکیاکیا، جس کی شکایت اس تک پہنچانی تھی؟بھروہ متجسسانہ اندازمیں دیوارسے اورزیادہ قریب ہوگیا؛ تاکہ اپنی بھابھی اورماں کے درمیان ہونے والی گفتگوکوصاف طورپرسن سکے، ماں کی آواز آئی:

’’آج موقع ہی نہیں مل سکا‘‘۔

’’اماں ! موقع نکال کرچھوٹے بابوسے چھوٹی کی شکایت کرتے رہاکریں ، ورنہ چھوٹے بابوکوچھوٹی چھین لے گی‘‘، بڑی بہونے کان میں زہرگھولتے ہوئے اپنی ساس سے کہا۔

بھابھی کی یہ مسموم بات سن کرچھوٹے بیٹے کے پاؤں تلے کی زمین کھسکتی ہوئی معلوم ہوئی، اس کاسرگھومنے لگا، وہ سوچنے لگاکہ جس چیز کواب تک بھابھی کاپیارسمجھتارہا، وہ توبیوی سے دوررکھنے کاحیلہ تھااوروہ نادانستگی میں اس حیلہ کاشکارہوتارہا، اسے رات بھرنیندنہیں آئی، اب اسے اپنے کئے پرپچتاواہورہاتھااوراس پچتاوے کے دوران وہ ظلم بھی صاف دکھائی دے رہا تھا، جواس نے اپنی بیوی پراب تک روارکھاتھا، آج اسے اپنی بیوی کی قدر معلوم ہورہی تھی، پھراس نے ایک خاموش عزم کیا۔

اب اس نے اپنی آمدنی کوتین خانوں میں تقسیم کردیا، ایک حصہ کوتوماں کے لئے، جب کہ دوسرے حصہ کوبیوی کے لئے اورتیسرے حصہ کواپنی جیب خرچ کے لئے رکھ چھوڑا، اس ترتیب کے مطابق اس کی اگلے مہینے کی تنخواہ جیسے ہی گھرپہنچی، اندرونی طورپرایک قسم کاتناؤپیداہوگیا، بڑی بہونے توصاف کہہ دیا:

’’اب چھوٹے بابو کی تنخواہ پرچھوٹی دادِعیش دے گی اماں ! اورآہستہ آہستہ پوری تنخواہ اسی کے ہاتھوں آنے والی ہے‘‘۔

ہندوستانی معاشرہ کا یہ عجیب فلسفہ ہے کہ اگردامادبیٹی کے ہاتھ میں روپے دے توماں خوش؛ لیکن اگربیٹااپنی بیوی کے ہاتھ میں روپے دے توماں ناراض!اگربیٹی کی ہربات دامادمان لے توماں خوش؛ لیکن اگربیٹابیوی کی بات مان لے توماں ناراض!اوربسااوقات یہ دہرارویہ اس قدر شدت اختیارکرلیتاہے کہ ایک ماں دوپیمانے بنانے پرمجبور ہوجاتی ہے۔

بڑی بہوکی لگائی بجھائی کے نتیجہ میں ماں نے بھی چھوٹے لڑکے کے لئے اسی دہرے رویے کواپنالیا، اب بیٹے کی ہربات زہرکی پڑیامعلوم ہوتی، بیٹاجب کبھی چھٹیوں میں گھرآتااورماں کے ساتھ بیٹھ کرکچھ گفتگوکرنے کی کوشش کرتاتوماں جھلاجاتی اوراُٹھ کرچلی جاتی، چھوٹابیٹابھی ماں کے اندرکی تبدیلی سے بخوبی واقف تھا؛ لیکن یہ سمجھ سے بالاتر تھاکہ ایک ماں دوپیمانے کیسے بناسکتی ہے؟

تبصرے بند ہیں۔