پینشن

عباد الرحمن

وہ دیر تک سڑک پر کھڑا آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا رہا۔ اسے لگا کہ یہ لوگ پہلے ایسے نہیں تھے۔ اب ان میں کچھ مختلف تھا۔ لیکن کیا مختلف تھا اس کا اندازہ لگانے کے لئے اسے کچھ انتظار کرنا پڑا۔ اس انتظار میں اس کا ذہن ماضی کی بھول بھلیوں میں کھو گیا۔ یہ بھول بھلیاں کہاں سے شروع ہوتی تھیں اور کہاں ختم اس کا اسے کوئی اندازہ نہیں تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا تھا۔ گاؤں کیا تھا چند سو گھروں کا مجموعہ تھا۔ جس کے ارد گرد چاروں طرف کھیت تھے۔ دو طرف سیالبی ندیاں تھیں اور دو طرف نہریں۔

یہ نہریں اور سیلابی ندیاں گوروں نے بنائی تھیں۔ گوروں کا خیال آتے اس کا ذہن مین روڈ کی طرف مڑ گیا۔ مین روڈ بھی تو گوروں نے بنایا تھا۔ اور مین روڈ کے ارد گرد پھیلی عمارتیں۔ ہائی کورٹ، گورنمنٹ کالج، جی پی او اور میوزیم۔ کتنی عمارتیں تھیں جو گوروں کے جانے کے بعد بھی پوری شان و شوکت کے ساتھ مین روڈ پر آتے جاتے لوگوں کو اپنے بنانے والوں کی یاد دالتی رہتی تھیں۔ مین روڈ کی عمارتوں کے بعد اس کا ذہن پھر گاؤں کی طرف چال گیا۔ چاچا کریم ڈیرے میں چارپائی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ وہ چاچے کریم کے پاس نیچے سروٹ کی بنی ایک چٹائی پر بیٹھا تھا۔ "بیٹا گورے بہت اچھے لوگ تھے۔ وہ ہمیشہ ایسے کام کرتے تھے جن سے عا م لوگوں کی بھلائی ہوتی تھی۔ ان کے برعکس مسلمان بادشاہ ہمیشہ اپنے لئے محالت اور بارہ دریاں بناتے تھے۔” چاچا کریم ان پڑھ آدمی تھا۔ جوانی میں ریلوے میں ملازم تھا۔ اب اسے ریلوے سے ڈیڑھ سو روپے پنشن ملتی تھی۔ اس کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ سب کے سب شادی شدہ تھے۔ بیٹے تو اس کے ساتھ ہی رہتے قریبی گاؤں میں بیاہی تھی۔

پہلی کرنوں کے ساتھ گھر سے چارپائی اٹھائے ڈیرے میں آتا اور سورج کی آخری کرنوں تک وہیں بیٹھا حقہ پیتا اور آنے جانے والوں کے ساتھ گپ شپ کرتا۔ سردیوں میں وہ اپنی چارپائی ایسی جگہ جماتا جہاں دھوپ براہ راست پڑتی۔ جیسے جیسے دن گرم ہوتا اس کی چارپائی دھوپ سے درختوں کے سائے کی طرف سرکتی جاتی۔ گرمیوں میں وہ اپنی چارپائی درختوں کی چھاؤں میں بچھاتا۔ زیادہ گرمی ہوتی تو اپنا کرتا اتار لیتا۔ ورنہ کھلے میں ہونے کی وجہ سے کرتے میں ہونے کے باوجود ٹھنڈی ہوا کے مزے لوٹتا اور حقہ گڑگڑاتا رہتا۔ کاما صبح سکول جاتا تو دور سے چاچے کریمے کو سلام کرتا۔ چاچا بہتیرا کہتا کہ وہ چند لمحے اس کے پاس رک جائے لیکن وہ بغیر چاچے کریمے کے پاس رکے سکول چلا جاتا۔ تاہم سکول سے واپسی پر وہ فور ًا سکول سے ملے گھر کے کام والی کتابیں اٹھا کر ڈیرے میں چاچے کریمے کے پاس چال آتا۔ وہ چاچے کے پاس بچھی چٹائی پر اپنی کتابیں رکھ کے سکول کا کام کرنا شروع ہو جاتا۔ کام کے ساتھ ساتھ اس کی چاچے کے ساتھ گفتگو چلتی رہتی۔

چاچا جب بھی گوروں کی بات کرتا وہ ہمیشہ چاچے کو تنگ کرتا: "چاچا اگر گورے اتنے اچھے تھے تو تم گوروں کے ساتھ ان کے دیس کیوں نہ چلے گئے۔ یہاں ڈیرے میں بیٹھنے کی بجائے لندن میں کسی پارک میں بیٹھ کر حقہ پیتے۔” "اوئے کامے۔ تمہیں کیا پتہ کہ گورے کتنے اچھے لوگ تھے۔ اب دیکھو ناں۔ انہوں نے کیسا انتظام کیا تھا۔ میں ریلوے میں معمولی ملازم تھا۔ ریل کی پٹریوں پر صاحب کی ٹرالی دوڑاتا تھا۔ ساری عمر ٹرالی دوڑائی۔ ہمیشہ صحت مند رہا۔ کوئی بیماری قریب نہیں آئی۔ اب پچاسی برس کا ہو کر بھی نوجوانوں سے پنجہ لڑاتا ہوں۔ دن بھر حقہ پیتا ہوں۔ عزت سے بڑھاپا کاٹ رہا ہوں۔ ڈیڑھ سو روپوں میں میرا اور تمہاری چاچی کا اب بھی اچھا گزارہ ہوتا ہے۔ جب سے ملک آزاد ہوا ہے اور گوروں کی جگہ کالے انگریز حکمران ہوئے ہیں کوئی چیز ٹھیک نہیں۔ ” پھر سڑک پر کھڑے کھڑے اس کا ذہن چاچے کریمے سے سڑک پر دوڑتی گاڑیوں کی طرف مڑ جاتا۔ دھواں چھوڑتی گاڑیاں ، ویگنیں ، رکشے ، موٹر سائیکلیں اور انسانی ٹانگوں سے چلتے سائیکل اندھا دھند سڑک پر دوڑتے چلے جاتے۔ وہ سب پریشان حال سمت بھاگتے دکھائی دیتے۔

"یہ سب کیوں پاگل ہوئے جا رہے ہیں۔آخر یہ تھوڑی دیر رک کر، تھوڑی دیر، کہیں بیٹھ کیوں نہیں جاتے۔ کہیں بیٹھ کر حقہ کیوں نہیں پیتے۔ گپ شپ کیوں نہیں کرتے۔” حقے کے نے کی گڑگڑاہٹ کے پیچھے اسے پھر چاچے کریمے کی آواز سنائی دیتی۔ "اگر گورے ہندوستان نہ آتے۔ تو نہ ریلوے الئن ہوتی۔ نہ اسکول ہوتے۔ نہ کالج بنتے۔ نہ لڑکے لڑکیاں تعلیم پاتے۔ اور نہ مجھے پینتیں روپے ماہانہ پنشن ملتی۔ میں فراغت سے ڈیرے میں بیٹھ کر حقہ پینے کی بجائے کسی آڑھت پر بوریاں اٹھاتے اپنی کمر تڑوا کر کب کا مر کھپ چکا ہوتا۔ ” چاچے کریمے کی باتیں سن کر اسے لگتا کہ وہ ٹھیک کہ رہا ہے۔ لیکن گورے غیر ملکی حکمران تھے۔ وہ ہندوستان پر قابض تھے۔ انہوں نے ہندوستان فتح کیا تھا۔ سارے ہندوستانی ان کے غلام تھے۔ گوروں کے جانے کے بعد ہندوستانی بھی آزاد تھے اور پاکستانی بھی۔ پاکستانی کس حال میں تھے۔ اس کا تو اسے کوئی اندازہ نہیں تھا۔ لیکن ہندوستانی بیمار تھے۔ سب کے سب۔ اوپر سے نیچے تک۔ اوپر والے زیادتیاں کرتے تھے اور نیچے والے زیادتیاں برداشت کرتے تھے۔ اوپر والوں کو زیادتیاں کرتے شرم نہیں آتی تھی اور نیچے والوں کی زیادتیاں سہتے غیرت نہیں جاگتی تھی۔

عزت اور غیرت کی اوٹ سے اسے پھر چاچے کریمے کے حقے گڑگڑاہٹ سنائی دی۔ ایک دن ڈیرے میں بیٹھے چاچے کریمے نے اسے اپنے ہی گاؤں کا ایک واقعہ سنایا تھا۔ گاؤں کے چوہدری نے اپنے ہی ایک نوکر کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ نوکر نے گورے صاحب سے روتے ہوئے انصاف کی درخواست کی تھی۔ گورے صاحب نے گاؤں آکر سارے گاؤں میں پنچایت لگائی۔ اس نے سارے گاؤں والوں سے پوچھا تھا کہ چوہدری کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ سارے گاؤں کا فیصلہ تھا کہ چوہدری کی نوکر کی بیٹی سے شادی کر دی جائے۔ ساری زمین اس کے نام کی جائے اور وہ باقی کی ساری زندگی اس کا وفادار شوہر بن کر کاٹے۔ گورے صاحب نے وہیں پٹواری کو بلا کر چوہدری کی ز مین نوکر کی بیٹی کے نام کی۔ مولوی صاحب کو بلا کر چوہدری کا نکاح اس کے ساتھ پڑھوایا۔ چوہدری کی ساری اولاد اسی نوکر کی بیٹی سے پیدا ہوئی۔ کسی نے علی گڑھ سے بی اے کیا اور اب اپنے نام کے ساتھ علیگ لکھتا ہے اور کسی نے کے ای ایم بی بی ایس کیا اور اب وہ ڈاکٹر ہے۔

اب کالے انگریزوں کے زمانے میں روز لوگ مر رہے ہیں۔ کوئی بھوک کوئی ظلم سے۔ نہ مرنے والوں کو شرم آتی ہے۔ نہ ان کو جن کی وجہ سے وہ مر رہے ہیں۔ وہ سڑک کے کنارے کھڑا آتے جاتے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ گاڑیاں ، ویگنیں ، رکشے اب بھی پوری رفتار سے بھاگے جا رہے تھے۔ ہر کوئی دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن اس دوڑ میں بھی منظر میں کوئی تبدیلی نہیں آ رہی تھی۔ اس قدر تیز رفتاری کے باوجود منظر اسی طرح ایک جگہ ٹھہرا تھا۔ گاڑیاں ، ویگنیں اور رکشے بدل رہے تھے لیکن منظر۔آخر منظر کے ٹھہراؤ سے اس کی آنکھیں پتھرانا شروع ہو گئیں۔ اس نے چند لمحوں کے لئے ادھر ادھر دیکھ کر اپنی آنکھوں کو پتھرانے سے روکنا چاہا لیکن اس فضول حرکت سے اسے کچھ حاصل نہ ہوا۔ گاڑیاں ، ویگنیں او ر رکشے اسی طرح بھاگتے رہے لیکن منظر اسی طرح ٹھہرا رہا۔ اس کی آنکھیں اسی طرح پتھرائی رہیں۔ جامد و ساکت کسی تبدیلی کے احساس کے بغیر۔ ایک دھواں چھوڑتی ویگن کا دھواں اس کے نتھنوں میں گھسا تو اسے پھر چاچا کریما یاد آیا: "یہ بد بخت کوئی کام ٹھیک نہیں کر سکتے۔ کامے ہم تو گاؤں میں رہتے ہیں۔ تم دلی جاؤ گے تو دیکھو گے کہ گوروں نے کتنا خوبصورت شہر بنایا اور اب ان کالے انگریزوں نے اس شہر کا کیا حال کیا ہے۔ ”

"لیکن چاچا دلی میں تو لال قلعہ ہے۔ جامع مسجد مسجد ہے۔ مقبرے ہیں۔ بارہ دریاں ہیں۔ سب مغلوں نے بنائی تھیں۔” اس نے چاچے کریمے کو لقمہ دینے کی کوش کی۔ چاچے نے حقہ گڑگڑاتے ہوئے اسے جواب دیا: "قلعہ بادشاہوں نے اپنے لئے بنایا تھا۔ لیکن اب یہ آزادی کے سلامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ بارہ دریاں بھی انہوں نے اپنے لئے بنائے تھے۔ اور جامع مسجد لوگوں کو یہ یاد دلانے کے لئے بنائی تھی کہ بادلوں سے اوپر، ستاروں کے اس پار، آسمانوں سے ماورا ایک عرش ہے اور عرش پر ایک خدا بیٹھا ہے جس کا سایہ بادشاہ سلامت ہے۔ پانچ وقت اس عرش پر بیٹھے خدا کے لئے زمین پر سر رکھنا اس لئے ضروری ہے کہ ان کا سر ہمیشہ بادشاہ کے سامنا جھکا رہے جو اس زمین پر اس خدا کا سایہ ہے۔ ” اس کی پتھرائی آنکھیں ٹھہرے منظر میں سڑک پر دوڑتی گاڑیاں ، ویگنیں، رکشے اور سائیکلیں دیکھتی رہیں لیکن اس کا ذہن مسلسل چاچے کریمے کے ساتھ مکالمے میں مصروف رہا۔ چاچا مسلمان بادشاہوں سے پھر گوروں کی طرف لوٹ آیا تھا۔

"گورے اب بھی اپنے ملکوں میں ہر کام کرنے سے پہلے اپنے عوام کا مفاد دیکھتے ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو، سوچ بچار، بحث مباحثہ اس لئے ہوتا ہے کہ اپنے لوگوں کو کیسے فائدہ پہنچایا جائے۔ ان کی زندگی میں کیسے بہتری الئی جائے لیکن ان کے یہ کالے نائبین ہر کام کرنے سے پہلے سوچتے ہیں کہ اس میں ان کا کتنا فائدہ ہے۔ ” "چاچا۔ پلیز تم گوروں کو یاد کرنا چھوڑ دو۔ اب تمہاری پنشن کے ڈیڑھ سو روپے لندن سے نہیں آتے۔ حکومت ہند کے خزانے سے آتے ہیں۔” "خزانہ۔” اس کے منہ سے خزانے کا لفظ سن کر چاچے کے حقے کی گڑگڑاہٹ تیز ہو گئی۔ ڈیرے میں ہوا تیزی کے ساتھ چلنا شروع ہو گئی۔ چاچے نے اپنی قمیض پہن لی۔ سڑک پر گاڑیاں ، ویگنیں ، رکشے اور سائیکلیں پوری رفتار سے دوڑ رہے تھے لیکن منظر اسی طرح ٹھہرا رہا۔ کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اس نے پتھرائی آنکھوں سے دیکھا اس کے گاؤں کا ایک شخص اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا۔ وہ گامے موچی کا بیٹا للو تھا۔

"للو تم۔کب آئے ہو گاؤں سے ؟” کامے نے گامے موچی کے بیٹے للو حیرانی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ "کیا گاؤں میں سب ٹھیک ہے ؟” "سب ٹھیک ہے۔ صرف چاچا کریما فوت ہو گیا ہے۔ ڈیرے میں بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ ڈاکیئے نے خط لا کر دیا۔ اس نے پڑھنے کے لئے کہا۔ سرکاری خط تھا۔ خط میں لکھا تھا۔ حکومت کا خزانہ خالی ہو چکا ہے۔ اب اس کو ادا کرنے کے لئے حکومت کے پاس ڈیڑھ سو روپے نہیں۔ اس نے خط سنا۔ حقے کا لمبا کش لیا۔ اور یہ کہ کر چارپائی پر لیٹ کر آنکھیں موند لیں کہ جن کالے گوروں کے دیس کے خزانے میں ادا کرنے کے لئے پنشن کے ڈیڑھ سو روپے نہ ہوں وہاں جی کے کیا کرنا۔” گاڑیاں ، ویگنیں ، رکشے اور سائیکلیں سڑک پر ویسے ہی دوڑ رہی تھیں۔ لیکن منظر اسی طرح ٹھہرا ہوا تھا۔ وہ للو کے ساتھ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا چل دیا۔ اس کا دل بوجھل تھا۔ چاچے کریمے کے بغیر گاؤں کتنا خالی ہو گا۔ وہ سوچ رہا تھا۔ پھر اس نے دیکھا چاچا کریما اب بھی ڈیرے میں چارپائی پر بیٹھا حقہ گڑگڑا رہا تھا۔ "گورے کتنے اچھے لوگ تھے۔ ہر کام لوگوں کے لئے کرتے تھے۔ اور یہ کالے انگریز۔” وہ کہ رہا تھا۔

تبصرے بند ہیں۔