مر مر کے جی رہے تھے جمعرات کے لیے!

لقمان عثمانی

جمعے کے دن کو ہفتے کی عید کہا گیا ہے، جسکا صحیح لطف مدرسے کے طلبہ ہی اٹھا پاتے ہیں؛ بلکہ طلبہ تو اس عید کی خوشی میں اتنے اتاولے ہو رہے ہوتے ہیں کہ اسکا جشن جمعرات سے ہی منانے لگتے ہیں اور وہ جشن رات کے: 3/4 بجے تک چلتا ہے، جب تک کہ نیند نہ آجائے اور جب صبح:11/12  بجے آنکھیں بیدار ہوتی ہیں تو جس طرح سورج اپنی روشنی پھیلا چکی ہوتی ہے اسی طرح کل تک کھلے ہوئے پھول کی طرح خوشنما چہرے بھی مرجھا چکے ہوتے ہیں اور انکی پیشانی پر شکن آنے و بل پڑنے لگتے ہیں؛ کیوں کہ وہ جمعہ کے اول مرحلہ (جمعہ کی رات) میں ہی اتنی مستیاں خرچ کر چکے ہوتے ہیں کہ انکے پاس دن کیلیے مزید بچتی ہی نہیں؛ تا آنکہ ایسا لگتا ہے کہ انکی عید جمعے کے روز کی نہیں، بلکہ جمعہ کی رات (جمعرات) کی ہوتی ہے، جبھی تو اسکا دوسرا نام "مولوی ڈے” بھی رکھا گیا ہےـ

اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ: جمعرات کو "مولوی ڈے” کے لقب سے ملقب کیوں کیا گیا اور بچے اس رات میں ایسا کون سا خاص عمل کرتے ہیں جو اتنی تاخیر سے سوتے و جاگتے ہیں؟ تو مزید پریشان ہونے کی ضرورت نہیں؛ کیوں کہ میں ابھی اسکی توضیح کر کے آپکی پریشانی کو دور کیے دیتا ہوں ـ

دراصل یہ مولویوں کی چھٹی کا دن ہے، اسلیے ہم طلبہ کو بھی اس دن کافی حد تک چھوٹ ملتی ہے اور ہمیں اس دن کافی خوشی بھی ہوتی ہے نیز ہمیں اس دن کا بہت شدت سے انتظار بھی رہتا ہے، اسی لیے یہ ہمارا اپنا دن "مولوی ڈے” ہوتا ہے۔ جسکی اہمیت کا اندازہ اس شعر سے بھی آپ لگا سکتے ہیں کہ:

مدت سے منتطر تھے جس رات کیلیے

مرمر کے جی رہے تھے جمعرات کیلیے

اس دن ہوتا یہ ہیکہ جو قریب علاقے کے طلبہ ہوتے ہیں وہ تو بیگ لٹکا کر ٹرین و بس والوں کو خدمت کا موقع دے رہے ہوتے ہیں، لوگ بھی انہیں دیکھ کر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ آج جمعرات ہےـ اب مدرسے میں صرف وہ طلبہ رہ جاتے ہیں جو بیچارے دور دراز سے پڑھنے آئے ہوتے ہیںـ

یہ حضرات سب سے پہلے تو عصر کے بعد کھیل کود کا خاص اہتمام و انصرام کرتے ہیں، اسکے بعد مرغوں کی جان کے پیچھے پڑجاتے ہیں؛ جب بازار نکلتے اور مرغے کی دکان کے پاس پہنچتے ہیں تو مرغے بیچارے بھی غصے سے دیکھ رہے ہوتے اور کچھ یوں نغمہ سرا ہوتے ہیں کہ: "کتنا بے رحم ہواؤں کا یہ طوفان نکلا”، ساتھ ہی یہ بھی سوچ رہے ہوتے ہیں کہ پتا نہیں میں کس ستمگر کی خوراک بننے والا ہوں ـ  اس دن ہر کمرے سے مرغے کی آہ و بکا خوشبو بن کر پھیل رہی ہوتی ہےـ

کھانے سے فراغت کے بعد بچے تین قسموں میں منقسم ہوجاتے ہیں: ان میں سے بعض تو وہ ہوتے ہیں جو "سونے” کے شوقین ہوتے ہیں، بعض وہ جو "پڑھنے” کے شوقین ہوتے ہیں اور بعض وہ جو "مطالعے” کے شوقین ہوتے ہیں ـ

اب "لف و نشر مرتب” طریقے پر انکا تعارف بھی کرادوں، تاکہ آپکی بےجا خوش فہمی کا بھی ازالہ ہوجائے ـ

جو "سونے” کے شوقین ہوتے ہیں وہ تو کھا پی کر تھوڑی بہت مستی کرکے سو جاتے ہیں ـ

اور جو "پڑھنے” کے شوقین ہوتے ہیں وہ بیچارے اس چھٹی کے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے کتاب لے کر پڑھنے بیٹھ جاتے ہیں اور نیند آئے تو سو جاتے ہیںـ

اب بچ گئے وہ حضرات جو ” "مطالعہ” کے شوقین ہوتے ہیں اور جمعرات کا اصل حق بھی یہی حضرات ادا کر تے؛ کیوں کہ یہی حضرات سب سے زیادہ مجتہد اور دنیا، خاص طور پر ممبئی کے مصنفین و مؤلفین کے احوال کے خبر گیر ہوتے ہیں، نیز انکی کونسی ―بہ زبان انکے― "کتاب” کا اجرا کب ہورہا ہے، اس پر بھی مطلع ہوتے ہیں؛ یہی نہیں بلکہ ان کتابوں کا تحقیقی جائزہ لے کر، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسکا مطالعہ بھی کرتے ہیں؛ تااینکہ انکے پاس اگر مطالعے کیلیے کوئی اچھی کتاب نا ہو تو دوسرے ساتھیوں سے بھی مدد لے لیتے ہیں اور اس دن کیلیے انکی اپنی چند اصطلاحات ہوتی ہیں، جنہیں وہی لوگ سمجھ پاتے ہیں، جنکو وہ سمجھانا چاہتے ہیں اور انکا تعلق بھی ایسے ہی بچوں سے ہوتا ہے جو ایسے مبارک موقعوں کیلیے اپنے پاس کئی طرح کی کتابیں رکھتے ہیں؛ جس سے وہ خود بھی مستفید ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی صدقۂ جاریہ سمجھ کر استفادے کا موقع دیتے ہیں ـ

دراصل لفظ "کتاب” بھی انکی اک اصطلاح ہے، جس سے وہ موبائل میں موجود پرلطف و خوشگوار چیزوں کی تعبیر کرتے ہیں اور دونوں کے مابین تطبیق بھی پیش کردیتے ہیں: آخر مولوی جو ٹھہرے!

انکی اصطلاحات کا اسٹاک یہیں پر ختم نہیں ہوتا، بلکہ ایک صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ: بھائی! پچھلے جمعہ کو جناب "سلطان” صاحب کی حالات زندگی پر اک تازہ ترین کتاب شائع ہوئی تھی، جس میں کشتی کو خاص موضوع بحث بنایا گیا ہے، تمہارے پاس وہ کتاب ہے؟ تو دوسرے نے پوچھا: کس کی کتاب ہے وہ؟ تو جواب ملا: "سلمان ندوی صاحب کی” ـ

مجھے تو کسی کتب خانے میں یہ کتاب نہیں ملی، اگر آپکو مل جائے تو براہ کرم مجھے بھی اطلاع فرمادیں!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔