مزاح کا عالمی دن اور اسلامی تعلیمات

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

‘‘ اسلام’’ افراط و تفریط سے پاک ایک اعتدال پسند دین ہے؛جو ہر چیز میں میانہ روی کو پسند کرتا ہے، اسلامی نظام کوئی بے نور اورخشک نظام نہیں؛ جس میں تفریحِ طبع ،دل لگی اور زندہ دلی کی کوئی گنجائش نہ ہو؛ بلکہ وہ فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ اور فطری مقاصد کو رو بہ عمل لانے والا مذہب ہے۔ اس میں نہ تو خود ساختہ ”رہبانیت وعزلت گزینی“ کی گنجائش ہے، نہ ہی بے کیف و بے ہنگم زندگی بسر کرنے کی اجازت۔ آسانی فراہم کرنا اور سختیوں سے بچانا شریعت کے اہداف میں داخل ہے،جیساکہ ارشادِ خداوندی ہے:خدا تمہارے بارے میں آسانی چاہتا ہے زحمت نہیں چاہتا۔(سورہ بقرۃ)

 اسلام آخرت کی کامیابی کو اساسی حیثیت دیتے ہوئے تمام دنیاوی مصالح کی بھی رعایت کرتا ہے، اس کی پاکیزہ تعلیمات میں جہاں ایک طرف عقائد، عبادات، معاشرت و معاملات اور اخلاقیات و آداب کے اہم مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، وہیں زندگی کے لطیف اور نازک پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسلام سستی اور کاہلی کو پسند نہیں کرتا بلکہ چستی اور خوش طبعی کو پسند کرتا ہے، مزاح ، زندہ دلی اور خوش طبعی انسانی زندگی کا ایک خوش کن عنصر ہے، اور جس طرح اس کا حد سے متجاوز ہوجانا نازیبا اور مضر ہے، اسی طرح اس لطیف احساس سے آدمی کا بالکل خالی ہونا بھی ایک نقص ہے۔ جو بسا اوقات انسان کو خشک محض بنادیتی ہے۔ بسا اوقات اور ہمنشینوں اور ماتحتوں کے ساتھ لطیف ظرافت و مزاح کا برتاؤ ان کے لئے بے پناہ مسرت کے حصول کا ذریعہ اور بعض اوقات عزت افزائی کا باعث بھی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے رسول خداﷺاپنی تمام تر عظمت و رفعت اور شان وشوکت کے باوجود، اپنے جاں نثاروں اور نیازمندوں سے مزاح فرمایاکرتے تھےنیز اسلافِ امّت کی زندگیاں جہاں خوف وخشیت الہی اور زہد وتقویٰ کا نمونہ ہیں؛ وہیں تفریح، خوش دلی اور کھیل کود کے پہلوؤں پر بھی بہترین اُسوہ ہیں۔

مزاح کیا ہے؟

مزاح کی مثال  صاف و شفاف پانی سے دی جاتی ہے،اسے جس ظرف میں ڈالا جائے گا وہ اسی رنگ میں رنگ جائے گا ، شریف  وباوقار لوگ نہات ہی حسین اور لطیف مزاح کرتےہیں ؛جس سےمحفل زعفران زار ہوجاتی ہے جب کہ بداخلاق اور  آوارہ لوگ لچر مزاح کرتے ہیں ؛جس سے انبساط کے بجائے مزید انقباض پیدا ہوجاتاہے۔چناں چہ مزاح کی اپنی کوئی شخصیت نہیں ہوتی،غیرمہذب اور اخلاق باختہ گروہ کا مزاح بھی غیر مہذب اور اخلاق باختہ ہوا کرتا ہے، مہذب اور اخلاق والے گروہ کے مزاح پر بھی اُس گروہ کے کردار کی چھاپ پڑتی ہے۔

ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے اپنے ایک مضمون ’مزاح: تعریف اور نظریات‘ میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگوکی ہے۔تاہم مزاح کی یہ تعریف بہت حدتک جامع نظر آتی ہے کہ مزاح، عمل، تقریر یا تحریر کی وہ صفت ہے جو تفریح، نرالاپن، مذاق، ہنسی، ظرافت اور غیر سنجیدگی کو برانگیختہ کرتی ہے۔

یوں تو دورِ حاضر میں ہنسی کی ضرورت اور افادیت پر سنجیدگی سے کام ہوا ہے اور ماہرین اس رائے پر پہنچے ہیں کہ انسانی صحت کے لیے ہنسی ناگزیر ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسکراہٹیں:

سرکارِ دوعالم ﷺ سنجیدگی ومتانت، عظمت و وقار اور خوش سلیقگی کا پیکرِ حسین تھے،بلاضرورت کبھی گفتگو نہ فرماتے اور نہ ہی آواز سے ہنستے تھے۔آپ کا ارشادِ عالی ہے :زیادہ نہ ہنسو اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے۔(ترمذی)

سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاں نثاروں اور غلاموں کی دل جوئی اور دل بستگی کے لیے کبھی کبھار خوش طبعی فرمالیا کرتے تھے۔ آپ اپنے غلاموں کے ساتھ دل لگی فرما کر ان کے قلوب و اذہان کو جِلا بخشتے اور ان میں سچی محبت اور بے لوث پیار کے چشمۂ صافی جاری فرمادیتے۔

سیرتِ طیبہ اور احادیثِ نبویہ ﷺ کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضور ِ انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اکثر تبسم فرمایا کرتے جس سے غم زدوں ،بے کسوں،بے بسوں اور بے نواوں کو تسکین و راحت ملتی اور روتوں،گریہ زاری کرنے والوں اور اشک باروں کو فرحت وتازگی کا احساس ہوتا اور وہ اپنا رنج و غم سب بھول جایا کرتے تھے۔

امام ترمذی نے حارث بن جزء رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے :حضرت حارث نے کہا کہ میں نے حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔(ترمذی شریف)

حضرت عمرہ بنت عبدالرحمن رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ میں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لاتے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ کار کیا تھا؟آپ نے فرمایا: آپ کا سلوک عام لوگوں کے سلوک کی طرح تھا۔یعنی’’ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ کریم الاخلاق تھے ہنستے بھی تھے مسکراتے بھی تھے۔‘‘

لیکن آقا ﷺ کی شانِ ظرافت ،خوش طبعی،دل لگی اور دل آویز تبسّم اعتدال اور میانہ روی کا مرقع تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میں مزاح تو کرتا ہوں لیکن ہمیشہ سچ کہتا ہوں۔‘‘

حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ ظرافت، شگفتہ مزاجی ،خوش طبعی اور دل آویز تبسم کے بارے میں مزیدچند احادیثِ طیبہ ملاحظہ فرمائیں۔

ایک دیہاتی صحابی حضرت زاہربن حرام رضی اللہ عنہ سرکارِ دوعالم ﷺکی خدمتِ اقدس میں دیہات کی چیزیں بہ طورِ تحفہ لایاکرتے تھے۔ آقا ﷺان کو شہر کی چیزیں تحفہ دیا کرتے تھے۔ وہ اگرچہ زیادہ خوش شکل نہیں تھے مگر حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بہت زیادہ محبت فرماتے۔ ایک دن وہ بازار میں بیٹھے کچھ سامان بیچ رہے تھے۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سے آکر آنکھوں پر اپنا دستِ مبارک رکھ دیا اور فرمایا:’’اس غلام کو کون خریدتا ہے؟‘‘

مزاح کا یہ انداز کتنا دل کش، حسین و جمیل اور جود و عطا والا ہے کہ سرکارِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابی حضرت زاہر (رضی اللہ عنہ)سے خوش طبعی تو فرما رہے ہیں ساتھ ساتھ اُن کی قسمت بھی چمکا رہے ہیں انہیں خوداپنی زبانِ نبوت سے’’غلام‘‘ کہہ کر پکار رہے ہیں۔

ایک شخص نے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری مانگی؛ ارشاد فرمایا:’’ہم تمہیں اونٹنی کے بچے پر سوار کریں گے۔‘‘اس نے عرض کیامیں اونٹنی کے بچے کا کیا کرونگا؟فرمایا: اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔

حضرت محمود بن ربیع انصاری خزرجی رضی اللہ عنہ پانچ سال کے تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے ان کے گھر میں ایک کنواں تھاجس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی نوش فرمایااور خوش طبعی کے طور پر پانی کی ایک کلّی حضرت محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ کے چہرے پر ماری۔(بخاری شریف)

محدثینِ کرام علیہم الرحمۃ فرماتے ہیں کہ اس کی برکت سے ان کو وہ حافظہ حاصل ہواکہ اس قصہ کو یاد رکھتے اور بیان فرماتے اس وجہ سے صحابہ میں شمار ہوئے۔

حضرت امام ترمذی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک بوڑھی صحابیہ بارگاہِ نبویہ(ﷺ) میں عرض گزار ہوئی ،یارسول اللہ (ﷺ)!دعا فرمائیے اللہ تعالیٰ مجھ کو جنت میں داخل فرماے۔سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہِ مزاح اسے کہا کہ بوڑھی عورت جنت میں نہیں جاے گی۔ اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نماز اداکرنے کے لیے مسجد تشریف لے گئے۔ اس بوڑھی عورت نے رونا شروع کردیا ،خوب روئی یہاں تک کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی ،یارسول اللہ (ﷺ) ! جب سے آپ نے اس بوڑھی عورت کو یہ فرمایا ہے کہ کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جاے گی۔اس وقت سے زار وقطاررورہی ہے۔حضورﷺیہ سن کر ہنس پڑے ،فرمایا:بے شک جنت میں کوئی بوڑھی عورت نہیں جائے گی(بلکہ جوان ہوکر جائیں گی)،ارشادِ باریِ تعالیٰ ہے۔’’بے شک ہم نے ان عورتوں کو خاص طور پر پیدا کیا اور پھر انہیں کنواریاں بنایا۔‘‘(شمائلِ ترمذی)

امام بخاری نے حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ ایک سفر میں مجاہدین کے ساتھ جو بوجھ تھا وہ بہت گراں محسوس ہونے لگا سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا : تم اپنی چادر بچھاؤ۔ چنانچہ انہوں اپنا بوجھ اس میں ڈال دیا۔رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اسے اٹھا لو تم تو کشتی ہو۔‘‘……یعنی کشتی میں سارا بوجھ سماجاتا ہے اور وہ اٹھالیتی ہے۔

حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کے نام کو ذومعنی انداز میں ارشادفرماکر سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جاں نثار صحابی سے جو خوش طبعی فرمائی،اس سے صحابیِ رسول حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کاایمان پختہ ہوجاتاہے اور وہﷺوجد و سرور میں کہہ اُٹھتے ہیں کہ :جب آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ’’کشتی ‘‘فرمایاتو اس کے بعد سات اونٹوں کے بوجھ مجھ پر لاددیا جاتا تو وہ مجھے بھاری نہ معلوم ہوتا۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:بعض احادیث میں جو مزاح اور کھیل وغیرہ کی ممانعت آئی ہے وہ کثرت اور زیادتی سے ہے۔ یعنی جو خوش طبعی اور کھیل وغیرہ اللہ عزوجل کی یادسے اور دینی امور پر غوروفکر کرنے سے غافل کردے وہ منع ہے اور جو شخص ان کے باعث دینی امور سے غافل نہ ہوسکے اس کے لیے یہ مباح یعنی جائز ہے۔

اگر اس سے کسی کی دل جوئی اور کسی سے دلی محبت کا اظہار مقصود ہوجیسا کہ نبیِ کریم رؤف و رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعلِ مبارک تھا تو یہ مستحب ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ میں تواضع اور خوش طبعی نہ ہوتی تو کسی میں یہ قدرت و طاقت نہ ہوتی کہ آپ کی خدمت ِ عظمت نشان میں بیٹھ سکتا یا آپ سے کلام کر سکتا کیونکہ آپ کی ذاتِ اقدس میں انتہائی درجہ کا رعب و جلال اور شوکت ودبدبہ تھا۔

الغرض: باہمی ہنسی مذاق اگرمعقول حدکے اندرہو تویقینااس میں کوئی مضائقہ نہیں؛بلکہ بعض اوقات توکسی کی دلجوئی کیلئے ہنسی مذاق مطلوب ومحمودہے،البتہ اس موقع پرشرعی آداب کوملحوظ رکھناضروری ہے،مثلاً یہ کہ ہنسی مذاق میں بھی مبالغہ آمیزی اوردروغ گوئی سے اجتناب کیاجائے،نیزایسی بات سے گریزکیاجائے جس میں کسی کی دل آزاری کااندیشہ ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔