شیعہ مکاتب فکر کا آغاز و ارتقا

آصف علی

رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم کے وصال کے بعد مسلمانوں کا خلافت کے مسئلے  پر اختلاف ہوا کہ خلافت کے منصب کا زیادہ حق دار کون ہے۔ لیکن موقع پر ہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کی حاضر دماغی اور حکمت عملی نے اس مسئلے  کو فتنہ بننے سے پہلے ہی دبا دیا۔  اور آپ نے اگے بڑھ کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  کے ہاتھوں پر بیعت کی۔ اور اگلے ہی دن بیعت عام کا فیصلہ کیا گیا۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جب بیعت کا فیصلہ کیا گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ  وہاں موجود نا تھے۔ لیکن روایت سے یہ بات ثابت ہے کہ بعد میں حضرت علی نے   آ کر خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے ہاتھوں پر بیعت کی۔
تاہم  صحابہ کی ایک جماعت نے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔ اور کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ,  علم و  زہد و تقویٰ میں حضرت  ابو بکر و عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اور باقی اصحاب سے زیادہ افضل  ہیں ۔ لہذا خلافت کے اصل حق دار حضرت علی رضی اللہ عنہ  ہیں ۔ ان اختلاف کرنے والے اصحاب میں

حضرت عمار بن یاسر   رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ
حضرت ابو ذر غفاری   رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ
حضرت  سلمان فارسی  رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ
حضرت  جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ
حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ
حضرت حزیفہ بن یمان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ  کے نام لیے جاتے ہیں۔

بظاہر یہ ایک سیاسی جماعت تھی جو خلافت کے مسئلے پر اختلاف کے باعث بنی تھی۔ لیکن  اگے چل کر جنگ صفین، جمل اور دوسرے اہم واقعات اور پھر کربلا کے واقعے نے اس نظریے کو مزید  تقویت بخشی اور پھر اس نظریے کو مذہبی رنگ  دیا گیا اور  یوں امت مسلمہ میں شیعہ فرقے کا جنم ہوا۔

شیعہ فرقے کی بنیادی اساس امامت پر ہے۔ شیعہ  (امامت کا لفظ خلافت کے لیےاستعمال کرتے ہیں ) ـ  قرآن مجید کے مطابق مسلمانوں کا  نظم اجتماعی(خلافت)کی بنیاد ” امرہ  شوریٰ  بینھم ” پر ہے۔   یعنی مسلمانوں کا نظم اجتماعی ان کے باہمی مشورے سے بنے گا…. لیکن شیعہ مکتب فکر نے یہ نظریہ پیش کیاکہ:

امامت کوئی عام بہبود کی چیز نہیں  جسے امت کے حوالے کردیا جاۓ۔ یہ ایک خاص منصب ہےجس سے کوئی بھی نبی کسی صورت بے پرواہ نہیں ہوسکتا۔ نبی پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے بعد امت کی رہنمائی کے لیے ایک امام مقرر کرے۔ جو معصوم  اور صغیرہ کبیرہ گناہوں سے پاک ہوتا ہے۔ لہذا حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ وہ امام ہیں جنہیں نبی صلى اللہ عليه و سلم نے مقرر کیا تھا۔ اپنے اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے قرآن اور حدیث روایات سے بھی کچھ نصوص اپنی تاویلات کے ساتھ پیش کیں ۔
چنانچہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کے امام حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ہیں جو کسی انتخاب کے ذریعے نہیں  بلکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی ہی ایک نص سے امام مقرر ہوۓ ہیں ….جس طرح نبی کو اللہ مقرر کرتا ہے اسی طرح امام کو نبی مقرر کرتے ہیں … اور امام اپنے بعد امامت کرتے ہیں … اس طرح شیعہ فرقے میں امامت کی بنیاد پڑی جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہی …

  شیعہ فکر کے نزدیک دین کا علم دو قسم کا ہے۔

ایک ظاہری علم
دوسرا باطنی علم

  اور یہ دونوں علم حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سکھاۓ تھے۔ اور پھر یہی دونوں علم حضرت علی نے اپنے بعد امام کو منتقل کیے۔ اور ہر امام اپنے بعد کے امام میں یہ علم منتقل کرتا ہے۔ چنانچہ شیعہ کمیونٹی میں امام صرف خلیفہ ہی نہیں بلکہ مذہبی پیشوا اور معلم  بھی ہوتا ہے جو باقی تمام انسانوں اور علما سے افضل اور برتر ہوتا ہے۔ اور شرعی حکم پر اس کا فیصلہ ہی آخری حجت کی حیثیت رکھتا ہے…شیعہ مکتب فکر کے بنیادی طور پر بارہ امام ہیں جن کے نام درج ذیل ہیں ..

1.حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ
2.حضرت امام حسن  رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ
3. حضرت امام حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ
4. امام زین العابدین
5.امام الباقر
6 امام جعفر صادق
7.امام موسیٰ کاظم
8.امام علی رضا
9.امام محمد تقی
10. امام علی ہادی
11 امام حسن عسکری
12.امام مہدی (المنتظر) غائب امام

شیعہ فرقے کی مختلف شاخیں ہیں ۔

زیدیہ فرقہ

جن میں سے ایک  "زیدی” کہلاتے ہیں ۔ یہ امام زین العابدین کے پیروں ہیں ۔ شیعہ فرقے کی تمام شاخوں میں یہ سب سے زیادہ معتدل  اور اہل سنت کے سب سے زیادہ قریب ہیں ۔ زیدی شیعہ یہ تو مانتے ہیں کہ خلافت کے اصل حق دار حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ تھے۔ لیکن وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ حضرت ابوبکررضی اللّٰہ تعالٰی عنہ یا  حضرت عمر ابن خطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی خلافت بھی صحیح تھی۔ ان کے نزدیک امام کے تقرر کے لیے رسول اللہ صلى اللہ عليہ و سلم  سے کوئی نص ضروری نہیں اور نا اس کے لیے کوئی وحی نازل ہوتی ہے۔ بلکہ کوئی بھی شخص جو عالم ہو زاہد ہو اللہ کی راہ میں لڑنے والا ہو۔ وہ امام ہو سکتا ہے۔ اور ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ امامت ایک عملی اور ایجابی منصب ہے  سلبی نہیں ۔ جو غائب امام پر آکر رک جاۓ۔ اہل تشیع کی یہ شاخ  ملک یمن میں بڑی تعداد میں موجود ہے۔

زیدیہ شیعہ حضرت امام سجاد (پیدائش 702ء) کی امامت تک اثنا عشریہ اہل تشیع سے اتفاق پایا جاتا ہےیہ فرقہ امام زین العابدین کے بعد امام محمد باقر کی بجائے ان کے بھائی امام زید بن زین العابدین کی امامت کے قائل ہیں ۔
یمن میں ان کی اکثریت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی ہیں ۔ وہ آئمہ جن کو زیدی معصوم سمجھتے ہیں :

امام علی رضی اللہ تعالی عنہ
امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ

ان کے بعد زیدی شیعوں میں کوئی بھی ایسا فاطمی سید خواہ وہ امام حسن رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہوں یا امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسل سے امامت کا دعوی کر سکتا ہے۔زیدی شیعوں کے نزدیک پنجتن پاک کے علاوہ کوئی امام معصوم نہیں ،کیونکہ ان حضرات کی عصمت قرآن سے ثابت ہے۔ زیدیوں میں امامت کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ یہ فرقہ اثنا عشری کی طرح امامت،توحید،نبوت اور معاد کے عقائد رکھتے ہیں تاہم ان کے آئمہ امام زین العابدین کے بعد اثنا عشری شیعوں سے مختلف ہیں ۔لیکن یہ فرقہ اثنا عشری کے اماموں کی بھی عزت کرتے ہیں اور ان کو "امام علم” مانتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ زیدی کتابوں میں امام باقر،امام جعفر صادق اور امام عسکری وغیرہ سے بھی روایات مروی ہیں ۔

مسند امام زید

اس فرقے کے امام،امام زید بن زین العابدین کی ایک کتاب "مسند امام زید” ہے،جو مختلف احادیث کا مجموعہ ہے۔

اہل سنت سے مطابقت

یہ فرقہ اہل سنت کے بہت نزدیک ہے۔اس فرقہ کے لوگ صحابہ کرام پر تبراء کو جائز نہیں سمجھتے،تقیہ کے قائل بھی نہیں ۔اس کے علاوہ یہ لوگ خلفائے راشدین کا نام بھی احترام سے لیتے ہیں البتہ امیر معاویہ اور طلحہ و زبیر سے متعلق بعض ان کے کفر کے قائل ہیں اور بعجض زیدی ان اصحاب کو فاسق سمجھتے ہیں ۔سب و شتم کے بھی سخت مخالف ہیں ۔ وضو میں یہ لوگ اہل سنت حضرات کی طرح پاؤں دھونے کے قائل ہیں ۔ اہل تشیع اثناء عشری کی طرح نماز میں قنوت نہیں پڑھتے،اور سجدگاہ بھی نہیں رکھتے۔ اہل سنت حضرات کی طرح سلام پھیرتے ہیں ۔ نکاح متعہ کو حرام سمجھتے ہیں ۔ امام مہدی سے متعلق زیدی عقیدہ یہی ہے کہ ان کی پیدائش نہیں ہوئی بلکہ قرب قیامت ان کی پیدائش ہوگی اور ان کی حکومت ھوگی۔

اثنا عشری سے مطابقت

اس فرقے میں عقائد میں اثنا عشری سے مطابقت ہونے کے ساتھ ساتھ اذان میں بھی یہ لوگ "حی علی خیر العمل "پرھتے ہیں ۔البتہ اس فرقہ کے لوگ،اذان میں "اشھد ان علیا ولی اللہ” نہیں پڑھتے۔نماز میں ہاتھ چھوڑ کر پڑھتے ہیں ۔ یہ لوگ اثنا عشری کی طرح نھج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ کو مانتے ہیں ۔

امام شوکانی اور زیدی مذہب

مشہور عالم دین علامہ شوکانی بھی شروع میں زیدی مذہب سے ہی تعلق رکھتے تھے،اور بعد میں اس مذہب کے مصلحین میں آپ کا شمار ہوا۔

فقہ اہل تشیع کی دوسری بڑی  شاخ "امامیہ” کہلاتی ہے۔ ان کا یہ نام اس لیے پڑا کہ ان کے عقیدے کا مرکز ” امام ” ہے۔ امامیہ شاخ سے تعلق رکھنے والوں میں  امام کی شخصیت پر اکثر اختلاف پایا جاتا ہے ـ اور یہ مختلف چھوٹے فرقوں میں تقسیم ہیں ۔ جن میں سب سے بڑا فرقہ "اثناءعشریہ” کہلاتا ہے . یہ اماموں کا تسلسل پورے بارہ اماموں تک لے کر جاتے ہیں ۔ ان کے مطابق بارہویں امام   امام مہدی پانچ سال کی عمر میں روپوش ہوگئے اور جنگلوں اور پہاڑوں میں چلے گئے تھے۔ اب وہ کسی غار میں موجود ہیں ۔ اور جب دنیا کے حالات تقاضہ کریں گے تو وہ ظاہر ہو کر واپس دنیا میں آجائیں گے۔ اور اسے عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔
شیعہ اثناعشری کا عقیدہ یہ ہے کہ رسول اکرم(ص) نے اپنی زندگی میں ہی یہ بتا دیا تھا کہ میرے بعد میرے بارہ جانشین ہونگے۔
اور کئی ایک روایات میں انکے نام بھئ بتائے تھے۔

شیعہ امامیہ کا عقیدہ ہے کہ یہ بارہ امام معصوم ہیں ،یعنی ان سے کسی غلطی اور خطا کا کوئی امکان نہیں ۔ ان کا قول و فعل و عمل اسی طرح  حجت ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وفعل حجت ہے۔ شیعہ امامیہ کے بنیادی عقائد ؛ توحید، عدل، نبوت، امامت اور قیامت ہیں وہ خدا کو ایک مانتے ہیں اسکی ذات و صفات میں کسی چیز کو شریک نہیں سمجھتے۔ وہ خدا کو ساری کائنات کا خالق مانتے ہیں ۔ اور اس بات کے قائل ہیں کہ خدا عادل ہے۔وہ عدل کرتا ہے اور ظلم سے بری ہے۔

خدا نے انسانوں کی ہدایت کے لئے انبیاء کو بھیجا۔ حضرت آدم سے کے کر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا, اللہ نے بھیجے۔ جن میں پانچ اولوالعزم نبی ہیں ۔ جو صاحب کتاب و شریعت ہیں ۔  انبیاکے بعد اللہ نے انسانی ہدایت کا فریضہ آئمہ کے سپرد کیا۔ یہ امام معصوم ہیں ۔ ہر امام کو زمانے کے بادشاہوں نے شہید کروادیا۔ لیکن اللہ نے بارہویں امام کو لوگوں کی دسترس سے بچا لیا اور انہیں لوگوں کی نظروں سے چھپادیا۔جس طرح اللہ نے انبیا میں سے حضرت عیسی علیہ السلام، حضرت الیاس علیہ السلام، حضرت ادریس علیہ السلام اور حضرت خضرعلیہ السلام  کو زندہ  رکھا۔اسی طرح اللہ نے حضرت مہدی علیہ السلام کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ جب اللہ کی مرضی ہو گی تو ان کا ظہور ہوگا۔ امامت کے بعد قیامت پر بھی شیعہ امامیہ کا اسی طرح یقین ہے جیسے باقی مسلمانوں کا ہے۔ شیعہ امامیہ رجعت اور  شفاعت کے قائل ہیں ۔ صحابہ کا احترام کرتے ہیں ۔ لیکن اہل بیت علیہ السلام کو صحابہ سے افضل سمجھتے ہیں ۔

شیعہ امامیہ کے فروع دین یہ ہیں:

نماز، روزہ، حج، زکواة، خمس، جہاد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، تولا اور تبرا ہیں ۔ شیعہ امامیہ پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں لیکن ان کے ہاں مغرب و عشاء اور ظہر وعصر کو ملا کر پڑھنے کا رواج ہے۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مدینہ میں کئی بار دونوں نمازوں کو ملا کر پڑھا تھا۔  وہ ماہ رمضان میں روزہ رکھتے ہیں ۔ حج کرتے ہیں زکات دیتے ہیں خمس ادا کرتے ہیں ۔
امامیہ کہتے ہیں کہ جہاد صرف نبی یا امام کی اجازت سے ہو سکتا ہے۔ ان کی غیر موجودگی میں جہاد نہیں ہوسکتا۔ امربالمعروف یعنی نیکیوں کا حکم دینا اور نہی عن المنکر یعنی برائیوں سے روکنا امامیہ کے دینی فرائض میں شامل ہے۔ وہ ,تولا, رکھتے ہیں یعنی خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ائمہ سے محبت کرنے کو جزو ایمان سمجھتے ہیں  اور خدا ورسول اور ائمہ کے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں  ,تبرا ,کا مطلب ہے دوری و بیزاری اختیار کرنا۔ خدا و رسول کے دشمنوں سے بیزاری  بھی ضروری ہے ورنہ ایمان مکمل نہیں ہوتا۔یہی عقیدہ آج کل ایران کی حکومت کاسرکاری مسلک ہے.

فرقہ اہل تشیع کی تیسری شاخ "اسماعیلیہ” کہلاتی ہے۔ امام جعفر صادق کے بڑے لڑکے اسماعیل سے یہ فرقہ منسوب ہے ان کے مطابق اسماعیل کی وفات ۳۳۱ھ میں وفات ہوئی تھی اور انہوں نے اپنے بیٹے محمد پر نص کیا تھا اور امام محمد کے بعد تین ائمہ عبداللہ، احمد اور حسین ہوئے۔ یہ تینوں مستورین کہلاتے تھے۔ یعنی یہ بہت پوشیدہ زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کے خاص خاص نقیبوں کے علاوہ ان کا پتہ کسی کو نہیں معلوم ہوتا تھا۔ ان کے ناموں میں بھی اختلاف پایا جاتا تھا۔ حسین نے عسکر مکرم میں ۸۶۲ھ میں وفات پائی۔ انہوں نے اپنی وفات سے پہلے اپنے بیٹے عبداللہ مہدی کو نص کیاجو مہدی نام سے ۷۹۲ھ مغرب (افریقہ) میں ظاہر ہوئے ان کے ناموں میں بہت اختلاف ہے اور مختلف تاریخوں میں اس کی تفصیل مختلف درج ہے۔

  اس حکمران خاندان جس کی ابتدا 297ھ میں افریقہ میں ہوئی تھی اور خاتمہ 567ھ میں مصر میں ہوا تھا۔ یہ شیعہ اور فاطمی نسب ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اور اسی نسبت سے خلفائے فاطمیون یا خلفائے عبیدیون بھی کہلاتے تھے جن کے نسب پر مؤرخین نے شکوک کا اظہار کیا ہے۔ یہ مذہبی حکومت تھی اور یہ شیعوں کا فرقہ ہے۔ تاریخ میں ان کا ذکر اسماعیلی کے نام سے آیا ہے اور ان کا مشہور فرقہ قرامطہ گزرا ہے۔ آج بھی ان کی باقیات نزار (اسماعیلی) نزاری (بوہری) اور دروزیہ کے نام سے باقی ہیں ۔

ان شجروں میں اختلاف یہ ہے کہ یہ اپنےائمہ  کو چھپایا کرتے تھے، یہاں تک بقول ابن خلدون، محمد بن اسماعیل کا نام محمد مکتوم پڑ گیا۔ ائمہ مستورین کے داعی بھی اپنا نام بتانے میں بہت احتیاط کرتے تھے۔ اکثر مؤرخین نے مہدی کو عبداللہ بن میمون قدح کی طرف منسوب کیا ہے۔ اسماعیلی روایت کے مطابق اسماعیل کے انتقال کے بعد جب محمد ان کے جانشین ہوئے تو ان کو جعفر صادق نے چھپا دیا اور عوام میں موسیٰ کاظم کو ان کا حجاب یا مستودع (یعنی ظاہری نائب) بنادیا۔ چونکہ میمون دعوت باطنہ کا صدر تھا، لہذا عام لوگوں نے سمجھ لیا کہ مہدی میمون کی اولاد میں سے ہے۔ مختصر یہ ہے کہ اس طرح دو سلسلے قائم ہوگئے۔ ایک سلسلہ اماموں کا دوسرا کفیلوں کا ہے۔ اسماعیلیوں کی روایت کے مطابق امام اور کفیل کی ترتیب اس طرح ہے۔

امام۔۔۔ محمد بن اسمعیل بن صادق۔ عبداللہ۔ احمد۔ حسین۔ المہدی کفیل۔۔۔۔ میمون القدع۔۔۔۔۔۔۔ عبداللہ۔ احمد۔ حسین۔ المہدی فاطمین حضرت فاطمہ کی نسل سے ہیں کہ نہیں اس بارے میں مورخین میں اختلاف ہے۔ صرف ابن خلدون اور مقریزی اس بارے میں متفق ہیں کہ یہ فاطمی نسب ہیں ۔ خود فاطمین یا ان کے داعیوں نے اثبات نسب میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ معتدد دفعہ ظہور کے زمانے میں نسب کا سوال اٹھایا گیا، لیکن کسی امام نے اس کا جواب نہیں دیا۔ معز سے مصر میں کسی نےیہ سوال کیا کہ آپ کا نسب کیا ہے؟

اس کے جواب میں معز نے ایک جلسے میں تلوار اپنی میان سے نکال کر کہا کہ یہ میرا نسب ہے اور پھر سونا حاضرین پر اچھالتے ہوئے کہا کہ یہ میرا حسب۔

اس زمانے میں جو خطبہ پڑھا جاتا تھا اس میں بھی ائمہ مستورین کی جگہ ممتخنین یا مستضعفین جیسے الفاظ پڑھےجاتے تھے۔ زمانہ ظہور کے داعیوں نے بھی اس کی طرف توجہ نہیں دی۔ جب  بھی ان کے نسب کا سوال اٹھایا گیا تو انہوں نے خاموشی اختیار کرلی۔ ان کی مشہور دعا ’دعائم اسلام‘ جو ہر نماز میں پڑھی جاتی ہے اس میں بھی کسی امام مستور کا ذکر نہیں پایا جاتا ہے علویوں نے جی توڑ کوششیں کیں ، لیکن ان کی تحریکوں کوعباسیوں نے کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اسماعیلیوں کی تحریک جو نہایت خفیہ تھی مگر انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ ان کے اماموں کو مستور ہونا پڑا۔ یہی وجہ ہےکہ انہوں نے اس کے لیے مغرب (افریقہ) کا انتخاب کیا اور وہاں انہوں نے غیر متوقع کامیابی حاصل کی۔  بعدمیں جب منصور کے دور میں مصرکی فتح ہوئی تو خلافت وہاں منتقل کردی گئی۔ جہاں آخری خلیفہ عاضد کی وفات کے بعد صلاح الدین ایوبی جس کو صلیبی حملوں کے پیش نظر بلوایا گیا تھا، نے فاطمی خلافت کے خاتمہ کا اعلان نور الدین زنگی کی ایما پر کر دیا۔

مہدی نے مذہبی آزادی کا اعلان کیا تھا مگر فاطمین, لوگوں کو شیعی مذہب قبول کرنے پر مجبور کیا کرتےتھے, اور قاضی بھی شیعی مذہب کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ تراویح کی نماز پر، صواۃ الضحیٰ، اذان میں ’الصلوٰۃ خیر من النوم‘ کے بجائے ’حی علی خیر العمل‘ کی پابندی، تراویح پر پابندی اور رمضان کے روزوں کے لیے رویت کے بجائے حساب سے رکھنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ اس طرح لوگوں کو مجبور کیا جاتا تھا کہ اپنے دروازوں پر بزرگوں کو ملامت لکھیں ۔ پھر بھی عہدوں اور منصبوں کے لالچ میں بہت سے سنی اور اہل کتاب نے شیعی مذہب اختیار کرلیا تھا اس نسبت سے فاطمین کا اہل کتاب کے ساتھ معاملہ روادری کا رہا اور انہیں بہت سے اعلی عہدوں پر فائز کیا گیا یہی وجہ ہےکہ فاطمین کی حکومت کے خاتمہ کے بعد جلد ہی مصر سے اسماعیلی مذہب ختم ہوگیا اور فاطمین کے حق میں کوئی قابل ذکر آواز بلند نہیں ہوئی۔
فہرست خلفائے فاطمین :

ابو محمد عبداللہ المہدی باللہ  297 ھ تا 322 ھ
ابو القاسم محمد القائم بامراللہ  322 ھ تا 334 ھ
ابو طاہر اسمعیل المنصور باللہ  334 ھ تا 341 ھ
ابو تمیم معد المعز الدین اللہ  341 ھ تا 365 ھ
ابو منصور نزار العزیز باللہ  365 ھ تا 386 ھ
ابو الحسین الحاکم بامراللہ  386 ھ تا 411 ھ
ابو معد علی الظاہر) لا عزاز دین اللہ (411 ھ تا 427 ھ
ابوتمیم معد المستنصرباللہ  427 ھ تا 487 ھ
ابو القاسم احمد المستعلی با اللہ  487 ھ تا  495ھ
ابو علی منصور الامر باحکام اللہ  495 ھ تا 524 ھ
ابوالمیمون عبدالمجید الحافظ الدین  524 ھ تا 544 ھ
ابو منصور اسماعیل الظافر لاعداء اللہ 544 ھ تا 549 ھ
ابوقاسم عیسیٰ الفائز بامرللہ  549 ھ تا 555 ھ
ابو محمد عبداللہ العاصد الدین اللہ 555 ھ تا 567 ھ

مسلمانوں کے جن فرقوں نے مذہب کو فلسفہ سے متحد کرنے کی کوشش کی ان میں معتزلہ اور اسماعیلیہ(فاطمین) کو قدامت کا شرف حاصل ہے۔ لیکن اسماعیلیوں (فاطمین) کا دوسرے شیعی فرقوں کی طرح یہ تھا کہ شریعت کے تمام روحانی علوم کا منبع اور سرچشمہ حضرتؓ علی کی ذات ہے اور آپ کے بعد ان علوم کی وراثت آپ کی اولاد کو ملی۔ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہوئے امام جعفر صادق تک پہنچی۔ اسماعیلیوں (فاطمین) کی روایت کے مطابق امام جعفر صادق نے اس کی اشاعت میں بڑا اہتمام کیا۔ فاطمین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو اپنا رسول بنایا اور انہیں حکم دیا کہ حضرت علی کو اپنا خلیفہ بنائیں اور حضرت علیؓ نے اللہ کے حکم سے خلافت کی امانت ہماری طرف منتقل کی۔ لہذا ہم اللہ کے خلیفہ ہیں اور ہم دنیا میں مذہبی و سیاسی حکمران ہیں امام اپنی رائے سے نہیں بلکہ خدا کے حکم سے اپنا خلیفہ مقرر کرتا ہے، ان کے عقیدہ کے مطابق امامت کا سلسلہ باپ کے بعد بیٹا، ہی امام بنتا ہے اور ہر زمانے میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے، ورنہ دنیا تباہ ہوجائے گی۔ امام سیاسی اور مذہبی حکومتوں کا سربراہ ہوتا ہے اور اس کا ہر فیصلہ آخر ہوتا ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ امام معصوم ہوتا ہے۔ امام اپنی حکمرانی کے لیے ایک انجمن بناتا ہے جسے دعوت کہتے ہیں جس کے بہت سے اراکین ہوتے ہیں ۔

اسماعیلیوں (فاطمین) نے اپنی سیاسی عمارت کی بنیاد مذہب پر رکھی تھی۔ جسے وہ دعوت کہتے تھے۔ مہدی سے مستنصر کے زمانے تک ان کی مذہبی سرگرمیاں جاری رہیں ۔ لیکن مستنصر کے دور میں ہی اس کی قوت گھٹنے لگی۔ مستنصر کی وفات کے بعد خود اسماعیلیوں کے دو فرقے ہوگئے۔ مستعلیوں نے آمر کے قتل کے بعد اپنی دعوت یمن منتقل کردی، نزاریوں نے ’الموت‘ کو اپنا مستقر بنایا۔ دروزی جو حاکم کو خدا مانتے تھے مصر چھوڑ کر لبنان منتقل ہوگئے۔ اس طرح اسماعیلیوں (فاطمین) کی قوت جو ایک مرکز پر تھی منتشر ہوگئی۔ اسماعیلیوں کی دعوت کے اس اصول کے مطابق امامت، باپ کے بعدبیٹےکو منتقل ہونی چاہیے، لیکن آمر کے بعد اس کا چچا زاد بھائی ,حافظ, امام بن گیا۔ گو مستعلوی کہتے ہیں کہ آمر کے قتل کے بعد اس کا ڈھائی سالہ بیٹا طبیب حقیقی امام جو نزاریوں کے خوف سے چھپادیا گیا اس وجہ سے بھی بہت سے اسماعیلیوں کے خیالات بدل گئے اور اسماعیلیوں کی قوت کو ضعف پہنچا۔
امام کبھی ظاہر ہوتا ہے اور کبھی دشمنوں کے خوف سے مستور ہوتا ہے۔ جب وہ مستور ہوتا ہے تو اس کی نیابت داعی کرتےہیں ، جیسا کہ اس دور میں طیبی امام کے مستور ہونے سے اس کی نیابت سیدنا طاہر کے بیٹے کر رہے ہیں ۔ ان کے عقیدے کے مطابق قیامت کے دن قائم القیامہ ظاہر ہوں گے اور تمام حکومتوں کو ختم کرکے اپنی حکومت قائم کریں گے۔ کیوں کہ زمین کا حقیقی مالک امام ہے اور اس کے علاوہ سب ظالم اور غاصب ہیں ۔

ان کے عقیدے کے مطابق ساتویں امام محمد بن اسمعیل بن جعفر صادق ہیں ، جو قائم سابع اور یوم القیامہ و البعث ہیں ۔ ان کے بعد ظاہری شریعت معطل ہوگئی ہے اور باطنی شریعت شروع ہوگئی ہے۔ اب ظاہری اعمال نماز، روزے حج وٖغیرہ کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ اب ممثولات اور ولایت کافی ہے۔ ساتویں امام محمد بن اسمعیل ہی اہل معرفت و عقل کے لیے مبدل شریعت ہے۔ ان کے عقائد کی مزید تفصیل اخوان الصفاء میں مل سکتی۔

  امام کی نیابت داعی کرتے ہیں ۔ جب ان کا امام موجود ہوتا ہے تب امام کا رابطہ داعیوں کے ذریعہ ہوتا۔ جب امام مستور ہوتا ہے تو امام، داعی امام کی نیابت کرتا ہے۔ وہ اپنے الہام سے اپنا جانشین مقرر کرتاہے اور امام کےغائب ہونے کی حالت میں وہ ظاہری عبادت کرتے ہیں ۔ جب امام موجود ہوتا ہے تو یہ امام کا اختیار ہے کہ وہ عبادات کا تعین کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی اس کے اختیار میں شامل ہے اپنے لوگوں کے لیے حلال اور حرام کا تعین کرے۔

فاطمین اپنے مذہبی اور سیاسی معمولات کو بہت چھپاتے تھے۔ اس طرح یہ اپنے جانشینوں کے نام چھپاتے تھے اور ان پر اکثر نص بہت ہی خفیہ کرتے تھے۔ اکثر خلیفہ کی موت کا اعلان کئی سال کے بعد کیا جاتا تھا۔ مہدی اور اس کے بعد چند اماموں نے اسماعیلیت کو فروغ دینے کی کوششیں کیں ، لیکن اس میں ناکام رہے۔ اس لیے صرف سیاسی قوت پر قانع رہے۔ اگرچہ ان کی خاص مجلسوں میں باطنی تعلیم اور مجلسوں کا سلسلہ حاکم کے بعد کچھ عرصہ جاری رہا۔ بربر، اور مصری شیعہ حکومت سے راضی تو تھے مگر خود شعیہ بننا نہیں چاہتے تھے اور نہ وہ شیعوں سے ہمدردی رکھتے تھے۔ حلول، ناسخ، آسمانی حق، موروثی حکومت وغیرہ کے عقیدوں کو ایران جیسی مقبولیت نہیں مل سکی۔ یہی وجہ ہے شیعہ فرقوں کے اکثر بانی ایرانی ہوئے۔ اسماعیلیوں میں بھی چند داعیوں کو چھوڑ کر اکثر داعی ایرانی تھے۔

اسماعیلی مذہب ایک پوشیدہ راز ہے۔ دعوت خود ایک قسم کی فری مسنیری ہے۔ یہ ہر کسی کو اپنی انجمن میں شریک نہیں کرتے تھے اور جسے شریک کرتے تھے اس سے زبر دست عہد و پیمان لیتے تھے۔ باطنی علوم پر لیکچر قصر خلیفہ کے ایک الگ کمرے میں مخفی طور پر دیئے جاتے تھے۔ اسماعیلیوں نے اپنے مذہبی اصولوں کی کبھی کہیں بھی علانیہ تبلغ نہیں کی۔ ان  کایہ عقیدہ ہے کہ اس زمانے میں یہ صلاحیت نہیں تھی کہ علم باطن ظاہر ہوسکے۔ قائم القیامۃ ہی کے عہد میں باطن پورے طور پر آشکار ہوگا۔
اس میں کوئی تعجب نہیں ہے کہ اسماعیلیت کبھی عام طور پر پھیلی نہیں اور صرف چند افراد ہی تھے کہ اپنے مذہب سے پوری طرح واقف تھے.

شیعوں کے تمام فرقے تاویل کے قائل ہیں ۔ ان کے یہاں اس آیت ”لا یعلم تا ویلہ الا اللہ والر سخون فی العلم یقولون آمنا بہ“ میں الا للہ پر وقف کرنا درست نہیں ہے۔ ان کے نزدیک وہ علماء بھی جو علم میں راسخ رہے ہیں ، یعنی انبیا، اوصیا اور ائمہ تاویل کرتے ہیں ۔ لیکن جس فرقہ نے اس فن کو ترقی دی اور خاص طور پر تمام احکام، عبادت اور قصص انبیا کی تاویلوں کے متعلق کتابیں لکھیں وہ اسماعیلیہ ہیں ۔ بعض صوفیا بھی تاویل کے قائل رہے ہیں ۔

ان کا کہنا ہے کہ تمام انبیا کی شریعتیں رموز و ممثولات پر مبنی ہیں جو کہ تاویل میں بیان کئے جاتے ہیں ۔ یعنی جو نبی شریعت کووضع کرتا ہے، اس کے احکام میں ایسے رموز کی طرف اشارہ ہوتا ہےجو اس کا اصل مقصود ہوتا ہے۔ تاویل کا عربی میں معنی اصل کی طرف لوٹنے کے ہیں ، تاویل کو شریعت کی حکمت، دین کا راز اور علم روحانی بھی کہتے ہیں ۔ جس کی تعلیم کے لیے ہر نبی اپنا ایک وصی مقرر کرتا ہے۔ بنی کا فریضہ ہے کہ وہ لو گوں کو شریعت کے ظاہری احکام بتائے اور وصی کا کام یہ ہے کہ وہ ان کو تاویلوں سے آگاہ کرے۔ اسماعیلی تاویلوں کو چھپاتے تھے۔ مگر یہ تاویلیں زیادہ دیر مخفی نہ رہیں اور آہستہ آہستہ منظر عام پر آگئیں ۔ بعض غیر اسمعیلی مورخوں نے مثلاً  بغدادی، شہر ستانی اور مقریزی نے اپنی تصنیفات میں بعض تاویلوں کو ظاہر کیا۔ اس کے دورکے بعض اسماعیلی مصنفوں کی کتابیں چھپ چکی ہیں ۔ ان میں داعی ناصر خسرو کی ’وجہ دین‘، تاویل الدعام‘ قاضی نعمان بن محمد، تاویل الزکوٰۃ‘ داعی جعفر بن منصور الیمن اور مجالس المستنصریہ ہیں ۔ مگر ان میں سب سے اہم اور مستند کتاب ’اخوان الصفا‘ ہے۔ اسماعیلیوں کا سب سے اہم فرقہ قرامطہ تھے۔ اب ان کے فرقوں میں طیبی، نزاریہ اور دورزی شامل ہیں ۔

تبصرے بند ہیں۔