سچ کبھی ہوگا تمھارا خواب کیا

افتخار راغبؔ

سچ کبھی ہوگا تمھارا خواب کیا

مان جائے گا دلِ بے تاب کیا

کیا بتاؤں کر کے میری غیبتیں

نوش فرماتے ہیں کچھ احباب کیا

زہر اِس درجہ ہَوا میں گھول کر

چاہتے ہو بارشِ تیزاب کیا

آپ بھی بے چین رہتے ہیں بہت

چبھ گیا آنکھوں میں کوئی خواب کیا

پانی اُترے تب نہ یہ دیکھے کوئی

ساتھ اپنے لے گیا سیلاب کیا

لے گئے شاخیں بھی پھل کے ساتھ لوگ

پھر سے ہوگا یہ شجر شاداب کیا

پیش آتے ہیں ادب سے آپ کب

آپ سے سیکھے کوئی آداب کیا

کوئی آکر ایک کنکر پھینک دے

چاہتا ہے اور یہ تالاب کیا

پوچھیے جوہر شناسوں سے کبھی

در حقیقت چیز ہے یہ آب کیا

لغزشوں پر ٹوک بیٹھا تھا اُنھیں

اور ناراضی کے ہیں اسباب کیا

کہہ دیا کہنا تھا جو راغبؔ مجھے

دیکھ فرماتے ہیں اب احباب کیا

تبصرے بند ہیں۔