مسئلہ طلاق: مسلم معاشرے میں زمینی سطح پر بیداری مہم کی ضرورت

مولانا محمداظہرمدنی

(چیرمین جامعہ ابوبکرصدیق الاسلامیہ،بہار)

کسی بھی انسانی معاشرے کی تشکیل کے لئے ایک مربوط اور مضبوط خاندان انتہائی نا گزیر ہے کیونکہ خاندان کا سماج کی تشکیل میں بنیادی کردار ہوتا ہے۔خاندان کا بکھراؤ انسانی سماج کے انتشار کی علامت ہے۔ اس کی بہترین مثال ہم مغربی معاشرے میں واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ اسی لئے اسلام نے اپنے پیروکاروں کی جہاں زندگی کے دیگر مسائل میں رہنمائی کی ہے وہیں اسلامی معاشرے کی تشکیل جیسے اہم گوشے کو بھی خاص طور پر ملحوظ نظر رکھا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے ایک مربوط خاندان کے لئے وہ تمام اصول مرتب کئے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ایک بہتر اور پائیدار انسانی سماج کی تشکیل ہو سکتی ہے۔ نکاح، طلاق،محرم غیر محرم، مہر، جائیداد کی تقسیم، وراثت ان تمام نکات کی جانب رہنمائی کی ہے جو ایک مضبوط خاندان کی تشکیل میں تانے بانے کی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔

اگر ہم نے شریعت کے ان اصولوں کو نظر انداز کیااور ہم سے ذرا سی لغزش ہوئی تو تمام تانے بانے بکھر جائیں گے اورخاندان کا شیرازہ منتشر ہو جائے گا۔شریعت نے ہرممکن کوشش کی ہے کہ میاں بیوی کے رشتے قائم رہیں ، ٹوٹیں نہ،تمام وہ طریقے اختیار کئے ہیں جن سے میاں بیوی کے درمیان اختلافات اور تنازعات کو حل کیا جا سکے۔ اس کے باوجود اگر میاں بیوی کے درمیان رشتے کو بر قرار رکھنا محال ہو گیا ہو تو ایسی انتہائی ناگزیر حالت میں طلاق کی اجازت دی ہے وہ بھی نا پسندیدگی کے ساتھ۔اس کے لئے بھی کچھ شرائط وضوابط اور اصول مرتب کر دیئے ہیں ۔جن کی روشنی میں میاں بیوی علاحدگی اختیار کریں ۔ اگر ان اصولوں کو نظر انداز کرتے ہیں تو اس کے خطرناک اور منفی نتائج ہمارے سامنے  ہوں گے۔ موجودہ طلاق کے مسئلے پر ملت جن دشواریوں سے دو چار ہے وہ ان ہی اصولوں کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے۔

 افسوس کامقام ہے کہ انتہائی ناگزیر حالت میں جائز قرار دی گئی طلاق ہندوستانی مسلمانوں کے لئے  فی الحال سب سے اہم مسئلہ ہے۔ طلاق ثلاثہ ایک طرف مسلمانوں کے لئے شریعت اور وقار کا سوال ہے تو دوسری طرف سیاسی گلیاروں میں انا کامسئلہ ہے۔ مسلم خواتین کی مظلومیت کابہانہ بنا کر مسلم پرسنل لاء میں مداخلت اوربھید بھاؤکی جا رہی ہے۔لال قلعہ کی فصیل سے لے کر پارلیمنٹ کے ایوانوں میں طلاق ثلاثہ کی گونج ایسی ہو گئی ہے گویاملک کا سب سے بڑا مسئلہ طلاق ثلاثہ ہی ہے اور اگر اسے ختم نہیں کیا گیا تو مسلمانوں کی نصف آبادی کا وجود ختم ہو جائے گا۔سپریم کورٹ کے ذریعہ طلاق ثلاثہ پر پابندی عائد کئے جانے کے بعد ایسی کوششیں کی جا رہی ہیں جن کے ذریعہ سے سرے سے طلاق پر ہی پابندی عائد کر دی جائے۔ ایسا ماحول تیار کیا جا رہا ہے اور ایسی سیاسی اور جذباتی فضا بنائی جا رہی ہے جس کے نتائج منفی ہوسکتے ہیں ۔بلکہ کچھ جدت پسند اورروشن خیال لوگوں نے کہنا شروع کردیاہے کہ حکومت ایسا طریقہ اپنائے کہ طلاق پر ہی پابندی عائد کردی جائے۔

حکومت کے ذریعہ پیش کیا گیا بل بھی اسی طرف اشارہ کررہا ہے۔فی الحال اس بل کو حکومت نے لوک سبھا میں پیش کر دیا ہے لیکن اس کو قانون کی شکل دینے کے لئے راجیہ سبھا میں منظوری ملنا ابھی باقی ہے۔ یہ بل کہاں تک درست ہے اس کا فیصلہ یا تو ایوانوں میں بیٹھے بابصیرت لوگ کرینگے یاملک کی باوقار عدلیہ۔ حالانکہ آئین میں ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کا بنیادی حق حاصل ہے۔ یہ تعجب انگیز وحیران کن معاملہ ہے کہ حکومت اس قانون کے ذریعہ مسلم پرسنل لاء میں کچھ مسلمانوں کو قدرے حقوق دینے کی بات کر رہی ہے تو دوسری طرف خود مسلم پرسنل لاء بورڈ کچھ مسلمانوں کو پرسنل لاء میں دئے گئے آئینی حق سے مسلسل محروم رکھ کر حکومت کو مداخلت کا موقع دے رہا ہے۔اور تین کو ایک نہ مان کر ایک ماننے والوں کو مسلم پرسنل لا سے خارج ہی کررہا ہے۔لوگ اب صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ مسلم پرسنل لابورڈ سب کچھ گنواں کر بھی دیگر مسالک کے حق کو تسلیم نہ کرسکا تو وہ حکومت پر آئینی حق چھیننے کا الزام کیوں لگا رہا ہے۔بہرحال یہ بہت بڑا لمحہ فکریہ بورڈ کے لئے پہلے پھر سب کے لئے۔

طلاق کے مسئلے پر آج ہندوستانی مسلمانوں کو جن مشکلات کا سامنا ہے اوردوسروں کو جس طرح ہمارے خالص مذہبی اور خاندانی مسئلے میں دخل اندازی کا موقع ملا ہے اس میں کسی حد تک ہمارا بھی ہاتھ ہے۔ ہماری اپنی کوتاہیوں اورشریعت کے بتائے ہوئے اصولوں کو نظر انداز کرنے  کے سبب غیروں کو مسلم خواتین کی ہمدردی کے حوالے سے پورے اسلامی نظام طلاق اور مسلم پرسنل لاء پرہی انگلی اٹھانے کا موقع مل گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پرسنل لابورڈ سر گرم ہے اور مسلم معاشرے میں طلاق ثلاثہ کے خلاف بیداری مہم شروع کی ہے۔ بلکہ تین طلاق دینے والوں کے سماجی بائیکاٹ کی اپیل بھی کی گئی ہے۔

حیدر آباد کے حالیہ اجلاس میں اس سر گرمی کا ذکر کیا گیا ہے۔ موجودہ صورت حال  میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی سر گرمی قابل ستائش ہے لیکن یہ عمل بہت پہلے ہونا چاہئے تھا۔اگر بورڈ شاہ بانو کیس کے بعد سے ہی مسلم معاشرے میں زمینی سطح پر اصلاحات کی کوششیں کرتا اور تمام مکاتب فکر کے فقہی مسائل کو شرح صدر سے بیان کرتا تو شاید آج ہمارے اندرونی اور شرعی مسئلے پر غیروں کو مداخلت کا موقع نہیں ملتا۔عام مسلمانوں کے درمیان اس شرعی مسئلے پر بیداری پیدا کرنے کا کام صرف بورڈ کا نہیں ہے بلکہ ہر اس تنظیم اور ادارے کا ہے جو خود کو ملت کا درد مند اور بہی خواہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔اب یہ طے ہو گیا ہے کہ صرف دعوؤں سے کام چلنے والا نہیں ہے،زمینی سطح پربھی اس کا اثر نظر آنا ضروری ہے۔ ایک لمبے عرصے سے ماڈل نکاح نامے کی بات چل رہی ہے۔ بورڈ کے حالیہ حیدر آباد اجلاس میں بھی بڑی شدت سے اس ماڈل نکاح نامے کا انتظار تھا لیکن سامنے نہیں آیا۔اس ماڈل نکاح نامہ کے سلسلے میں عجیب عجیب شق اور شرائط سننے میں آرہی ہے۔فقہی مذاہب کے آپسی ٹکراؤ سے قطع نظر ایسانہ ہوکہ وہ بذات خود ایک جال وجنجال بن جائے۔

ایک عام مسلمان اس بات سے تو واقف ہے کہ ازدواجی رشتے میں منسلک ہونے کے لئے ایجاب و قبول اور دیگر مذہبی رسومات کی ادائیگی لازم ہے، مگروہ اس بات سے ناواقف ہے کہ اس پاک رشتے کو ختم کرنے کے لئے بھی اسلام نے کچھ اصول و ضوابط مرتب کئے ہیں جن پر عمل کرکے ہی میاں بیوی علاحدگی اختیار کر سکتے ہیں ۔اور اپنی زندگی کو جہنم زار ہونے سے بچاسکتے ہیں ۔بہر حال اس خالص مذہبی مسئلے پر حکومت تحفظ نسواں کے حوالے سے کام کررہی ہے اور مسلم پرسنل لاء بورڈاس مسئلے میں اپنی جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کی پرسنل لاء بورڈ ہندوستانی مسلمانوں کا متفقہ بورڈ ہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ بورڈتمام لوگوں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ان کے مذہبی آراء کو سامنے رکھے اور تمام مکاتب فکر کو جس طرح بورڈ میں نمائندگی دی گئی ہے اور اسکے وقار کو بڑھایا گیاہے اسی طرح ان کے شرعی مسائل کو بھی ان کے فقہی مسائل کے مطابق پورے شرح صدر کے ساتھ جگہ ملنی چاہئے۔

طلاق ثلاثہ پر حکومت نے موقف اختیار کیا ہے وہ غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ طلاق اور حلالہ کا مسئلہ موجودہ صورت حال میں ایک سنگین رخ اختیار کر چکاتھااور چھوٹی چھوٹی باتوں پر تین طلاق  کے رونما ہونے والے واقعات نے اچھے اچھے گھروں کو اجاڑ دیا تھا۔مگر اب رہی بات کہ حکومت کی نیت صاف ہے یانہیں، یہ تو وقت ہی طے کریگا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور عوام سب مل کر ایک پرامن فضا قائم کرنے میں ایک دوسرے کے مددگار ومعاون ثابت ہوں، اور کوئی بھی ایسا موقف اختیار نہ کریں جس سے ٹکراو کی صورت حال پیدا ہو۔ اور دونوں طرف عورتوں کو جسطرح سڑکوں پر لانے کا سلسلہ شروع کیاگیااسمیں سراسر نقصان اسلام اور مسلمانوں کاہے۔اسکی قباحتیں کئی سطح پر محسوس کی جارہی ہیں ۔ خود  جذباتی ہوکر دوسروں کو بیدار اور متحد کرنے کا موقع نہ دیں توبہتر ہے۔اللہ ہم سب کا معاون ومددگار ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔