مساجدو مدارس پر ممکنہ قدغن؟

ابراہیم جمال بٹ

’’جب کسی قوم کے حکمران اُس چیز سے ڈر محسوس کریں جس میں عام انسان کواطمینان اور امن وامان دکھائی دیتا ہو، تو اس حکومت کو چاہیے کہ اچھی طرح سے جان لے کہ ان کی حکومت چند دنوں کی مہمان ہے، کیوں کہ ان کا حکومت پر برابر براجمان رہنے سے رعایا کو امن واطمینان کے بجائے دھمکیاں ملیں گی اور عام انسانیت کو اس چیز سے روکنے کی کوششیں کی جائے گی جس میں انہیں اطمینان نصیب ہوتا ہے۔‘‘

برابر یہی صورت حال آج جموں و کشمیر کی ہے۔ یہاں آئے روز حکومتی سطح پر عوام کو خوف زدہ کر نے کا پروگرام مرتب دیاجاتا ہے اور اس کا رخیر کے آدیش مر کز سے ملتے رہتے ہیں ۔ یہ اسی دور دراز سلسلے کی تارہ کڑی ہے کہ فی الوقت بھارت کی مرکزی حکومت کی طرف سے کشمیر کی مخلوط سرکار کو مساجد، مدرسوں اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر کنٹرول ، انٹیلی جنس سیٹ اپ کی مضبوطی اور حریت کے اعتدال پسند دھڑے تک پہنچنے کی تجاویز پیش کی گئی ہیں ۔ اس کے علاوہ پرامن احتجاج اور سنگبازی کے واقعات میں ملوث افراد پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کرنے اور عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لئے اسپیشل آپریشن گروپ (ایس او جی) کو پھر سے زندہ کرنے کی تجاویز پیش کی گئی ہیں ۔اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ بھارت کی مرکزی و جموں وکشمیر کی مخلوط و عوام کش نظریات کی حامل سرکار اب اس قدر خوف زدہ ہو چکے ہیں کہ انہیں عوامی بہبود اور امن واطمینان کی کوئی فکر نہیں رہی بلکہ وہ اپنی حکومتی پالیسیوں کو ترجیح دے کر نہ صرف عوام کے لیے ایسے قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں جن کے ساتھ عوام دلی ہمدردی نہیں رکھتی ہے۔ ریاست جموں وکشمیر میں مساجد اور دینی مدارس پر نظر رکھنے کا کیا مطلب لیا جا سکتا ہے؟ ان پر نظر رکھنا، ان کے کام وکاج کو دیکھنا،یہ سب کچھ ایک ایسی سوچ ہے جس میں ریاست کے دینی حس رکھنے والے طبقہ کو کمزور اور خوفزدہ کرکے انہیں کسی بھی طرح اپنی ہمنوائی کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ بہر حال یہ بات طے ہے کہ کشمیر کے لوگ دینی معاملات میں نہ کبھی دخل اندازی برداشت کرتے آئے ہیں اور نہ ہی انہیں کبھی اس کے شکار ہونے کا احتمال ہے۔ بلکہ کشمیر سے وابستہ دینی طبقے جو مذہبی کاموں کے ساتھ فلاح وبہبود کے کام بھی کر رہے ہیں ، نہ صرف حکومت وقت کے لیے چیلنج بنے ہیں بلکہ یہ بات علی الاعلان کہی جا سکتی ہے کہ جو کام حکومت کو کرنی چاہیے وہ کام یہی مساجد سے وابستہ ادارے، دینی تنظیمیں اور دینی مدارس کرتے ہیں ۔

2014کی سیلابی صورت حال اس کی شاہد ہے کہ وقت کے حکمرانوں نے بجائے اس کے کہ عوام کی کسی بھی طرح کی مدد کرتے انہوں نے عملاً راہ فرار ہی اختیار کر لی۔ اپنے اپنے قصر میں بیٹھے تماشائی بنے بیٹھے۔ اس وقت یہی مساجد سے وابستہ ذمہ داران کے اہتمام سے چل رہے بیوت المال ،مدارس اور دینی تنظیموں کے فلاحی شاخ تھے، جنہوں نے عوام کے دکھ درد کو سمجھا، ان کی مدد کے لیے آئے۔ اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر لوگوں کی جانیں بچاکر یہ دکھا دیا کہ اصل انسانیت اور اصل ہمدردی کا جذبہ کہتے کسے ہیں ؟ انہوں نے نہ صرف یہاں اپنے مسلمان بھائیوں کی جانیں بچائیں بلکہ جہاں کوئی غیر ریاستی غیر مسلم رہتے تھے ان کی بھی جان بچائی۔یہ مساجد سے وابستہ ذمہ داران اور یہاں کی دینی ومذہبی جماعتیں ہی تھیں جنہوں نے گھر گھرجاکر سیلاب زدہ لوگوں کی دادرسی کے لیے رسد وغیرہ جمع کر کے عام لوگوں تک پہنچایا۔ 2008میں جب لوگ سڑکوں پر نکل آئے تو یہاں کے لوگوں نے خود ہی اْٹھ اپنے بھائیوں کی مدد کر کے اس بات کا اعلان کر دیا کہ ’’کم کھائیں گے لیکن کسی کے آگے جھک کر نہیں رہیں گے‘‘ 2010میں بھی برابر اسی صورت حال کا سامنا رہا۔ حالیہ 2016کی ایجی ٹیشن بھی اس بات کی گواہ ہے کہ ایک طرف لوگوں سے آنکھوں کی بصارت چھینی جا رہی تھی تو دوسری جانب یہاں کے لوگ جانوں پر کھیل کر ان کی طبی مدد کر رہے تھے۔ ایک طرف پرامن احتجاجی لوگوں پر اندھا دھند گولیاں برسا کر کشمیر کی سرزمین کو تر کیا جا رہا تھا تو دوسری طرف کشمیری عوام خون کے عطیات دے کر ان کی جانیں بچانے کی فکر میں دوڑے دوڑے ہسپتالوں کا رْخ کر رہے تھے۔ ایجی ٹیشن کے دوان ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی کر دئے گئے، لیکن ان کی مدد کے لیے آج تک اگر کوئی سامنے آیا تو وہ یہی دینی ومذہبی ادارے اور مساجد کے زیر اہتمام چل رہے بیوت المال کمیٹیاں ہیں ۔

80سے زائد لوگ شہید کر دئے گئے، جن میں اکثر نوجوان غریب گھرانوں سے وابستہ تھے، ان کی گھر والوں کی مالی کفالت کرنا تو دور کی بات انہیں پوچھا بھی نہیں گیا،اور اگر کوئی طبقہ پوچھنے (Follow)کرنے والادیکھا جا سکتا ہے تو وہ یہی وہ طبقہ ہے جس پر بھارت کی مرکزی و ریاستی حکومت نظر رکھنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ غرض جموں وکشمیر کی دینی تنظیمیں خواب غفلت کاشکار نہیں ہیں بلکہ ان کے ہر فرد اور ہر ذمہ دار میں ’’احساس‘‘ ہے۔ جو انہیں ان خراب حالات میں بیٹھنے نہیں دیتی ہے بلکہ عام حالات میں بھی لوگوں کی تکالیف وپریشانیوں کے ازالے کی ہر ممکن کوششیں کرتے رہتے ہیں ۔ جس کے پاس جس قدر اور جس حیثیت کی وسعت ہے وہ اسی کے مطابق مدد کے لیے پیش پیش رہتے ہیں ۔ غرض یہاں کی مساجد کو شک کے دائرے میں لانا یہاں کے لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیلنے کے برابر تصور کیا جائے گا۔ یہاں کے دینی مراکز ومدارس اور دینی ومذہبی تنظیموں پر کسی بھی طرح کی مداخلت کا دوسرا نام ہی فساد کو جنم دینا ہے، اور اس فساد کے ماحول کو قائم کرنے والے یہ ادارے نہیں بلکہ وہ لوگ ہوں گے جو اْن کے بارے میں اس طرح کے خیالات رکھتے ہوں ۔ گویا کہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی طرف نظرِ بد ڈالنے کا نتیجہ ہی یہاں کے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہے جس کے نتیجے میں ردعمل (Reaction)تو ظاہر ہونا ہی ہے۔

ان حالات میں بھارت کی مرکزی سرکار کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اگر وہ کسی بھی قدر یہاں کے حالات کو پُرامن دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں پہلی فرصت میں ہی اس سوچ کو اپنی ذہن سے نکال باہر کر دینا چاہیے، انہیں چاہیے کہ وہ اصل مسئلہ کی جانب آئے تاکہ مسئلہ کشمیر کا پرامن حل نکل آئے۔ کیوں کہ جب تک یہ جموں وکشمیر کا مسئلہ لٹکا رہے گا تب تک نہ ہی پورے بھارت میں امن کی کوئی خواہش کی جا سکتی ہے اور نہ ہی کسی مثبت سوچ کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ ان حالات میں ہونا تو ایسا چاہیے تھا کہ عالمی طاقتیں اور عالمی انسانی حقوق تنظیمیں سامنے آتیں اور اس طویل ترین حل طلب مسئلہ کو سلجھانے میں اپنا کردار ادا کرتے وہ اس کے بالمقابل الٹا ہی کر رہی ہیں ۔ یہاں کشمیر میں قتل پہ قتل کئے جا رہے ہیں اور قاتلوں سے کوئی بازپرس بھی نہیں ہوتی، بلکہ الٹا قاتلوں کے ہمنوائوں کی طرف سے ’’دہشت گردی ‘‘وغیرہ جیسے القاب سے کشمیریوں کو نوازا جاتا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے حالیہ ایمنٹسی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ جس میں کہا گیا ہے کہ ’’کشمیر میں حالیہ ایجی ٹیشن کے دوران پرامن مظاہرین کو طاقت کانشانہ بنایاگیا۔ طاقت کا بے تحاشہ استعمال کر کے 80سے زائد ہلاکتیں ہوئیں ، سینکڑوں زخمی، درجنوں بینائی سے محروم و معذور کر دئے گئے ، کئی زخمی نوجوان ذہنی امراض میں مبتلا ہو چکے ہیں ، جس کی تفصیل حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق یہ ہے کہ سرینگر کے کاٹھی دروازہ میں قائم ذہنی مریضوں کے اسپتال میں اب پیلٹ اور گولیوں سے مضروب افراد بھی علاج ومعالجے کے لیے پہنچ رہے ہیں ۔ اسپتال میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اب تک 500سے زائد زخمی نوجوانوں کی کونسلنگ کی گئی جن میں کئی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے ہیں ۔

علاوہ ازیں ایجی ٹیشن کے دوران وادی سے منسلک پرنٹ میڈیا اور مواصلات پر بھی قدغن لگائی گئی۔‘‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مختلف علاقوں اور ممالک میں سیاسی اتھل پتھل ، سیاسی مخالفین کو دبانے کے حربوں اور حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزیوں نیز عوامی مظاہروں کیخلاف طاقت کے بے تحاشہ اور اضافی استعمال سے متعلق ایک خاکہ پیش کیا،جس میں امریکہ ، ترکی ، شام ، عراق اور دیگر کئی ممالک کے ساتھ ساتھ بھارت اور پاکستان میں مختلف سطحوں پر ہوئی حقو ق انسانی کی پامالیوں اور مختلف قوانین کے غلط استعمال سے متعلق حالات اور واقعات کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ بھارت کے حوالے سے رپورٹ میں کشمیر وادی کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہاں گرمائی ایجی ٹیشن 2016کے دوران مظاہرین کیخلاف طاقت کا بے تحاشہ اور من مانے طور استعمال کیا گیا۔ رپورٹ میں عوامی ایجی ٹیشن کو دبانے کیلئے چھاپوں اور گرفتاریوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگوں کو مختلف قوانین کے تحت گرفتار کرکے پولیس تھانوں اور جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے، جن میں نو عمر اور چھوٹے اسکولی بچے بھی شامل ہیں ۔ بہر حال رپورٹ کے خاکے میں اگرچہ حقوق انسانی کے حوالے سے حسب معمول یہ بات دہرائی گئی کہ کشمیر وادی میں اس سال بھی امن وقانون کی کوئی صورت سامنے نہیں آئی بلکہ آئے روز یہاں حقوق انسانی کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں ۔

2016ایجی ٹیشن کے زخم ابھی بھی ہرے پڑے ہیں ، ان کی مرہم پٹی بھی ابھی نہیں ہو پائی ہے کہ بھارت کی مرکزی حکومت کی جانب سے کشمیریوں کو دھمکیوں کی صورت میں نصیحتیں کی جا رہی ہیں کہ ’’مظاہرین کو مکمل طور سے جکڑنے کے لیے سیکورٹی انتظامات کو سخت کیا جائے تاکہ احتجاج کرنے والوں کو زیر کیا جائے۔ مساجد اور مساجد سے وابستہ ذمہ داروں اوردینی مدارس پر کڑی نگاہ رکھی جائے۔ احتجاجی سنگبازوں پر سیفٹی ایکٹ، علیحدگی پسندوں کا گھیرائو تنگ کرنے اور پولیس کے سپیشل آپریشن گروپ کو پھر سے زندہ کرنے کی باتیں سامنے آرہی ہیں ۔ ‘‘عسکریت کے خطرے کی آڑ میں اب تدابیر کے طور اور لوگوں کو خوف زدہ کرنے کی غرض سے عارضی موبائل بینکر قائم کئے جا رہے ہیں ۔

حالانکہ حال ہی شائع ایک رپورٹ کے مطابق وادی میں فی الوقت 258سیکورٹی کیمپ اور 18بینکر موجود پائے جاتے ہیں ۔ احتجاجی مظاہرین سے نمٹنے کے لیے اب مزید طور پر سی آر پی ایف اور محکمہ پولیس کو 20ہزار زرہیں ، 3ہزار شیلڈ، جدید ہیلمٹ، پروٹکٹر اور پیلٹ وپاواگن خریدنے کے لیے مرکزی حکومت کی طرف سے ٹینڈر طلب کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ کشمیر کے لوگوں کو خوف زدہ کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بجائے اس کے کہ حقوق انسانی کی حالیہ خلاف ورزیوں کے بعد اب مسائل پر توجہ مرکوزکی جاتی کشمیریوں کو ایسی ایسی اشتعال انگیز دھمکیاں دی جاتی ہیں ۔ حالانکہ جہاں تک فی الوقت کشمیر کے لوگوں کا تعلق ہے تو ان میں اب موت کا خوف ختم ہو چکا ہے، کیوں حالیہ ایجی ٹیشن میں پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح لوگ سڑکوں پر نکل کر بندوقوں سے نکلی گولیوں کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے حق کا اظہار کر رہے تھے۔ کشمیر کے لوگوں کو اب دھمکیوں سے کمزور نہیں کیا جا سکتا۔ کشمیر مسئلہ کے تئیں عالمی صورت حال یہ ہے کہ وہ کشمیر معاملے پر کسی بھی حیثیت سے کوئی فکر مندی نہیں دکھا رہے ہیں ، بلکہ اگر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ وہ الٹا ان ہی کی طرف داری کرتے دکھائی دیتے ہیں جو حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ بجائے اس کے عالمی طاقتیں اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے پیش پیش رہتیں وہ عملاً اس مسئلہ کے حوالے سے یہ بات بار بار دہرا کرکہ ’’اگر بھارت اور پاکستان چاہے تو ہم ثالثی کرنے کے لیے تیار ہیں ‘‘کہہ کر اپنی ذمہ داریوں سے پیچھا چھڑا رہے ہیں ۔

بہر حال جموں وکشمیر کے لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ بھارت کی مرکزی سرکار کے عزائم کیا ہیں ، ان کے رنگ میں رنگ بھرنے کا کام جو یہاں کی مخلوط سرکار انجام دے رہی ہے، اس سے یہاں کی عوام بہت اچھی طرح واقف ہو چکی ہے۔ وہ وقت لگ بھگ جا چکا ہے جب کشمیر کے لوگ ووٹ اور پیسہ بٹورنے کے لیے غیر شعوری طور ان حکمرانوں کے شکنجے اور دھوکہ میں آیا کرتے تھے۔ اب انہیں دھوکہ دینا، ان کی سادگی کا ناجائز استعمال کرنا دور کی بات ہے۔ کشمیریوں کو اس بات پر یقین ہے کہ کوئی سہارا ملے یا نہ ملے لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کا سہارا ان کا اصل ہتھیار ہے۔ ڈر اور خوف تو کشمیر کے لوگوں نے اب چھوڑ ہی دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے سابق مرکزی وزیر داخلہ وکانگریس کے سینٹر لیڈر پی چدمبرم نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’انہیں اس بات کا شدید احساس ہے کہ بھارت کی مرکزی حکومت کی جانب سے کشمیر میں بے رحمانہ طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے کشمیر اب ہندوستان کے لیے عملًا الگ تھلگ ہو گیا ہے۔‘‘ غرض کشمیر کے لوگ اب بندوق سے نکلی گولیوں کا جواب نہ صرف پرامن احتجاج کی صورت میں دے رہے ہیں بلکہ پتھر بھی ان کا ایک ہتھیار بن چکا ہے۔ جو قوم بندوق کا جواب پتھر سے دے سکتی ہے ان کو دھمکیوں سے خاموش کرنے یا ڈرانے سے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔

دینی مدارس پر نظر، مساجد پر نظر اور یہاں کے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو اپنی گرفت میں لانا ایک لاحاصل مشق ہے اس لاحاصل کام کو کرنا نہ صرف بھارت کی مرکزی سرکار کے وقت کا زیاں ہے بلکہ یہاں کی مفاد پرست و نسل پرست مخلوط سرکار کا بھی اس میں آئندہ کے حوالے سے نقصان ہی ہے۔ کسی نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ ’’اگر کوئی حکومت بنیادی چیز کو چھوڑکر اگر اس چیز پر غور کرنے بیٹھ جائے جو اہمیت طلب نہ ہو تو اس وقت کے حکومتی ذمہ داروں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ کسی بھی حیثیت سے ذمہ داری کے اہل نہیں ہیں ، انہیں ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو کر ذی حس لوگوں کو وہاں بیٹھنے کی دعوت دینی چاہیے۔‘‘

تبصرے بند ہیں۔