مساوات مرد و زن

عظیم اللہ خان

(عمرکھیڑ)

’مساوات مرد و زن‘، اس جملہ کو جو کوئی بھی سنے گا وہ کہے گا کہ یہ بہت ضروری ہے، اور یقیناً مرد و زن مساوات ضروری ہے۔ مساوات سے مراد دونوں کو برابری کا حق ہو، دونوں میں سے کسی پر بھی زیادتی نہ ہو، کسی کی حق تلفی نہ ہو، کسی کو کم تر اور کسی کو بر تر نہ سمجھا جائے، اس بنیاد پر مرد و زن میں مساوات ضروری ہے۔

لیکن آج اس ترقی کے دور میں مرد و زن مساوات کا جو نعرہ دیا گیا ہے اور جس مساوات کو لیکر آج مہمات منائی جارہی ہے، اس مساوات کا تصور کچھ الگ ہے، آج مرد و زن مساوات کو جس انداز میں پیش کیا جا رہا ہے اس کے معنی یہ ہے کہ عورت کو بھی مرد کی طرح ہر طرح کی آزادی ہو، دونوں کا دائرہ عمل ایک ہو، آج آزادئ نسواں اور مساوات مرد و زن کے نعرے اس مفہوم کے ساتھ لگائے جا رہے ہیں کہ جب تک عورت ٹینک، توپ، ریلوے کا انجن اور گاڑیاں نہ چلائے، مردوں کی طرح دکان پر نہ بیٹھے۔ آفیسروں کی کرسیوں کو نہ سنبھالیں اور سیاسی عہدوں پر نہ فائز ہو جائے اسے مردوں کے مساوی ہونے کا شرف حاصل نہ ہوگا، مرد و زن مساوات کا یہی تصور آج دنیا میں پیش کیا جارہا ہے۔ حالانکہ یہ مساوات کا ایسا تصور ہے جو خود مردوں میں بھی موجود نہیں ہیں، ذرا غور کیجئے کہ اگر مرد و عورت میں یکسانیت ہونی چاہیئے، دونوں کے کاموں میں کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہیئے۔ اور مساوات کے نام پر جب عورت مردوں کے کام کرے تو پھر مردوں کو بھی تو عورتوں کے کام کرنا چاہیئے۔ تب ہی ہم کہہ سکیں گے کہ مرد و زن میں مساوات ہے۔

 اس انداز سے ذرا معاشرے کا جائزہ لیجئے اور دیکھئیے کہ کتنے مرد ایسے ہیں جو گھر میں کھانا بناتے ہیں، گھروں میں جھاڑو دیتے ہیں، برتن دھوتے ہیں، بچوں کے کام کرتے ہیں، اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ کیسی مساوات ہوئی، جب مساوات کے نام پر ایک عورت سے آفسوں میں نوکریاں کرائی جارہی ہے، دکانوں کے ذریعہ تجارت کرائی جارہی ہے اور مردوں کی طرح کام کرنے کے لئے اسے گھر سے باہر نکالا جارہا ہے تو پھر مرد گھر کے کام کیوں نہ کرے یہ تو عورت پر سرا سر ظلم ہے نہ کہ ایک عورت گھر کی ذمہ داریوں کو بھی نبھائے، بچوں کی تربیت اور دیکھ بھال بھی کرے، اور پھر آذادی اور مساوات بہلاوہ دیکر اس کو وہ باہر کے کام بھی سونپ دیئے جائے جو مرد کے ذمہ ہیں، یہ تو مردوں نے بڑی شاطرانہ چال کے ذریعہ اپنے بوجھ کو عورتوں پر ڈال کر کچھ کم کردیا ہے۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ اسی ترقی اور مرد و زن مساوات کے نام پر اس کمزور عورت کو در در کے چکّر لگائے جارہے ہیں، وہ کلبوں، کھیل کے کورٹوں اور میدانوں کی زینت بن رہی ہے، اس کو بے لباس کرکے سوئمنگ کی دلکشی بڑھائ جارہی ہے، تو اس عورت کو کہیں ہوٹلوں کے دروازوں پر کھڑا کیا جارہا ہے، تو کہیں میدانوں پر چئیر گرل بناکر نچایا جارہا ہے تو کہیں دکانوں پر گاہکوں کو لبھانے کا ذریعہ بنایا جارہا ہے، غرض کہ آج مساوات اور آزادی کے نام پر ہر گھٹیا کام عورت کے سپرد کردیا گیا ہے، پھر چاہے وہ مرد باس کی سیکرٹری بن کر اس کے ناز اٹھانے کا کام ہو، ہوٹلوں میں مسافروں کے کمرے صاف کرنے کا کام، یا پھر کسی استقبالیہ تقریب میں اسٹیج پر شال اور پانی کے گلاس لیکر کھڑے ہونے کا کام، یا پارٹیوں میں مسکرا مسکرا کر کھانا پروسنے کا کام، غرض کہ ہر گھٹیا سے گھٹیا کام آج عورت کے سپرد کردیا گیا ہے، اور عورت یہ سوچ رہی ہے کہ اسے آزادی مل گئ، مساوات کے نام پر انصاف مل گیا، لیکن ہندوستانی عورت کو شاید ابھی اس کا احساس نہیں ہے کہ اسے جو کچھ ملا اس کے بدلے میں اس نے جتنا کچھ کھو دیا وہ کتنا بیش قیمت تھا.

یہی وہ آزادی اور مساوات تھی جس نے مغرب کو تباہ کردیا، آج وہاں کا فیملی سسٹم ختم ہو چکا ہے، وہاں کے لوگ آج یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ مساوات اور آزادی کے نام پر عورت تباہ کردی گئی، ایک امریکی خاتون وکیل میری میزن مساوات کا حل نامی کتاب میں لکھتی ہے کہ مساوات کا نعرہ ایک عورت کے لئے دھوکا اور سرا سر گھاٹے کا سودا ہے، مرد نے بڑی چالاکی سے اپنے کام کا بوجھ عورت کے ساتھ بانٹ لیا ہے، ٹھیک اسی طرح فرانس کی حقوق نسواں کی سکریٹری مشل انڈیا کہتی ہے کہ فرانس میں خواتین کے ساتھ جس طرح کا برتاؤ کیا جارہا ہے اسے دیکھ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ شاید جانوروں کے ساتھ عورتوں کے مقابلے بہتر سلوک کیا جاتا ہے، اسپین کے پروفیسر سیمونس مور اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مغرب میں عورت تاریخ کے انتہائی بدترین دور سے گزر رہی ہے، آزادی کے نام پر اسے ظاہری چمک دمک تو ملی لیکن ان کی روحانی زندگی سے سکون غائب ہو چکا ہے، اسی طرح ایک مشہور یہودی رائٹر میخائل گوربا چوف لکھتا ہے کہ معاشی فوائد حاصل کرنے کی غرض سے ہم نے جو خواتین کو گھروں سے باہر نکالا انھیں واپس گھروں میں لانے کے لئے ہمیں جلد از جلد طریقے ڈھونڈنے پڑیں گے ورنہ جس طرح ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوا ہے اسی طرح پوری قوم تباہ ہوجائے گی.

غرض کہ مغرب ہی کی طرح آج ہندوستان میں بھی فیملی سسٹم تباہ ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے،، وہ عورت جسے گھر کی ناظمہ بنایا گیا تھا، جس پر گھر میں رہیکر بچوں کی تربیت کی ذمہ داری ڈالی گئی تھی، جب وہ  اپنی ذمہ داری سے ہٹ کر مردوں کے ساتھ کام کرنے لگی تو ہوا یہ کہ اس کی نسلیں ڈبوں کا دودھ پی کر آیاؤں کی گودوں میں پلنے لگی اور اسی طرح فیملی سسٹم تباہ ہوتا گیا، آج بھی اگر اس ملک میں فیملی سسٹم کو قائم رکھنا ہے تو عورت کو اپنا دائرہ عمل گھروں کو بنانا پڑے گا ورنہ ہمارے ملک کو بھی امریکہ اور فرانس بننے میں دیر نہیں لگے گی اور جس طرح وہاں عورت، بچے اور نوجوان نسلیں تباہ ہوئ ہے یہاں بھی وہی ہوگا اسلئے اس ہندوستانی عورت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مرد و زن مساوات صرف ایک دھوکا ہے جو اسے تباہ کر دے گا.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔