صنفی عدل: اسلامی نقطۂ نظر سے

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

صنفی عدل (Gender Justice) کا موجودہ دور میں پوری دنیا میں غلغلہ بلند ہے۔ اسے طبقۂ نسواں کی معراج سمجھ لیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ مرد کو برتراور عورت کو کم تر سمجھنا غلط ہے۔ عورت کو زندگی کے تمام معاملات میں مرد کے برابر حق ملنا چاہیے۔ تعلیم کا میدان ہو یا کاروبار اور ملازمت کا، صحت اور علاج معالجہ کے معاملات ہوں یا سیاسی بااختیاری کے، وہ ہر وہ کام کر سکتی ہے جسے مرد انجام دیتا ہے۔ گویا ’عدل‘ کا مطلب ہر معاملے میں برابری لے لیا گیا ہے۔ چوں کہ عملًا عورت کو یہ مقام حاصل نہیں تھا، اس لیے اسے اس تک پہنچانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ اس کے لیے مختلف تدابیر اختیار کی گئیں ۔ ترغیب و تلقین کے مختلف ذرائع اپنائے گئے۔ اقوام متحدہ کا ایک ادارہ  UN Women کے نام سے ہے، جو پوری دنیا میں مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

ان کوششوں کے کیا نتائج سامنے آرہے ہیں ؟ اس کا جائزہ لینے کے لیے وقتاً فوقتاً سروے رپورٹس شائع کی جاتی ہیں ۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ منزل ابھی بہت دور ہے۔ ۲۰۱۴ء میں ولڈاکنامک فورم نے تعلیم، کاروبار، صحت اور سیاسی با اختیاری کی بنیادوں پر صنفی مساوات سے متعلق رپورٹ عام کی۔ اس میں ایک سو بیالیس (۱۴۲) ممالک کی درجہ بندی کی گئی تھی۔ ہندوستان کا نمبر ۱۱۴، پاکستان کا ۱۴۱ اور یمن کا ۱۴۲ تھا۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ جو ممالک صنفی مساوات کے علم بردار ہیں اور اس سلسلے میں بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں ۔ خود ان کے یہاں بہت سے معاملات میں عدم مساوات پائی جاتی ہے۔ امریکہ میں نیشنل آرگنائزیشن فار ویمن کی فروری ۲۰۱۱ء میں جاری کر دہ رپورٹ میں بتایا گیا تھاکہ یکساں کام کی اجرت عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں تینتیس فی صد (%۳۳) کم ملتی ہے۔ برطانیہ میں چارٹرڈ مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ نے اگست ۲۰۱۱ء میں ایک رپورٹ جاری کی، جس میں کہا گیا کہ انتظامی عہدوں پر کام کرنے والی عورتیں مردوں کے مقابلے میں دس ہزار پونڈ کم مشاہرہ پاتی ہیں ۔ وہیں کے مشہور اخبار گارجین کی رپورٹ کے مطابق ہر سال تیس ہزار عورتیں حاملہ ہونے کے سبب ملازمت سے فارغ کر دی جاتی ہیں ۔ اس لیے کہ کمپنیوں کے مالکان انھیں غیر ضروری سمجھ کر ملازمتوں سے نکال دیتے ہیں ۔ گارجین ہی کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی بڑی کمپنیوں میں عورتوں کا حصہ صفر ہے۔ ’ڈی لائٹ‘ نامی ادارے کی سروے رپورٹ سے معلوم ہوا کہ FTSE100 کی بیس فی صد کمپنیوں کے بورڈس میں کوئی خاتون ڈائریکٹر نہیں، جب کہ اعلیٰ انتظامی عہدوں میں سے صرف پانچ فی صد پر عورتیں فائز ہیں۔

عالمی پیمانے پر عورتیں گھریلو تشدد کا شکار ہیں، حتّٰی کہ ترقی یافتہ ممالک، خصوصاً امریکہ اور برطانیہ میں عورتیں زندگی کے مختلف مراحل میں کسی نہ کسی نوعیت کے گھریلو تشدد،  مثلاً جنسی زیادتی، جسمانی ایذا رسانی اور ذہنی اذیت کے تجربے سے دوچار ہوتی ہے، یہاں تک کہ انھیں بے دردی سے قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں جو اعداد و شمار جاری کیے جاتے ہیں ، وہ حقیقی صورتِ حال کی عکاسی نہیں کرتے، کیوں کہ مختلف اسباب سے کم ہی واقعات نوٹس میں آپاتے ہیں ۔ عورتوں ہی کے دم سے دنیا بھر میں سیکس انڈسٹری قائم ہے۔ گارجین میں شائع شدہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ برطانیہ میں ہر سال چار ہزار سے زائد عورتیں اس پیشہ میں لگائی جاتی ہیں ۔ ان میں سے چوراسی فی صد(%۸۴)  بیرون ملک سے لائی جاتی ہیں اور غیر قانونی طور پر خریدی اور بیچی جاتی ہیں ۔ بہت سے مرد جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے عورتوں کی خریداری کو محض شاپنگ کی ایک قسم سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ اتنا ہی آسان ہے جیسے پیزا کا آڈر دینا۔

ایک طرف صنفی عدل کا یہ مغربی تصور مشرقی ممالک میں درآمد ہوا۔ مشرقی اقوام اس سراب کے پیچھے بگ ڈٹ بھاگنے لگیں۔ انھوں نے آنکھ بند کرکے ہر میدان میں عورتوں کو آگے کرنے اور انھیں مردوں کے برابر لانے کی مہم شروع کر دی۔ اس کا نتیجہ اباحیت، آوارگی، عورتوں کی عزت و وقار کی پامالی، جنسی زیادتی، نظام خاندان کے انتشار، طلاق کی کثرت اور بن بیاہی ماؤں اور باپوں کی سرپرستی سے محروم بچوں کی صورت میں ظاہر ہوا۔ دوسری طرف خود مغربی عورت اس صورت حال سے پریشان ہو کر گھر کی محفوظ پناہ گاہ میں دوبارہ واپس جانے کی آرزو کرنے لگی۔ Top Sante نامی برطانوی میگزین نے کچھ عرصے پہلے ایک سروے رپورٹ شائع کی کہ چورانوے فی صد(%۹۴)  ملازمت پیشہ خواتین کا کہنا ہے کہ وہ زوجیت، مادریت اور ملازمت کے تقاضے  پورے کرتے کرتے بے دم ہو چکی ہیں اور سخت پریشان ہیں ۔ میگزین کی ایڈیٹر نے برطانیہ، اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئر لینڈ کی پانچ ہزار ملازمت پیشہ خواتین کے انٹرویو لے کر یہ جائزہ پیش کیا:

It is Time for Superwoman to put back in her box

’’ اب وقت آگیا ہے کہ سپر ویمن واپس اپنے گھر کا رخ کرے اور اپنی اصل ذمہ داریاں نبھائے‘‘۔

سروے میں کہا گیا ہے کہ سپر ویمن کا یہ رول ماڈل ان عام عورتوں کے لیے سازگار نہیں ہے جن کے پاس گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لیے بچے کھلانے والی اناؤں اور صفائی ستھرائی والی خادماؤں کی فوج نہیں ہے۔ اس سروے میں اسی فی صد (%۸۰) عورتوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ماں باپ دونوں کی کل وقتی ملازمت خاندانوں کے ٹوٹنے کا اصل سبب ہے۔ نیز یہ کہ ملازمت پیشہ عورتوں کے تعلقات اپنے شریک حیات مردوں کے ساتھ تلخ ہو جاتے ہیں ، اس لیے بیش تر عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ مرد اپنا بوجھ اتنا نہیں اٹھاتے جتنا اٹھا سکتے ہیں ۔ مسلسل کام کی وجہ سے عورتوں کی صحت پر برے اثرات پڑتے ہیں اور وہ مختلف امراض کا شکار ہو جاتے ہیں ۔سروے میں کہا گیا تھا کہ اگر معاشی مجبوریاں نہ ہوں تو اڑتالیس فی صد(%۴۸) عورتیں صرف آرام کرنا پسند کریں گی، بتیس فی صد (%۳۲) عورتیں گھرداری اختیار کرنے کا فیصلہ کریں گی اور صرف بیس فی صد(%۲۰) عورتیں ملازمت جاری رکھنا چاہیں گی۔

صنفی عدل کے بارے میں اسلام ایک مخصوص تصور رکھتا ہے۔ اس کے نزدیک عدل کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت ہر وہ کام کرنے لگے جو مرد کرتا ہے اور ہر معاملے میں دونوں کے درمیان مساوات قائم ہو جائے۔ اسلامی نقطۂ نظر کی تشریح درج ذیل نکات کی صورت میں کی جا سکتی ہے:

 ۔ اسلام مرد اور عورت دونوں کو یکساں عزت و احترام کا مستحق قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک صنفی بنیاد پر مقام و مرتبہ کی کوئی تفریق روا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’ ہم نے بنی آدم کو محترم بنایا‘‘۔ (بنی اسرائیل: ۷۰)

اس آیت میں ’بنی آدم‘ کا لفظ آیا ہے، جس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں ۔

سورۂ حجرات میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’ لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ   پر ہیزگار ہے‘‘۔ (آیت نمبر ۱۳)

۲۔ عمل کرنے اور اس کا اجر پانے کے معاملے میں بھی مرد اور عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے۔ کوئی شخص، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اس دنیا میں جو کچھ عمل کرے گا اس کا بھر پور اجر آخرت میں پائے گا اور اس کی ذرہ بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔ سورۂ آل عمران میں اہل ایمان کی دعا کے بعد ہے:

’’ جواب میں ان کے رب نے فرمایا: ’’میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں ، خواہ مرد ہو یا  عورت تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو‘‘۔ (آیت ۱۹۵)

سورۂ الاحزاب میں ان لوگوں کا جو مسلم ہوں ، مومن ہوں ، فرماں بردار ہوں ، راست باز ہوں، صبر کرنے والے ہوں، آگے جھکنے والے ہوں ، صدقہ دینے والے ہوں، روزہ رکھنے والے ہوں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہوں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہوں، وہ خواہ مرد ہوں یا عورت، ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ کیا گیا ہے‘‘۔ (آیت ۳۵)

۳۔ سماجی زندگی میں مرد اور عورت کے یکساں حقوق رکھے گئے ہیں ۔ ہر متنفس کو زندہ رہنے کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انھیں بھی رزق دیں گے اور تمھیں بھی۔ درحقیقت ان کا قتل ایک بڑی خطا ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل: ۳۱)  یہی نہیں ، بلکہ رحم مادر میں پلنے والا جنین خواہ مذکر ہو یا مؤنث، اسے موت کے گھاٹ اتارنا جائز نہیں ۔ عہد بنویؐ میں بعض قبائل لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ اسلام نے ایسا کرنے سے سختی سے روکا۔ قرآن میں ہے: ’ ’اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟‘‘۔ (التکویر: ۸۔۹)

اولاد کی صحیح طریقے سے پرورش اور تعلیم و تربیت کا حکم دیا گیا ہے اور اس معاملے میں لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان فرق کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

’’ جس شخص کی کوئی لڑکی ہو، وہ نہ اسے زندہ درگور کرے، نہ اس کی تحقیر کرے اور نہ اپنے لڑکوں کو اس پر ترجیح دے، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا‘‘۔ (ابو داؤد: ۵۱۴۶، احمد: ۱۹۵۷)

اسلام نے عورت کو عمل کی آزادی دی ہے۔ وہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے کاروبار کر سکتی ہے، اپنا مال تجارت میں لگا سکتی ہے، جو کچھ وہ کمائے اس پر اسے مالکانہ حق حاصل رہتا ہے۔کوئی شخص اس کی مملوکہ چیز اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر نہیں لے سکتا۔

۴۔ ازدواجی زندگی میں بھی مردوں اور عورتوں کے درمیان عدل کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور ان کے حقوق کی صراحت کی گئی ہے۔ نکاح کے انعقاد کے لیے ایجاب و قبول ضروری ہے۔ بالغ لڑکی کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح کسی لڑکے سے نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

’’ لڑکی کا نکاح کرتے وقت اس سے اجازت لی جائے گی۔ اگر وہ خاموش رہے تو یہ اجازت کے مترادف ہوگا۔ اگر انکار کر دے تو اس کی مرضی کے خلاف اس کا نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہے‘‘۔ (ابو داؤد: ۲۰۹۳)

ایک لڑکی نے اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر شکایت کی کہ میرے باپ نے میرا نکاح میری مرضی کے خلاف اپنے بھتیجے سے طے کر دیا ہے۔ آپؐ نے اس کے باپ کو بلا بھیجا اور اس کے سامنے صراحت سے ارشادفرمایا کہ لڑکی کی مرضی کے بغیر کہیں اس کا نکاح نہیں کیا جا سکتا۔ (نسائی: ۳۲۶۹، ابن ماجہ: ۱۸۷۴)

اسی طرح اگر کسی وجہ سے ازدواجی رشتہ خوش گوار نہ رہ سکے اور زوجین کے درمیان بدمزگی، تلخی اور منافرت پیدا ہو جائے تو اسلام نے علیحدگی کا داروازہ کھلا رکھا ہے اور اس کا اختیار مرد اور عورت دونوں کو دیا ہے۔ مرد اگر رشتہ ختم کرنا چاہتا ہے تو اسلام نے اسے طلاق کا حق دیا ہے اور اگر عورت یہ رشتہ ختم کرنے پر آمادہ ہے اور کسی بھی صورت میں شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں ہے تو وہ خلع کے ذریعہ اس سے گلو خلاصی پا سکتی ہے۔ البتہ اس صورت میں اسے مہر کی شکل میں جو کچھ شوہر سے ملا تھا اسے واپس کرنا ہوگا۔ عورت کی جانب سے مطالبۂ خلع پر شوہر کو اسے طلاق دینا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو عورت دار القضاء میں اپنا کیس دائر کر کے نکاح فسخ کرا سکتی ہے۔

۵۔ نظام ِخاندان میں مرد اور عورت دونوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں ، البتہ دونوں کا دائرہ کار الگ الگ رکھا گیا ہے۔ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیوی بچوں کی سرپرستی، نگہ داشت اور کفالت کرے۔ اس لیے اسے محنت و مشقت کرنے، کمانے اور مصارفِ زندگی فراہم کرنے کا حکم دیا گیا ہے  اور بیوی کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ گھر کا نظم و نسق سنبھالے، بچوں کی پیدائش اور پرورش کے کام اس سے متعلق ہوں ۔ اس لیے عام حالات میں اسے گھر میں ٹک کر رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

’’تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ مرد اپنے گھر والوں کا نگراں ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے، اس سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا‘‘۔ (بخاری: ۲۴۰۹، مسلم: ۱۸۲۹)

نظامِ خاندان کی مثال ایک کمپنی کی سی ہے۔ اس میں کچھ افراد کو پروڈکشن کا کام سونپا جاتا ہے اور کچھ کو مارکیٹنگ کا۔ دونوں کی حیثیت یکساں ہوتی ہے، البتہ ان کے دائرۂ کار الگ الگ ہوتے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح نظام خاندان میں مرد اور عورت کو الگ الگ کام اور ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں ۔ اسے ان کے مقام و مرتبے میں تفریق نہیں قرار دیا جا سکتا۔ پھر جس طرح کمپنی میں ایک شخص کو سربراہ اور نگراں بنایا جاتا ہے اور تمام ملازمین کو اس کی ہدایت کے مطابق کام کرنے اور اس کے فرامین کو ماننے کا پابند کیا جاتا ہے اسی طرح نظامِ خاندان کا سربراہ مرد کو بنایا گیا ہے اور بیوی بچوں کو اس کی اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی کو قرآن میں مرد کا ’درجۂ فضیلت‘ کہا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 ’’عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں، البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے‘‘۔ (البقرۃ: ۲۲۸)

دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’مرد عورتوں پر نگہبان ہیں ، اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں ۔ پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں ‘‘۔ (النساء: ۳۴)

اسلام کے نظامِ معاشرت میں بعض احکام ایسے پائے جاتے ہیں ، جو بہ ظاہر عدل و انصاف کے منافی معلوم ہوتے ہیں ، لیکن اگر سنجیدگی کے ساتھ ان میں تدبر کیا جائے اور گہرائی سے ان کا جائزہ لیا جائے تو ان سے اسلام میں عورت کی قدر و منزلت کا اظہار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر عورت کو ’حجاب‘ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کامقصد اس کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنا اور اسے گھر کی چار دیواری میں قید کردینا نہیں ہے، بلکہ یہ حکم دراصل اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے دیا گیا ہے۔ کوئی چیز قیمتی ہوئی ہے تو اس کی حفاظت کی جاتی ہے اور اسے چور اچکوں کی دست رس سے بچانے کی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں ۔ اسلام نے عورتوں کو ضروریات کی انجام دہی کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک مرتبہ عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

’’ اللہ تعالیٰ نے تمھیں اجازت دی ہے کہ تم اپنی ضروریات کے لیے گھر سے باہر نکل سکتی ہو‘‘۔ (بخاری: ۴۷۹۰، مسلم: ۲۱۷۰)

اسی طرح اسلام نے اگر چہ خاندان کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر ڈالی ہے، لیکن وقت ضرورت عورت کو کمانے اور اس کے لیے ملازمت اختیار کرنے کی اجازت دی ہے۔ وہ شرعی حدود کی پابندی کرتے ہوئے گھر سے باہر جا سکتی ہے اور کوئی جائز ذریعۂ معاش اختیار کر سکتی ہے۔ وہ جو کچھ کمائے گی اس کی مالک ہوگی۔ کسی کو بھی، حتی کہ شوہر کو بھی اس کی مرضی کے بغیر اس سے کچھ لینے کا اختیار نہ ہوگا۔

کہا جاتا ہے کہ وراثت میں عورت کا حصہ مر دکے مقابلے میں نصف رکھا گیا ہے، یہ اس کی حق تلفی ہے۔ یہ بات درست طریقے سے اور مکمل نہیں کہی جاتی۔ ادھوری بات کہہ کر اسلام کے نظام وراثت کو عورت کی حق میں ظالمانہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت کو مرد کے دوش بدوش کھڑا کردینا اور اس سے ہر اس کام کا تقاضا کرنا جو مرد کرتا ہے، اس کے ساتھ ہم دردی نہیں ہے، بلکہ اس پر سراسر ظلم ہے۔ اس لیے کہ اس کو بچوں کی پیدائش اور پرورش سے تو چھٹی نہیں ملتی، گھر سے باہر کے بہت سے کام اس پر لاد دیے جاتے ہیں ۔ اسلام نے مرد اور عورت دونوں کو یکساں عزت اور احترام عطا کیا ہے اور عمل پر ان کے لیے یکساں اجر کا وعدہ کیا ہے، البتہ ان کے مزاج اور نفسیات کی رعایت سے دونوں کا دائرۂ کار الگ الگ رکھا گیا ہے۔ اسے عورت کی حق تلفی اور کے پست مرتبہ پر دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔

1 تبصرہ
  1. عظیم اللہ خان عمرکھیڑ کہتے ہیں

    ماشاء اللہ بہت اچھی تحریر

تبصرے بند ہیں۔