مسلمانانِ ہند: آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد  

محمد سعید اللہ مہراج گنجی

 مسلمانوں کی آمد سے قبل سرزمینِ ہند پر رجواڑوں کی شکل میں مختلف حکومتیں قائم تھیں، جو نہ صرف آپس میں بر سر پیکار رہتی تھیں، بلکہ ان حکومتوں میں کمزور اور پسماندہ طبقات پر ظلم وستم بھی عروج پر تھا۔ اس ظلم میں نہ صرف اربابِ اقتدار پوری طرح شامل تھے، بلکہ مذہبی ٹھیکیدار بھی پیش پیش تھے۔ منووادی نظام کے تحت اس ظلم کو پائیدار بنانے کے لئے سماج کو مختلف طبقات میں تقسیم کرکے سماج طریقے پر ان کی ذمہ داریاں بھی تقسیم کردی گئی تھیں۔ اپنے ہی ہم مذہب انسانوں کے ایک طبقے کو شودر بناکر گونا گوں ظلم واستحصال کا ایک ایسا نظام جاری تھا، جس کی پوری تاریخِ انسانی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ایسے ہی تاریک دور میں مسلمانوں نے ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھا، اور اپنے اعلی اخلاقی اوصاف سے یہاں کے دبے کچلے مظلوم باشندوں کے دل جیت لئے۔ انہوں نے، ، الخلق عیال اللہ، ، کے تحت طبقاتی کشمکمش کو ختم کرکے عملی طور پر مساوات قائم کیا، اونچ نیچ کے فرق کو مٹایا، عدل وانصاف کا ایک مستحکم نظام قائم کیا، یہاں کے مختلف رجواڑوں کو ختم کرکے اکھنڈ بھارت کی عملی تصویر دنیا کے سامنے پیش کی، اور باشندگانِ ہند کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے اس قدر جدوجہد کی کہ اس ملک کو سونے کی چڑیا بنا دیا۔ اور اپنی ہزار سالہ تاریخِ حکمرانی میں نہ صرف تاج محل، قطب مینار، لال قلعہ اور جامع مسجد جیسی عالمی شہرت کی حامل عمارتیں ورثے میں چھوڑیں، بلکہ تاریخی، علمی، فکری اور تہذیبی و ثقافتی سطح پر ہندوستان کو وہ گراں مایہ دولت عطا کی، جس کا مکمل احاطہ کرنے سے تاریخ کے اوراق قاصر ہیں۔

پھر وطن عزیز کی تاریخ میں وہ وقت بھی آیا، جب اس کی مقدس سرزمین پر انگریزوں کے ناپاک قدم آئے، سورت کی بندرگاہ پر وہ اترے، اور یہاں کی دولت و ثروت اور خوش حالی دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے، سونے کی اس چڑیا کو دیکھ کر ان کی نگا ہیں خیرہ ہونے لگیں۔ چنانچہ انہوں نے سورت میں تجارتی کوٹھیاں قائم کیں، اور دن بدن اپنی تجارت کو پروان  چڑھاتے رہے، جہاں گیر کے دربار میں انہوں نے تجارتی مراعات کی درخواست بھی پیش کی، اس وقت کسی کے حاشیہُ خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی، کہ یہ انگریز جو آج جہاں گیر کے دربار میں کھڑے ہوکر عاجزانہ طریقے پر تجارتی مراعات کی بھیک مانگ رہے ہیں، کل کو ان کی اولاد اسی جہاں گیر کے اخلاف کو قید و قتل کرکے اس کے تخت وتاج پر قبضہ کر لے گی۔

وقت اپنی رفتار کے ساتھ چلتا رہا، جب تک اقتدار پر مغلیہ فرما رواؤں کی گرفت مظبوط رہی، انگریزوں کی دال نہ گلی۔ لیکن ١٧٠٧ء میں اورنگزیب عالمگیر علیہ الرحمہ کے انتقال کے بعد جب آپسی رسہ کشی اور خانہ جنگی کی وجہ سے مرکزی حکومت کمزور ہونے لگی، تو انگریزوں کو کھل کر کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ انہوں نے اپنی فطری عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بال و پر نکالنے شروع کردیئے، مدراس اور کلکتہ وغیرہ میں موجود اپنی تجارتی کوٹھیوں کو قلعے میں تبدیل کرلیا، اور امراءکی باہمی چپقلش سے فائدہ اٹھاکر حکومت میں دخیل ہونے لگے۔ سب سے پہلے ان کی سازشوں کو نواب علی وردی خان نواب بنگال نے محسوس کیا، اور ١٧٥٤ءمیں باظابطہ فوج کشی کر کے انہیں شکستِ فاش دی، اور فورٹ ولیم پر قبضہ کرکے وہاں سے مار بھگایا۔ انگریز اپنے دوسرے بڑے مرکز ڈائمنڈ ہارپر میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے، لیکن اس سے قبل کہ نواب کلی طور پر ان کا قلع قمع کرتا، پیغامِ اجل آپہنچا۔ مگر اس دنیا سے جانے سے پہلے پہلے اس نے اپنے نواسے اور جانشین نواب سراج الدولہ کو اس فتنے کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھیکنے کی وصیت کردی، چنانچہ نواب سراج الدولہ نے مسندِ اقتدار پر فائز ہونے کے بعد سب سے پہلے اسی چیز کی طرف توجہ مرکوز کی، اور نانا کی وصیت کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ١٧٥٧ءمیں میدان میں آئے۔ پلاسی کے میدان میں نواب کی افواج اور انگریزوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی، اور قریب تھا کہ انگریز شکست کھاکر میدان چھوڑ دیتے، کہ پہلے سے طے شدہ پلان کے تحت نواب کے کمانڈر انچیف میر جعفر نے غداری کر دی۔ نواب سراج الدولہ کو اپنی عددی برتری اور اسباب وسائل میں تفوق کے باوجود شکست ہوئی، اور پھر وطن عزیز سے وفاداری کے جرم میں جامِ شہادت نوش کر نا پڑا۔

اس کے بعد نواب بنگال، نواب اودھ، اور بادشاہ شاہ عالم کی متحدہ افواج ١٧٦٢ءمیں انگریزوں سے مقابلے کے لئے بکسر کے میدان میں جمع ہوئیں، مگر یہاں بھی انگریز اپنی قلتِ تعداد کے باوجود اپنے نظم وضبط کی وجہ سےان متحدہ افواج پر بھاری رہے، اور انہیں ہزیمت سے دوچار کر کے بنگال، بہار اور اڑیسہ پر پوری طرح حاوی ہو گئے۔

  پھر ١٧٦٥ءکے بعد جنوبئ ہند سے دو طاقتور شخصیتیں نواب حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی شکل میں اٹھیں، انہوں نے سب سے پہلے یہ نعرہ دیا کہ، ، ہندوستان ہندوستانیوں کا ہے، ، اور انگریزوں کو وطن عزیز سے نکالنے کا عزم کر لیا، انگریزوں سے لگاتار کئی جنگیں لڑیں، اور انہیں شکست سے دوچار کیا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب ان باپ بیٹوں کے فوجی دباؤ سے مجبور ہوکر انگریز مدراس کے اپنے آخری قلعے میں محصور ہونے پرمجبور ہو گئے، اور قریب تھا کہ ہندوستان اسی وقت ان کے ناپاک وجود سے ہمیشہ کے لئے پاک ہوجاتا، مگر صلح کی ان کی عاجزانہ درخواست کو نواب حیدر علی نے اپنی رحم دل طبیعت کی وجہ سے قبول کرلیا، اور یہ جاتے جاتے رہ گئے۔ ١٧٨٢ءمیں نواب حیدر علی کے انتقال کے بعد ٹیپو سلطان کے زمانہُ اقتدار میں ایک بار پھر انہوں نے اپنے بال و پر نکالنے شروع کئے، سلطان نے۱۷۸۲-۸۳ءمیں بر وقت ان پر تادیبی کارروائی کر کے ان کو شکست فاش دی۔ جب انگریزوں کو یقین ہو گیا کہ ہم تنہا سلطان کا مقابلہ نہیں کر سکتے، تو انہوں نے اپنی تمام تر عیاری کو بروئے کار لاتے ہوئے جنوبئ ہند میں موجود اس وقت کی دو بڑی طاقتوں : نظام اور مرہٹہ کو اپنے ساتھ ملا لیا، اور اس طرح یہ متحدہ افواج سلطان کے مقابلے میں آئیں۔ سلطان نے ہر ممکن کوشش کی کہ نظام اور مرہٹے انگریزوں سے الگ ہو جائیں مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا، ١٧٩٢ء کی اس جنگ میں اپنے بعض امراءاور فوجی افسران کی غداری کی وجہ سے سلطان انگریزوں سے معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گئے، اور بطورِ تاوان تین کروڑ روپئے اور نصف علاقہ دینے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے دو شہزادوں کو یرغمال بھی رکھنا پڑا۔

سلطان اور انگریزوں کے درمیان تیسری بڑی اورآخری جنگ ١٧٩٩ء میں ہوئی، اس جنگ میں انگریزوں نے حسبِ سابق نظام اور مرہٹہ کے ساتھ مل کر سلطان کے دارالحکومت سرنگا پٹنم کا محاصرہ کرلیا، مگر اب بھی ان کو اپنی کامیابی کا صد فیصد یقین نہیں تھا، چنانچہ اپنی فتح کو یقینی بنانے کے لئے ٹیپو کے امراءمیں ایک بار پھر غدار پیدا کر لئے، کمانڈر انچیف کو توڑ لیا، وزیراعظم پورنیا سمیت متعدد امراءاور اراکین دولت کو اپنا ہمنوا بنانے کے بعد یہ فوجیں آگے بڑھیں، اور قلعے پر یلغار کر دیا، سلطان نے حتی المقدور مدافعت کی کوششیں کیں، مگر اپنوں کی غداری کی وجہ سے ہندوستان کا یہ شیرِ دل فرزند اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اور جب اس سے یہ کہا گیا کہ آپ یا تو انگریزوں سے صلح کرلیں یا میدان چھوڑ دیں، تو اس نے یہ تاریخی جملہ کہتے ہوئے کہ، ، شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے، ، شہادت کو گلے لگا لیا۔ جب متحدہ افواج کے کمانڈر انچیف جنرل ہارس کو سلطان کی شہادت کی خبر ملی، تو بھاگا بھاگا آیا، اور سلطان کی لاش دیکھتے ہوئے فرطِ مسرت سے چیخ اٹھا کہ، ، آج سے ہندوستان ہمارا ہے، ، کیونکہ اب وہ سنگِ گراں ہٹ چکا تھا جو اس کے توسیعی عزائم کی راہ میں حائل تھا۔ حقیقت یہی تھی کہ اگر ٹیپو سلطان اپنوں کی سازش کا شکار نہ ہوتے تو ہندوستان کی قسمت کا ستارہ کب کا چمک چکا ہوتا۔

  پھر ١٨٠٣ء  میں جب انگریز کی طرف سے یہ اعلان ہوا کہ خلق خدا کی، ملک بادشاہِ سلامت کا، اور حکم کمپنی بہادر کا، تو نازشِ ہند حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمةاللہ علیہ نے ہندوستان کے دار الحرب ہونے کا تاریخی فتوی دیا۔ اس فتوے کے نتیجے میں سرفروشانِ وطن میں آزادئ وطن کا ایک طوفانِ بلا خیز پیدا ہوگیا، سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید اور ان کے رفقاء کی شکل میں قافلہُ حریت کی وہ مقدس جماعت وجود میں آئی، جس کی نظیر آخری صدیوں میں نہیں ملتی۔ اس قافلے کا مطمحِ نظر ہندوستان سے برطانوی سامراج کا خاتمہ تھا، چنانچہ اس نیک مقصد کی خاطر ہجرت کرکے انہوں نے آزادقبائل کا رخ کیا۔ کہ وہ فاتحین کی گذرگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک محفوظ مرکز بھی تھا، افراد کی دستیابی آسان تھی، اور سب سے بڑی بات یہ کہ پشت پر اسلامی مملکتوں کی ایک زنجیر تھی۔ مقصد تو انگریزوں سے نبرد آزمائی تھی مگر بدقسمتی سے پنجاب میں مہاراجہ رنجیت سنگھ اور اس کے کارندوں کا ظلم بطور خاص مسلمانوں پر اپنی تمام حدوں کو پار کرچکا تھا، اور افہام وتفہیم کی تمام تر کوششیں رائیگاں ثابت ہورہی تھیں۔ چنانچہ سید احمد شہید اور ان کے رفقاء نے سب سے پہلے اس فتنے کا قلع قمع کرنا چاہا، کئی جنگوں میں انہیں شکست سے دوچار کیا۔ ادھر انگریز بھی اس جماعت کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اس کے مقاصد سے غافل نہیں تھے، چنانچہ انہوں نے ایک طرف غلط پروپیگنڈوں کے ذریعے آزاد قبائل کو ان مجاہدین سے برگشتہ کیا، تو دوسری طرف سکھوں کے ساتھ مل کر متحدہ جنگی حکمت عملی تیار کی، اور پھر ١٨٣١ء کی وہ منحوس ساعت آئی جب بالا کوٹ کی پہاڑیوں پر ایک غدار کی مخبری کی بنا پر اس جماعت کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا، مجاہدین نے جم کر مقابلہ کیا، لیکن انہیں شکست ہوئی، سید احمد شہید، مولانا اسماعیل شہید سمیت اکثر مجاہدین شہید کردیئے گئے۔ اس جماعت کے بچے کھچے لوگ اپنے مقصد کی تکمیل کی خاطر ایک لمبے زمانے تک جدوجہد کرتے رہے، اور ہر طرح کی قربانیاں دے کر سر فروشی کی تاریخ میں ایک زریں باب کا اضافہ کیا۔

 اس کے بعد ١٧٥٧ء  کا وہ خونی معرکہ پیش آیا، جس کے ذکر سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، آخری مغل فرماں روا بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی جانے والی یہ جنگ نہایت قیامت خیز تھی، جنرل بخت خان کے زیر کمانڈ مجاہدین نے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی تمام تر کوششیں صرف کردیں کہ غلامی کی زنجیروں کو کاٹ کر سر زمینِ ہند کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئےانگریز کے فتنے سے پاک کرلیا جائے۔ چنانچہ دہلی سمیت متعددمقامات پر ہنگامہُ کارزار گرم ہوا۔ تھانہ بھون میں حاجی امداداللہ مہاجر مکی، مولانا محمد قاسم نانوتوی اور ان کے رفقاء سینہ سپر تھے، تو ہردوئی، شاہجہاں پور اور لکھنئو وغیرہ میں شہزادہ فیروز شاہ، مولانااحمداللہ شاہ مدراسی، اور بیگم حضرت محل وغیرہ، اسی طرح دوسری جگہوں پر دوسرے مجاہدین برسرپیکار، ۔ لیکن قدرت کو ابھی ہندوستان کی آزادی منظور نہیں تھی، چنانچہ یہ جنگ آزادی بھی ناکام ہوئی، انگریز غالب آیا، اور ظلم وستم کا وہ سیاہ باب رقم کیا جس کے سامنے چینگیز و ہلاکو کی داستانِ ظلم بھی پھیکی پڑ گئی۔ صرف تین دن میں چودہ ہزار علماء کو شہید کر دیا گیا، چاندنی چوک سے لے کر خیبر تک کوئی درخت ایسا نہیں تھا، جس پر علماء کی لاشیں نہ لٹک رہی ہوں، بادشاہی مسجد لاہور میں ایک ایک دن میں چالیس چالیس علماء کو پھانسیاں دی گئیں، انہیں توپ کے دہانے سے باندھ کر توپ چلا دیا جاتا، جس سے ان کے جسم کے پرخچے اڑ جاتے تھے، انہیں زندہ آگ میں جلایا گیا، ہزاروں کو کالے پانی کی سزا سنائی گئی، بے شمار لوگوں کو نذرِ زنداں کیا گیا، ان کے املاک کو ضبط کر لیا گیا۔ الغرض ظلم وستم کا ایک سیاہ دور جاری تھا، خود قائدِ حریت بہادر شاہ ظفر کو ہمایوں کے مقبرے سے گرفتار کرکے لال قلعہ میں نظر بند کردیا گیا، ان کے تین جوان بیٹوں کو جنرل ہڈسن نے گرفتار کرنے کے بعد خونی دروازے پر شہید کیا، ان کی نعشوں کو وہاں لٹکایا، اور سر کاٹ کر ایک طشتری میں رکھ کر بوڑھے بادشاہ کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ تحفہ قبول کیجئے، بادشاہ نے کپڑا ہٹایا تو سامنے بیٹوں کے کٹے ہوئے سر تھے۔ مگر آفریں ہے بہادر شاہ ظفر پر، کہ انہوں نے آنسو بہانے کے بجائے فخریہ طور پر کہا، ، الحمدلله تیمور کی اولاد ایسے ہی سرخرو ہوا کرتی ہے، ، ۔ پھر ١٨٥٨ ءمیں خاندانِ مغلیہ کے اس آخری تاجدار کو جلا وطن کر کے رنگون بھیج دیا گیا، جہاں ١٨٦٢ء میں انہوں نے جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔

اس کے بعد ١٨٦٧ء میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد پڑتی ہے، کیا یہ فقط درس وتدریس اور تعلیم وتعلم کا ایک مرکز تھا؟ جی نہیں بلکہ اسے ١٨٥٧ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کی تلافی کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ چناچہ  اس کے سب سے پہلے طالب علم شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند کی بنیاد میرے سامنے پڑی، اس کا مقصد یہ تھا کہ ١٨٥٧ءمیں ناکامی کے نتیجے میں مجاہدین کی جو جماعت ختم ہو گئی ہے، اور آزادی کا ولولہ سرد پڑچکا ہے اس کو دوبارہ زندہ کیا جاسکے، اور مجاہدین کی نئی نسل تیار کی جا سکے۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ دارالعلوم کے فرزندوں نے تحریک آزادی میں قائدانہ کردار ادا کیا، اور اس وقت تک کرتے رہے جب تک انگریز یہاں سے اپنا بوریا بستر سمیٹ کر واپس انگلستان نہیں چلا گیا۔ یہیں سے وہ مشہورِ زمانہ تحریک ریشمی رومال چلی، جس کے ڈانڈے ایک طرف اندرونِ ملک ہوتے ہوئے آزاد قبائل اور افغانستان کی اسلامی حکومت سے ملتے تھے، وہیں دوسری طرف خلافتِ عثمانیہ ترکی سے بھی اس کا گہرا تعلق تھا۔ اور پلان یہ تھا کہ ایک مقررہ تاریخ پر اندرونِ ملک بغاوت برپا کرکے باہر سے ترک، افغان اور آزاد قبائل کی متحدہ افواج کے ذریعے حملہ کردیا جائے، نتیجتًا انگریز چکی کے دو پاٹوں میں پس کر رہ جائے گا، اور وطنِ عزیز بہت آسانی سے آزاد ہوجائے گا، مگر شاید قسمت کو ابھی بھی ہندوستان کی آزادی منظور نہیں تھی۔ چنانچہ عین وقت پر ایک غدار رب نواز خان کی مخبری کی وجہ سے راز فاش ہوگیا، اور پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی، خود شیخ الہند اور ان کے رفقاء کو مکہ المکرمہ سے گرفتار کرکے مالٹا پہونچادیاگیا۔

١٣ اپریل ١٩١٩ء کو جلیان والا باغ کا عظیم سانحہ پیش آیا، اس میں شہید ہونے والوں میں برادران وطن کےساتھ ساتھ مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی، جو جنرل ڈائر کی گولیوں کا نشانہ بن کر ملک کی خاطر شہید ہوئی۔ اس کے بعد  ٥ جولائ ١٩١٩ء میں تحریکِ خلافت چلی، اس تحریک نے سوئے ہوئے جذبات جگادیئے، اور افسردہ دلوں کے اندر آزادی کا شعلہُ جوّالہ پیدا کردیا، قائدینِ خلافت بالخصوص جوہر برادران نے اس سلسلے میں پورے ملک کا دورہ کیا، اور ہندوستانیوں کے دلوں سے احساسِ مرعوبیت کو ختم کرکے وہ جرات وہمت پیدا کی جس سے وہ انگریزوں سے اپنے جائز مطالبات منواسکیں۔ پھر خلافت وفد کی انگلستان سے ناکام واپسی اور معاہدہُ سیورے کی ذلت آمیز شرائط کے خلاف تحریکِ خلافت کے رہنماؤں نے تحریکِ ترکِ موالات کا فیصلہ کیا۔ اور ہندو مسلم اتحاد کے پیش نظر حضرت شیخ الہند کے اشارے پر گاندھی جی کو رہنما بنا کر آگے بڑھایا، تاکہ برادرانِ وطن کو، جو اب تک تحریکِ آزادی  میں بہت پیچھے تھے، وہ بھی شانہ بہ شانہ چل کر وطن عزیز کو برطانوی استعمار سے آزاد کرانے میں اپنا رول ادا کریں، چنانچہ مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے خلافت فنڈ سے گاندھی جی کو پورے ملک کا دورہ  کرایا، اور ہندو مسلم اتحاد کا چہرہ بناکر ملک کے سامنے پیش کیا۔

اب آزادی کی یہ تحریک تدریجًا اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکی تھی، مسلمانوں سمیت باشندگان ہند کا جذبہُ آزادی اپنے شباب پر تھا، وہ پھانسی کے پھندوں سمیت قید و بند کی تمام تر صعوبتیں برداشت کرنے کے لئے ذہنی طور پر اب بھی تیار تھے۔ اسی ماحول میں ٨ اگست ١٩٤٢ء کو انڈین نیشنل کانگریس اور اس کے قائد گاندھی جی نے، ، ہندوستان چھوڑو، ، کا وہ نعرہ دیا جو مسلمان اس سے بہت پہلے دے چکے تھے۔ کانگریس کی یہ تحریک گرچہ بوجوہ ایک ناکام تحریک ثابت ہوئی، لیکن اس میں بھی قوم پرور مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔

الغرض آزادی کے ابتدائی سو سال تک تنِ تنہا صرف مسلمان برطانوی سامراج سے ٹکرا کر ہر طرح کی قربانی دیتے رہے، پھر برادران وطن ساتھ آئے، مگر ١٩٢٠ء تک ان کا کوئی قابل ذکر مرکزی کردار سامنے نہیں اتا۔ پھر١٩٢٠ء  کے بعد آزادی کے تیسرے اور آخری دور میں پورے جوش وخروش سے انہوں نے بھی حصہ لیا، مگر مسلمان اب بھی کسی سے پیچھے نہیں تھا، اس کی متعدد جماعتیں اور تنظیمیں : مثلا جمعیتہ علماء ہند، جماعت احرار، اور سرحدی گاندھی خان عبد الغفار خان کی خدائی خدمت گار وغیرہ سرگرم عمل تھیں، ان کے قائدین اور کارکنان قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے، اور حصولِ آزادی تک کرتے رہے۔ پھر چاہے سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج میں جنرل محمد زماں کیانی، جنرل شاہ نواز خان اور کرنل حبیب الرحمن خان کا کردار ہو، یا ١٩٤٦ء میں ممبئی اور کراچی کے بحری بیڑوں کی بغاوت میں کرنل محمد خان کا رول، جنگ آزادی کی تقریبادو سو سالہ تاریخ میں مسلمانوں نے کبھی بھی انگریز سے سمجھوتہ نہیں کیا، بلکہ ہر موڑ اور ہر منزل پر اس کے توسیعی عزائم میں حائل رہے، اور اس کے ناپاک چنگل سے وطن عزیز کو آزاد کرانے کے لئے ہر طرح کوشاں، اور ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار، ۔ بقول موُرخ میو راؤ گپت پوری جنگ آزادی میں پانچ لاکھ مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔

 الغرض ہر طرح کی قربانی دے کر ہم نےاس ملک کو آزاد کرایا، لیکن شو مئی قسمت کہ جب آزادی کا وقت قریب آیا تو وہ قومیں جو ہزاروں سال سے باہم شیر و شکر تھیں، ایک سازش کے تحت انہیں آپس میں ٹکرادیاگیا، اور فسادات کی اس آگ کو اتنا بھڑکایا گیا کہ بظاہر یہ محسوس ہونے لگا کہ اب اس ملک میں ہندو مسلمان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ پھر تقسیم کا فارمولا سامنے رکھا گیا، یہاں ہزار سالہ باہمی پیار و محبت کی تاریخ ہار گئی، اور مفاد پرستی غالب آگئی، اور ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ بظاہر یہ ملک کی تقسیم تھی، لیکن در حقیقت یہ ہندوستان کے مسلمانوں کی تقسیم تھی(جیسا کہ آگے چل کر تقسیمِ پاکستان سے اس مفروضے کو اور تقویت ملی) تاکہ سیاسی طور پر برّصغیر میں مسلمانوں کو بے وزن کر دیا جائے۔ تقسیمِ وطن کےمذکورہ فارمولے پر گرچہ زعمائے ہند نے اپنی دستخطوں سے مہر تصدیق ثبت کردیاتھا، تاہم مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت نے مذہب کے نام پر بنائے گئے اس الگ ملک کو قبول نہیں کیا، اور ہندوستان ہی میں رہنے کو ترجیح دی، ہندوستانی آئین نے بھی ان کے حقوق کی مکمل ضمانت دی، انہیں مساوات کا حق دیا، اور پھلنے پھولنے اور ترقی کرنے کا یکساں موقع فراہم کیا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ڈاکٹر بھیم راوُ امبیڈکر اور ان کی ٹیم کا تیار کردہ آئین (جس کے بنانے میں ہمارے اکابر بھی شریک تھے) نے ہمیں جو حقوق عطا کئے تھے، آزادی کے بعد سے ہی اس کی پامالی لگاتار جاری ہے۔ سب سے پہلے اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دے کر اس پر  شب خون مارا گیا، اور اسے دیش نکالا دیا گیا، حالانکہ اردو خالصتًا ہندوستانی زبان تھی، جو یہیں پیدا ہوئی، یہیں پلی بڑھی اور پروان چڑھی، اور آزادئ وطن میں قائدانہ کردار ادا کیا، لیکن فرقہ پرست ذہنیت کو مسلمانوں سے اس کی قربت برداشت نہیں ہوئی، اور اس کو مٹانے کی ہر ممکن سعی کی گئی۔ پھر ١٩٥٠ءمیں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے دلت مسلمانوں کو ریزرویشن سے یکلخت محروم کردیا گیا۔ ایک پلاننگ کے تحت فوج، پولیس، عدلیہ، مقننہ اور دوسرے سرکاری اداروں سے ریٹائر ہونے والے مسلم اہلکاروں کی جگہ مسلم نوجوانوں کو خدمت کا موقع فراہم نہیں کیا گیا، جس سے حکومتی اداروں میں ان کا تناسب آٹے میں نمک کے برابر ہوگیا۔ بابری مسجد میں مورتی رکھ کر پہلے اسے مقفل کیا گیا، پھر ١٩٩٢ءمیں فرقہ پرست طاقتوں نے آئین و قانون کا سرِ عام مذاق اڑاتے ہوئے دن کے اجالے میں اسے شہید کرکے یہاں کے مسلمانوں کو واضح طور پر یہ پیغام دے دیا، کہ ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ آزادی کے بعد سے فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے، ہندوستان کے جس حصے میں بھی مسلمان معاشی و اقتصادی طور پر اُبھرے، منظم طریقے پر فسادات کی آگ بھڑکاکران کی معیشت کو تباہ کر دیا گیا، عصمتوں پر ڈاکے ڈالے گئے، اور قتل و خون ریزی کا ننگا رقص کیا گیا، باقی کسر ہماری بہادر پولیس مظلوم مسلمانوں کو جیلوں میں ڈال کر اور طرح طرح کے مقدمات میں پھنساکرپوری کرتی رہی، جس پر مختلف کمیشنوں کی رپورٹیں شاہد ہیں۔ تعلیم یافتہ اور برسرروزگار مسلم نوجوانوں کے مورال کو ڈاوُن کرنے کے لئے ان کی گرفتاریاں، اور دہشت گردی کے فرضی مقدمات  قائم کرکے دس دس سال پندرہ پندرہ سال جیلوں میں ڈال کر ان کے کیریئر کو تباہ کرنے کا مذموم سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ یہ حادثات ہی کیا کم تھے کہ ٢٠١٤ء میں بی جے پی کے مسندِ اقتدار پر فائز ہونے کے بعد فرقہ پرست طاقتوں نے موب لنچنگ کے عنوان سے ظلم وستم کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا، جنونی عوامی بھیڑ کے ذریعے جس کو چاہا پیٹ پیٹ کر قتل کردیا۔ دادری کے اخلاق سے لے کر حافظ جنید، پہلو خان اور اکبر خان سمیت کتنے ایسے معصوم ہیں، جو ان کے ظلم کا نشانہ بنے۔ طرّہ یہ کہ علا نیہ طور پر یہ لوگ اپنے ان مذموم کرتوتوں کا ویڈیو بنا کر سوشل سائیٹس پر ڈال دیتے ہیں۔ انکے دلوں میں قانون کا کوئی خوف نہیں، اور ہو بھی کیوں؟ جب اقتدار میں بیٹھے کچھ فرقہ پرست لوگوں کے مظبوط ہاتھ ان کی پشت پر ہیں، پھر خواہ گھر واپسی کا مسئلہ ہو یا طلاق ثلاثہ کا، علیگڈھ مسلم یونیورسیٹی اور جامعہ ملیہ کے اقلیتی کردار کا معاملہ ہو، یا مرکزی حکومت کا تعصب پر مبنی شہریت بل لانے کا معاملہ، موجودہ حکومت کی ان تمام مسائل میں گہری دلچسپی ہے جس سے پولرائیزیشن ہو سکے اور وہ دوبارہ اقتدار میں آکر آر ایس ایس کے ما بقیہ مقاصد کی تکمیل کرسکے۔

خلاصہ یہ کہ آزادی میں مسلمانوں کی عدیم المثال قربانیوں کا صلہ آزاد ہندوستان میں یہ ملا کہ عملًا وہ دو نمبر کے شہری بنادیئے گئے ہیں، اور سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ان کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہو چکی ہے۔ اور آج حقیقت یہ ہے کہ خوف کا ایک ماحول ہے جس میں مسلمان جی رہا ہے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان کیا کریں جس سے ان کا مستقبل روشن ہو؟اور وہ ایسی باوقار زندگی بسر کر سکیں جس میں ان کا مذہبی تشخص، ملی وقار اور تجارت ومعیشت محفوظ رہے، اور برادران وطن کے شانہ بہ شانہ ترقی کی شاہراہ پر وہ بھی بلا خوف و ہراس دوڑ سکیں، اور ہندوستان کو دوبارہ سونے کی چڑیا بنانے میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکیں ؟ تو اس سلسلے میں ہمیں دنیا کی سب سے سچی کتاب قرآن سے رجوع ہونا پڑےگا، خالقِ کائنات نے بہت صاف الفاظ میں آج سے چودہ سو سال پہلے ہی اعلان کردیا تھا، ، وانتم الا علوم ان کنتم مومنین، ، اگر مومن کامل بن کر رہے تو تم ہی سر بلند اور کامیاب و کامراں رہوگے، اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مقام جابیہ میں اپنے کمانڈروں کو مخاطب کرتے ہوئے اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا تھاکہ، ، کناأذلّ قومٍ فاعزّنا الله بألا سلام فمھمانطلب العزّ بغیر ما اعزّنا الله به اذلّنا الله، ، کہ دنیا میں ہم سب سے زیادہ ذلیل تھے، پس اسلام نے ہمیں عزت و سربلندی عطا فرمائی، پس جب بھی اس چیز کے علاوہ میں عزت تلاش کریں گے جس کے ذریعے اللہ نے ہمیں عزت دی، اللہ تعالی ہمیں ذلیل و رسوا کر دیں گے۔

ہماری پوری چودہ سو سالہ تاریخ ایک کھلی کتاب کی مانند ہمارے سامنے ہے۔ تاریخ کے جس دور میں بھی ہم نے مذکورہ بالا ہدایات سے سرتابی کی ذلیل و رسوا ہوئے، اور جب بھی ہم اس پر عمل پیرا ہوئے، گرچہ ہماری تعداد تھوڑی رہی ہو، اسباب ووسائل کا فقدان رہا ہو، لیکن نصرتِ خداوندی کی بدولت کامیابی نے بڑھ کر ہمارے قدم چومے۔ ہم ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ہماری یہ روشن تاریخ ایک رہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلام کی آفاقی تعلیمات کو مکمل طور پر اپناکر،  اُدخلوا فی السلام کافةً،  کا کامل نمونہ بنیں، اور اپنے عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق کو صد فیصد اسلامی تعلیمات کے مطابق بنائیں۔ برادران وطن کو بھی، ، ادعُ الی سبیل ربك بالحکمة  والموعظة الحسنة، ، کے تحت نرم خوئی کے ساتھ پیار و محبت سے احسن طریقے پر اسلامی تعلیمات  سے روشناس کرائیں، اپنے معاملات کی سچائی  اور اخلاق کی بلندی کا گرویدہ بنائیں، پڑوسیوں کےساتھ حسن سلوک کا معاملہ کریں، اپنی صفوں میں کلمے کی بنیاد پر اتحاد پیدا کریں، مسلکی نزاع میں بالکل نہ پڑیں، بلکہ مسلکی نزاع کھڑا کرنے والوں کا سوشل بائیکاٹ کریں، کیونکہ یہ مسلکی تنازعات ملت کے وقار کے لئے  زہر ہلاہل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اپنے نونہالوں کو اعلی تعلیم سے آراستہ کرنے کی کوشش کریں، کیونکہ یہ ترقی کی شاہِ کلید ہے۔ ہمارے صاحبِ ثروت حضرات بھی آگے آئیں، اور جامع منصوبہ بندی کے ساتھ خدمت و بزنس کے مقصد سے مسلم علاقوں میں جا بہ جا معیاری اسکول و کالجز قائم کرکے نسلِ نو کے مستقبل کو سنوارنے کا کام کریں۔ بیاہ شادی جیسی تقریبات میں فضول خرچی سے کلیةًاحتراج  کرتے ہوئے سادگی اختیار کی جائے، خدمتِ خلق اور رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے، اور انفرادی واجتماعی سطح پر ہر وہ کام کیا جائے جس سے ملت کے وقار میں اضافہ ہو، اور ہر اس کام سے بچا جائے جس سے اس کو ٹھیس پہنچے۔ جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم کو اپنا شعار  بنایا جائے۔

الغرض یہ وہ بنیادی چیزیں ہیں، جنہیں اگر ہم اپنا لیں تو انشاءاللہ تنزل وانحطاط کا یہ تاریک دور ختم ہوجائے گا، اور ہم اپنے آباؤ اجداد کی طرح ہندوستان میں  ایک باوقار ملت کی حیثیت سے سر اٹھاکر رہ سکیں گے۔ اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے

1 تبصرہ
  1. حسنین اشرف ایڈووکیٹ کہتے ہیں

    ماشاءاللہ۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

تبصرے بند ہیں۔