مولانا زبیر احمد قاسمیؒ کا علمی سفر

خورشید عالم داؤد قاسمی

سوہانِ روح خبر:

جہاں ایک طرف 13/جنوری 2019 کی صبح کا سورج آہستہ آہستہ اپنی شعائیں بکھیر کر، پورے عالم میں اپنی روشنی پھیلا رہاتھا، موسم سرما میں کپکپا اور تھر تھرا رہے لوگوں کو اپنی تمازت سے گرمی پہنچا رہا تھا، وہیں دوسری طرف علوم وفنون کا ایک سورج جس کی روشنی چند سال پہلے سے ہی مدھم ہورہی تھی غروب ہوگیا۔ یہ خبر میرے لیے، بلکہ سیکڑوں اہل علم وفضل کے لیے سوہانِ روح بن کر پہنچی کہ علوم فقہ وحدیث اور منطق وفلسفہ کا ممتاز اسکالر تین سالہ لمبی علالت کے بعد، ہمیں داغ مفارقت دے کر، اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ آپ کی علمی گہرائی وگیرائی کی وجہ سے آپ کی رائے کو معاصر اہل علم بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ علم فقہ میں آپ کے نظریہ کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ (1936-2002) جیسی فقہ کی عبقری شخصیت آپ کی رائے کا احترام کرتے اور اس میں وزن محسوس کرتے تھے۔ ان بے ربط چند جملوں سے میری مراد حضرت الاستاذ فقیہِ ملت مولانا زبیر احمد قاسمیؒ کی عظیم شخصیت ہے۔ تین سالوں سے آپ جس طرح رہین فراش تھے کہ لوگوں کو ہر وقت یہ خدشہ لگا رہتا تھا کہ کسی وقت بھی آپ داغ مفارقت دے جائیں گے؛ چناں چہ ایسا ہی ہوا اور آپ خالق حقیقی سے جا ملے۔ یہ اللہ تعالی کا فیصلہ تھا۔ اسے کوئی ٹال نہیں سکتا۔  بہر کیف آپ کی موت کی خبر سے بہت صدمہ اور غم ہوا۔ اس خبر کے ملتے ہی ہم نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر اپنا غم ہلکا کیا۔

فقیہِ ملت کی پیدائش:

فقیہِ ملت کی پیدائش چندرسین، ضلع: مدھوبنی کے ایک متوسط خاندان میں یکم جنوری 1936 کو ہوئی۔ آپ کے والد ماجد جناب عبد الشکور صاحبؒ تھے۔ آپ کے والد ماجد کی وفات آپ کے بچپن میں ہی ہوگئی اور آپ یتیم ہوگئے۔ چندرسین پور میں کچھ ایسے باصلاحیت اور نیک وصالح علماء کرام گزرے ہیں کہ ان کی دینداری اور علمی صلاحیت کی وجہ سے یہ گاؤں اہل علم کے حلقہ میں خاصا معروف ہے۔

فقیہِ ملت کا تعلیمی سفر:

فقیہِ ملتؒ کے تعلیمی سفر کا آغاز گاؤں کے مکتب سے ہوا۔ آپ نے گاؤں کے مکتب میں جناب مولانا امیر الحق صاحب مفتاحیؒ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ مکتب میں آپ نے قرآن کریم اور اردو کی ابتدائی کتابوں کی تکمیل کے بعد، علاقے کی دینی درس گاہ: مدرسہ بشارت العلوم، کھرایاں پتھرا،  دربھنگہ میں داخلہ لیا۔

اس ادارہ میں آپ نے فارسی کی جماعت سے پڑھنا شروع کیا۔ پھر آپ نے عالمیت کورس شروع کیا۔ یہاں آپ نے فقہ حنفی کی مشہور کتاب: ہدایہ اولین اور جلالین شریف تک کی تعلیم حاصل کی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس مدرسہ میں آپ نے ساری کتابیں حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ (1897-1957) کے شاگرد، حضرت مولانا سعید احمد صاحب قاسمیؒ سے پڑھی جو آپ کے رشتے کے چچا اور آپ کے گاؤں کے تھے۔ مولانا سعید احمد صاحب درس نظامی کے مشہور معلم اور نیک طینت، پاک خصلت انسان تھے۔

فقیہِ ملتؒ نے اپنے تعلیمی سفر کی تکمیل کے لیے ایشیاء کی عظیم دینی درس گاہ: دار العلوم دیوبند کا رخ کیا اور سن 1377ھ میں دار العلوم میں داخلہ لیا۔ آپ دو سال تک دار العلوم میں رہے۔ اس دوران آپ نے علومِ فقہ، حدیث اور تفسیر حاصل کیا اورسن 1379ھ میں فضیلت کی تکمیل کی۔ آپ نے بخاری شریف علامہ فخر الدینؒ (1307-1393) مراد آبادی سے پڑھی۔ دار العلوم، دیوبند میں آپ نے علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ (1886-1967)، شیخ بشیر احمد خانؒ (وفات: 1966)، قاری محمد طیّب صاحبؒ (1897-1983)، شیخ ظہور احمد دیوبندیؒ(1900-1963)، شیخ فخر الحسنؒ، شیخ سید حسنؒ وغیرہم جیسے اساتذۂ کرام سے استفادہ کیا۔

تدریسی سفر:

تعلیم سے رسمی فراغت کے بعد، اسی سال یعنی 1379ھ میں فقیہِ ملت کی تقرری بحیثیت مدرس مدرسہ بشارت العلوم، کھرایاں پتھرا میں ہوئی۔ ڈیڑھ سال تک اپنی خدمات پیش کرنے کے بعد، آپ نے 15/ ربیع الاول 1380ھ کو استعفی دے دیا۔ پھر آپ تدریسی خدمات کے لیے مدرسہ اسلامیہ، مغلہ کھار، ضلع: نوادہ تشریف لے گئے۔ آپ بشارت العلوم میں وسطی جماعت کے طلبہ کو پڑھا چکے تھے اور یہاں ابتدائی درجات کے طلبہ تھے؛ اس لیے آپ نے چند ہی مہینے کے بعد، اس ادارہ سے استعفی دے دیا۔ بشارت العلوم کی انتظامیہ نے آپ کو دوبارہ ادارہ سے منسلک ہونے کو کہا؛ چناں چہ آپ پھر اس ادارہ سے منسلک ہوگئے۔ آپ یہاں تقریبا چھ سال رہے،جمادی الاخری 1387ھ میں مستعفی ہوگئے۔

جامعہ اشرف العلوم میں بحیثیت صدر مدرس:

شوال 1387ھ میں، جامعہ اشرف العلوم، کنہواں، سیتامڑھی کے متقی وپرہیزگار اور ولی صفت ناظم، حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ نے بحیثیت صدر مدرس آپ کی تقرری کی۔ آپ نے بتوفیق خداوندی اپنی جد وجہد اور کوشش سے، ادارہ کا تعلیمی معیار بہت بلند کیا۔ آپ کی صدارت میں جامعہ کی جو ترقی ہوئی، اسے اہل علم نے محسوس کیا۔ ذمہ داران نے آپ کی خدمات کو سراہا اور تعلیمی معیار کی تعریف کی۔ بحیثیت صدر مدرس، تقریبا دس سال تک بے لوث خدمات انجام دینے کے بعد، ذو الحجہ 1397ھ میں آپ مستعفی ہوگئے۔

فقیہِ ملت جامعہ رحمانی میں:

محرم 1398ھ میں حضرت امیر شریعت رابع مولانا سید منت اللہ رحمانیؒ (1912-1991) نے آپ کو جامعہ رحمانی، مونگیر میں تدریسی خدمات کے لیے تشریف لانے کی دعوت دی۔ آپ نے ان کی دعوت قبول کی اور جامعہ رحمانی پہنچ گئے۔ جامعہ میں مختلف علوم وفنون کی کتابیں آپ کے زیر درس رہیں۔ امیر شریعت نے کچھ دنوں میں آپ کی تدریسی صلاحیت کو تاڑ لیا اور آپ کے طرز تدریس کو سراہتے اور تعریف کرتے۔ آپ بھی جامعہ میں تدریسی خدمات سے لطف اندوز ہوئے اور تقریبا نو سالوں تک اس ادارہ میں تدریسی خدمات انجام دیا۔ پھر کچھ عوارض کی وجہ سے 10/شوال 1406 ھ کو جامعہ سے مستعفی ہوگئے۔

جامعہ مفتاح العلوم میں:

جامعہ رحمانی سے مسعتفی ہونے کے بعد، جامعہ مفتاح العلوم، مئو کی انتظامیہ کی درخواست پر آپ وہاں 16/شوال 1406ھ کو پہنچے۔ انتظامیہ نے آپ کی شایان شان آپ کا استقبال کیا اور ہر ممکن سہولیات کا انتظام کیا۔ آپ کو بخاری شریف کی تدریس کا موقع دیا گیا، مگر آپ نے آئندہ سال کا وعدہ کرکے، اس سال بخاری پڑھانے سے معذرت کرلی۔ آپ اس ادارہ میں ایک سال تک درجہ علیا کی کتابوں کا درس دیا۔ مگر آب وہوا راس نہیں آئی اور مجبورا 5/شوال 1407 ھ کو استعفی نامہ انتظامیہ کے نام بھیجنا پڑا۔

سبیل السلام سے جامعہ رحمانی تک:

دار العلوم سبیل السلام، حیدر آباد کے ناظم حضرت مولانا رضوان القاسمیؒ (1944-2004) اور اس وقت کے صدر المدرسین حضرت خالد سیف اللہ رحمانی حفظہ اللہ نے آپ کو سبیل السلام میں بحیثیت شیخ الحدیث آنے کی دعوت دی۔ آپ حیدر آباد کے لیے 15/شوال 1407ھ کو روانہ ہوگئے۔ اس وقت تک دورۂ حدیث شریف کی جماعت کے طلبہ نہیں تھے؛ لہذا اس صورت میں آپ کے لیے وہاں رہنا کچھ مشکل سا لگا۔ چند مہینے بعد، آپ وہاں سے واپس آگئے۔ پھر امیر شریعت رابع کا حکم ہوا کہ آپ جامعہ رحمانی میں پھر سے تدریسی خدمات شروع کردیں؛ لہذا دوبارہ آپ محرم 1408ھ میں جامعہ رحمانی سے منسلک ہوگئے۔

سبیل السلام میں بحیثیت شیخ الحدیث:

آئندہ تعلیمی سال، یعنی شوال 1408ھ میں سبیل السلام میں دورۂ حدیث شریف کا آغاز ہوا۔ ناظم اور صدر مدرس صاحبان نے پھر اصرار شروع کیا، ان کے اصرار کے بعد، آپ 21/شوال 1408 کو بحیثیت شیخ الحدیث سبیل السلام پہنچ گئے۔ آپ نے یہاں چار سالوں تک بخاری شریف کا درس دیا۔ اس مدت میں متعدد بار جامعہ اشرف العلوم، کنہواں کے ذمے داروں نے آپ سے درخواست کی کہ آپ جامعہ تشریف لائیں اور ادارہ کی ترقیات میں تعاون فرماءیں؛ کیوں کہ جامعہ کی صورت حال دن بدن خراب ہوتی جارہی تھی۔ آپ نے اشرف العلوم میں خدمت کا ارادہ کرلیا؛ چناں چہ 14/شعبان 1412ھ کو سبیل السلام سے مستعفی ہوگئے۔ اپنی کچھ شرطوں کی منظوری کے بعد، آئندہ تعلیمی سال یعنی شوال 1412 میں، آپ جامعہ میں بحیثیت صدر مدرس تشریف لےگئے۔

چند سالوں کے بعد، جامعہ اشرف العلوم کے اس وقت کے ناظم حضرت مولانا انوار الحق صاحبؒ، نظرہ، مدھوبنی کی وفات ہوگئی۔ پھر فقیہِ ملت ناظم منتخب ہوئے۔ آپ نے بحیثیت ناظم تقریبا پچیس سالوں تک جامعہ میں اپنی خدمات پیش کی۔ تین سال قبل، سن 2016ء کے اواخر میں، آپ کی طبیعت کچھ زیادہ خراب ہوگئی۔ پھر 7/اکتوبر 2016ء کو پٹنہ کے ایک ہسپتال میں آپ کے قلب کا آپریشن ہوا۔ اس آپریشن کے بعد بھی آپ کی طبیعت سنبھل نہیں سکی اور آپ رہین فراش رہنے لگے؛ چناں چہ آپ اپنے وطن میں مقیم ہوگئے۔ مگر ہفتہ دس دن کےلیے گاہے بگاہے اشرف العلوم تشریف لے جاتے اور وہاں کی سرگرمیوں سے واقفیت حاصل کرتے۔ جہاں مشورہ اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی، رہنمائی کرتے اور پھر واپس آجاتے۔

اس تین سالہ مدت میں، مختلف جگہوں پر آپ کا علاج ہوا۔ کبھی مدھوبنی، کبھی پٹنہ اور کبھی آپ کو دہلی لے جایا گیا۔ مگر ایک بڑھتی عمر، دن بدن گرتی صحت اور کمزوری میں اضافہ ہوتا رہا۔ ابھی اخیرمیں جب آپ کی طبیعت خراب ہوئی؛ تو فورا آپ کو مدھوبنی لے جایا گیا۔ مدھوبنی کے اسپتال میں ہی 13/جنوری 2019 کی صبح کو، سات بجکر تیس منٹ پر، آپ نے آخری سانس لی۔ آپ کی وفات کی خبر جوں ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، قرب جوار سے علماء وعوام آپ کے گاؤں پہنچنے لگے۔ جامعہ اشرف العلوم کے موجودہ ناظم حضرت الاستاذ مولانا اظہار الحق صاحب مظاہری حفظہ اللہ اور دوسرے اساتذہ پر مشتمل ایک وفد آپ کے جنازہ میں شرکت کے لیے وہاں پہنچا۔ اسی طرح ایک وفد امارت شرعیہ، پٹنہ سے آیا۔ آپ کی نماز جنازہ اسی دن بعد نمازِ عصر ، آپ کے صاحبزادے، مولانا اویس انظر قاسمی صاحب نے پڑھائی۔ نماز جنازہ سے قبل، حضرت مولانا اظہار الحق صاحب نے مختصر تقریر کی۔ ہزاروں لوگوں نے علوم وفنون کے تھکے مسافر کو ان کے آبائی گاؤں کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا۔ اللہ تعالی آپ کی بال بال مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔ آمین!

آپ کے پس ماندگان:

فراغت کے متصلا بعد، مدھوبنی ضلع کے معروف قصبہ: "پرسونی” میں، جناب حاجی محمد ادریس صاحبؒ کی صاحبزادی سے آپ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ آپ کے پس ماندگان میں آپ کی اہلیہ محترمہ، دو لڑکیاں اور پانچ لڑکے ہیں۔ سب سے بڑے صاحبزادے جناب مولانا وحافظ اویس انظر قاسمی ہیں جو سعودی عرب میں کام کرتے ہیں۔ حضرت کی وفات کے وقت، آپ گھر پر ہی تھے اور آپ نے ہی نماز جنازہ کی امامت کی۔ دوسرے صاحبزادے جناب حافظ اسید انظر صاحب ہیں جو علاقہ میں ہی کسی دینی مدرسہ میں تدریسی خدمات میں مشغول ہیں۔ پھر جناب محمد سجادصاحب ہیں جو گھر پر ہی مقیم ہیں۔ چوتھے صاحبزادے میرے رفیق درس جناب مولانا حافظ ظفر صدیقی قاسمی ہیں۔ آپ بڑے ہی ذہین وفطین ہیں۔ آپ کی بنیادی کتابوں کی صلاحیت قابل رشک ہے۔ آپ ہمیشہ اپنے ساتھیوں میں ممتاز رہے۔ آپ بہترین خطاط بھی ہیں، اس باوجود آپ نے خطاطی کا پیشہ اختیار نہیں کیا۔ آپ ان دنوں دہلی میں مدرسہ تعلیم القرآن میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ حضرت کے سب سے چھوٹے صاحبزادے جناب افضل صاحب ہیں۔ انھوں نے ابتدائی اسلامی تعلیمات کے حصول کے بعد، اسکول سے منسلک ہوگئے۔ ان دنوں سعودی میں مقیم ہین۔  اللہ تعالی ان سب بھائی بہن کو صحت وعافیت کے ساتھ رکھے۔

  • ••

تبصرے بند ہیں۔