مسلمانوں کو درپیش داخلی چیلنج

پروفیسر محمدسعودعالم قاسمی

اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے سامنے بہت سے چیلنج ہیں۔ داخلی بھی اور خارجی بھی۔ یہ چیلنج اسلامی احکام اور تعلیمات کی وجہ سے کم ہیں اور مسلمانوں کے حالات اور معاملات، رویہ اور اخلاق کی وجہ سے زیادہ ہیں۔ان میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں منفی تشہیر کی گئی ہے اور مسلمانوں کی تصویر بگاڑ دی گئی ہے۔اس کو کس طرح درست کیا جائے؟ اسلام اور مسلمانوں کی یہ بگڑی ہوئی تصویر اسلام کی دعوت واشاعت کی راہ میں رکاوٹ ہے اور دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں خاص طور پر غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کی جان ومال کے تحفظ کے لیے بھی خطرہ بن گئی ہے۔

مسلمانوں کی تصویر بالعموم، شدت پسند، سخت گیر، جھگڑالو، منتقم المزاج، جذباتی، فسادی، انتہا پسند او ردہشت گرد کی بنادی گئی ہے۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ معاندین بالخصوص مغربی حکومتوں نے مسلمانوں کی یہ تصویر اسلام کے بڑھتے ہوئے عالمی اثرات کوروکنے کے لیے بنائی ہے اور مسلمانوں کو عالمی قیادت کے منصب سے دور رکھنے کے لیے سازش رچی ہے۔ اس کے لیے انھوں نے مسلمانوں میں سے ایسے لوگ بھی منتخب کیے ہیں جو اس سازش کا شکار بن گئے ہیں۔

ہندوستان میں خاص طور پر برہمنوں نے کمزور طبقات اور دلت سماج کے لوگوں میں اسلام کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑکانے کے لیے مسلمانوں کی سماجی کمزوریوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے، تاکہ اچھوت لوگ جو سماجی انصاف حاصل کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں، وہ اعلیٰ ذات کے ظلم وتشدد کوسہتے رہیں اور نجات حاصل کرنے کے لیے اسلام کی طرف نہ بڑھیں۔ چنانچہ ڈاکٹر اے. سیپون جو تمل ناڈو کے ایک دلت دانش ور ہیں اپنی کتاب "Never be a Hindu” میں لکھتے ہیں:

”عموماً اسلام ہی کے بارے میں سب سے زیادہ غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں۔ عموماً لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اسلام ایک وحشی مذہب ہے۔ یہ ان لوگوں کا مذہب ہے جو تلوار اُٹھائے رہتے ہیں اور یہ کہ اسلام قوم دشمن ہے، لیکن یہ سب خیالات غلط ہیں۔ میں ان لوگوں کو الزام نہیں دیتا جو اسلام کے بارے میں غلط خیال قائم کرتے ہیں بلکہ اسلام کے ماننے والوں (مسلمانوں) پر الزام عائد کرتا ہوں جنھوں نے اسلام کا پیغام اس طرح نہیں پہنچایا کہ معاشرہ کے سبھی طبقے اسے سمجھ سکیں“۔۱؎

سوال یہ ہے کہ خود مسلمانوں نے اپنی تصویر درست کرنے کے لیے اور اسلام پر اُٹھنے والے سوالات کا جواب دینے کے لیے کیا اقدامات کیے۔ اس سلسلہ میں جو کوششیں کی گئیں وہ ناکافی ہیں۔ اصل معاملہ تو اپنی اجتماعی حالت کو درست کرنے اور اپنے عمل اور اخلاق سے اسلام کی ترجمانی کرنے کا ہے۔ اسلام جس روحانی پاکیزگی اور اخلاقی خوبیوں کا داعی ہے وہ امت مسلمہ میں انفرادی طو رپر ضرور پائی جاتی ہے مگر امت میں مجموعی طور پر ان قدروں کا پایا جانا اور نظر آنا ضروری ہے۔ امت مسلمہ کو اپنا جائزہ لینا چاہیے اور اپنا محاسبہ بھی کرنا چاہیے۔ اپنی کوتاہیوں کودور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے سماج کی اصلاح کرنی چاہیے۔

معمولی باتوں پر مسلم معاشرہ میں لڑائی جھگڑا اور فتنہ و فساد رونما ہوتا ہے۔ کوئی شخص کسی دوسرے کی بات سننے اور اس کے ساتھ رواداری برتنے کو تیار نہیں ہوتا۔ ہمارا مزاج یہ ہے کہ ہم کسی سے کم نہیں۔ ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ ہمیں کسی نے چھیڑا تو ہم چھوڑیں گے نہیں۔ اس طرح کے فقرے اور نعرے مسلم نوجوانوں کی ذہنیت بناتے ہیں اور ان کی شخصیت کو منفی رُخ دیتے ہیں۔ یہی مزاج عرب کے مشرکوں کا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے:

ألا لا یجہلن احدٌ علیہا

فنجہل فوق جھل الجاھلینا

(کوئی ہمارے ساتھ جہالت نہ برتے ورنہ ہم سارے جاہلوں سے بڑھ کر جہالت کا مظاہرہ کریں گے۔ )

جہالت سے مراد نادانی نہیں بلکہ بدتمیزی اور شرپسندی ہے۔ اسی کو بدلنے کے لیے قرآن نازل ہوا تھا اور محمدﷺ ایسے لوگوں کی اصلاح کے لیے نبی بناکر بھیجے گئے تھے۔ مشرکوں کی اس شدت پسندی، عدم برداشت اور جھگڑالو پن کے مزاج پر تبصرہ کرتے ہوئے قرآن پاک میں کہا گیا ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَن یُّعْجِبُکَ قَوْلُہُ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیُشْہِدُ اللّٰہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ وَھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ (البقرہ: ۴۰۲)

(لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کی بات دنیا کی زندگی میں تم کو اچھی لگتی ہے اور وہ اپنے دل کی بات پر اللہ کو گواہ ٹھہراتے ہیں مگر درحقیقت وہ سخت قسم کے جھگڑالو ہیں۔)

ماضی کے مشرکوں میں جھگڑے لڑائی کا جو مزاج تھا آج وہ مسلمانوں میں بھی نظر آتاہے۔ چنانچہ موجودہ مسلم معاشرہ میں جتنا فتنہ وفساد پایا جاتا ہے اس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔ پولیس تھانوں میں جتنے جھگڑے مسلمانوں کے پہنچتے ہیں اتنے کسی دوسری قوم کے نہیں پہنچتے۔ عدالتوں میں جتنے باہمی تصادم کے مقدمات مسلمانوں کے زیر سماعت ہیں شاید ہی کسی دوسری قوم کے ہوں گے۔ عدم برداشت اور جھگڑے لڑائی کی وجہ سے امتِ مسلمہ کی تصویر کچھ زیادہ بگڑ گئی ہے اور یہ مزاج اسلام کی بدنامی اور مسلمانوں کی رسوائی کا ذریعہ ثابت ہورہا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو جھگڑا لڑائی سے دور رہنے کا حکم دیا تھا، ذہنی سکون اور قلبی اطمینان حاصل کرنے پر زور دیا تھا۔ آپ ﷺ نے ایسے لوگوں کو معاشرہ کا بُرا آدمی قرار دیا تھا جوضدی، اُجڈ، جھگڑالو اور بات بات پر لڑنے لگتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

ان ابغض الرجال الی اللّٰہ الالد الخصم۔۲؎

(لوگوں میں سب سے بُرا آدمی اللہ کے نزدیک وہ ہے جو جھگڑالو ہے۔)

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی پہچان یہ بتائی ہے کہ وہ لوگ ظلم وزیادتی کا بدلہ اتنا ہی لیتے ہیں جتنا کہ ان پر ظلم ہوا ہے اور اگر معاشرہ کی اصلاح کی خاطر معاف کرنا مطلوب ہو تو وہ اپنے نفس پر قابو کرتے ہیں اور زیادتی کرنے والوں کو معاف کردیتے ہیں۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے:

وَالَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَہُمُ الْبَغْیُ ھُمْ یَنْتَصِرُوْنَ،وَجَزَآءُ سَیِّءَۃٍ سَیِّءَۃٌ مُّثْلُہَا فَمَنْ عََفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلٰی اللّٰہِ اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(الشوریٰ: ۹۳-۰۴)

(ان لوگوں پر جب زیادتی کی جاتی ہے تو وہ اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ بُرائی کا بدلہ اتنی ہی بُرائی ہے پھر جوشخص معاف کردے اور اصلاح کرے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔)

ظلم وزیادتی کابدلہ لینا انسان کا حق ہے اور فطرت کے مطابق ہے۔ اسلام نے اسے عدل سے تعبیر کیا ہے، مگر جب بدلہ لینے سے فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو درگزر کردینا اولیٰ ہے۔ معاف کردینے سے اصلاح اور امن وعافیت حاصل ہوسکتی ہے تو اس کو اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔ چوں کہ معاف کرنے میں انسان کو اپنے نفس پر جبر کرنا پڑتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کا اجر تم کو دیں گے۔ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے انسانوں سے درگزر کرنا بڑی نیکی ہے۔

آج کا مسلمان یہ سوچتا ہے کہ جب وہ حق پر ہے تو لڑے کیوں نہیں۔ جھگڑا کیوں نہ کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو لوگ اسے بزدل کہیں گے اور طعنہ دیں گے۔ اس کا مذاق اُڑائیں گے اور کمزور سمجھیں گے، مگر یہ سوچ درست نہیں ہے۔ اپنا جائز حق لینے کے لیے انسان کو ضرور جدوجہد کرنی چاہیے مگر تہذیب وشائستگی اور عقل مندی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اگر وہ اپنا حق چھوڑ کر جھگڑے لڑائی اور فتنہ وفساد کو روک سکتا ہو تو اسے ایسا ضرور کرنا چاہیے کیوں کہ رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:

انا زعیم ببیت فی ربض الجنۃ لمن ترک المراء وان کان محقاً۔۳؎

(میں اس شخص کے لیے جنت کے باغ میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو جھگڑا چھوڑ دے اگرچہ وہ حق پر ہو۔)

رسول کریم ﷺ نے امتِ مسلمہ کا جو مزاج بنایا تھا وہ یہی تھا۔ خود آپؐ کی سیرت یہ تھی کہ کوئی جھگڑا لڑائی کرنے پر آتا تو آپ کنارہ کشی اختیار کرلیتے تھے۔ جھگڑالو انسان اپنا مدمقابل نہ پاکر خود ہی ٹھنڈا ہوجاتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک دیہاتی محمدﷺ کے پاس آیا۔ اس کے پاس ایک کھردری چادر تھی، دیہاتی نے اس چادر کو محمدﷺ کی گردن میں لپیٹا اور اس زور سے کھینچا کہ آپؐ کی گردن پر خراش آگئی اور آپؐ تکلیف میں پڑگئے۔ وہ سختی سے بولا کہ جو مال اللہ نے دیا ہے اس میں سے مجھے دے دو۔ محمد ﷺ کو پورا حق تھا کہ اس گنوار کو اس کی گستاخی کی قرار واقعی سزا دیتے اور وہ سبق سکھاتے کہ کبھی کسی اور کے ساتھ وہ ایسی زیادتی نہ کرتا۔ مگر محمدﷺ اس کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ اس کو غلہ سے بھردو۔ چنانچہ اس دیہاتی کو غلہ دیا گیا۔ وہ خوش ہوکر آپ کی تعریف کرتے ہوئے چلا گیا۔ ۴؎

عمیر بن وہب محمد ﷺ کا جانی دشمن تھا۔ وہ ایک دوسرے دشمن رسولؐ صفوان بن امیہ کا چچازاد بھائی تھا۔ جنگِ بدر میں عمیر بن وہب کابیٹا قیدی بنالیا گیا تھا۔ اپنے بیٹے کو مسلمانوں کی قید میں دیکھ کر عمیر بن وہب کا خون کھولتا تھا اور محمد ﷺ کوقتل کرنے کا منصوبہ بناتاتھا۔ ایک دن وہ صفوان بن امیہ سے بولا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں مدینہ جاؤں اور خفیہ طریقہ سے محمد ﷺ کو قتل کردوں۔ مگر میرے اوپر قرض ہے اور بال بچوں کی کفالت کا مسئلہ بھی ہے۔ یہ سن کر صفوان بن امیہ بولا کہ اگر تم اپنے ارادہ کو عملی شکل دو اور مدینہ جاکر محمدؐ کوقتل کردو اور تمہیں کچھ ہوگیا تو میں تمہارا قرض بھی ادا کردوں گا اور اپنے بچوں کے ساتھ تمہارے بچوں کی پرورش بھی کروں گا۔

چنانچہ محمدؐ کے قتل کا منصوبہ بناکر عمیر بن وہب مدینہ کے لیے نکلا۔ جب وہ مدینہ پہنچا تو حضرت عمر فاروقؓ نے اسے دیکھ لیا، اس کے بُرے ارادے کوبھانپ لیا۔ اسے پکڑ کر محمد ﷺ کے پاس پہنچادیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ محمد ﷺ کے پاس حلقہ بناکر بیٹھ جاؤ تاکہ یہ دشمن آپؐ کے ساتھ کوئی گستاخی نہ کرے۔

محمدﷺ نے اس سے پیار سے پوچھا کہ سچ سچ بتاؤ کہ تم کس ارادے سے یہاں آئے ہو؟ اس نے کہا کہ میرا بیٹا آپ لوگوں کی قید میں ہے، اس کو فدیہ دے کر چھڑانے کے لیے آیا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تم نے صفوان بن امیہ کے ساتھ مل کر میرے قتل کا منصوبہ بنایا تھا اور اس نے تمہارا قرض ادا کرنے اور تمہارے بچوں کی پرورش کرنے کی ذمہ داری لی تھی؟ عمیر بن وہب کا منصوبہ صفوان بن امیہ کے علاوہ کسی کو معلوم نہ تھا۔ وہ حیرت زدہ تھا کہ محمدؐ کو کس طرح اس خفیہ منصوبہ کا علم ہوگیا۔ اس نے اپنے گناہ کا اقرار کرلیا اور جان بخشی کی درخواست کی۔ محمدﷺ نے اس کو معاف کردیا اور اسلام کی دعوت دی۔ عمیر بن وہب نے اسلام قبول کرلیا اور مکہ واپس لوٹ گیا۔ وہاں انھوں نے رسول کریم ﷺ کے عفوودرگزر کی لوگوں کو داستان سنائی اور اسلام کی دعوت دی۔ ان کی دعوت سے بہت سے لوگ دائرہئ اسلام میں داخل ہوگئے۔۵؎

محمدﷺ کو اختیار تھا کہ عمیر بن وہب کو اقدام قتل کے جرم میں مار ڈالتے مگر آپ ﷺ نے ایسا نہیں کیا۔ بلکہ انھیں اپنے رویہ پر پشیمانی کا موقع دیا اور توبہ کرنے کی مہلت دی۔ آپ کی یہ معافی ان کی زندگی سنوارنے اور دوسرے لوگوں کو حلقہئ اسلام میں داخل کرنے کا ذریعہ بن گئی۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مسلمانوں کی سماجی زندگی کا ایک اصول یہ قرار دیا ہے کہ بُرائی کا بدلہ بھلائی سے دو اور اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَلَا تَسْتَوِیْ الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّءَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِیْ بَیْْنَکَ وَبَیْْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ. وَمَا یُلَقّٰھَا إِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقّٰھَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیْمٍ(حم السجدہ: ۴۳-۵۳)

(نیکی اور بُرائی برابر نہیں ہوسکتی۔ بُرائی کو اچھے ڈھنگ سے دفع کرو۔ پھر تم دیکھوگے کہ جس شخص سے تمہاری دشمنی ہے گویا وہ گہرا دوست بن گیا ہے۔ مگر یہ بات انہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور انہی لوگوں کوحاصل ہوتی ہے جو بڑے نصیب والے ہیں۔)

حضرت عبداللہ ابن عباسؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ”جو شخص تمہارے ساتھ اپنی جہالت کی وجہ سے جہالت برتے اس کو صبروتحمل اور بردباری کے ذریعہ دفع کرو“۔۶؎

ایک دیہاتی مسجد نبوی میں آتا ہے اور وہاں پیشاب کردیتا ہے، لوگ اسے مارنے کے لیے دوڑتے ہیں۔ نبی ﷺ نے اپنے صحابہؓ کوسمجھایا کہ اس دیہاتی کوچھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر ایک ڈول پانی ڈال دو۔ تم لوگ آسانی پیدا کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو، دشواری پیدا کرنے کے لیے نہیں بھیجے گئے ہو۔۷؎

رسول اکرم ﷺ کی حدیث کا آخری جملہ ”فانما بعثتم میسرین ولم تبعثوا معسرین“ امت مسلمہ کے مزاج کی تشکیل کرتا ہے، کیوں کہ اس امت کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے آسانی پیدا کرنے والی قوم بناکر بھیجا ہے۔ لوگوں کے لیے تنگی، دشواری اور سختی کرنے والی قوم نہیں بنایا ہے۔ دنیا کے لوگ تمہارے ساتھ جہالت برتیں گے، سختی کریں گے، دشواریاں پیدا کریں گے اور نادانی کا ثبوت دیں گے جواب میں امت مسلمہ کو صبروتحمل سے کام لینا ہوگا، سختی کے مقابلہ میں نرمی سے کام لینا ہوگا۔ بدخلقی کے مقابلہ میں خوش خلقی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو خدا اور رسولؐ کی نافرمانی کا ارتکاب کریں گے۔

حضرت محمد ﷺ نے ایک موقع پرفرمایا کہ: ان اللّٰہ یحب الرفق فی الامر کلہ ۸؎ اللہ تعالیٰ سارے کاموں میں نرمی کو پسند کرتاہے۔ جو شخص نرمی سے محروم ہوجاتا ہے وہ ساری بھلائی سے محروم ہوجاتاہے۔ رسول پاک ﷺ کی اس حدیث میں حکمت یہ ہے کہ نرمی ساری بھلائی کی بنیاد ہے اور سختی ساری بُرائی کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ۔(الاعراف:۹۹۱)

(معافی کا راستہ اختیار کرو، معروف کا حکم دو اور جاہلوں سے درگزر کرو۔)

اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو انسانوں کے لیے اسوہئ حسنہ یعنی رول ماڈل بنایا تھا تاکہ آپؐ کی شخصیت کو دیکھ کر لوگ اپنی شخصیت کی تعمیر کریں۔ آپ ﷺ کی سیرت کو دیکھ کر لوگ اپنی سیرت بنائیں۔ آپ ﷺ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ (آل عمران: ۹۵۱)

(اللہ کی رحمت کے باعث آپؐ ان لوگوں کے لیے نرم ہیں، اگر آپؐ تندخو اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپؐ کے آس پاس سے منتشر ہوجاتے۔ آپ ان لوگوں کومعاف کردیجیے اور ان کے لیے مغفرت طلب کیجیے۔)

ذہن ومزاج کی تندی وترشی اور قلب کی سختی لوگوں کو دور کردیتی ہے اور مزاج کی نرمی اور دلوں کی کشادگی لوگوں کو قریب لے آتی ہے۔ اگر مسلمان دوسرے لوگوں کو اپنے آپ سے اور اپنے نظریہئ حیات سے دور کرنا چاہتے ہیں تو وہ سختی، سنگ دلی اور تنازع میں پڑیں اور اگر وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان سے قریب ہوں، ان کے دین ومذہب سے قریب ہوں، ان کے نظریہئ حیات کو سمجھیں اور اسے قبول کرنے میں پہل کریں تو ان کو اپنے سخت گیر رویہ میں تبدیلی لانی ہوگی۔ بردباری سے کام لینا ہوگا۔ یہی سیرت رسول ﷺ تھی۔

بُرائی کے بدلہ میں بُرائی کرنا، سختی کے مقابلہ میں سختی سے پیش آنا، آسان بات ہے۔ اس سے جذبات کو تسکین ملتی ہے اور آدمی اپنے آپ کو طاقت ور محسوس کرتاہے، مگر بُرائی کا بدلہ بھلائی سے دینا، سختی کے مقابلہ میں نرمی کا مظاہرہ کرنا، اشتعال انگیزی کے جواب میں اعتدال سے کام لینا مشکل کام ہے۔ اس میں نفس پر کنٹرول کرنا پڑتاہے اور جذبات پر قابو پانا پڑتاہے۔ یہ بڑے حوصلے اور دل گردے والے کی بات ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُورِ (الشوریٰ:۳۴)

(اور جس شخص نے صبروتحمل سے کام لیا اور معاف کیا تو بے شک یہ بڑے مرتبہ کا کام ہے۔)

مسلم نوجوانوں کو صبروتحمل کی تلقین کرنا، نرمی اور آسانی اختیار کرنے کی راہ دکھانا آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یہ ہماری قومی تعمیر کا ذریعہ ہے اوررسول اللہ ﷺ کی سیرت وسنت ہے۔ اس میں علماء کرام کا، مسجدوں کے خطباء اور اماموں کا، مسلم تنظیموں اور جماعتوں کا اور مذہبی وتعلیمی اداروں کا اہم رول ہے۔ ہمیں اپنی نسل کو سنبھالنا ہوگا۔ ان کے دل ودماغ سے تشدد اور سختی اور تصادم کے رجحان کوکم کرنا ہوگا۔ امن وآشتی کی اسلامی تعلیمات سے ان کو بہرہ ور کرنا ہوگا اور اس کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ ان کو انسانوں سے محبت کی راہیں دکھانی ہوں گیاور ان کو انسانی کی خدمت کے لیے آمادہ کرنا ہوگا۔ اسی طریقہ سے وہ اپنے تحفظ کا سامان کرسکیں گے اوراسلام کی اشاعت کی راہ ہموار ہوسکے گی۔

حواشی

۱؎          ڈاکٹر اے. سیپون، ہندو کبھی نہ بننا، ترجمہ از الیاس اعظمی، نئی دہلی، ۰۱۰۲ء، ص:۶۷

۲؎          اسماعیل بن کثیر، تفسیر القرآن، دارخیر، ۰۹۹۱ء، جلد۱، ص:۴۶۲

۳؎          سنن ابی داؤد، کتاب الادب

۴؎          بخاری ومسلم

۵؎          عبدالملک ابن ہشام، سیرۃ النبیؐ، دارالفکر، ۱۸۹۱ء، جلد۲، ص:۷۰۲

۶؎          محمد بن ابی بکر القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، بیروت، ۲۱۰۲ء، ج۸۱، ص:۰۲۴

۷؎          الصحیح بخاری،کتاب الادب، باب قول النبیؐ یسروا ولاتعسروا

۸؎          ایضاً، باب الرفق فی الامر کلہٖ

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔