مسلمانوں کی طرف سے امریکہ کی دریافت اور کولمبس کا جھوٹ

احیدحسن

طالب علم ایف آرسی پی نیورولاجی لندن (پاکستان)

کئی شہادتوں سے ثابت ہوتاہے کہ اندلس (سپین ) اورمغربی افریقہ سے مسلمان کرسٹوفرکولمبس سے کم وبیش پانچ صدیاں پیشتر امریکہ پہنچے تھے بلکہ اس کی ٹھوس شہادت موجود ہے کہ مسلمان جہازراں ہی کولمبس کونئی دنیا کی طرف لے کر گئے تھے۔  کولمبس ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا کہ مسلمانوں نے امریکہ دریافت کرلیا تھا، حالانکہ عمومی طورپر یہی کہا جاتاہے کہ کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تھا۔ اندلس میں مسلمانوں کے آخری قلعے غرناطہ کاسقوط 1492ءمیں ہوا عیسائی عدالتوں کااحتساب شروع ہونے کے کچھ عرصہ پہلے تفتیش وتشدد سے بچنے کے لئے بے شمار مسلمان امریکہ اوراس خطے کے دوسرے ممالک کی طرف چلے گئے پاپھرجا ن اورعزت وآبروبچانے کے لئے انہیں کیتھولک عیسائی بننا پڑا۔ کم ازکم دودستاویزات امریکہ میں950ءسے قبل مسلمانوں کی موجودگی ثابت کرتی ہیں۔اس کے کئی تاریخی حوالے ہیں۔

  اسلامی حوالے:  

1__مسلمان مورخ اورجغرافیہ دان ابوحسن علی ابن الحسن المسودی 871تا957ءنے اپنی کتاب، مروج الذھب ومعدن الجواہر، میں لکھا ہے کہ اندلس کے مسلمان خلیفہ عبداللہ بن محمد 888 ءتا912)کے دورمیں قرطبہ کاایک مسلمان جہاز راں خشخاش ابن سعید ابن اسود اندلسی بندرگاہ ڈیلبا(پالوس) سے 889ءمیں روانہ ہوا ءبحرہ اوقیانوس پارکر کے نامعلوم خطے پہنچا اورعجیب وغریب مال ودولت کے ساتھ لوٹا۔ المسودی نے جودنیا کانقشہ بنایا اس میں اس نے بحرظلمات (بحر اوقیانوس ) میں بہت بڑے علاقے کو نامعلوم سرزمین لکھا ہے۔

2: ایک مسلمان مورخ ابوبکر ابن عمر لکھتاہے، اندلس کے خلیفہ ہشام ثانی کے دور میں غرناطہ کاایک مسلمان جہازراں ابن فرخ فروری 999ءمیں بحراوقیانوس میں سفر کرتا ہوا گینڈو(گریٹ کناری جزائر ) اترااور وہاں کے حکمران سے ملاقات کی۔ اس نے پھر مغرب کی طرف اپنا سفرجاری رکھا اوردوجزائر دیکھے۔ اس نے ان جزائر کے نام کیپر یریا اورپلوٹینیا رکھے، وہ مئی 999ءمیں واپس اندلس پہنچا۔

3: مشہور مسلم جغرافیہ داں نقشہ نویس الشریف الادریسی (1099ئ1166 ئ)نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کچھ عرصہ قبل شمالی افریقہ کے ملاحوں کے ایک گروہ نے لزبن (پرتگال)سے بحر ظلمات میں سفر کیا۔ وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اس سمندر میں کیا کیا ہے اوراس کی حدود کہاں ختم ہوتی ہیں۔ بالآخر وہ ایک جزیرے پرپہنچے جہاں انسان بھی تھے اور زراعت بھی۔

4: قبل از کولمبس تاریخ میں مسلمانوں کے "نئی دنیا” سے روابط کے حوالے سے سب سے اہم حوالہ مشہور مسلم جغرافیہ دان اور خرائط ساز [[محمد الادریسی]] (1110ء تا 1166ء) کی کتاب "نزہت المشتاق” سے دیا جاتا ہے جس میں انہوں نے بحر اوقیانوس اور "نئی دنیا” کی تلاش کے لیے مسلم جہاز رانوں کی کوششوں کے بارے میں لکھا ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں کہ:
مسلمانوں کے سپہ سالار علی ابن یوسف ابن تاشفین نے اپنے امیر البحر احمد ابن عمر کو بحر اوقیانوس کے مختلف جزائر پر حملے کے لیے بھیجا لیکن وہ اس حکم کی تعمیل سے قبل ہی انتقال کر گئے۔

لزبن کے قصبے سے اس مہم کا آغاز کیا گیا جسے "مغررین” کا نام دیا گیا اور وہ بحر ظلمات کے اسرار و رموز سے پردہ اٹھانے کے لیے نکل پڑے، تاکہ یہ جان سکیں کہ اس سمندر کا خاتمہ کہاں ہوتا ہے؟۔ 12 دن کے سفر کے بعد وہ ایک ایسے جزیرے پر پہنچے جو غیر آباد دکھائی دیتا تھا لیکن وہاں زرعی علاقے موجود تھے۔ وہ ان جزائر پر اترے لیکن جلد ہی ایسے افراد کے گھیرے میں آ گئے اور گرفتار کر لیے گئے جن کی جلد کا رنگ سرخ تھا، جسم پر بہت زیادہ بال نہیں تھے اور سر کے بال سیدھے تھے اور قامت بہت بلند تھی۔ ادریسی کا "سرخ رنگت کے حامل افراد” کا حوالہ دینا اس امر کا شاہد سمجھا جاتا ہے کہ یہ قافلہ دراصل ان افراد کی سرزمین پر پہنچا تھا جنہیں کولمبس نے "سرخ ہندی (Red Indians) کا نام دیا تھا۔

5:مسلمانوں کوحوالہ جاتی کتب میں مراکشی جہاز راں شیخ زین الدین بن فضل کے بحراوقیانوس میں سفر کے دستایزی ثبوت ملتے ہیں۔ شاہ ابویعقوب سیدی یوسف (دورحکومت1286ء1037ئ) کے دور حکومت میں اس نے طرفایا (جنوبی مراکش ) سے سفر کاآغاز کیاور1291ء) میں بحرکیر یبیئن کے گرین آئی لینڈ میں اترا۔اس سفر کی تفصیلات اسلامی حوالہ جاتی کتب میں پائی جاتی ہیں اورمسلم دانشور اس سے آگاہ ہیں۔

6:مسلمان مورخ شہاب الدین ابوالعباس احمد بن فضل العمری (1300ء1338)نے اپنی کتاب ”مسالک البصارفی ممالک الامسار “ میں بحرظلمات (بحر اوقیانوس )علاقوں کی جغرافیائی تفصیل دی ہے۔

7:ان کے علاوہ افریقہ میں واقع [[سلطنت مالی]] کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہاں سے بھی مسلمان جہاز رانوں کا ایک قافلہ بحر ظلمات کو عبور کر کے امریکی سرزمین تک پہنچا تھا۔ اس مہم کا ذکر مسلم مورخ شہاب الدین ابو عباس احمد بن فضل العمری کی کتاب "مسالک الابصار فی ممالیک الامسار” میں ملتا ہے۔

8:سلطان مانسو کنکن موسٰی مغربی افریقہ اسلامی سلطنت مائی کامعروف حکمران تھا۔ 1324ءمیں جب اس نے حج کاسفر کیا تو قاہرہ میں محققین کوبتایا کہ اس کے بھائی سلطان ابوبکر اول (دورحکومت 1285ئ1312)نے بحراوقیانوس میں دوبحری سفر کئے تھے۔ جب دوسرے سفر سے وہ نہیں لوٹا تو 1312ءمیں موسیٰ نے سلطنت کی ذمہ داری سنبھال لی۔

9:اس کے علاوہ [[سلطنت عثمانیہ|عثمانی دور]] کے معروف ترک جہاز راں و امیر البحر پیری رئیس کے بنے ہوئے جو اعلٰی ترین نقشے آج تک موجود ہیں ان میں ایک نقشہ ایسا بھی ہے جس میں بحر اوقیانوس کے اُس پار [[برازیل]] کا علاقہ دیکھا جا سکتا ہے حالانکہ اس وقت کولمبس کے ہاتھوں امریکہ کی دریافت کا چرچا بھی نہ ہوا تھا۔ پیری رئیس کا یہ قدیم نقشہ انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے کیونکہ یہ ان تمام شواہد پر بھاری ہے جو مورخین کولمبس سے قبل مسلمانوں کے ہاتھوں امریکہ کی دریافت کے بارے میں دیتے رہے ہیں۔

10:کئی مسلم حوالہ جاتی کتب میں شیخ زین الدین علی بن فضل الماژندرانی کے بحر ظلمات کے سفر کا ذکر ملتا ہے۔ جنہوں نے مرینی خاندان کے چھٹے حکمران ابو یعقوب سیدی یوسف (1286ء تا 1307ء) میں طرفایہ (جنوبی مراکش) سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور تقریباً 1291ء میں [[بحیرہ کیریبین]] میں واقع سبز جزیرے (Green Island) پر پہنچے۔ ان کے بحری سفر کی تفصیلات اسلامی حوالہ جات اور کئی مسلم دانشوروں کی کتب میں تاریخی واقعے کی حیثيت سے درج ہیں۔

 یورپی اور تاریخی حوالے:

1: چینی مسلمانوں کے ہاتھوں امریکہ کی دریافت بھی ایک اہم نظریہ ہے اور اس کا سہرا منگ دور حکومت میں معروف مسلم جہاز راں "ژینگ ہی” کے سر باندھا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ کارنامہ مبینہ طور پر 15 ویں صدی میں کولمبس سے قبل اس دور میں انجام دیا جب چین نے تجارتی راستوں پر اپنے قدم جمانے کے لیے 7 بحری مہمات کا آغاز کیا تھا۔مہم کی قیادت ژینگ ہی کے سپرد کی گئی۔
ایک یورپی مورخ Gavin Menzies نے اپنی متنازع کتاب 1421: The Year China Discovered the World میں اس کا ذکر کیا ہے۔کیونکہ اس نظریے کے حامی افراد 1421ء کو چینیوں کے ہاتھوں امریکہ کی دریافت کا سال سمجھتے ہیں اس لیے مخالفین اسے 1421 Hypothesis کہتے ہیں۔

2: ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والاایک معروف امریکی مورخ اورماہر لسانیات لیوویزے نے اپنی کتاب”افریقہ اینڈ دی ڈسکوری آف امریکہ “ ( 1920 ئ)میں لکھا ہے کہ کولمبس نئی دنیا میں مینڈنکا (مغربی افریقہ کے حبشی قبائل ) کے وجود سے آگاہ تھا۔ مغربی افریقہ کے کہ مسلمان پورے کیریبین، وسطی، جنوبی اورشمالی امریکہ کے علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ ان میں کینیڈا کے علاقے بھی شامل تھے۔ یہاں مسلمان نہ صرف تجارت کرتے بلکہ عروقیوئس اورالگونقو ئن نامی ریڈ انڈین قبائل میں شادیاں بھی کرتے تھے۔

3: ماہرین بشریات نے ثابت کیا ہے کہ سلطان مانسو موسٰی کی ہدایت پرمینڈینکا قبائل نے مسی سیپی اور دوسرے دریاﺅں میں سفر کرتے ہوئے شمالی امریکہ کے کئی علاقے دریافت کئے۔

4:کولمبس سیمت اندلس اورپرتگال کے اولین مہم جو مسلمانو ں کی فراہم کی گئی بحری اورجغرافیائی معلومات کے ذریعے ہی بحراوقیانوس 2400کلومیٹر طویل سفر کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ یہ معلومات انہیں مسلمان تاجروں کے بنائے ہوئے نقشوں اورالمسعودی (871ءتا947ئ) کی کتاب ”اخبارالزمان “ (دنیاکی تاریخ ) سے ملی تھیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کولمبس کے بحراوقیانوس کے پہلے سفر میںدو مسلمان کپتان بھی عملے کے رکن تھے جوبحری سفر کے ماہر تھے۔ انہوں نے کولمبس کی بحری مہمات کومنظم کرنے میں بڑی سرگرمی دکھائی تھی۔

5: کولمبس اسپین کی بندرگاہ پالوس سے روانہ ہوا، تو راستے میں ایک جزیرے غومیراپراترا۔ یہ اس لفظ کی اصل عربی ہے جواس زمانے میں کناری جزائر کانام تھا۔ اس جزیرے میوہ جزیرے کے سربراہ کی لڑکی( بیٹر بوبادیلا) کی محبت میں گرفتارہوگیا۔ اس لڑکی کاخاندانی نام بوباد یلا دراصل عربی لفظ عبداللہ سے ماخوذ تھا۔ 12اکتوبر 1492ءکولمبس بہااس میں ایک چھوٹے سے جزیرے پراترا جسے وہاں کے لوگ غواناحی عربی الفاظ اخوان اورحی کامجموعہ ہے۔ غوآنا ہے کے معنی ہیں ” برادر “ اورحی ایک عربی نام ہے یعنی جزیرے کااصل نام ” حی برادر “ تھا۔

6: علاوہ ازیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کولمبس نے 1492ء میں جب امریکہ دریافت کیا تو اس کی اس مہم میں کئی مسلمان جہاز راں بھی شامل تھے۔ اور کولمبس کے بیٹے فرنانڈو کولون نے اپنی کتاب میں تو یہاں تک کہا تھا کہ اسے جینووا کے مسلمان جہاز رانوں نے ہی بتایا تھا کہ وہ مغرب کی جانب سفر کر کے متبادل راستے کے ذریعے ہندوستان پہنچ سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی "دریافت” کے اس تاریخی سفر میں دو ایسے جہاز راں بھی کولمبس کے ہمراہ تھے جن کے اجداد مسلمان تھے۔ ان جہاز رانوں کے نام مارٹن الونسو پنزون Martin Alonso Pinzon اور ویسنٹ یانیز پنزون Vicente Yanex Pinzon تھے جو بالترتیب PINTA اور NINA جہازوں کے کپتان اور آپس میں بھائی تھے۔ یہ دونوں امیر کبیر اور ماہر کاریگر تھے اور سفر کے دوران انہوں نے پرچم بردار جہاز SANTA MARIA کی مرمت بھی کی تھی۔ پنزون خاندان کا تعلق مرینی خاندان کے سلطان ابو زیان محمد ثالث (1362ء تا 1366ء) سے تھا۔

7: کولمبس نے 21 اکتوبر 1492ء بروز پیر کیوبا کے شمال مشرقی ساحلوں پر جبارا کے قریب ایک پہاڑ کی چوٹی پر ایک مسجد کی موجودگی کا بھی ذکر کیا ہے۔ علاوہ ازیں کیوبا، میکسیکو، ٹیکساس اور نیواڈا میں مسجدیں اور قرآنی آیات سے مزین میناروں کی باقیات بھی دریافت ہوئی ہیں۔ کولمبس نے ٹرینیڈاڈ میں مقامی باشندوں کی خواتین کے لباس کا ذکر جس طرح کیا ہے اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں مسلمان بھی موجود تھے اور اس کے بیٹے نے تو واضح طور پر لکھا ہے کہ ان کا لباس غرناطہ کی مسلمان خواتین جیسا ہی ہے۔

8: کولمبس نے اپنی تحریروں میں اعتراف کیاہے ک جب اس کاجہاز کیوبا کے شمالی مشرقی ساحل پرگبار ا کے نزدیک سفر کررہا تھا تواس نے پہاڑی کی چوٹی پرخوبصورت مسجد دیکھی۔ یادر ہے کیوباءمیکسیکو، ٹیکساس اورنیوادامیں مساجد اورمیناروں کے کھنڈروں اورقرآن آیات کے نقش ملے ہیں۔

9: دوسرے بحری سفر کے دوران اسپانولا (ہیٹی )کے ریڈ انڈینز نے کولمبس کوبتایا کہ اس کی آمد سے قبل سیاہ فام لوگ (افریقی مسلمان ) جزیرے پرآئے تھے ثبوت کے طورپر انہوں نے ان کے نیزے اوربھالے پیش کئے۔ ان ہتھیاروں پرایک زرد رنگ کی دھات جسے گنین کہتے تھے چڑھی ہوئی تھی۔ یہ لفظ افریقی زبان کاہے جس کے معنی ہیں ”سوناملی دھات“۔

1498:10ءمیں اپنے تیسرے بحری سفرکے دوران کولمبس

ٹرینی ڈاڈاترا۔ بعد میں اس نے براعظم جنوبی امریکہ کانظارہ کیا جہاں اس کے کچھ جہاز ان ساحلوں کے ساتھ ساتھ آگے تک گئے۔ ۔۔انہوں نے مقامی لوگوں کے پاس سوتی رنگداررومال دیکھے جومخصوص کپڑے کے تھے۔ یہ کپڑا اندلس اورشمالی افریقہ کے مسلمان، مراکش، سپین اورپرتگال میں مغربی افریقہ سے درآمد کرتے تھے۔ اسی سفر میںکولمبس کویہ دیکھ کربڑا تعجب ہوا شادی شدہ عورتیں پردہ دارلباس پہنتی ہیں جودراصل عربوں کے ذریعے یہاں پہنچا۔

11:کولمبس کا بیٹا فرنانڈو کولون یہ بھی لکھتا ہے کہ پوائنٹ کاویناس کے مشرقی علاقوں میں رہنے والی آبادی سیاہ فام تھی اور اسی علاقے میں ایک مسلم نسل کا قبیلہ "المامی” بھی آباد تھا۔ مینڈینکا اور عربی زبان میں المامی "الامام” یا "الامامو” سے مشتق لگتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مذہبی یا قبائلی یا برادری کی سطح پر اعلٰی حیثیت کے حامل تھے۔

12: ہارورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر بیری فل نے اپنی کتاب ”ساگا امریکہ 1980ءمیں اس بات کے ثبوت میں کئی سائنسی شہادتیں پیش کی ہیں کہ شمالی اورمغربی افریقہ کے مسلمان کولمبس سے کئی صدیاں پہلے امریکہ پہنچے تھے۔ ڈاکٹر بیری نے امریکہ کے کئی علاقوں، مثلاویلی آف فائر، الن سپر نگز، لوگو مارسینو، کینیون واشوئے اورہکی سن سمٹ پاس، میساورڈے، نیومیکسیکو کی ممبر ویلی اورانڈیانا کے پٹرکینو ئے میں 700 ء تا 800میں تعمیر کردہ مسلم سکولوں کے آثار دریافت کئے ہیں۔ اس نے مغربی امریکہ میں چٹانوں اورپتھروں پرکنندہ اسباق، تصاویر اورنقشے دیکھے جواس علاقے میں قائم نظا م تعلیم کوظاہرکرتے تھے دونوں قسم یعنی ابتدائی اوراعلیٰ سطح کاتھا۔

13: تعلیمی زبان شمالی افریقہ کی عربی زبان تھی جوپرانے کوفی عربی میں لکھی ہوئی تھی۔ نصاب تعلیم میں لکھنا، پڑھنا، حساب، مذہب، تاریخ، جغرافیہ، علم ریاضی، علم جہاز رانی اور فلکیات وغیرہ شامل تھے۔ قدیم فن کے بے شمار نمونوں کے مطالعہ سے انکشاف ہواکہ سنگ تراشی کے کئی نمونوں میں عربی خصوصیات ہیں۔ دیواری تصاویر، نقش ونگار اورسکوں پرہلال کے نقش بھی نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ رسوم ورواج کامطالعہ بھی شہادت دیتاہے کہ مسلمان صدیوں پہلے اس علاقے میں آئے تھے۔ شمالی امریکہ میں آنے والے مسلمانوں کی اولاد آج ریڈ انڈینزکے مختلف قبائل مثلاعرو قیوئس، الکنقوئن، اناسازی، ہو ہو کم اوراولمک باشندوں میں جذب ہوچکی ہے۔

14: امریکہ اورکینیڈا میں 565جگہوں (دیہات،قصبوں، شہروں، پہاڑوں، ندیوں، دریاﺅں وغیرہ) کے نام، اسلامی اورعربی اسماءوالفاظ سے ماخوذ ہیں۔ امریکہ میں ایسے 484اور کینیڈامیں 81نام ہیں۔ ان جگہوں کے نام کولمبس سے پہلے یہاں کے اصل باشندوں نے رکھے تھے۔ ان میں سے بعض نام مسلمانوں کے نزدیک مقدس ہیں۔ مثلاانڈیا نا میں ایک گاﺅں کانام مکہ ہے۔ واشنگٹن میں ریڈ انڈین قبیلہ مکہ، مدینہ 2100(اداہو) مدینہ 8500(نیویارک ) مدینہ 1200001100(اوہیو) وغیرہ وغیرہ۔ ریڈانڈین قبائل کے ناموں کے بغور مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کے کئی نام عربی سے ماخوذ ہیں مثلااپاچی، ہو یا، کری، اراوالک، لانی، زمرلو، مہاوروغیرہ۔

15: جدید مصنفین نے بھی اس موضوع پر خاصا کام کیا ہے جن میں بیری فیل، ایوان وان سرتیمی اور الیگزینڈ وان ووتھینو شامل ہیں۔ آخر الذکر جرمن مصنف کا کہنا ہے کہ کولمبس سے پہلے افریقہ، ایشیا اور یورپ سے تعلق رکھنے والے مختلف النسل افراد نئی دنیا میں موجود تھے تاہم انہوں نے مسلمانوں کی بڑی تعداد میں موجودگی کو تسلیم کیا ہے۔

ڈاکٹر بیری فیل نے اپنی کتابSaga America میں ٹھوس شواہد دے کر ثابت کیا ہے کہ شمالی اور مغربی افریقہ کے مسلمان کولمبس کی آمد سے صدیوں قبل نئی دنیا میں پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے ویلی آف فائر، ایلن اسپرنگز، لوگومارسینو، کی ہول، کینین، واشو اور ہکیسن سمٹ پاس (نیواڈا)، میسا ورڈی (کولوراڈو)، ممبریس ویلی (نیو میکسیکو) اور ٹپر کینو (انڈیانا) میں مسلم مدارس کی باقیات دریافت کیں جن کا تعلق 700 سے 800 صدی عیسوی سے ہے۔ باقیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان مدارس میں ریاضی، مذہب، تاریخ، جغرافیہ، علم ہیئت اور جہاز رانی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اُن کے مطابق امریکہ (484) اور کینیڈا (81) میں 565 مقامات (دیہات، قصبات، شہر، پہاڑ، جھیل اور دریا وغیرہ) ایسے ہیں جن کے نام دراصل اسلامی و عربی النسل ہیں۔ ان مقامات کے نام قبل از کولمبس دور میں رکھے گئے۔

16: ایوان وان سرتیما نے 1976ء میں اپنی کتاب They Came Before Columbus میں افریقی لوگوں کے براعظم امریکہ سے روابط کو موضوع بحث بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غیز، زمورس، مرابطین اور مرابیوس کے نام اس امر کے شاہد ہیں کہ قبل از کولمبس دونوں براعظموں کے آپس میں تعلقات تھے خصوصاً مرابطین کا نام ان کے لیے کشش کا حامل رہا کیونکہ مرابطین المغرب میں مسلمانوں کی معروف حکومت تھی۔

17: رفتہ رفتہ مسلمانوں کی جانب سے امریکہ کی دریافت کے نظریات اتنی زیادہ اہمیت اختیار کر گئے کہ 1969ء میں ناروے کے ایک مہم جوتھور ہیئرڈیہل (Thor Heyerdahl) نے شمالی افریقہ کی بندرگاہ صافی سے [[بارباڈوس]]، [[ویسٹ انڈیز]] تک کا سفر ایسی کشتی کے ذریعے کیا جسے مقامی افریقی باشندوں نے پیپیرس سے بالکل اس طریق پر تیار کیا تھا جس طرح قرون وسطٰی میں تیار کیا جاتا تھا۔ اس سفر کے ذریعے انہوں نے ثابت کیا کہ قرون وسطٰی میں افریقہ سے نئی دنیا تک سفر ممکن تھا

18: میڈیا رپورٹس کے مطابق تحقیق کے دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ کولمبس سے پہلے مسلمانوں کے امریکہ دریافت کرنے کا ایک ثبوت بھی خود کولمبس نے دیا ہے وہ جب پہلے سفر پر جزاٹ بہار راز پہنچا تھا،یعنی 12 کتوبر 1402ء کو تو اس نے ننھے منے جزیروں کے پاس لنگر گرائے تھے جنہیں اس نے سال سلواڈورکانام دیاتھا۔ ان جزائر کے لوگ اپنی سرزمین کا نام
’’گوان بانی‘‘ بتاتے تھے، مقامی لوگ اس کا تلفظ ’’اخوان بانی‘‘ کررہے تھے۔’اخوان‘‘ عربی میں بھائی کو کہتے ہیں، ان جزائر کا نام بانی برادرز تھا جنہیں کولمبس نے زبردستی سان سلواڈورکردیا

19: جبکہ شمالی امریکہ کے ایک معروف مورخ لیووینو جس کا تعلق برورڈ یونیورسٹی سے تھا اس نے اپنی کتاب ’’افریقہ اور امریکہ کی دریافت، جو 1920ء میں شائع ہوئی تھی اس میں لکھتے ہیں کہ کرسٹوفرکولمبس اتنا بھولا بھالا یا بے خبر نہ تھا بلکہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ لاطینی اور شمالی امریکہ میں افریقی اور اندلسی یعنی اسپینی مسلمان اس سے صدیوں پہلے پہنچ چکے تھے پھر بھی جب اس نے انڈیا کی غلط فہمی میں امریکہ دریافت کرلیا تو اس حقیقت کو گول کرگیا اور اس نئی دنیا کی دریافت کا سہرہ اس نے زبردستی اپنے سر کرلیا اسے یہ بھی پتہ تھا کہ مسلمان لوگ نہ صرف امریکہ بلکہ کیریبین کے علاقے اور کینیڈا تک موجود ہیں.
20:جبکہ دوسرے مورخ ڈاکٹر ڈاک نے اپنی کتاب ’’امریکہ کی تاریخ میں مسلمان‘‘ میں لکھا ہے کہ کولمبس تو کل کی بات ہے امریکہ، کریبین اور دیگر مغربی علاقوں میں مسلمانوں کی موجودگی تب سے آرہی ہے جب کولمبس کے آباؤ اجداد بھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔

حوالہ جات:
http://d

تبصرے بند ہیں۔