’مسلمانوں کے تعلیمی مسائل‘ پر ایک رہنما کتاب

وصیل خان

یہ صحیح ہے کہ حصول تعلیم کے موضوع پر اب تک جتنا لکھا جاچکا ہےاتنا پڑھا نہیں گیا، بالفرض جوپڑھا بھی گیا، اس پر عمل بہت کم کیا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ مذہب اسلام کی ابتدا ہی تعلیم سے ہوئی ہے، سرور کائنات، محسن انسانیت، پیغمبر انقلاب محمد الرسول القائد ؐپر جو سب سے پہلی وحی نازل ہوئی وہ علم کے ہی تعلق سے تھی۔ جبرئیلؑ امین نےجب آپ سے کہا، اقراء (پڑھیئے) جواب میں آپ نے فرمایا ’ما انا بقاری ‘ (میں پڑھنا نہیں جانتا)، فرشتے نے پھر کہا اقراء آپ نے کہا، ما انا بقاری، اس کے بعد آپ نے ابتدائی چند آیات تلاوت فرمائیں ۔ فرشتے کے پیہم اصرار سے علم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

یعنی پڑھنا نہیں جانتے تب بھی پڑھو، اس کے علاوہ متعدد احادیث اوربھی ہیں جن سے علم کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ عجیب بات ہے جس مذہب نے سب سے زیادہ حصول علم کی ترغیب دی اسی کے پیروکاراس سے دور ہیں ۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ مسلمان احکامات نبوی ؐ کی تعمیل میں اتنے سنجیدہ نہیں جس قدر انہیں ہونا چاہئے۔ زیرتذکر کتاب ’مسلمانوں کے تعلیمی مسائل ( ایک جائزہ )‘ مسلمانوں میں اسی جمود کو توڑنے کی ایک خوشگوار کوشش کی گئی ہے جو ایک عرصہ ٔ دراز سے ان کے دل ودماغ پر مسلط ہے۔ کتاب کے مصنف محمدفاروق اعظمی ہیں جو ایک طویل مدت سے درس و تدریس جیسے اہم پیشے سے منسلک ہیں ، یہ وابستگی محض ر وایتی   نہیں جیسا کہ اب اسے بنادیاگیاہے۔ موصوف ملت کے تئیں ایک درد مند دل رکھتے ہیں اور اس بات کے خواہش مند ہیں کہ مسلمانوں میں تعلیمی ذوق زیادہ سےزیادہ پروان چڑھے، تاکہ مسابقت کی اس  دوڑ میں وہ برادران وطن سے کسی طورپیچھے نہ رہ جائیں ۔ اس سےقبل بھی مختلف موضوعات موصوف کی  متعددکتابیں منظر عام ہوچکی ہیں، جن میں نقوش حرم، گرد کارواں ، یادوں کے چراغ شامل ہیں۔

تازہ کتاب خالص تعلیمی مسائل پر مبنی ہے۔ جس میں موصوف نے اس مسئلے کی مختلف جہات کا بھرپور جائزہ لیا ہے اور خاص طور سے ان نکات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے، جن سے اب تک عام مصنفین نے مغائرت برتی ہے۔ دوسری کمیونٹی کے خلاف لکھنا جتنا آسان ہے، اپنی کمیونٹی کے خلاف لکھنا اتنا ہی مشکل ہے۔ اپنے مضامین میں مصنف نے اسی بیباکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کمزوریوں اور خامیوں کو طشت ا ز بام کیا ہے جس کے ذمہ دار ہم خود ہیں ۔چند عنوانات یہاں درج کئے جارہے ہیں جن سے انداز ہ لگایا جاسکتا ہے کہ مصنف کی نگاہیں کتنی دوررس ہیں ۔ ، حکومت کی تعلیمی پالیسی اور مسلمان، نظام تعلیم میں اخلاقیات کی صورتحال، تعلیم میں جدید رجحانات، مسلمان اور عصری علوم، علماء کیلئے عصری علوم کی ضرورت، دینی مدارس اور سرکاری گرانٹ کا مسئلہ، جنسی تعلیم کا شاخسانہ، اساتذہ میں احساس ِذمہ داری کا فقدان۔ اسباب اور علاج جیسےاہم ترین موضوعات کا احاطہ کرتی ہوئی یہ کتاب  ایک منفرد حیثیت کی حامل بن گئی ہے۔

 دینی مدارس اور عصری علوم کے اداروں کےمابین بُعد اور لاتعلقی کے سبب امت مسلمہ کی علمی فتوحات تھم سی گئی ہیں ، مصنف نے اس نکتے پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے دونوں طبقات کے مابین اشتراک و انسلاک پر زور دیا ہے اور کہاہے کہ یہ تال میل وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، اور ترقی و کامرانی کا راز اسی میں مضمر ہے۔ کتاب سے ایک اقتباس ہم یہاں نقل کررہے ہیں جس سے امت کے تئیں مصنف کی فکری دردمندی صاف جھلکتی ہے۔

’’مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی پچیس پچاس سال یا صدی دو صدی کی غفلت اور لاپرواہی کا نتیجہ نہیں بلکہ کئی صدیوں سے تعلیم اور اس کے جدید تقاضوں سے مسلسل انحراف اور چشم پوشی نے انہیں زندگی کی ہر دوڑ میں پسماندہ اور درماندہ بنادیا ہے۔ یہ علمی جمود اور ذہنی اضمحلال صرف ہندوستانی مسلمانوں کامقدر نہیں بلکہ پورا عالم اسلام علمی انحطاط اورفکری جمود و تعطل کا شکارہے، اگر چہ اب یہ جمود کچھ کچھ ٹوٹ رہا ہے۔ مگر اب تک پل کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے۔ اس دورانحطاط کے وسیع کینوس کا احاطہ اگر چہ ہمارے دائرہ ٔ تحریر سے باہر ہے، تاہم ہمارے تعلیمی مسائل کی کڑیا ں اسی زوال و انحطاط کا حصہ ہیں، جنہوں نے مسلمانوں کو علمی سطح پر مفلوج بنارکھا ہے۔ ‘‘

 زبان سادہ ودل نشین، اسلوب عام فہم اور دلکش اورطباعت دیدہ زیب ہے۔ مجموعی طورپر یہ کتاب ہر لحاظ سے اہم اور قابل مطالعہ ہے۔ ایوان علم میں اس کا خیرمقدم ہونا چاہئے۔

نام کتاب:  مسلمانوں کے تعلیمی مسائل ( ایک جائزہ )، مصنف :  محمد فاروق عظمی، قیمت:  160/-صفحات:  163، صورت حصول:  اعظمی ہاؤس مکان نمبر 7۔ب (7-B)ڈاکٹر اقبال کالونی مہرون،ضلع جلگاؤں (مہاراشٹر) 425135 موبائل، 09890124548

تبصرے بند ہیں۔