مسلمانوں کے دم فدم سے آباد ہیں جیلیں

شہاب مرزا

گذشتہ ماہ جمعہ کی شب گیارہ مئی کو اورنگ آباد شہر کے گاندھی نگر راجہ بازار، نواب پورہ، شاہ گنج علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے جس سے اورنگ آباد شہر کی پر امن فضا مکدر ہوگئی تھی معمولی سی بات پر شروع ہوا جھگڑا فساد کی شکل اختیار کرگیا اس ایک رات میں فسادیوں نے لگ بھگ چالیس دکانیں اور ایک سو کے قریب گاڑیوں کو جلا دیا تھا اور کروڑوں روپئے کی املاک کو پھونک دیا تھا اس فساد میں شاہ گنج کے چپل مارکیٹ کے چھوٹے بیوپاری شرپسندوں کا اصل نشانہ بنے، مخصوص دکانوں کو ہی نذر آتش کیا گیا یہ سب کچھ پولیس کی موجودگی میں ہوا اور پولیس محض تماشائی بنی رہی، لوٹ مار اور آتش زنی کا بازار رات بھر گرم رہا شرپسند بے خوف و خطر مسلمانو ں کی املاک کو نقصان پہنچاتے رہے، کچھ ایسے حقائق بھی منظر عام پر آئیں جو پولیس کی جانبداری کو اجاگر کرنے کے لیے کافی ہے، لیکن ایسے شواہد کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔

ایک رات کے فساد نے دو لوگوں کی جان لے لی مہلوکین میں ایک سترہ سالہ حارث کے تعلق سے کہا جارہا ہیکہ وہ پولیس کی گولی کا نشانہ بنا لیکن حارث قادری کو کس کی گولی لگی اور اس کی موت کا سبب کیا ہے یہ تحقیق طلب ہے، شرپسندی کے معمولی واقعے کو ایسی ہوا دیدی جائے گی کہ وہ فساد کی شکل اختیار کرلے ایسا کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا مسلمانوں کے کچھ سمجھ میں آتا اس سے قبل مورچہ بندی کرلی گئی تھیں، پولیس کی بھاری جمعیت کی بندوقوں کا رخ مسلم بستیوں کی طرف تھا، آنسو گیس کے شیل اور پلاسٹک کی گولیاں بھی مسلم نوجوانوں کے حصے میں ہی آئی، ہر علاقے میں پولیس نے متعصبانہ رویہ اختیار کیا ایسا نہیں کہا جاسکتا لیکن راجہ بازار اور نواب پورہ می جو کچھ ہوا وہ پولیس کو شرمسار کرنے کے لیے کافی ہے، پولیس کا فرقہ پرست چہرہ سامنے آنے کے باوجود کومبنگ آپریشن کے نام پر مسلمانوں پر ہی پولیس کا قہر برسا، لاٹھیاں انھیں کے حصے میں آئی اور اب گرفتاریوں کا عتاب بھی ان پر نازل ہورہا ہے اب تک دو کارپوریٹرس کے علاوہ جملہ چھیاسٹھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے جس میں اٹھارہ غیر مسلم ار اڑتالیس مسلم نوجوان ہیں، بتایا جاتا ہیکہ یہ گرفتاریاں ویڈیو کلپ اور سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر عمل میں لائی گئی لیکن محروسین کے رشتہ داروں کادعوی ہیکہ پولیس بے قصوروں کو گرفتار کررہی ہے، اور ان پر سنگین نوعیت کی دفعات مثلا قتل اقدام قتل، لوٹ مار اور فساد برپا کرنے جیسی دفعات عائد کی گئی ہیں جس سے ملزمین کی فوری رہائی کا کوئی امکان نہیں رمضان جیسے مقدس مہینے میں کئی نوجوانوں کو جیل کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑھ رہی ہیں یہ سب غیر متوقع نہیں ہے فساد کے بعد یہ جانچ کا حصہ ہے اور ہونا بھی چاہیئے لیکن کپتان کلر کی آتشزنی کا واقعہ منظر عام پر آنے کے بعد اقلیتوں کاپولیس پر سے اعتماد اٹھ سا گیا ہے۔

پولیس شروع میں ہی غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتی اور شرپسندو ں کو موقع نہیں دیتی تو شاید فساد میں اتنا نقصان ہوتا ہی نہیں، پولیس کے مشتبہ کردار نے اقلیتی طبقے کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ یہاں کے حفاظتی دستے چاہے وہ پولیس ہویا کوئی اور اقتدار کے آگے سرنگوں ہیں اور سیاسی بازیگروں کی کٹھ پتلی کے طور پر کام کرتے ہیں کم از کم کپتان کلر کے معاملے میں تو یہ بات صادق آتی ہے، یہی وجوہات ہیکہ پولیس کے رول کو لیکر عوام میں شدید برہمی پائی جارہی ہے، ان سب کے باوجود پولیس کے رویے میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے، بلکہ محروسین اور ان کے رشتہ داروں کو ہراساں کرنے کے سلسلہ جار ی ہے، ایسے مخبر چھوڑے گئے ہیں جو محروسین کے رشتہ داروں کو وسوسوں میں مبتلا کررہے ہیں یہ سب اس وقت ہورہا ہے جب مسلمان اپنے رب کو راضی کرنے کی فکر میں رہت ہے۔ پولیس کے اس مشکوک کردار پر سوال اٹھنا لازمی ہے اب ہم پوچھتے ہیں جنھوں نے دکانیں لوٹیں دکانیں جلائی کیا ان پر بھی کارروائی ہوگی یا محض بے قصوروں کو پھنسایا جائیگا؟
جو شر پسند فسادات میں ملوث ہیں کیا ان کی گرفتاری ہوگی اور کیا ان سے نقصان بھرپائی لی جائے گی ؟

جس طرح فساد میں شرپسندوں کو چھوٹ دینے کے مناظر ویڈیو میں ید ہوچکے ہیں ایسی طرح گرفتاریوں کے معاملے میں بھی شرپسندوں کو رعایت تو نہیں دی جارہی ہے ؟ ان پولیس ملازمین اور افسران کے خلاف کب کارروائی ہوگی جو شرپسندوں کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آئیں؟؟

لیکن جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے سے پہلے انتظامیہ اور پولیس حکام کو اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ اگر انھیں ابھی چھوٹ دیدی گئی تو مستقبل میں یہ پورے معاشرے کے لیے خطرے کا سبب بنتے رہینگے۔

بہر کیف ہم بات کررہے تھے مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کی جو پچھلے کئی دنوں سے جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرر ہے ہیں وجہ بالکل صاف ہے انھیں مسلمانو ں کی تری برداشت نہیں ہوتی اور یہ ہر شعبے میں مسلمانوں کو لاچار اور بے بس دیکھنا چاہتے ہیں، وطن عزیز میں جب کبھی بھی فسادات ہوتے ہیں پہلے مسلمانوں کی دکانیں لوٹیں جاتیں ہی پھر املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے پھر پولیس کے عتاب کا شکار بھی مسلمان ہوتے ہیں، پھر سنگین الزامات کے تحت گرفتاریاں بھی مسلمانوں کی ہی ہوتی ہیں۔

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہیکہ مسلمانوں کے دم قدم سے ہی جیلیں آباد ہیں نیشنل کرائم ریکارڈ کی رپورٹ کے مطابق بیاسی ہزار ایک سو بیانووے مسلم قیدی جیلوں میں قید ہی جس میں سے انساٹھ ہزار پانچ سو پچاس قیدی عدالتوں میں زیر سماعت ہے جس میں مسلمانوں کا تناسب اکیس فیصد ہوتا ہے، مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں انجام دی جاتی ہے پھر ثبوتوں کی عدم فراہمی کی بنا پر رہائی ہوجاتی ہے، انصاف کے رکھوالے ہی انصاف کا کھلواں ر کرے تو یہاں انصاف مانگنا ہی مضحکہ خیز ہے۔
جاں پھانسی پر سیاست ہوتی ہو اورقیدی کو محض اس لیے پھانسی دیدی جاتی ہیکہ وہ مسلمان ہے اور دوسرے قیدی کو اس لیے چھوڑ جاتا ہیکہ وہ مسلم نہیں ہے ایسی جگہ انصاف کی بات کرنا ہی اپنے آپ میں مذاق ہے، مسلمانوں نے یہ حقیقت سامنے رکھنی چاہیئے کہ قیاس پر مبنی مسلم نوجوانوں کی لگاتار اور سلسلہ وار گرفتاریوں سے معاشرے میں بے شمار مسائل پیدا کردیئے ہیں اس کے باوجود ہماری سمجھ کے مطابق حل کے دو پہلو ہیں جن پر عمل درآمد سے مسئلہ کی شدت میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

 اسلام کی تعلیمات کو بڑے پیمانے پر عوام الناس کے سامنے پیش کیاجائے تاکہ غلط فہمیاں دور ہوا۔ مسلمان اپنی فکری نظریاتی اور عملی زندگی میں اسلام کو مکمل طور پر اختیار کریں مجھے یقین ہیکہ اس طرح سے ہمارے مسائل حل ہونگے بضورت دیگر جن دشواریوں میں ہم مبتلا ہیں استقامت کارویہ اختیار کرتے ہوئے دنیا و آخرت میں سرخرو ہونگے۔ انشا اللہ

رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اب ہماری اجتماعی ذمہ داری ہیکہ اپنے نوجوانوں کی رہائی کے لیے مشترکہ پہل کریں ہمارے اکابرین کو ئی سبیل نکالیں تاکہ ب قصور نوجوانوں کی عید ان کے گھر پر ہوجائے، صرف تبصروں اور تشویش ظاہر کرنے سے مسائل کا حل ممکن نہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔