یوم بدر، یوم الفرقان

مولانا محمد طاھر مدنی

آج 17 رمضان المبارک ہے، آج یوم بدر ہے۔ 17 رمضان کو ہی غزوہ بدر کا معرکہ پیش آیا تھا اور مسلمانوں کو فتح مبین حاصل ہوئی تھی۔ سورہ انفال میں بالتفصیل اس غزوہ پر تبصرہ ہے اور اسے یوم الفرقان قرار دیا گیا ہے۔ اس غزوہ کے دروس و اسباق پر ایک نظر ڈالنا مفید ہوگا:

1۔  اس کو یوم الفرقان کیوں کہا گیا:

ان كنتم آمنتم بالله و ما أنزلنا على عبدنا يوم الفرقان يوم التقى الجمعان و الله على كل شيء قدير۔ (الأنفال 41)

اس نے حق و باطل میں واضح فرق کردیا، مسلمانوں کی تعداد بھی کم تھی اور ساز و سامان بھی کم، لیکن فتح سے ہمکنار ہوئے، جس سے ظاہر ہوا کہ یہ برحق ہیں۔ یہ دو ادوار کے درمیان بھی حد فاصل ہے، ایک دور کمزوری اور ضعف کا تھا دوسرا طاقت اور قوت کا، اس معرکے نے یہ فرق بھی واضح کر دیا کہ حق کا ساتھ دینے والے، کس طرح جرأت و شجاعت اور استقامت کا ثبوت دیتے ہیں۔

2۔ اس واقعہ نے یہ بھی ثابت کردیا کہ نصرت و تائید کا سرچشمہ ذات الہی ہی ہے:

و ما النصر الا من عند الله  العزيز الحكيم (آل عمران 126)

  و ما النصر الا من عند الله، إن الله عزيز حكيم (الأنفال 10)

ان آیات میں یہ تعلیم ہے کہ توکل اور اعتماد اللہ پر ہی کرنا چاہیے، تمام اسباب اختیار کرنے کے بعد بھروسہ اللہ ہی پر ہونا چاہیے۔

3۔ ایمان کا تقاضا ہے الولاء و البراء یعنی تعلقات کی بنیاد ایمان، جو اللہ کا ولی وہ ہمارا دوست اور جو اللہ کا دشمن وہ ہمارا دشمن۔ غزوہ بدر میں اس کے روشن دلائل موجود ہیں۔

ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ مسلمانوں کی صف میں تھے اور ان کے والد عتبہ، بھائی ولید اور چچا شیبہ کفار کی صف میں شامل تھے اور تینوں مارے گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے اور ان کے صاحبزادے عبد الرحمن مخالف خیمے میں تھے، مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں مسلمانوں کا علم تھا اور ان کا بھائی ابو عزیز بن عمیر کفار کے لشکر میں تھا اور قید کیا گیا، جس انصاری کے پاس تھا ان سے حضرت مصعب بن عمير رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کو سختی سے باندھنا، اس کی ماں بہت مالدار ہے۔ بھائی نے کہا کہ بھائی کے ساتھ یہ رویہ، انہوں نے کہا؛ یہ انصاری میرا بھائی ہے۔

5۔ مشرک سے ایسے معرکہ میں مدد نہیں لی جائے گی، ایک مشرک نے ساتھ دینا چاہا تو آپ ص نے فرمایا:

ارجع فلن أستعين بمشرک، السیرۃ النبوية الصحيحة للعمری( 2 / 355۔)

بعض حالات میں ضروری شرائط کے ساتھ استعانت بالمشرکین کا بھی ثبوت ہے لیکن عمومی طور پر نازک معاملات میں یہی حکم ہے۔

6۔ اعلام اور تشہیر کے محاذ پر بھی پوری توجہ۔۔۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم شعراء کی ہمت افزائی فرماتے تھے کہ اپنا فن استعمال کریں اور اسلام کے دفاع کا فریضہ انجام دیتے رہیں۔ اس زمانے کا میڈیا شاعری ہی تھی۔ حضرات حسان بن ثابت  اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہما بحسن و خوبی یہ محاذ سنبھالے ہوئے تھے۔ غزوہ بدر کے بارے میں بھی ان کے زور دار اشعار ہیں۔ اسلامی شعراء میں حسان بن ثابت، کعب بن مالک اور عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم ممتاز تھے۔

اس طرح کے متعدد دروس ہیں جو غزوہ بدر سے مستفاد ہیں اور جن سے ہر دور میں رہنمائی حاصل کی جانی چاہیے کیونکہ حق و باطل کے درمیان معرکہ آرائی قیامت تک جاری رہے گی اور کامیابی کی شاہراہ وہی ہے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چلے، ہر دور میں میں مشعل راہ وہی ہیں اور اللہ کی سنت اٹل ہے اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی:

فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے، قطار اندر قطار اب بھی

تبصرے بند ہیں۔