مسلمانوں کے لئے ریزرویشن –  ایک دستوری حق 

 سمیع احمد قریشی، ممبئ

ملک کے نظام حکومت  چلانے کے لئے  26 جنوری 1950 میں دستور نافذ کیا گیا۔ یہ انسانی اقدار پر مشتمل ہے۔ ہمارے ملک میں متعدد مذاہب زبانوں ذات پات  طبقات کے لوگ آباد ہیں۔ سبھی کو اس پر اعتماد ہے۔ ملک کی آزادی کے وقت ہم ہندوستانیوں نے ملک کی آزادی کے، ساتھ اک خواب دیکھا تھا کہ آزاد ملک میں رہنے جینے کا یکساں سلوک ملے گا۔ سماجی مذہبی آزادی ملے گی، عدل وانصاف کی حکمرانی ہوگی۔ ملک چلانے کے لئے بنائے گئے دستور میں، ان تمام بات کی ضمانت دی گئیں، افسوس کہ ‘خواب تھا کچھ کہ دیکھا سنا اک افسانہ تھا’

افسوس کہ ملک کے ہر باشندے کو دستوری سطح پر عدل وانصاف، سماجی و مذہبی آزادی مساوات ملنا چاہئیے، وہ ہے ہی نہیں۔ جس کا شکار سب سے زیادہ مسلمان، ہندو دلت، اقلیتیں، کسان، مزدور ادی و اسی اور کمزور طبقات ہیں۔

یہاں ملک میں قانون کی حکمرانی قائیم رکھنے کے لئے 26 جنوری 1950 کو ملک میں دستور آئیں نافذ ہوا۔ جس میں بے پنا انسانی اقدار اور ضمانتیں ہیں۔ کچھ مہینوں کے بعد ہی سے پیارے دستور ہند کے ساتھ کھلواڑشروع ہو گیا۔ اس کی ابتدا ملک کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت مسلمانوں کے ساتھ انتہائ دیدہ دلیری کے ساتھ، کانگریسی راج سے شرو ع ہوئ۔ انگریز پرائے تھے  ظالم و جابر تھے۔ ان کے دور حکومت میں تمام مذاہب کے لوگوں کو  سرکاری سطح پر ریزرویشن حاصل تھا۔ جو مللک کی آزادی کے بعد بھی جاری رہا۔ ملک میں آزادی کے بعدکانگریسی حکومت تھی۔ جواہر لال نہرو ملک کے وزیراعظم تھے، ڈاکٹر راجندر پرشاد ملک کے راشڑپتی یعنی صدر تھے۔ وزیراعظم نہرو جی کی شفارش پر دستور کی 341  کی دفعہ کے سہارے، صدر جمہوریہ ہند نے صرف ہندووں کے دلت طبقات ہی کو ‘شیڈول کاسٹ’ یعنی ایس ٹی ST کا درجہ دیا۔ جس کے تحت، یہ مراعات صرف ہندووں کو ملے گی۔ باقی سب مذہبی اقلیتوں کو اس سے محروم کر دیا۔ یہ سراسر غیر آئینی ہے۔ دستور کی دفعہ 14، 15، 16 کے تحت ملک کے ہر باشندے کو بناء امتیاز بھید بھاو اک جیسا سلوک ، مساوات، عدل وانصاف کی ضمانت دی گئیں ہیں۔ نیز دستور ہند کی دفعہ 25 کے تحت ہر اک کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے اور اس پر چلنے کی آزادی حاصل ہے۔

ملک کی مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ملک مین دستور نافذ ہونے کے کچھ ہی مہینوں بعد، اس قدر دستوری مذاق ہوا۔ کہ انہینں غیر دستوری طور پر ریزرویشن سے محروم کر دیا گیا۔ بڑے بڑے جید لیڈر حیات تھے مگر چپی سادھے تھے۔ مولانا آزاد  دستور کے معمار ڈاکٹر امبیڈکر تک چپ دکھائ دئیے۔

آگے چل کر 1957 میں سکھوں اور وزیراعظم وی، پی سنگھ کے وقت نو بودھشت لوگوں کو، حکومت ہند نے ”شیڈول کاسٹ ” کا ریزروویشن، دینے کا قانون بنایا۔ عیسائ، مسلم اور دیگر اقلیتیں پھر بھی اس سے محروم رئیں۔ آخر کو 2006 میں عیسائیوں نے، ریزرویشن کی خاطر، حق وانصاف کے لئے ملک کی سب سے بڑی عدلیہ سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی۔ مہاراشٹرا کی مسلم کھٹک یعنی مسلم بکر قصاب جماعت  نے بھی مسلمانوں کو   شیڈول کاسٹ کا ریذرویشن ملے، سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ ایڈوکیٹ مشتاق احمد سپریم کورٹ کے مایہ ناز وکیل، سپریم کورٹ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی پیروی کررہے ہیں۔ برسوں برس، اپیل داخل ہونے کے بعد ملک میں کانگریس کی حکومت رہی۔ سپریم کورٹ کے سامنے اپنا موقف نہیں رکھا۔ عدالت میں تاریخ پر تاریخ پڑتی رئیں۔ کانگریس کے لیڈران، مسلمانون کو ریزرویشن کے تعلق سے یہ کہتے رہے کہ مذہب کے نام پر ریزرویشن نہیں دیا جا سکتا۔ جو سراسر غیر منطقی اور غیر دستوری ہی ہے۔ آخر یہ بات اگر شچ ہے تو سپریم کورٹ کو، کانگریسی سرکار نے کیوں نہیں بتلایا۔ دلتوں کو ، م ملا وہس مذہب کی قید نہیں آئ پھر مسلمانوں و دوسری اقلیتوں کے ساتھ یہ دوغلہ  رویہ کیوں۔ دلتوں پر قید نہ تھی سکھوں پر بھی، نہ نو بددھشتون پر مذہبی قید تھی۔

یہ دراصل کانگریس کا چھپا چہرہ ہے اگر ہم لکھنے بیٹھیں، متو اک  ضخیم کتاب کانگریس کے برہمن وادی چہرے پر لکھی جائے۔ پہلے جن سنگھ اب بی جے پے  اور کانگریس اک سکے کے دو روپ ہیں۔ جہاں دلتوں اقلیتوں اور پھر خاص طور پر مسلمانوں کی تعمیر ترقی کی بات آئ  مخالفت شروع مگر انداز نرالے ہوتے ہیں۔

مسلمانوں کو بھی ریزرویشن ملے۔ یہ کانگریسی راج میں چھینا گیا ہے۔ جو غیر دستوری ہے۔ مسلمانون سے اگر چھینا نہیں گیا ہوتا تو آج سرکاری سچر کمیٹی کی رپورٹ یہ نہ کہتی کہ مسلمان سماجی سطح پر دلتوں سے پیچھے ہیں۔

.م کی ملک میں بے پناہ ترقی ہوتی۔ ریزروویشن  کی بناء پر مسلمانوں کو بھی بے پناہ سرکاری رعایات  سہولتیں ملتیں۔ ۔ بے پناہ ڈاکٹر  انجئینئر، آئ ایس افسران، کلکٹر، پولیس کمشنر دیگر اعلی ا فیسران ہوتے۔ کاروباری، معاشی، تعلیمی، رہائشی سہولتیں و ترقی ہو تیں۔ پارلیمنٹ، اسمبلیوں پنچایتون و دیگر قانون ساز اداروں میں بھی مسلمانوں کی خاطر خواہ تعداد ہوتی۔

پورے ملک میں مسلمانوں کو بھی ریز رویشن ملے، سابق ممبر پارلیمنٹ اعجاز علی، شبیر انصاری، مہاراشٹرا میں مسلم بکر قصاب جماعت، اس کے لیڈران محمود نواز، مفتی ہارون، شمش الدین شیخ، مناف سیٹھ ، اقبال بھائیکلہ، اور ادھر کچھ سالوں سے عوامی وکاس پارٹی کے سربراہ شمشیر خان پٹھان بے پناہ  کار گذاری کر رہے ہیں۔ ہیں۔ آج اس 10 اگست کو ان کی جانب سے آزاد میدان میں مسلمانوں کو ریزرویشن کی  خاطر، حکومت کو متوجہ کرنے کے لئے دھرنا ہے۔ ۔ جس میں زیادہ سے زیادہ شریک ہونا ہماری سماجی ضرورت ہے۔

پہلے قوت فکر و عمل پہ فنا آتی ہے

پھر قوموں کی شوکت پہ زوال آتا ہے

مسلمانوں کو ریزرویشن آئینی دستوری ہے۔ یہ کانگریسی راج میں چھین لیا گیا ہے۔ اس تعلق سے مسلمانوں میں بیداری کی خاطر اک تحریک کی ضرورت ہے اسے مزید چلایا جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔