دانشوری کا عذاب!

عالم نقوی

دانشوری کا ایک عذاب یہ بھی ہے کہ وہ اکثر خالق ِکائنات کے انکار پر ختم ہوتی ہے اور حکمت ،دانائی اور Wisdomکی اس منزل تک بھی نہیں پہنچ پاتی جہاں وہ جاہل بڑھیا تھی جس نے کہا تھا کہ میں اپنے اس چرخے پر سوت کاتتی ہوںجس سے بعد میں وہ کپڑا بُنا جاتا ہے جسے میں پہنتی ہوں تو جب روئی سے سوت اور سوت سے کپڑا اپنے آپ نہیں بن سکتا تو یہ اتنی بڑی دنیا اپنے آپ کیسے  بن سکتی ہے؟

دانشوری کا دوسرا عذاب علم و تعلیم اور عقل و دانش کا غلط استعمال ہے۔ سوشل میڈیا میں اہل ذوق کے ایک گروپ پرآج کل جون ایلیا اور انہی کی قبیل کے فلسفی دانشور شعراء کا دبدبہ ہے۔ ہماری دانش گاہوں میں بھی بے فیض ، بے مقصد  اور غیر ضروری موضوعات پر تحقیق (؟) زیادہ ہوتی ہے، سو ،جون ایلیا پر بھی مسلم یونیورسٹی کے شعبہء اردو میں ریسرچ (!)ہو رہی ہے!

اپنے پہلے مجموعہء کلام ۔ شاید (1990) کے دیباچے میں فلسفہ گزیدہ سید  زادے جون ایلیا الحسنی والحسینی لکھتے ہیں کہ: میں آہستہ آہستہ فلسفے کے مطالعے میں غرق ہوتا جا رہا تھا (برکلے کے بعد ) ہیو م کو پڑھنے کا مشورہ مجھے ۔۔مشہور کمیونسٹ مفکر اور ترقی پسند ادیب ڈاکٹر عبد العلیم (سابق وائس چانسلر اے ایم یو )نے دیا تھا۔ میں دنیا کا  تو پہلے بھی نہیں تھا۔ یہ کتاب پڑھ کر دین سے بھی گیا جس حکمت عملی کے ساتھ برکلے نے مادًے کا خانہ خراب کیا تھا، اُس سے کہیں زیادہ اعلیٰ منصوبہ بندی کے ساتھ ہیوم نے ذہن، نفس، روح اوران کی کمین گاہیں برباد کیں۔ میرا سب سے بڑا مسئلہ یقین سے محروم ہو جانے کی اذیت سے تعلق رکھتا تھا۔  بات کائنات کی ما بعد الطبیعی توجیہ کی تھی اور کانٹ نے صحیح کہا تھا کہ مابعدالطبیعی امور کو منطقی استدلال کے ذریعے ثابت نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ مذہب اور خدا عقل کی دسترس سے باہر ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا موجود ہے تو اس کا مطلب  یہ ہے  کہ خدا شے ہے۔ اور اگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے تو پھر اس کا ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے کہ اور وہ یہ کہ خدا لا شے ہے۔  لا شے کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں، ایک لا موجود اور ایک یہ کہ وہ موجود جو شے نہ ہو، کچھ اور ہو۔ کچھ اور کیا؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب ما بعدالطبیعی فکر کے تمام نمائندوں کو دینا ہے۔ میرا گمان یہ ہے کہ کسی عالمی نظام استدلال اور عالمی منطق کا کوئی وجود نہیں پایا جاتا۔ میں فلسفے کا مطالعہ کر  نے کے نتیجے میں اپنی تمام تر یقینیات سے محروم ہو (کر) اب تک جس نتیجے تک پہنچا ہوں، وہ یہ ہے کہ کائنات کی تمام  شَیوَن و اَشیا در اصل واقعات ہیں جو مکان و زمان کے نہائی اِنقِسامات میں متصلاً پیش آرہے ہیں۔ (جو ) مجموعی طور پر واقع نہ ہو یا پیش نہ آئے، (وہ) غیر موجود ہوتی ہے۔ خدا زمانی یا مکانی طور پر واقع نہیں ہوتا یا پیش نہیں آتا اس لیے وہ غیر موجود ہے۔۔

ایک اور مسئلہ بھی مجھے بہت پریشان کرتا ہے کہ کائنات کی کوئی غایت ہے یا نہیں؟ ارسطو یا ہٹلر کے پیدا ہونے کی آخر کیا غایت تھی؟ اگر ہمالیہ شمال کے بجائے جنوب میں واقع ہوتا تو اس میں آخر کیا استحالہ تھا؟  اگر انسانی ناف کے اوپر بالوں کی لکیر نہ پائی جاتی تو آخر کس نظامیات بدنی کو نقصان پہنچ جاتا؟ ۔۔ میں شاعر، عاشق اور معشوق کے طور پراِن مظاہر کی توجیہ کرنے کا قطعاً ذمہ دار نہیں ہوں مگر یہ سوال کرنے کا حق رکھتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے؟ اس بے نظامی کو کس نظام کا نتیجہ قرار دیا جائے؟

شاعری کو جون ایلیا کسی اخلاقیات یا ما بعدالطبیعاتی اخلاقی نظام کی پابندی سے آزاد گردانتے ہیں اور اقبال یا ان ہی جیسے دیگر شعرا کو شاعر ہی نہیں مانتے جو ما بعدالطبیعی حقائق کو اپنی شاعری موضوع بناتے ہوں۔ اِس سلسلے میں بھی وہ اپنی سابقہ اِدًعائیت کے فلسفیانہ رَدًے پر شاعرانہ رَدًا  جماتے ہوئے  رقم طراز ہیں کہ فن کے تعلق سے ہر وہ اخلاقیات جو جمالیات کے مفہوم سے کم یا زیادہ مفہوم رکھتی ہو وہ اخلاقیات نہیں ہوتی بلکہ عقیدہ ہوتی ہے اور عقیدوں کا، حسن اور فن سے کوئی غیر مشروط تعلق نہیں ہوتا! میں ایک شاعر کی حیثیت سے عقیدوں کی مجموعیت کو رد کرتا ہوں۔ عقیدوں کے نظام غیر مشروط حسن، خیر اور فن سے تضاد کی نسبت رکھتے ہیں۔ چنانچہ مابعدالطبیعی حقائق کے شاعر، شاعر سے بلند تر مرتبے کے حق دار تو ہو سکتے ہیں مگر شاعر نہیں ہو سکتے اس لیے کہ شاعر کا سب سے گہرا رشتہ جمال سے ہوتا ہے اور جمال غیر زمانی اور غیر مکانی نہیں ہوتا۔

علم کا ذریعہ صرف حواس (خمسہ ) ہیں اور علم کا منصب صرف ذہن کو حاصل ہے جو حواس کے بٖغیرکوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ وجدان کے کوئی معنی نہیں۔ اور شاید وجدان کے تو کچھ معنی نکل بھی آئیں مگر اردو میں – برگساں ۔ کے کوئی معنی نہیں!

               کسی فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملا ہوتا تو شاید فلسفے کے مارے ہوئے اِس سید زادے کو بھی مل جاتا! اِس اُلجھی ہوئی ڈور کو سلجھاتے سلجھاتے اب تو زندگی کی ڈور کا آخری سرا بھی اُن کے ہاتھوں سے چھوٹ چکا ہے اور چند سال پہلے وہ ۔آنجہانی۔ ہو چکے ہیں! کیا پتہ اقبال نے  درج ذیل اشعار اسی فلسفہ زدہ بلکہ سفسطہ شکار سید زادے کے لیے کہے ہوں! کہ —

              تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا۔ زُناری برگساں نہ ہوتا۔ ہیگل کا صدف گہر سے خالی۔ ہے اس کا طلسم سب خیالی

              میں اصل کا خاص سومناتی۔ آبا مرے لاتی و مناتی۔ تو سیدِ ہاشمی کی اَولاد۔ میری کفِ خاک برہمن زاد

              اَنجامِ خرد ہے بے حضوری۔ ہے فلسفہ زندگی سے دوری۔ اَفکار کے نغمہ ہائے بے صوت۔ ہیں ذوق عمل کے واسطے موت

              دیں مسلک زندگی کی تقویم۔ دیں سِرً ِ محمدﷺو براہیم ؑ۔ دل در سخنِ محمدیﷺ بند۔ اَے پورِعلی ؑ زِ بو علی چند

       ؑ                                       چوں دیدہ ء راہ بیں نہ داری

                                             قایدِ قرشیﷺبہ ، اَز بخاری!

یہ آخری دو شعر خاقانی کے ہیں کہ اے علی ؑ  کی اولاد! آنحضرت ﷺکی فرمائی ہوئی باتوں سے دل لگا تو کب تک بو علی سینا کے فلسفے سے چمٹا رہے گا! چونکہ تیری نگاہ راستے (صراط مستقیم ) کو پہچاننے سے عاجز ہے اس لیے کسی قرشی (قریشی مراد آنحضورﷺ)کو رہنما بنا لینا کسی  بخاری (بو علی سینا )  کو قائد بنانے سے بہتر ہے!

تبصرے بند ہیں۔