مسلمانوں کے لیے ہندکی سر زمین تنگ!

محمد شاہ نواز عالم ندوی

اس وقت ہمارے کے حالات انتہائی نازک اورحساس ہیں، خصوصی وعمومی دونوں اعتبار سے ملک کی فضاء انتہائی مکدر ہے، ملک اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود مسلمانوں پر تنگ ہوتا جارہا ہے۔ مسلمان جن سنگین حالات سے گزررہے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہے، یکے بعد دیگرے سانحوں کے تسلسل نے ان کے ہوش اڑادیئے ہیں۔ حالیہ دنوں الور میں اکبر بن سلیمان عرف سلیمان دودھیا کے ہجومی قتل نے تو حواس باختہ ہی کردیا ہے۔ ہجومی قتل کا سلسلہ دادری کے محمد اخلاق کے بہیمانہ قتل سے شروع ہوا ہے جن کو اس جھوٹی اطلاع پر کہ ’’اس نے گائے کا گوشت کھایا تھا اور اس کے گھر میں گوشت رکھا ہے‘‘پْرہجوم گئورکشکوں نے قتل کردیا تھا۔ اپریل2017ء میں محمد اخلاق کے قتل سے یہ سلسلہ شروع ہوا تھا اور ہنوز اب تک جاری ہے اور اس ہجومی قتل کے معاملات میں 47افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ سب سے زیادہ 13؍واقعات جھارکھنڈ میں ہوئے، دیگر ریاستوں میں ان وارداتوں کی تعداد کچھ اس طرح ہے۔ مہاراشٹرا(8)، تری پورہ(5)، تملناڈو(5)، راجستھان(3)، تلنگانہ و اترپردیش میں تین تین، کرناٹک اور آسام میں دو دو۔ جبکہ گجرات اور چھتیس گڑھ میں ایک ایک۔ راجستھان میں خون ناحق کا مرکز الور ہے جہاں تینوں قتل ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے بے دردانہ قتل نے پوری ملت اسلامیہ کو رنج وغم کے سمندر میں ڈبودیاہے۔ ہرطرف پڑمردگی اور مایوسی کا گھٹاٹوپ اندھیرا چھایا ہواہے۔

ملک میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک:ایک طرف تو مذکورہ واقعات وواردات ہیں جن کو دیکھ کر، سن کر، اخبارات ورسائل میں پڑھ کر دل خون کے آنسو روتاہے، کلیجہ منھ کو آنے لگتاہے۔ نفرتوں کے اس بازار میں راستہ چلتے ہوئے، راہوں سے گزرتے ہوئے ایسا محسوس ہوتاہے کہ شاید اب یہاں کوئی اپنا نہیں ہے۔ بسوں، ٹرینوں میں سفر کرتے ہوئے ایک عجب سا احساس ہوتاہے۔ منجملہ یہ کہ ہر طرف ایک مایوس کن فضا بنی ہوئی ہے، جہاں کبھی باد نسیم کے جھونکے چلتے تھے اب اس کی جگہ باد سموم کی آندھیاں چل رہی ہیں۔ یہ صرف مسلمانوں کا احساس نہیں ہے، بلکہ دوسری قومیں بھی اس احساس میں برابر کی شریک ہیں۔ دوسری طرف ایک اور احساس ہے کہ بچپن سے یہ بات سنتے آرہے تھے کہ ملک میں مخصوص طبقات خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتاجاتاہے۔

اگرچہ کہ ہم نے اپنے اساتذہ، علماء وخطباء  کی زبانی سن رکھا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا جو دعویٰ ہے وہ سراسر غلط ہے، ہوسکتا ہے کہ کہیں کسی خاص شعبہ میں ایسا ہوتا ہوگا، لیکن عمومی طورپر یہ ایک افواہ ہے۔ اصل بیماری یہ ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو ثابت نہیں کرپاتے ہیں اور علم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں (یہ ایک حقیقت بھی ہے) اس لئے مسلمانوں کو وہ مقام نہیں ملتا جو وہ چاہتے ہیں، کیوں کہ وہ اس مقام کے لائق نہیں ہوتے۔ لیکن موجودہ حالات میں ہم اپنے سابقہ نظریات پر قائم نہیں رہ سکے اور خوب محسوس نہیں بلکہ یقین ہوگیا کہ ملک میں مخصوص طبقات، خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا ہے۔ اس کے لئے ہم آپ کو زیادہ دو ر نہیں لے جائیں گے، ابھی صرف دودنوں قبل23؍جولائی 2018ء کو سیاست نیوز ڈاٹ کام حیدرآبادکے ویب سائٹ پر ایک خبر شائع ہوئی تھی جس کو ہم من وعن آپ کے حضور پیش کئے دیتے ہیں۔ سیاست نیوز ڈاٹ کام نے کچھ اس طرح سرخی لگائی ہے اور تفصیلات بیان کی ہیں۔

(’میں مسلمان ہوں ‘ کیا یہی میرا قصور ہے ؟۔ سب انسپکٹر عابد خان کا سوال:اگر آپ نے عامر خان کی فلم سرفروش دیکھی ہے تو اس میں ایک منظر ہے جس میں عامر خان اور مکیش رشی کے مابین مکالمہ ہوتا ہے۔ عامر نے اس آئی پی ایس آفیسر کا رول کیا تھا اور وہ کہتے ہیں کہ انہیں کسی سلیم ( مسلم پولیس آفیسر کا کردار ) کی اپنے ملک کو بچانے کیلئے ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح کا منظر اب جھارکھنڈ کے رانچی میں دورانڈا سب انسپکٹر عابد خان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ایک منٹ سے زائد کے ایک ویڈیو میں اس سب انسپکٹر کے چہرہ پر کرب اور جذبات دکھائی دیتے ہیں جن کا احساس ہے کہ انہیں اپنے ہی ملک میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے اور مذہب کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایک بی جے پی لیڈر دھیرج راج کا دو دن قبل قتل ہوا تھا۔ کچھ افراد نے پولیس اسٹیشن پر تین گھنٹوں تک دھرنا دیا۔ عابد خان قتل کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے۔ انہوں نے ہجوم کو تھامنے کی کوشش کی لیکن وہ عابد خان کے چیمبر میں گھس آئے اور انہیں تاخیر کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے فرقہ وارانہ ریمارک کئے۔ اس پر عابد برہم ہوگئے اور ہجوم سے سوال کیا کہ کیا وہ اس ملک کے شہری نہیں ہیں ؟ میں مسلمان ہوں یہ میرا گناہ ہے ‘ یہی گناہ ہے میرا اور کیا گناہ ہے ؟)

یہ اور اس طرح کے سینکڑوں واقعات ان دنوں ہمارے ملک میں روزانہ ہوتے ہیں، جن کا کوئی نوٹس نہیں لیتا اور نہ ہی الیکٹرانک میڈیا ان کو اپنے ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیا اپنے اخبارات وجرائد میں اس نشرواشاعت کرتاہے۔ ان واقعات سے تو یہی ثابت ہوتاہے کہ ملک کے تمام اداروں میں شدت پسند، دہشت گرد، فرقہ وارانہ منافرت کے حامل افراد گھس چکے ہیں اور ملک کی فضاء میں انتہائی مخفی انداز میں ایسا میٹھا زہر گھولاجارہاہے کہ اس کا کسی کو اندازہ نہیں ہورہاہے اور یہ بھی کہ مسلمان اپنے آپ کو ثابت کررہے ہیں اور وہ بڑے بڑے عہدوں کے لائق ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جارہاہے۔ حتی کہ شعبہ دفاع جہاں ذات، پات، مذاہب وادیان کی پہچان نہیں ہوتی وہاں بھی یہ متعصبانہ ذہنیت کام کررہی ہے اور مسلم فوجی سربراہوں کو ان کی خدمات کی سراہنا کرنے کی بجائے ان کو مطعون کیاجارہاہے۔ ایسا لگتاہے کہ جس طرح انگریزوں نے ملک کو تقسیم کرکے اپنا اقتدار قائم کیا تھا اس فارمولہ کو آرایس ایس اور سنگھیوں نے یاد کرلیاہے، اور اچھی طرح یہ بات ذہن نشیں ہوگئی ہے کہ اس ملک پر حکومت کرنی ہے تو اس کو پہلے توڑنا ہوگا، کیا آپ کو نہیں لگتاہے کہ آج تقریباً 83؍سال پہلے ایک انگریز رہنما نے ہندوستان کی سیاحت کے بعد برطانیہ کی پارلیمان جس بات کی ترجمانی کی تھی وہی کچھ آج ہمارے ملک میں روبعمل ہے۔ انگریز رہنما لارڈ میکولے کچھ اس طرح کہتاہے۔

"I have travelled across the Length and breadth of India and I have not seen one person who is a beggar, who is a thief such wealth I have seen in this country, such high moral values, people of such caliber, that i do not think we would ever conquer this country, unless we break the very backbone cultural heritage and therfore, I propose that we replasce her old and ancient education system, her culture, for if the Indians think that all that is foreign and English is good and greater than their own they will lose their selfesteem, their native culture and they will become what we want them, a truly dominated nation.” (Lord Macaulay’s Address to the British Parliamen on 2nd feb-1835)

’’میں نے ہند کے شمال وجنوب، مشرق ومغرب کی سیاحت کی مجھے اس پورے ملک میں کوئی بھکاری یا چور نہیں ملا، اس ملک میں حقیقی دولت ہے جس کا میں نے اس ملک میں مشاہدہ کیا، اس ملک میں اخلاق وکردار کے اعلیٰ اقدار کا راج ہے۔ وہاں کے لوگ انتہائی زیرک اور ذہین ہیں، مجھے نہیں لگتاکہ ہم اس وقت تک اس ملک کو اپنے قبضہ میں لے سکتے ہیں جب تک کہ ہم ان کے مضبوط تہذیبی اثاثہ ختم نہیں کردیتے جس پر وہ جمے بیٹھے ہیں۔ میں نے ان کے پرانے تعلیمی نظام اور پرانی تہذیب کو نئے تعلیمی نظام اور نئی تہذیب سے بدل دینے کی پیش کش کی ہے اور اگر ایسا ہوگیا تو ہندوستانی یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ خارجی اور انگریز ہم سے بہتر اور عظیم ہیں۔ اس طرح سے وہ احساس کمتری کے شکار ہوجائیں گے اور اپنی تہذیبی وراثت سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے اور پھر وہ وہ کریں گے جو ہم ان سے چاہتے ہیں۔ اس طرح ایک حقیقی غلام قوم تیار ہوگی۔ (لارڈ میکولے کا خطاب جو انہوں نے برطانوی پارلیمان میں 2؍فروری 1935ء کو کیا تھا)

نامساعد حالات کا مقابلہ کیسے کیا جائے: لیکن کیا حالات کی ستم ظریفی کا رو نا ہما رے مسا ئل کا مدا وا کر سکتا ہے ؟نا موا فق حا لات پر ما تم سے ہما ری مشکلا ت دور نہیں ہو سکتیں حا ل سے عا جز آکر مستقبل سے ما یو س ہونا زند ہ قومو ں کا شیوہ نہیں ہو سکتا زندہ قومیں مشکل سے مشکل حالات کا نہا یت پا مر دی کے سا تھ مقابلہ کر تی ہیں اور نئے عزم و حو صلہ کے سا تھ مستقبل کا لائحہ عمل تیا رکر تی ہیں ہمیں بھی ان حالات میں نئے حوصلوں کے ساتھ نہ صرف مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے بلکہ پو ری قوت کے سا تھ اسے عملی جا مہ پہنا نے میں جٹ جا ناچاہئے، مو جو دہ سنگین حا لات میں مسلما نوں کا لائحہ عمل کیا ہو؟

اس سوا ل کا جو اب ہر شخص اپنے طور پر دے سکتا ہے اور ملک کی مختلف نما ئند ہ شخصیا ت کا الگ الگ ایجنڈا ہو سکتاہے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بالکل آسان ہوچکاہے کہ ملک کو ایک نئے رخ پر لے جانے کی حتی المقدور سعی کی جارہی ہے، اور برسراقتدار پارٹیاں اس طریقہ کار پر عمل پیراہے۔ برہمن ازم، سنگھ ازم کو فروغ دیا جارہاہے۔ ملک ٹوٹ رہاہے اور یقینی بات ہے کہ جب ملک ٹوٹے گا تو ہر کوئی اس کی لپیٹ میں ضرور آئے گا۔ لیکن مسلمانوں کی ذمہ داری بحیثیت مسلمان ہونے کے دوچند ہوجاتی ہے، اس کو اپنے تحفظ کے ساتھ ہی ملک کو بھی تحفظ فراہم کرناہے اور یہ سمجھنا ہے کہ یہ حالات یکا یک پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ ہم نے اپنا سبق بھلا دیا ہے، اور ملک میں آباد لوگوں کے ساتھ ہمارا سلوک اور رویہ بدل چکاہے، اس لئے یہ حالات پیش آئے ہیں۔ اب ہم کو پھر اسی سبق کو دہرانا ہوگا جو ہم کو وراثت میں ملاہے دعوت إلی اللہ کی وہ ذمہ داری جس کو ہم نے فراموش کردیا ہے وہ چراغ ہدایت جس کو ہم نے فضول سمجھ کر بجھادیا تھاپھر سے روشن کرنا ہوگا۔ تبھی حالات بدل سکتے ہیں۔

فضول سمجھ کر جس کو بجھادیا تونے   

   وہی چراغ جلاؤتو روشنی ہوگی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔