مسلمان اور ماہ رمضان

فیاض أحمدمصباحی شراوستی

بھوک کی شدت، پیاس کی حدت، گرمی کی تپش، زبان کی خاموشی، نظر کی پاکیزگی، دل کی طہارت، انسانی ہم دردی، غریبوں کے ساتھ حسن سلوک، ضرورت مند کی حاجت روائ، عبادات کی للک، ذہنی فطور پر کنٹرول، عبادات گاہوں سے دلی لگاءو، چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کی تعظیم گویا یہ ایک مہینہ اسلامی بہار کی خوشحال فضاء کے جھونکے سے ہر ایک کو نوازتا ہے، رب کا دریاء کرم جوش میں موجیں لے رہا ہوتا ہے، رزق میں کشادگی آجاتی ہے، عبادت میں ذوق حلاوت کی آمیزش کر دی جاتی ہے، ہر شخص شادان وفرحاں دیکھائ دیتا ہے۔ امراء غرباء، روساء، فقراء، علما ء، طلبہ اور شیوخ سب اپنی استطاعت بھر اس مبارک مہینے کا استقبال کر رہے ہیں۔

وقت سحر خواتین کی لگن دیدنی ہوتی، جوانوں کا الہڑ پن اور الہڑ پن کے ساتھ بنا کھائے پئے پر عزم ہو کر روزہ کی کلفتوں کا برداشت کرنا اسلامی حمیت کواجاگر کرتاہے۔ شدت کی اس گرمی میں جہاں بہت سے محنت کش روزے کی عظمت سے انجان یہ کہ کر روزہ چھوڑ دیتے ہیں کہ ” اللہ معاف کرےگا ” وہیں بہت سے مضبوط اہل ایمان ہر طرح کی کلفتیں برداشت کرجاتے ہیں کہ روزہ انسان کو ملکوتی اوصاف سے متصف کردیتا ہے۔ اس خاک دان گیتی پر اللہ کے بہت سے ایسے بندے بھی ہیں جودن بھر روزہ رکھ کر محنت مزدوری کرتے ہیں اور جب شام کو گھر واپس جارہے ہوتے ہیں تو خالی ہاتھ ہوتے ہیں، نہ افطار کے لئے رنگ برنگے پھل فروٹ ساتھ ہیں اور نہ ہی قسم قسم کی مٹھائیاں، اس غریب روزہ دار مسلمان کے دماغ میں بس یہی رہتا ہے کہ گھر جاکر پانی سے افطار کر لیں گے، بچے دامن سے لپٹ کر پیار سے کچھ مانگیں گے تو ان کے لئے بسکٹ کا ایک چھوٹا سا ڈبہ کسی دوکان سے لے لیتا ہے  کہ بچوں کو سمجھانا تو مشکل ہے کہ ہم آج رب کے عطاکردہ تھوڑے سے رزق پر راضی ہیں تو کل قیامت کے دن میرا رب بھی میرے کم اعمال پر راضی ہوگا۔ صبح سے لے کر شام تک کا تھکا ماندہ غریب مسلمان پانی سے یا پھر کچھ روکھے سوگھے سے افطار کر کے خدا کے حضور کھڑا ہوتا ہے تو اس کی آنکھیں پھر بھی اشک بار ہوتی ہیں اور زبان پر رب کے لئے تشکر امتنان کے گیت ہوتے ہیں کہ ” مولی تو نے ہمیں اس عظیم نعمت سے نوازا ”  سحری کے وقت ہاتھوں میں اٹھایا ہوا بسکٹ بچے کی بے پناہ محبت میں نیچے رکھ کر پانی پی کر قناعت کرتا ہے کہ  بچے دن میں کھانے کو روئیں گے تو کیا دیا جائے گا، دن بھر پھر صرف پانی کے رزق اور رب کی عطا کردہ روحانی قوت کے بھروسے  رزق کی تلاش میں نکل جاتاہے، ایسے بندے کے دل میں رب کی خوشنودی کی تمنا اور ملکوتی صفات سے ہم آشنا ہونے کی چاہت قابل احترام ہوتی ہے۔ کون اندازہ کرسکتا ہے ایسے بندوں کے زور بازو کا۔

تراویح کی نماز میں قرآنی نغموں کے سرور میں پورا علاقہ نہائے ہوتا ہے۔ قرآنی آیات کی تلاوت کے پردے میں رم جھم رحمت کی بوچھار ہوتی ہے۔ لحن داءودی کے قدسی چاسنی سے دل ودماغ تروتازہ ہوتے ہیں، ہر لمحہ عبادت کا سرور رہتا ہے، محلے کے اوباش بچے بھی شرافت کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں، جوان بچیوں کا باہر با پردہ نکلنا اسلامی حکمت کا بہترین نظارہ پیش کرتا ہے، عورتوں میں حیا کا جوہر بیدار ہوجاتا ہے، قرآنی کی تلاوت کی فیصد بڑھ جاتی ہے ، بچوں میں زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کا مسابقہ ان کے روحانی رشتے کی غمازی کرتا ہے، صدقہ فطر، زکوہ اور عطیات کی بارش ہوتی ہے اور یہیں پیشاورانہ گداگروں کی بھیڑ میں اصل ضرورت مند کہیں پیچھے دب کر رہ جاتاہے جس کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہوتی۔ ہمارے مقدس مذہب میں ریا اور دکھاوے کو رتی برابر بھی جگہ نہیں دی گئی ہے، سال بھر اگر کوئ مسلمان ریاکاری کی  ملمع ساز زندگی جیتا بھی ہے تو ایک مہینہ کی عبادت ہی ایسی ہے کہ اگر بندہ اس کے انوار سے مالامال ہوگیا تو ریا کا شرکیہ بت ایک آن میں پاش پاش ہو جاتا ہے۔

 لیکن کچھ ایسی سچائ بھی ہمارے معاشرے میں پرورش پارہی ہے جس سے پردہ اٹھانا ضروری ہے نام نہاد ترقی، بلند خیالی اور ملحدانہ تربیت نے نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ کو اس مبارک مہینے کی برکات سے محروم کر رکھا ہے، دن بھر بھوک پیاس کی شدت برداشت کرنے کو ایسے بچے اور بچیاں دقیانوست سمجھتے ہیں، گھر کا ماحول بھی ایسا نہیں ہوتا کہ وہ کسی کا حیا کریں، علماء اپنی عزت بچانے کے لئے ایسے لوگوں سے کنی کاٹ کر گذر جاتے ہیں، ان کے ساتھ پورے سماج کا اخلاقی رویہ بھی ایسے ہی ہوتا ہے گویا ابوجہل نے ان ہی نوجوانوں کی شکل میں جنم لے لیا ہو۔ ایسے جوان بچوں سے پیار سے ملیں۔ سلام کریں، کسی ایسی جگہ بات کرنے پر ان کو آمادہ کرلیں جہاں ان کے ساتھ بات کرتے وقت آپ کے علاوہ کوئ نہ ہو تاکہ ان کا احساس کمتری جری نہ بننے پائے۔ اگر وہ کچھ شوق کرتے ہوں توکرنے دیں آپ اخلاق کریمانہ کا دامن نہ چھوڑیں یقین مانیں برائ ہمیشہ اچھائ کو دبانا چاہتی ہے لیکن اچھائ کی پیار بھری برودت برائ کے آتش فشان کو ہمیشہ کے لئے ٹھنڈا کردیتی ہے۔

ہمارے مذہب میں محتاجوں، غریبوں، مفلسوں، اور مسافرکی مدد کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ کئی احادیث کا یہ مفہوم ہے کہ ” خدا ان غریبوں اور مفلسوں کے دلوں میں جلوہ فرما ہوتا ہے ” اگر رب کی رضا چاہئے تو ان پریشان حال لوگوں کی مدد کرو۔ امدادونصرت کے باب میں ایک بات پر خاص زور دیا گیا ہے کہ اپنے خاندان، رشتہ دار، ، دوست واحباب، پڑوسی اور قرب وجوار میں ایسے افراد تلاش کئے جائیں، اگر خاندان، رشتہ داراور احباب میں ایسے افرد ہوں تو ان کی دلجوئ کی جائے اور بھرپور مدد کی جائے۔ رشتہ دار، احباب اور پاس پڑوس والوں کی پہلے دیکھ بھال کی جائے۔ لیکن آج اس مسئلے میں بھی اسلامی اصول کے صرف ایک ہی حصہ پر عمل ہوتا ہے۔ مسلمان اپنی صدقات،

زکوہ اور فطرے غریب دکھنے والے لوگوں کو دے ضرور رہے ہوتے ہیں لیکن جن کو دے رہے ہیں اکثر کے بارے میں معلوم نہیں کہ وہ دینے والے جیسے ہزاروں افراد کو بیک وقت خریدنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ مسلم معاشرہ کا وہ کالا سچ ہے جس پر سب کو سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔ مسلمان اگر آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر عمل کریں تو مسلم معاشرے میں گداگری کے پیشے کو ہمیشہ کے لئے بند کیا جا سکتا ہے۔ ہر علاقے کے مالدار مسلمان اپنے قرب وجوار، خاندان رشتہ دار، احباب اور دینی مدارس کو ہی اپنے صدقات ڈھونڈڈھونڈ کر دیں تو دھوکہ باز گداگر خود ہی آنا بند کر دیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔