مسلمان مدرسوں کے بجائے اپنی فکر کریں

حفیظ نعمانی

کیا صرف وسیم رضوی نام کے ایک آدمی کے بارے میں بے سرپیر کی باتیں کہہ دینے سے مدرسے ایسا موضوع بن گئے کو ہر ٹی وی چینل پر اس مسئلہ پر مذاکرے اور مباحثے ہورہے ہیں؟ وسیم رضوی ایک چھوٹے سے وقف بورڈ کے چیئرمین ہیں نہ وہ قائدوں میں گنے جاتے ہیں نہ مفکروں اور مدبروں میں۔ ان کی حیثیت کا اندازہ تو کچھ دن پہلے اس وقت ہوگیا تھا جب انہوں نے بابری مسجد کو شیعہ مسجد اس لئے قرار دے دیا کہ اسے میرباقی کے بابر کے ایک م لازم نے بنوایا تھا جو مسلک کے اعتبار سے شیعہ تھا۔ اور یہ بات ہائی کورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ دونوں نے یہ فیصلہ کردیا تھا کہ مسجد بننے کے بعد نہ سنی رہتی ہے نہ شیعہ وہ خانۂ خدا ہوجاتی ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے اس کی زمین کا سودا کرلیا۔ اب یہ تو وہ جانیں کہ انہوں نے کیا لیا اور کیا دیا؟ لیکن ان کی اس سودے بازی نے انہیں شیعہ علماء کی نظر میں بھی گرادیا اور شیعہ پرسنل لاء بورڈ کے سکریٹری مولانا یعسوب عباس نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہم بابری مسجد کے معاملے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ ہیں۔

اور اگر صرف وسیم رضوی کی بات نہیں تو پھر کون ہے جس نے مدرسوں کو ڈیڑھ سو برس کے بعد مذاکرے کا موضوع بنا دیا؟ این ڈی ٹی وی انڈیا کے پروگرام ’’ہم لوگ‘‘  میں اتوار کی رات کو آٹھ بجے یہ مذاکرہ شروع ہوا افسوس ہے کہ ہم پورا نہ سن سکے اور جتنا سنا اس کا حاصل یہ تھا کہ کب تک مدرسوں کے ذریعہ ہزاروں مؤذن اور امام بنائے جائیں گے؟ اور پانچ ہزار کا سوٹ پہن کر دانشور بن جانے والے ایک صاحب نے فرمایا کہ مدرسوں کو ختم کرکے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ یا عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد جیسے ادارے بنا دیئے جائیں۔ اور یہ مشورہ دینے والے ایک دولت مند تھے کہ ایک مدت طے کردینا چاہئے جس میں صرف مسلمانوں کو تعلیم یافتہ بنانے کا کام کیا جائے۔

عام طور پر رات کے پروگرام دوسرے دن دو بجے دہرائے جاتے ہیں دن میں ہم نے پورا پروگرام سننا چاہا تو اسرائیل کے وزیراعظم کے ساتھ اپنے وزیر اعظم کا پروگرام آگیا اور وہ رہ گیا۔ دوشنبہ کو رات میں نیشنل نیوز میں پھر مدرسوں کو موضوع بنایا گیا۔ ایک غلط فہمی یہ ہوگئی ہے کہ عربی فارسی مدرسہ بورڈ کے جو ادارے یا دُکانیں ہیں انہیں بھی مدرسہ کہا جاتا ہے اور جو دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم ندوۃ العلماء یا مظاہرالعلوم سہارن پور یا جامعہ سلفیہ بنارس اور ان کے ہی طرز کے پورے ہندوستان میں دینی مدارس ہیں وہ بھی مدرسہ ہیں۔ مذاکرہ میں بحث کرنے والوں کے پیش نظر یہ فرق ہے یا نہیں یہ ہم نہیں جانتے۔ لیکن مدارس صرف ان کو کہا جائے گا اور مانا جائے گا جو حکومت سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتے اور جو سرکاری خرچ پر چلتے ہیں وہ ووٹ کی دُکانیں ہیں۔

حقیقی مدرسوں کی بات یہ ہے کہ وہاں کروڑوں کا بجٹ ہونے کے باوجود کسی حکومت سے مدد نہیں لی جاتی اور جو طبقہ اپنے بچوں کو وہاں بھیجتا ہے ان میں 90  فیصدی وہ ہوتے ہیں جن کے گھر والے صرف آنے جانے کا خرچ برداشت کر پاتے ہیں اس کے بعد مدرسہ میں رہنے کا کمرہ پڑھنے کی کتابیں دونوں وقت کھانا لائٹ اور چارپائی وغیرہ سب کا انتظام مدرسہ کی طرف سے ہوتا ہے ان لڑکوں کو اپنے خرچ سے صرف ناشتہ کرنا ہوتا ہے جو اپنی حیثیت کے حساب سے وہ کرتے ہیں یا رات کی بچی روٹی سے ناشتہ کرلیتے ہیں۔

اب رہی بات مسلم یونیورسٹی اور عثمانیہ یونیورسٹی کی تو وہاں پڑھنے والے لڑکوں کو ہزاروں روپئے مہینہ کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ مدرسوں میں جو اربوں روپئے لڑکوں پر خرچ ہوتے ہیں وہ صرف مسلمانوں کا عطیہ ہوتا ہے جس میں سب سے بڑا حصہ زکوٰۃ کا ہوتا ہے اس کے بعد صدقات اور عطیات کا یا اوقاف کا مسلمان جو روپیہ دیتے ہیں وہ اس لئے دیتے ہیں کہ ان سے ان غریب لڑکوں کو جو اپنے پاس سے نہ کھاسکیں کھانا دیا جائے اور ان پر جو ضروری ہے وہ خرچ کیا جائے۔ جو حضرات مدرسوں سے دینی تعلیم ہٹاکر عصری تعلیم دلانا چاہتے ہیں کیا وہ اربوں روپئے کا انتظام کریں گے؟ کوئی مسلمان زکوٰۃ کے روپئے سے ڈاکٹر بنانے یا انجینئر بنانے کیلئے نہیں دیا گیا وہ زکوٰۃ کے روپئے سے عالم دین بنانا چاہتا ہے ۔

جن کے دماغ میں یہ بیٹھا ہے کہ مدرسے مؤذن اور امام بناتے ہیں وہ جاہل ہیں مدرسوں کا نصاب سات برس کا بلکہ اور زیادہ کا ہے سات برس میں انہیں عالم دین بنایا جاتا ہے اس کے بعد وہ جو چاہیں کریں۔ جن مسلمان پیسے والوں کے دماغ میں یہ بیٹھ گیا ہے کہ جس تعلیم گاہ میں لڑکے انجینئر یا ڈاکٹر نہیں بنتے وہ وقت برباد کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ڈاکٹر کروڑوں روپئے میں بنتا ہے اور اس کے بعد وہ ڈاکٹر رہے یا ڈاکو بن جائے کوئی بھروسہ نہیں۔ ہر دن کے اخبار میں اتنی خبریں ڈاکوئوں کی نہیں آتیں جتنی ڈاکٹروں کی آتی ہیں کہ زندہ بچے کو مردہ کہہ کر  ماں باپ کو سونپ دیا یا 18  لاکھ کا بل پکڑا دیا اور ماں اور بچہ دونوں مرگئے۔ وہ زمانے چلے گئے جب ڈاکٹر سید عبدالعلی، ڈاکٹر فریدی، ڈاکٹر عبدالحمید، ڈاکٹر رائے اور ڈاکٹر واس ہوا کرتے تھے جو مریض کو اپنی جیب سے بھی دے دیتے تھے۔ اب تو گلی گلی اور گائوں گائوں نرسنگ ہوم کھلتے ہیں اور منصوبہ بند طریقے سے آئی سی یو میں بند کرکے تیماردار کو جب تک فقیر نہیں بنا لیتے معاف نہیں کرتے۔ رہا مدارس کا میدان تو وہاں کے فارغ لڑکے خود بھی دین پر عمل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی عمل کرنے کی نصیحت کرتے ہیں فیشن ایبل مسلمانوں نے دیندار علماء کی شکل دیکھ کر انہیں مؤذن اور امام بنا دیا ہے۔ اور اگر وہ مؤذن یا امام بھی ہیں تو ڈاکو ڈاکٹروں سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔ مسلمان اگر اپنی عاقبت کی خیر چاہتے ہیں تو مدرسوں پر انگلی نہ اٹھائیں ان کے علاوہ جو کروڑوں بچے ہیں ان کی فکر کریں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    اسلام اور مسلمانوں کی حالت زار،
    قرآن کو چھوڑنے کا انجام!

    اصل بات جو مسلمان آج تک نہیں سمجھ سکے یہ ہے کہ اصل (قرآن کے ذریعے بھیجا گیا) اسلام) عملاً تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے ساتھ ہی دو ٹکڑے ہوکر رخصت ہوگیا تھا اور آج تک رخصت پر ہے-کیونکہ اس المیے کے بعد مدینہ منورہ پھر کبھی اسلامی ریاست کا مرکز نہ بن سکا اور آج بھی ایسا ہی ہے-
    بعد میں پھر اسلام کو ہر پہلو اور رُخ سے حملہ کرکے مسخ کردیا گیا جو آج مکمل طرح مسخ شدہ ہے-
    یہ جعلی فقہا، مجوسی شیعہ محدثین، سیرت و مغازی کے شیعہ مصنفین، شیعہ تاریخ نگار اور مورخینِ تاریخ صحابہ ، اسلام میں تصوف گُھسیڑنے والے اور شرک و جرائم کے مراکز اور اڈے جو بزرگوں کے مزارات کی شکل میں مسلم دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، سب اہل یہود اور ان کے بھائی ایرانی اہل مجوس اور ان کے ایجنٹوں کی کارستانی یے، آج لاکھوں کروڑوں لوگ فرقے، شخصیت پرستی، منافق اور بدکردار مُلاؤں کےدام فریب میں مبتلاہیں_ قرآن مخالف فرقوں کی بنیاد پر نفرت کے مراکز مدرسے اور ان فرقہ پرست جہلا کی بڑے سکیل پر پروڈکشن/پیداوار، اور نتیجتاً اسلام کا بگڑا ہوا مکروہ چہرہ سب انہیں کا "ثمر” ہے، جس کے باعث آج مسلمان ذلت و پستی کی گہرائیوں میں گرے پڑے ہیں، اور یہودونصاریٰ کے پاوؤں تلے روندے اور مسلے جا رہے ہیں!!!!
    جہالت اور ہرطرح کی پسماندگی ہمارے بدترین انحطاط کا مظہر ہے، قیادتیں ایمان فروش اور بے غیرتی، ذہنی غلامی، بدترین ہوس اقتدار اور کرپشن کی غلاظت میں لتھڑی ہوئی ہیں جس کے باعث مسلمان آج پوری دنیا میں شدید نفرت کی مثال بنے ہوئے ہیں!

تبصرے بند ہیں۔