مشاہیر: خطوط کے حوالے سے

ابراہیم افسر

  یہ بات سو فی صد سچ ہے کہ’’ خط آدھی ملاقات ہوتی ہے۔ ‘‘کیوں کہ بہ ذریعہ خط انسان اپنی بات اور دلی جذبات مکتوب الیہ تک با آسانی پہنچا دیتا ہے۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے کی خیر و عافیت سے واقف ہو جاتے ہیں۔ مکتوب نگار کھبی کبھی اپنے مکتوب میں اُن حالات و واقعات کو بھی قلم بند کر دیتا ہے جو اُس کی نجی زندگی میں رو نماہوتے ہیں۔ خط میں طنز و مزاح، کے علاوہ ہجر و وصال کی باتیں، مسرّت و تعزیت کا اظہار، کاروبار کا احوال، اور اخلاق و اخلاص کا درس بھی دیا جاتا ہے۔ جب ان واقعات و حالات کو کوئی علمی، ادبی اور سیاسی شخص تحریر کرتا ہے تو ایسے خطوط تاریخ رقم کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ کیوں کہ یہ واقعات کوئی معمولی واقعات نہیں ہوتے۔

جس طرح سے دنیا میں تبدیلی آتی رہتی ہے، اسی طرح سے خطوط کے موضوعات بھی بدلتے رہتے ہیں۔ غرض کہ ہر انسان اپنے مطلب کی باتیں خط میں تحریر کرتا ہے۔ لیکن دنیا بھر کے ادیب خاص طور پر اُردو ادیب جس حال میں رہتے ہیں اور ان کے سامنے جو ادبی مسائل در پیش آتے ہیں وہ اپنے تاثرات کا اظہار خطوط کے ذریعے ہی کرتے ہیں۔ یہ ادبی خطوط اُردو دنیا اور ادبی دنیا دونوں کے لیے مثعلِ راہ ثابت ہوتے ہیں۔ اُردو ادب میں بھی بہت سے ادیب، شاعر، اورنثر نگار گزرے ہیں جنھوں نے اپنے روزمرّہ کے حالات کو خطوط کی سطور میں قلم بند کیا۔ اُردو خطوط نگاری کو باقاعدہ فن بنانے والوں میں مرزا غالب کو فوقیت حاصل ہے۔ ان کے خطوط فارسی اور اُردو(رقعات غالب، عودِ ہندی، اُردوئے معلّیٰ)دونوں زبانوں میں دستیاب ہیں۔ غالب کے خطوط اپنے وقت اور عہد کے ترجمان ہیں۔ 1857ء کی جنگ ِ آزادی اور اُس وقت کی دہلی کے سیاسی، سماجی، معاشی اور ادبی حالات کا جائزہ لینے کا ان سے (غالب کے خطوط)بہتر کوئی ذریعہ نہیں۔ علامہ اقبال کے خطوط بھی ان کے سیاسی، اقتصادی، اور ادبی رجحانات کو سمجھنے میں ہمارے معاون ہیں۔ ان کے خطوط سے ان کی ذاتی زندگی کا بھی احاطہ کرنے میںہمیں مدد ملتی ہے۔ مولانا ابولکلام آزاد نے احمد نگر کی جیل میںجو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں وہ’’غبارِ خاطر‘‘کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اسی سلسلے میں انشائے سرور(رجب یلی بیگ سرور)، انشائے بے خبر(غلام غوث بے خبر)زیرِ لب(صفیہ اختر)، صلیبیں میرے دریچے میں(فیض احمد فیضؔ)، نقوشِ زنداںسجّاد ظہیر)، من آنم (فراق گورکھ پوری)، رشید حسن خاں کے خطوط، دو جلدوں میں(مرتب ٹی۔ آر۔ رینا)، معاصرین کے مکاتیب بنام محمد طفیل(جاوید طفیل) وغیرہ وغیرہ۔ اور اس سلسلے کو دراز کرتے ہوئے ڈاکٹررؤف خیر نے’’ مشاہیر خطوط کے حوالے سے (تنقیدی مضامین)‘‘کتاب میں اُن ادیبوں شاعروں اور نثر نگاروں کے ادبی حالات کا جائزہ پیش کیا گیاہے جن کے تعلقات نجی، کاروباری یا ادبی، مدیرِ ’’نقوش‘‘(لاہور)محمد طفیل سے تھے۔ کتاب کی ضخامت 144؍صفحات کی ہے۔ جن اشخاص کی دل چسپی خطوط نگاری میں ہے یہ کتاب ان کے لیے کسی ادبی خزانے سے کم نہیں۔ کیوں کہ اس کتاب میںشامل ادیبوں کے خطوط پڑھ کر قاری شرمندہ تو نہیں، نادم ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اُردو، مکتوباتی ادب سے مالا مال ہے۔ ویسے میں یہ عرض کر دوں کہ ڈاکٹر رؤف خیر کے نام بھی اُردو کے نام ور ادیبوں نے علمی اور ادبی خطوط تحریر کیے ہیں۔ کتاب کے پیش لفظ میں ’’حرفِ خیر ‘‘ کے تحت ڈاکٹر رؤف خیر نے خطوط نگاری کے حوالے سے لکھا ہے۔

’’یہ ادب کا بہت بڑا المیہ ہے کہ اب خطوط لکھے ہی نہیں جا رہے ہیں۔ ادب ہی کیا کسی بھی فن کے نابغہء روزگار کے خطوط بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ تحریر کا حسن اور واقعیت خطوط ہی سے جھلکتی ہے جو لکھنے والے کا ذہن اور ذہنیت پڑھنے میں مدد کرتی ہے۔ ادب کے حوالے سے ہم جائزہ لیں تو غالبؔ کے خطوط جہاں اُردو نثر کے ارتقا کا اہم حصہ سمجھے جاتے ہیں وہیں غالب کے دور کے حالات کے غماز بھی ہیں۔ غالب کے شاگردوں اور چاہنے والوں کے حوالے سے ان کے اپنے علاقوں کی صورت حال اور غالب سے ان کے تعلقات کی نوعیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ مراسلے کو مکالمہ بنانے کی روایت بھی تو غالب نے ڈالی تھی۔

غرض ادب کا انمول سرمایہ یہی خطوط سمجھے جاتے ہیں۔ آج بھی اگر شکسپیئر، غالب یا اقبال کا کوئی خط کہیں سے دست یاب ہو جائے تو ہزاروں ڈالروں اور روپیوں میں اسے تولا جا سکتا ہے۔ کئی رسالوں نے ادیبوں شاعروں کے خطوط پر مبنی نمبرنکالے اور ان کی شخصیت اور ذہنیت سے روشناس کروایا۔ کئی ادیب شاعر اپنے خطوط کی وجہ سے سرخ رو ہوئے تو کئی مشاہیر نے اپنے قلم سے اپنی قبریں بھی کھودی ہیں۔ ‘‘(مشاہیر۔ خطوط کے حوالے سے، ڈاکٹر رؤف خیر، صفحہ6، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس نئی دہلی، جولائی2015ء)

ڈاکٹر رؤف خیرنے اپنی کتاب میں جن مشاہیر کے خطوط شامل کیے ہیں ان میں شاد عارفیؔ، معین احسن جذبیؔ، قرۃ العین حیدر، پروین شاکر، عزیز احمد، ڈپٹی نذیر احمد، مولانا الطاف حسین حالیؔ، عصمت چغتائی، ناوک حمزہ پوری، خالد یوسف، پرکاش فکری اور شکیل گوالیری کے نام فہرست میں شامل کیے ہیں۔

گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی لاہور نے معاصرین کے مکاتیب بنام محمد طفیل (تقریباً پانچ ہزار خطوط کا مجموعہ)کا ایک خصوصی شمارہ ’’تحقیق نامہ‘‘(2005-06)جاوید طفیل(فرزند محمد طفیل)کی عنایت سے (کیوں کہ یہ خط جاوید طفیل نے جی، سی یونی ورسٹی لاہو کو بہ طور عطیہ دیے تھے) دنیائے ادب کے سامنے پیش کیا۔ یہ خطوط یونی ورسٹی کی لائبریری میں محفوظ ہیں۔ جاوید طفیل نے ان خطوط کی افادیت، اہمیت اور       سالمیت پر اپنی راے کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

’’یہ نایاب ذخیرہ ٔ خطوط 1890ء سے1986ء یعنی سو سال کو محیط ہے اُردو ادب کے مایہ ناز ادیبوں شاعروں کے یہ دل چسپ خطوط ان فن کاروں کو سمجھنے میں کام آتے ہیں۔ ‘‘(مشاہیر۔ خطوط کے حوالے سے، صفحہ 26)

 ان مایہ ناز ادیبوں اور فن کاروں کے خطوط کی ورق گردانی کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد طفیل اپنے رسالے میں جن ادیبوں سے فرمائشی مضامین، افسانے یا غزل لکھواتے تو اُن کواچھی خاصی رقم کا معاوضہ بھی دیتے تھے۔ جو اُس وقت کے اعتبار سے کافی موٹی رقم تسلیم کی جاتی تھی۔ کیوں رسالہ نقوش ایک پرایئویٹ رسالہ تھا۔ اس رسالے میں تخلیقات کا شامل ہو جانا ہی ادیبوں کے لیے باعثِ فخر اور ان کی شہرت کا سبب مانا جاتا تھا۔ ایک زمانے میںبرِ صغیرہند و پاک میں اس رسالے کی دھوم تھی۔ لیکن شاد عارفی جیسے شاعر کو اس رسالے کی مقبولیت اورشہرت کی پرواہ بالکل نہ تھی۔ شاد عارفی اپنی نگارشات نقوش میں شائع ہونے سے پہلے ہی اپنا معاوضہ مانگ لیتے تھے۔ اس سلسلے میں محمد طفیل سے ان کی با قاعدہ سودے بازی بھی بہ ذریعہ خط ہوتی تھی۔ ایسا ہی ایک خط شاد عارفی کے ذریعے مدیرِ نقوش محمد طفیل کے نام 25؍ جولائی 1958ء میں تحریر کیا گیا تھا۔ جس میںشاد عارفی نے صاف صاف لفظوں میں اپنی غزل کو نقوش میں چھاپنے کے عوض میں 40، 30اور کم از کم20روپے کی پیشگی طلب کی تھی۔ ساتھ ہی اس بات کا اشارہ بھی کیا کہ گھوڑے اور گھاس کی یاری زیادہ دن نہیں چلتی۔ خط ملاحظہ ہو۔

محلہ بیریاں۔ رام پور

 ۲۵؍جولائی۱۹۵۸ء

  محترمی علیکم اسلام

       خدا مرحومہ کو جنت نصیب کرے۔ انسان یہی کر سکتا ہے اس کی مشیت کے آگے۔ نظموں کی قیمت لیتا ہوں۔ اسی پر ڈاک خرچ اور ایک حد تک گزر بسر ہے۔ ایک تازہ نظم ’’مرے محلے کے دو گھرانوں سے ہے گناہوں کا فیض جاری‘‘کے عنوان(سے)موجود ہے۔ مگر نہ تو آپ چھاپ سکے گے اور  نہ میں ’’مفت‘‘ کے حق میں۔ گھوڑا گھاس سے یارانہ کر کے کس طرح جی سکتا ہے۔ میں تو پھر انسان ہوں۔ فاقے کہاں تک کر سکتا ہوں۔ بیمار بھی ہوں۔ چاہتا ہوں کہ اسی حالت میںیہیں ہندوستان میں مروں تاکہ ’’مرے بت خانے میں تو کعبہ گاڑو برہمن کو‘‘ کے تحت میں نہ رہوں مگر اُردو ادب میں میری ان پریشانیوں کا ذکر موجود رہے کہ عجب فاقہ مست تھا، مذکورہ نظم کے ۴۰ روپے اس سے گھٹیا مگر سنجیدہ کے ۳۰ روپے اور اس سے زیادہ ادبی کے ۲۰ روپے پیشگی آنے پر بھیج سکتا ہوں۔

   شاد عارفی

  شاد عارفی کی طرح عزیز احمد بھی اپنے افسانوں اور ناولوں کو نقوش میں شائع کرنے کا معاوضہ محمد طفیل سے مانگتے تھے۔ جب کہ عزیز احمد صاحبِ ثروت انسان کے ساتھ ساتھ کثیر التصنیف مصنف بھی تھے۔ عزیز احمد کے پاس سرکاری نوکری تھی، عزت تھی، شہرت تھی۔ اُردو ادب میں اعلا مقام تھا۔ ہندوستان سے ہجرت کرنے کے بعد عزیز احمد حکومتِ پاکستان کے اعلا عہدوں پر فائز رہے۔ لیکن تخلیقات کی اشاعت  کے معاوضے پر عزیز احمد کسی سے کسی بھی طرح کا سمجھوتا نہیں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ محمد طفیل کو وہ جلدی جلدی خط اس وجہ سے تحریر کرتے کہ کہیں میرے معاوضے کی بات مدیرِ رسالہ کے ذہن سے تو نہیں اآتر گئی گئی ہے۔ میں یہاں عزیز احمد کے وہ خطوط تحریر کر رہا ہوں جس میں اُنھوں نے محمد طفیل کو اپنی تخلیقات کی اشاعت کے بعد معاوضے کے لیے لکھا تھا۔ ان خطوط سے عزیز احمد کی (اقتصادی اور ادبی)نفسیات کا بہ خوبی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

’’آپ نے اب تک مضمون وغیرہ کے معاوضے کے65/-روپے نہیں بھیجے۔ ’’نشتر ‘‘پر میں نے کافی کام شروع کر دیا ہے۔ دو ہفتے میں آپ کے پاس بھیج دوں گا۔

   فقط

عزیز احمد

 24؍اپریل1950ء

عزیز احمد نے اسی طرح کی باتیں 21؍ جولائی 1950ء کو محمد طفیل کے نام لکھے گئے خط میں بھی تحریر کیں۔ کیوں کہ معاوضے کی تاخیر عزیز احمد کے نزدیک ایک بُرا فعل تھا۔ لکھتے ہیں۔

 مکرمی جناب طفیل صاحب تسلیمات عرض ہے۔

گرامی نامہ ملا۔ براہ کرم آپ چالیس 40/-روپے مجھے خود براہ راست فوراً بھیج دیجیے۔ آپ کے کراچی کے آفس کو میرا پتا نہیں معلوم ہے اس کے علاوہ میں معاوضے میں تاخیر نہیں چاہتا۔ میرا دوسرا افسانہ ’’آخر کار‘‘ آپ بلا معاوضہ قطعاً نہیں شائع کر سکتے۔ میں اتنی رعایت کر سکتا ہوں کہ بجائے چالیس40/-کے اس کا معاوضہ آپ سے تیس 30/-روپیہ لوں۔ اس سے زیادہ رعایت نہیں ہو سکتی۔ یہ منظور نہ ہو تو مجھے فوراً واپس بھیج دیں۔ تقاضہ اور تکرار خوش گوار چیز نہیں۔

’’نشتر‘‘ عنقریب تیار ہو جائے گی۔ مگر یہی خیال رہے کہ اس کا معاوضہ فوراً مل جائے۔

  فقط

  عزیز احمد

 21؍ جالائی 1950ء

(ایضاً)

 جہاں ایک جانب رسالہ نقوش میں ادیب و شاعر اپنی تخلیقات شائع ہو جانے کو افتخار تسلیم کرتے تھے وہیں معین احسن جذبی ایسے شاعر تھے جنہیں محمد طفیل خود خط لکھ کر آمادہ کرتے کہ آپ اپنی شاعری یا کوئی مضمون نقوش کو ارسال کیجیے۔ لیکن معین احسن جذبی اس پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ جب کہ نقوش ان کے پاس بلا ناغہ آتا رہا۔ معین احسن جذبی کی شخصیت کو پہچاننے والے جانتے ہیں کہ اُنہیں نام و نمود کی بالکل چاہت نہ تھی۔ انھوں نے اُردو ادب کے خاموش خدمت گار کے طور پر اپنی زندگی علی گڑھ میں گزاری۔ اُردو ادب میں جذبی کی شہرت’’فروزاں‘‘، ’’سخن مختصراً‘‘ او ر ان کے تحقیقی مقالے ’’ حالی کا سیا سی شعور‘‘کی وجہ سے ہے۔ معین احسن جذبی نے محمد طفیل کے نام 16؍اپریل1959ء کو خط تحریر کرتے ہوئے لکھا۔

7-Zakaullah       road

moin  ahsan  zazbi

Muslim university Aligarh     m.a ph.d

   برادرم!

آپ کے دونوں خط ملے۔ آج کل در اصل امتحانات کی مصروفیتیں ہیں وربہت پہلے آپ کی خدمت میں جواب پہنچ چکا ہوتا۔ آخری نظم مجاز پر کہی تھی جو علی گڑھ میگزین میں شائع ہوئی ہے۔ اس کے بعد اب تک کچھ نہیں ہوا۔ ’’مکان نامہ‘‘ پر دراصل نظرِ ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی اشاعت میں صرف یہی بات اب تک مانع رہی ہے۔ رہی ڈر کی بات، سوآپ کو شاید علم نہیں کہ سب سے پہلے یہ ذاکر صاحب ہی کو بھیجی گئی تھی اور اس نظم کا انہوں نے کئی جگہ ذکر بھی کیا۔ اس امر سے آپ میری گستاخی اور ذاکر صاحب کی خوش مذاقی کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ ذاکر صاحب کا شمار ہندوستان کی نمایاں شخصیتوں میں ہے۔ اس لیے نظم بھی فنی اعتبار سے ذاکر صاحب کے شایان ِ شان ہونا چاہییٔ۔ اسی خیال نے اب تک اس کی اشاعت سے مجھے روکے رکھاورنہ اب تک یہ ’’نقوش‘‘ کے طنز و ظرافت نمبر میں جگہ پا چکی ہوتی۔ خدا کرے آپ بہ خیر ہوں۔ احباب سے سلام کہئے گا خصوصاً سبطِ حسن سے۔

 آپ کا جذبی

  16/4/59

(صفحہ33، ایضاً)

 رسالہ نقوش کے خطوط نمبرسے ہی قاری کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُردو ادب کی دو مایہ ناز نسائی شخصیتوںقرۃ العین حیدر اور پروین شاکر کے درمییان بھی ادبی ٹکراؤ ہو گیا تھا۔ اُردو فکشن میں عینی آپا کا کوئی ثانی نہیں تو دوسری جانب شاعرات میں پروین شاکر کا قد بھی کسی سے کم نہیں۔ لیکن ان دونوں کے درمیان ادبی تلخی اس وقت پیدا ہوئی جب پروین شاکر نے ہندوستان کے اپنے دورے(1978ء)سے واپس جاکر عینی آپا سے ہوئی ملاقات کو نظم ’’قرۃ العین‘‘کے پیرائے میں رسالہ’’سیپ‘‘میں نومبر1978ء میں شائع کرایا۔ جب عینی آپا نے رسالہ سیپ میں ’’قرۃالعین‘‘نامی نظم کا مطالعہ کیا تو انھیں پروین شاکراور نظم دونوں پر بہت غصہ آیا۔ اس کے بعدعینی آپا نے دوشکایتی خط، ایک رسالہ سیپ کے مدیر ’’نسیم درّانی‘‘کے نام اوردوسرا پروین شاکر کے نام تحریر کیے۔ پروین شاکر کے نام لکھا خط اس طرح ہے۔

ممبئی۔ ۔ ۳؍جنوری۱۹۸۹ء

محترمہ پروین شاکر صاحبہ

سیپ میں آپ کی نظم دیکھی جس میں آپ نے اپنی شاعری اور تخیل کے جوہر دکھائے ہیں۔ میں آپ سے بہت خلوص اور اپنائیت سے ملی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا آپ نے میرے متعلق اس قدر لچر الفاظ کس طرح اور کیوں استعمال کیے اور آپ کو میں کس طور پر ایسیFigure of the tragedy & frustationنظر آئی۔ یا اس قسم کی Sickنظمیں لکھ کر آپ اپنی شہرت میں اضافہ کرنا چاہتی ہیں۔ آپ شاید بھولتی ہیں اگر میں بد نفسی اور شرارت پر اتروں تو میرے ہاتھ میں بھی قلم ہے اور میں آپ سمیت جس کے لیے جو چاہوں لکھ سکتی ہوں۔ میں ۶ تاریخ کو تین ماہ کے لیے دلی جا رہی ہوں اور اُمید کرتی ہوں کہ آپ مندرجہ ذیل پتے پر مجھے لکھیں گی کہ آپ نے یہ نظم کیا سوچ کر لکھی یا آپ کی واقعی اتنی Sickذہنہت ہے کہ آپ میری شخصیت کو اس طرح مسخ کرکے پیش کریں۔ نہ میری آپ سے پرانی دوستی ہے اور نہ آپ میری ہم عمر ہیں۔ آپ نے دو تین بار کی سرسری ملاقات کے بعد میرے طرزِ زندگی پر جو قطعی میرا اپنا انتخاب اور اور میرا معاملہ ہے فیصلے صادر کرکے ظاہر کیا ہے کہ یا آپ بمبئی آکر بوکھلا گئیں تھیں۔ or you must be light out of your mind

  قرۃالعین حید ر

(ایضاً صفحہ45)

  رسالہ سیپ کے مدیر نسیم درانی کے نام خط عینی آپا نے، معرفت وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی، مسٹر ایم وائی قدوائی کے پتے سے لکھا۔ خط میں عینی آپا نے اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہا کہ آج کل مشہور و معروف ادیبوں کی شخصیت کو مسخ کر کے پیش کرنا رسالوں کا وطیرہ بن گیا ہے۔ اور یہ عام ہو چکا ہے۔ جب پروین شاکر کو عینی آپا کا خط ملا تو انھیں اس بات کا افسوس اور حیرانی ہوئی کہ عینی آپا کو ان کی نظم سے اپنی شخصیت مجروح ہوتی نظر آ رہی ہے۔ لیکن پروین شاکر نے بھی خط کا جواب عینی آپا کی شخصیت اور ان کی ادبی خدمات کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے مہذب، شگفتہ، نرم، شیریں اور ادبی اندازکو قائم و دائم رکھتے ہوئے طوالت کے ساتھ18؍فروری 1979ء کو تحریر کیا۔ اس خط کی ایک نقل پروین شاکر نے رسالہ سیپ کے مدیر نسیم درّانی کے نام بھی ارسال کی۔ پروین شاکر نے خط میں لکھا۔

عینی آپا۔ آدب

معذرت خواں ہوںکہ میری کوئی تحریر آپ کی دل آزاری کا سبب بنی۔ یقین کیجیے میرا ہر گز یہ منشا نہیں تھا۔ نی نظم میں نے آپ کو خوش کرنے کے لیے لکھی نہ ناراض کرنے کرنے کے لیے۔ یوں جان لیں کہ یہ تاثراتی قسم کی چیز تھی۔ آپ بہت بڑی ادیب ہیں، ہم نے تو آپ کی تحریروں سے لکھنا سیکھا۔ آپ مجھ سے خلوص اور اپنائیت سے ملیں۔ بڑا کرم کیا۔ یقیناً یہ میرے لیے ایک بڑا اعزاز تھا۔ مگر میری سمجھ میں نہیں آتا میں نے اس نظم میں کسی قسم کا لچر لفظ کہاں استعمال کیا ہے۔ (کیوں اور کس طرح کا سوال تو بعد میں اُٹھتا ہے)آپ تو مجھے بہت پیاری، بہت گہری خاتون لگی تھیںFrustratedاورSick-Figuresلوگ ایسے تو نہیں ہوتے۔ ہاں جہاں تکTragedyکا تعلق ہے تو اپنا یہ تاثر میں Ownکرتی ہوں۔ دکھ کس کی زندگی میں نہیں ہوتے، فرق یہ ہے کہ آپ جیسے اعلیٰ ظرف لوگ اسے جھیلنا جانتے ہیں، آنسو کو موتی بنا دیتے ہیں۔ ہماری طرح اسے رزقِ خاک نہیں ہونے دیتے، لیکن آپ اگر اس بات سے انکار ی ہیں تو چلئے یہی سہی۔ آپ خوش رہیں، آپ کے عقیدت مندوں کی اس کے سِوا دعا ہے بھی کیا ؟نہیں عینی آپا جسارت کر رہی ہوں مگر غلط فہمی ہی ہوگی اگر آپ یہ سمجھیں کہ اس قسم کی نظمیں لکھ کر میں اپنی شہرت میں اضافہ کرنا چاہتی ہوں۔ شہرت تو محبت کی طرح روح کی اپنی کمائی ہوتی ہے۔ ، کسی نام کی زکاۃ نہیں(مولانا الطاف حسین حالی اور جیمس باسویل کبھی میرے آئڈیل نہیں رہے!)آپ کا کہنا درست ہے کہ ’’اگر میں بد نفسی اور شرارت پر اتر وں تو میرے ہاتھ میں بھی قلم ہے اور میں آپ سمیت جس کے لیے جو چاہوں لکھ سکتی ہوں۔ ‘‘مجھ سمیت کوئی ذی نفس جس کی پہچان حرف ہے، آپ کے قلم کی طاقت سے بے خبر نہیں، بسم اللہ۔ چوں کہ آپ نے سوال اُٹھایا ہے اور جواب نہ دینا گستاخی ہوگی لہذا یہ وضاحت مجھ پر لازم ہو گئی ہے کہ میں نے نظم کسی خاص محرک کے تحت نہیں لکھی۔ ہندوستان سے واپسی کے بعدجب ذہن سے سفر کی گرد اتری تو سونے کے کچھ ذرات میری سوچ کی انگلیوں پر لگے رہ گئے۔ تاج محل، گنگا سے، اے جگ کے رنگ ریز(امیر خسرو)بوے یاسمین باقیست، قرۃالعین حیدر اور سلمیٰ کرشن یہ میری وہ نظمیں ہیں جو اس سفر کا عطیہ ہیں۔

  رہی میری ذہنیت کے Sickہونے کی بات تو اس کا فیصلہ تو کوئی سائکا ٹرسٹ ہی کر سکتا ہے لیکن اگر آپ حرف کی حرمت پر یقین رکھتی ہیں تو میری بات مان لیجیے کہ ان تمام نظموں میں آپ سمیت کسی شخصیت یا عمارت کو مسخ کرنے کی قطعاً کوشش نہیں کی گئی ہے۔ اب بات آتی ہے میرے اور آپ کے تعلقات کی ……تو عینی آپا آپ سے ایک بار پھر درخواست ہے کہ نظم دوبارہ پڑھیں، کہیں بھی نئی یا پرانی کسی دوستی کا دعویٰ نہیں کیا گیا ہے۔ ہم عمر ہونے میں تو تاریخی اور طبعی عوامل بھی حائل ہیں !وہ ملاقاتیں یقیناًسر سری ہی تھیں اور آپ کے طرزِ زندگی پر جو قطعی طور پر آپ کا اپنا انتخاب اور اپنا معاملہ ہے طویل اور گہری ملاقاتوں کا اعزاز حاصل کرنے والے بھی فیصلہ سادر کرنے کا حق نہیں رکھتے!

Out of Mindہونے کے متعلق فیصلہ میں پہلے ہی ایک تیسرے شخص کے ہاتھ میں دے چکی ہوںالبتہ ایک بات واضح کرتی چلوں کہ بمبئی اتنا بڑا شہر بہر حال نہیں ہے کہ کراچی کا کوئی رہنے والا وہاں جا کر بوکھلا جائے۔ خدا میرے پاکستان کو سلامت رکھے، کبھی فرصت ملے تو ذرا علی سردار جعفری صاحب سے پوچھئیے گا کہ آپ کے شہر کے بارے میں میرے تاثرات کیا ہیں۔

 نظم کی نا پسندیدگی پر شرمندہ ہوں اور در گزری کی خواستگار!میں ذاتی خطوط کی نقلیں مدیران جرائد کی قائل نہیں ہوں مگر چوں کہ آپ نے لکھا ہے کہ اس خط کی نقل مدیر’’سیپ‘‘ کو بھیجی جا رہی ہے لہذا میں نے بھی مجبوراًً یہی قدم اٹھایا ہے لیکن اتنا اطمنان رکھیں کہ آپ کی رضا مندی کے بغیر یہ خط کہیں شائع نہیں ہوگا۔ کہیئے کیا حکم ہے؟ہاں یاد آیا۔ یہ تو آپ نے لکھا ہی نہیں کہ ’’کار جہاں دراز ہے‘‘کی رائلٹی یہاں پاکستان میںآپ کے کس رشتہ دار کو دی جائے؟

  اُمید ہے مزاج بخیر ہوں گے

  نیاز مند

 ’’برائے سیپ‘‘

   پر وین شاکر

(ایضاً صفحہ 45 تا47)

ڈاکٹر رؤف خیر نے اپنی کتاب میں مولانا الطاف حسین حالی ؔ کی شخصیت کو بھی اُن کے مکتوبات کے حوالے سے پرکھا ہے۔ مولاناحالی  نے مصنف اور قاری کے بارے میں اپنے خطوط میں خوب لکھا۔ حالی کا ماننا تھا کہ کتابوں کو شائع کرنااور اس کی اشاعت کوئی آسان کام نہیں۔ کتاب کی اشاعت پرلاگت زیادہ آتی ہے اور منافہ کم۔ حالیؔ کے دور میں بھی ہر پڑھا لکھا آدمی کتاب کو خرید کر پڑھنا نہیں چاہتاتھا بل کہ مصنف سے کتاب مفت میں حاصل کرنا چاہتا تھا۔ حالی اؔس روش کے سخت مخالف تھے۔ لیکن حالی ؔ، سر سید احمد خاںکی کتا بوں کی قدر شناسی کے قائل تھے۔ کیوں کہ سرسید مرحوم کتابوں کے دلدادہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے رفیقوں کو بھی کتاب خریدنے پر آمادہ کرتے تھے۔ حالیؔ نے سر سید کے جملہ اوصاف کی تعریف کرتے ہوئے اپنے خط میں لکھا۔

’’مسدس مدوجزرِ اسلام کا پہلا ایڈیشن نکالا اور اس کی ایک جلد سر سید مرحوم کی کے پاس بھیجی  تو بغیر اس کے کہ میں نے اس مرحوم سے کوئی درخواست کی ہو فوراً مجھ سے پوچھا کہ آپ نے اس کی کتنی جلدیں چھپوائی ہیں۔ میں نے جواب لکھ بھیجا۔ انھوں نے اسی وقت ایک فہرست اپنے احباب کی مجھے لکھ کر بھیجی کہ اتنی جلدیں فلاں دوست کو اتنی وہاں بھیج دو اور اپنے دوستوں کو لکھ بھیجا کہ کتابیں پہنچتے ہی قیمت مصنف کے پاس بھیج دیجیے۔ چوں کہ مہینے ڈیڑھ مہینے میں جس قدر جلدیں چھپوائی تھیں سب فروخت ہو گئیںاور دوسرا ایڈیشن چھپوانے کی ضرورت ہوئی۔ افسوس ہے کہ یہ خیالات وہ شخص اپنے ساتھ لے گیا۔

اب ان کے بڑے بڑے ذی مقدر دوست اس بات کے متوقع ہیں کہ ان کی جناب میں کتابیں مفت نذر کی جائیں۔ بعضے قیمت بہت گراں بتاتے ہیں اوریہ تو کسی سے اُمید نہیں کہ مصنف کی کچھ داد دی جائے یا کچھ قدر کی جائے۔

سوختیم  و  سو  زش  ما بر  کسے  ظاہر  نشد

چوں چراں غانِ شبِ مہتاب بے جا سو ختیم

ترجمہ:ہم یوں جلے کہ ہمارا جلنا کسی پر کھل نہی سکا گویا ہم چاندنی رات میں چراغوںکی طرح بے مصرف جلتے رہے۔

 خاک سار

 الطاف حسین حالیؔ

 (ایضاً صفحہ 93تا94  )

  ڈاکٹر رؤف خیر نے ڈپٹی نذیر احمد کی خطوط نگاری کا جائزہ دو ابواب’’ڈپٹی نذیر احمد اور حیدرآباد‘‘، اور’’ مواعظ۔ ادب کے آئینے میں‘‘کے تحت لیا ہے۔ دونو جگہ ڈپٹی نذیر احمد کے خطوط اپنے بیٹے بشیر کے نام لکھے گئے ہیں۔ ان خطوط کی ورق گردانی کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈپٹی صاحب اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت کے لیے بہت فکر مند تھے۔ ڈپٹی نذیر احمد کی دہلی سے حیدرآباد جانے کی روداد بھی ہمیں ان کے خطوط میں ملتی ہے۔ حیدرآباد کے نواب سالار جنگ سے ان کی قربت اور ریاست حیدرآباد میں انپی شہرت، عزت و احترام کو بھی ڈپٹی صاحب نے اپنے بیٹے کو بہ ذریعہ خطوط مطلع کیا۔ اپنی تنگ دستی اور روپے پیسوں کی قدر کی باتیں بھیں انھوں نے اپنے بیٹے کو تحریر کیں۔ ڈپٹی صاحب کی تنخواہ جب نواب سالار جنگ نے1200روپے کر دی تو اس کا تذکرہ بھی خط میں اپنے بیٹے بشیر سے کیا۔ ان خطوط میں ڈپٹی صاحب نے اپنی انشا پردازی اور زبان دانی کے جوہر دکھائے ہیں۔ اپنے بیٹے کو ہر خط میںاعلا تعلم حاصل کرنے کی تلقین اور سر سید احمد خاں کی تعریف کرنا اس بات کا کی جانب اشارہ تھا کہ میں (ڈپٹی نذیر احمد)جس مقام پر ہوں ہو سب کمال تعلیم کا ہی ہے۔ حصول ِ تعلیم کے لیے جن مصائب کو ڈپٹی صاحب نے برداشت کیا اُن کا احوال بھی بیٹے کو لکھا۔ الغرض انھوں اپنے بیٹے کی رہ نمائی زندگی کے ہر شعبہ میں کی۔ خواہ وہ شعبہ تعلیم کا ہو، سیاست کا ہو، معاشی ہو یا ازد واجی  زندگی کا ہو۔ میاں بیوی کے رشتے پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے بیٹے  بشیر کے نام 1879ء میں ایک خط تحریر کیا۔ جس میں ازدواجی زندگی کو جینے کے آداب پر مفصل روشنی ڈالی گئی۔ ایک ذمہ دار باپ کے فرض کو پورا کرتے ہوئے زمانے کے نشیب و فراز سے بیٹے کو آگاہ کیا۔ لکھا۔

’’جوش جوانی میں احمق مرد عورتوں کو اس قدر بے تکلف اور گستاخ کر لیا کرتے ہیں کہ پھر ساری عمر وہ ان کو دبا نہیں سکتے اور گھر میں دو عملی رہتی ہے۔ مجھ کو اپنے عزیزوں میں ایک شخص کا حال معلوم ہے کہ وہ ابتدا میں بی بی کی خدمت گاری کرتا تھا اور میں بی بی میں پیار اور اخلاص کے واسطے دھول دھپا ہوتا تھاایک دوسرے کے چٹکیاں لیا کرتے تھے اور گفتگو میں سخت بے تہذیبی جانبین سے ہوتی تھی۔ انجام یہ ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے۔ (خط نمبر ۷۸، ۱۸۷۹ء صفحہ۱۲۲)(ایضاً صفحہ 112تا113)

  ڈاکٹر رؤف خیر نے اپنی کتاب میں سجاد ظہیر کے خطوط بنام رضیہ سجاد ظہیر کے نام(نقوشِ زنداں کے حوالی سے)بھی شامل کیے ہیں۔ در اصل یہ خط رؤف خیر صاحب نے انشائیے کے طور پر شامل کیے ہیں۔ سجاد ظہیر نے ان خطوط میں ترقی پسند تحریک اور اس تحریک کے اثرات کو اُجاگر کیا کیا۔ ساتھ ہی اپنی بیگم سے رومانی اندازمیں شکوے شکایت کیے گئے ہیں۔ جیل کی یادوں کو ان میں خاص اہمیت دی گئی ہے۔ شعر و شاعری ان خطوط کا خاص وطیرہ ہے۔ سجاد ظہیر نے اپنی بات کو واضح اور پُر اثر بنانے کے لیے شاعری کو خوب استعمال کیا ہے۔ خطوط کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری کا ذہن رضیہ اورظہیر دونوں کی ادبی اور شکوے شکایت والی باتوں میں گم ہو جاتا ہے۔ خط کافی طویل ہیں۔ ’’نقوش زنداں ‘‘اردو کے مکتوباتی ادب میں ایک بیش بہا خزانہ اور قیمتی سرمائے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح رؤف خیر صاحب نے رسالہ نقوش اور عصمت چغتائی کے مابین ہونے والی ادبی خط و کتابت پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے۔ محمد طفیل نے عصمت چغتائی سے بھی مضامین لکھوا کر اپنے رسالے میں شامل کیے۔ اس بات کی وضاحت عصمت اور محمد طفیل کے خطوط سے ہوتی ہے۔ عصمت اپنا تخلیقی معاوضہ لینے میں بھی تاخیر سے کام لیتی تھیں۔ عصمت کے کئی افسانے اور ناول رسالہ نقوش میں شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ عصمت نے اپنے ہم عصروں پر بھی مضمون محمد طفیل کی فرمایش پر نقوش کے لیے لکھے۔ عصمت نے 1-12-53کو لکھے خط میں کئی باتوں محمد طفیل کو مطلع کیا۔ لکھتی ہیں۔

c/oDr.Mujeeb ,shahin villa,Dhodpur,Aligarh

1-12-53

مکرمی تسلیم

آپ کے سب خط ملے۔ مگر کچھ دن یہاں ہنگاموں میں گزرے۔ کچھ کالج فنکشن، کچھ د عوتیں اور ملنے والوں کی یلغار۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا لکھوں۔ پھر دعوتوں کا نتیجہ یعنی بیماری ملیریا، انفلوئنزہ اور بمبئی جانے کی گھڑی آن پہنچی۔ اب آپ نے وہ چیک روک دیا تو ٹھیک ہی کیا۔ میری ناول پھر رُک گئی۔ سو صفحے ہوئے۔ اس کے بعد رات کے دس گیارہ بجے تک اودھم رہتی ہے۔ اب بمبئی جا کر کیا لکھ سکوں گی۔ اب تو جب تیار ہو جائے گی جب ہی آپ کو لکھوں گی۔ وہ چیک جو آپ نے دیا تھا وہ کیش نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ تو پاکستان میں میرے اکاؤنٹ میں جمع ہو سکتا تھااور میرا و ہاں اکاؤنٹ کہاں سے ہو سکتا ہے۔ آپ نے جو کرشن اور بیدی پر مضمون لکھنے کو لکھا ہے تو میں خود کئی بار کوشش کر چکی ہوں۔ یہ دونوں گرفت میں ئی نہیں آتے۔ کبھی آ گئے تو لکھ ڈالوں گی۔ جس تیزی سے یہ سو صفحے لکھے اگر وہی رفتار جاری رہی تو ناول آٹھ دن سے کم میں ختم ہو جاتا۔ لیکن ایک ناول لکھنے کے لیے اتنی بکھری ہوئی زندگی راس نہیں آ تی۔ شروع میں جب تک کسی کو پتا نہ تھا تو دس بارہ دن کی مہلت ملی پھر وہی بے تکاپن شروع ہو گیا۔

  فقط

   عصمت

(ایضاً صفحہ138)

 مشاہیر کی زندگیوں کے مخفی گوشوں(خطوط کے حوالوں سے) کو منظرِ عام پر لانے کے ساتھ ہی ڈاکٹر رؤف خیر نے اپنے اور ناوک حمزہ پوری کے درمیان ہوئی تحریری ادبی گفتگو کو بھی شاملِ کتاب کیا ہے۔ ناوک حمزہ پوری کے رباعیات کے مجموعے ’’ہزار نگ‘‘پر ڈاکٹر رؤف خیر نے فرمایشی مقدمہ تحریر کیا تھا۔ ساتھ میں رباعیات پراپنا اظہارِ خیال کرتے ہوئے الگ سے ایک تنقیدی مضمون لفافے کے ساتھ بھیجا تھا۔ خط میں یہ تاقید کی گئی تھی کہ مقدمہ کو پڑھنے کے بعد تنقیدی مضمون کو پڑھا جائے۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ ناوک حمزہ پوری نے رؤف خیرکے لکھے ہوئے مقدمہ کو اپنی کتاب میں شامل نہیں کیا۔ لیکن رباعیات پر لکھا گیا تنقیدی مضمون دونوں کے درمیان ’’ادبی تلخی ‘‘کا سبب بنا۔ رؤف خیر صاحب نے ایک عرصے کے بعد اپنے مضمون کو رسالہ پیش رفت اور رسالہ رہنمائے تعلیم جدید میں شائع کرایا۔ ناوک حمزہ پوری نے بھی اس تنقیدی مضمون کا جواب رسالہ گلبن میں مضمون لکھ کر دیا۔ اس مضمون سے دونوں کے درمیان الزام تراشییوں کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔ ڈاکٹر رؤف خیر نے ناوک حمزہ پوری کے رباعیات کے مجموعے ’’ہزار رنگ‘‘پر لکھے گئے اپنے تنقیدی مضمون اور اس کے جواب میں ناوک حمزہ پوری کے مضمون کو قاری کے سامنے اپنی کتاب میں پیش کیاہے۔ تاکہ دونوں ادبی بزرگوں کے مضامین کو پڑھ کر قاری خود فیصلہ لے۔ بہر حال! اس کتاب کے منظرِ عام پر آنے سے اُردو کے مکتوباتی ادب میںایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔ جن ادبی سائقین کی دل چسپی خطوط نگاری میں ہے اُن کے لیے یہ کتاب کسی گوہر پارے سے کم نہیں۔ ساتھ ہی اگر اصل کتاب، ’’معاصرین کے مکاتیب بنام محمد طفیل ‘‘جسے گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی لاہور نے شائع کیا ہے، اس کی بھی ورق گردانی کی جائے تو واقعی ہم جیسے تشنگانِ ادب اور طالب علموں کے لیے سود مند ہوگا۔ آج زمانہ جس برق رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ایسے دور میں خط تحریر کرنا کسی معجزے سے کم نہیں۔ اور ان خطوط کو منظرِ عام پر لانا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ میں ڈاکٹر رؤف خیر کو مبارک باد دیتا ہوں کہ انھوں نے اس کارِ خیر کو حرفِ خیر بنایا۔

تبصرے بند ہیں۔