مسلم امت کا ایک سنگین مسئلہ‌‌:غیر مسلموں سے شادی (دوسری قسط)

محمد طارق اعظم

(پہلی قسط میں یہ بات آئی تھی کہ غیر مسلموں سے شادی کی وجہ وہ عام مذہب بیزاری کا ماحول ہے جو تیزی سے مسلم معاشرے میں پنپ رہی ہے۔ اس سنگین صورتحال سے نکلنے کےلئے یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ ایسے افراد کی دو طرح سے ذہن سازی کی جائے ۔اول ایمان اور اسلام کی اہمیت اور عظمت کو ان کے دلوں میں جاگزیں کیا جائے، اور اس کی کچھ تفصیلات پہلی قسط میں آچکی ہے ۔۔۔اب آگے کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں )

اسلامی احکام کی ہمہ گیریت اور جامعیت………. دوم احکام اسلام کی اہمیت اور افادیت کو مذہب بیزار افراد پر واضح کیا جائے ۔اسلام کی زمانے اور انسانی فطرت سے ہم آہنگی اور مطابقت کے نقش کو ان کے مغربیت زده ذہنوں اور دماغوں میں بٹھایا جائے ۔ کیونکہ اکثر جدید تعلیم یافتہ طبقہ مغربی افکار و رجحانات سے متاثر ہوکر احکام اسلام کے تعلق سے اعتراضات اور شبہات کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔اور ایسا گمان کرتے ہیں کہ اسلامی احکام بھی دقیانوسی قسم کا ایک فرسودہ قانون ہے جو آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل معاشرے اور سوسائٹی کےلئے قابل عمل تو تھا لیکن آج کے تیزی سے بدلتے ترقی یافتہ معاشرے اور سوسائٹی کےلئے قابل عمل نہيں ہے ۔ زمانہ کی تیز رفتاری کا ساتھ دینے کی صلاحیت سے یہ محروم ہے ۔ظاہر ہےکہ یہ ہفوات ان کے اسلامی احکام سے عدم واقفیت کی دلیل ہے یا پھر بےجا تعصب کی دلیل ہے ۔ اسلامی احکام  ایک خزاں ناآشنا سدا بہار درخت کی مانند ہے ۔ اس کا سرچشمہ اور منبع وہ ذات عالی مرتبت ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، جس کے علم کی کوئی حد و انتہا نہيں ہے،  اور جو ذات تمام انسانی عیوب و نقائص سے مبرا اور پاک ہے ۔۔ علامہ اقبال ؒ اسلام کی اسی عالمگیریت، ہمہ گیریت اور ابدیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے ۔‍‌؎

یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہيں پابند

بہار ہو کہ خزاں لاالہٰ الااللہ

 یہ اسلام ہی ہے جو انسانوں کے جان، مال، عزت و آبرو اور اس کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتاہے ۔ تاریخ کی شہادت اس پر موجود ہے کہ جب تک اور جس زمانے میں صحیح معنوں میں اسلام کی حکمرانی اور بالادستی رہی ہے، دنيا امن و امان کا گہوارہ اور جنت نشاں بنی رہی ۔

یہ دنيا آج ظلم و جور کی چکی میں پِس اس لیے رہی ہے اور جہنم زار اس لیے بنی ہوئی ہےکہ ہم نے عملی طورپر اسلام سے تعلق کو توڑ لیا ہے، اور اسلام کے خزاں ناآشنا سدا بہار درخت کے سایہ سے خود کو محروم کرلیا ہے ۔

؎ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

بعض نام نہاد دانشور اپنی ناقص اور کوتاہ عقل کو کسوٹی اور معیار بنا کر احکام اسلام کو جانچتے اور پرکھتے ہیں اور جب ان کے عقل کے بےہنگم چوکھٹے پر یہ فٹ نہيں بیٹھتا تو اس تعلق سے طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں ۔گوکہ اس میں سارا قصور ان کی کوتاہ عقل کا ہوتا ہے مگر اپنی بدبختی سے سارا الزام اسلام کے سر مونڈھ دیتے ہیں ۔

؎ حیران ہوں ، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

اسلامی احکام،  قانون شریعت کسی انسان کا بنایا ہوا قانون نہيں ہے کہ اس میں ادنا سی کمی کوتاہی کا بھی شبہ ہو۔

بلکہ خدائے علیم و حکیم کا بنایا ہوا یہ قانون ہے ۔تمام تر اس کی بنیاد عدل و احسان پر ہے ۔ اس کی تعلیمات انتہائی معتدل اور جامع ہے ۔ اللّٰہ تعالی کا ارشاد ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ یَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ  وَ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡبَغۡیِ ۚ یَعِظُکُمۡ   لَعَلَّکُمۡ   تَذَکَّرُوۡنَ ﴿90﴾( سورہ نحل ) بیشک اللہ انصاف کا، احسان کا، اور رشتہ داروں کو (ان کے حقوق) دینے کا حکم دیتا ہے، اور بےحیائی، بدی اور ظلم سے روکتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)

اس آیت کی جامعیت کو بیان کرتے ہوئے فقیہ الامت حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ خدا تعالی نے ہر ایک خیر و شر کے بیان کو اس آیت میں اکٹھا کردیا ہے ۔گویا کوئی عقیدہ، خلق، نیت، عمل معاملہ اچھا یا برا ایسا نہيں جو حکم یا منع کے اعتبار سے اس کے تحت میں داخل نہ ہو گیا ہو ۔ ابن کثم بن صفی نے اس آیت کریمہ کو سن کر اپنی قوم سے کہا ‌‌”‌‌ میں دیکھتا ہوں کہ یہ پیغمبر تمام عمدہ اور اعلیٰ اخلاق کا حکم دیتے ہیں اور کمینہ اخلاق اور اعمال سے روکتے ہیں ۔تو تم اس کے ماننے میں جلدی کرو ” ( فکونوا فی ھٰذالامر رؤسا ولاتکونوا فیہ اذنابا ۔ یعنی تم اس سلسلے میں سر بنو دم نہ بنو ) حضرت عثمان بن مظعون ؓ فرماتے ہیں کہ اسی آیت کو سن کر میرے دل میں ایمان راسخ ہوا ۔( تفسیر عثمانی )

انسانی تقاضوں اور مصلحتوں کا قانون الہٰی میں مکمّل لحاظ رکھا گیا ہے۔ بلکہ قانون الہٰی کا یہ خاص وصف اور امتیاز ہےکہ انسانی مصلحتوں اور تقاضوں کو اس میں بنیادی اصول کی حیثیت حاصل ہے۔انسانی مصلحتوں میں علماء نے ان پانچ امور کو شمار کیا ہے، حفاظت دین،

حفاظت نفس، حفاظت عقل، حفاظت نسل اور حفاظت مال۔۔۔ ان مذکورہ پانچ مصالح انسانی کی رعایت اور تحفظ ہی سے شریعت اسلامی بحث کرتی ہے ……….

اسلامی احکام انسانی فطرت اور طبیعت کے بالکل عین موافق ہے ۔ ارشاد باری ہے: فاقم وجہک للدین حنیفاً فطرة اللّٰہ التی فطر الناس علیہا لاتبدیل لخلق اللّٰہ ذٰلک الدین القیم ولکن اکثر الناس لایعلمون (الروم:30)

ترجمہ: ”پس پوری یکسوئی کے ساتھ اس دین کی طرف متوجہ ہوجاؤ جو اللہ کی اس فطرت کے عین مطابق ہے جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں “

اسلامی احکام میں انسان کی جسمانی اور نفسیاتی طاقت، صلاحیت اور اہلیت کی پوری رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ ارشاد باری ہے: لا یکلف اللّٰہ نفسا الا وسعھا ( البقرہ 286 ) اللّٰہ تعالی کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ ذمّہ داری نہيں سونپتا۔

اسی طرح اسلامی احکام میں کسی قسم کی تنگی اور تکليف کو بھی روا نہيں رکھا گیا ۔ اس کی بنیاد ہی سہولت اور آسانی پر رکھی گئی ۔ارشاد خداوندی ہے:

یرید اللّٰہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر (بقرة: 185)

ترجمہ: ”اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے دشواری اور تنگی نہیں چاہتا۔“

وما جعل علیکم فی الدین من حرج (الحج:78)

ترجمہ: ”اللہ نے دین کے معاملے میں تمہارے لئے کوئی تنگی نہیں رکھی“

ما یرید اللّٰہ لیجعل علیکم من حرج ولکن یرید لیطہرکم (المائدة:6)

ترجمہ: ”اللہ نہیں چاہتا کہ تمہیں کسی دشواری میں مبتلا کرے بلکہ اس کا مقصد تم کو پاک وصاف کرنا ہے۔“

نبی اکرم ﷺ نے اپنے مختلف ارشادات میں اس اصول کی طرف رہنمائی فرمائی ہے ۔ بعثت بالحنفیة السمحة (رواہ احمد: مشکوٰة شریف: 334 الجہاد)

ترجمہ: میں آسان دین حنیف دے کر بھیجا گیا ہوں ۔

لا ضرر ولا ضرار فی الاسلام (ابن ماجہ: 240 مستدرک حاکم ج2 ص 57،58)

ترجمہ: اسلام میں نہ کسی کو تکلیف پہنچانا ہے اور نہ خود تکلیف اٹھانا ہے۔

مسواک کے تعلق سے وضاحت کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لولا ان اشق علی امتی لامرتہم بالسواک عند کل صلوٰة (المشکوٰة: 45 باب سنن الوضوء)

ترجمہ: اگر مجھے اسے بات کااندیشہ نہ ہوتا کہ میری امت مشقت میں پڑجائے گی تو میں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔

حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ اور حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن روانہ کرتے وقت ان سے ارشاد فرمایا: :  ﻳﺴِّﺮﺍ ﻭﻻ ﺗﻌﺴِّﺮﺍ، ﻭﺑﺸِّﺮﺍ ﻭﻻ ﺗُﻨَﻔِّﺮﺍ، ﻭﺗﻄﺎﻭﻋﺎ ﻭﻻ ﺗﺨﺘﻠﻔﺎ(متفق علیہ: مشکوٰة 323 باب ما علیٰ الولاة من التیسیر)

ترجمہ: آسانی پیداکرو، مشکل میں نہ ڈالو، شوق دلاؤ، نفرت نہ دلاؤ، جذبہٴ اتحاد واتفاق کو فروغ دو، جذبۂ اختلاف اور نزاع کو پیدا نہ ہونے دو ۔

اور نبی اکرم ﷺ کا بھی معمول یہی تھا کہ جب آپ ﷺ کو دو کاموں میں سے ایک کے انتخاب کرنے کا اختیار دیا جاتا تو آپ ﷺ اس میں سے آسان تر کو اختیار فرماتے جب تک کہ اس میں کسی قسم کا گناہ نہ ہوتا ۔

وما خیر رسول اللّٰہ صلى الله عليه وسلم الا اختار أَیْسرہما مالم یکن اثماً . (متفق علیہ: مشکوٰة:591، مسند احمد بروایت حضرت عائشہ ص 1837 حدیث نمبر 25054)

اسلامی احکام و قوانین خوبیوں کا ایک حسین مرقع اور عمدہ صفات کا ایک بہترین مجموعہ ہے کہ اس کی جامعیت اور فطری کشش ہی سلیم العقل افراد اور ہوش مندوں کو اپنی جانب کھینچتی ہے اور اس کے قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہے ۔۔۔ یہی وجہ ہےکہ اسلام نے اپنے ماننے والوں سے بجا طورپر پورا کا پورا اسلام میں آنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ تاکہ اسلام کے آغوش میں پناہ لینے والا ہر فرد اچھے اخلاق اور خوبیوں کا پیکر ہو، برے اخلاق سے انہیں دور کا بھی واسطہ نہ ہو ۔ ارشاد ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ  کَآفَّۃً  ۪ وَ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ ﴿208﴾ ( البقرہ )

ترجمہ: اے ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے( آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)

اس سے ہٹ کر جن لوگوں کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ عملی اعتبار سے اسلامی احکام کے درمیان فرق کرتے ہیں یا امتیاز برتتے ہیں کہ جو ان کی طبیعت اور مزاج کے موافق ہوتا ہے اسے قبول کرتے ہیں ، اور جو ان کی مسخ شده عقل اور خواہش کے خلاف ہوتی ہے اسے پیٹھ پیچھے ڈال دیتے ہیں ۔ تو اس فرق کرنے والے اور امتیاز برتنے والے رویے کو قرآن کفر سے تعبیر کرتاہے ۔ایسے افراد کو دنیا اور آخرت میں رسوائی اور سخت عذاب کی وعید سناتا ہے ۔ ارشاد ہے:  اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ  مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵﴾(البقرۃ) ترجمہ: تو کیا تم کتاب کے کچھ حصے پر تو ایمان رکھتے ہو اور کچھ کا انکار کرتے ہو ؟ اب بتاؤ کہ جو شخص ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیوی زندگی میں اس کی رسوائی ہو ؟ اور قیامت کے دن ایسے لوگوں کو سخت ترین عذاب کی طرف بھیج دیا جائے گا۔ اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔( آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہےکہ محض عمل کے نہ کرنے سے تو کوئی کافر نہيں ہوتا جب تک کہ اس کا انکار نہ کردے یا حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہ کردے ۔ اسی شبہ اور سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت مفتی شفیع عثمانی صاحب ؒ لکھتے ہیں : "ہرچند کہ وہ یہودی جن کا قصہ میں ذکر ہے، نبی اکرم ﷺ کی نبوت کا انکار کرنے کی بنا پر کافر ہی تھے، مگر یہاں ان کا کفر مذکور نہيں ، بلکہ بعض احکام پر عمل نہ کرنے کو کفر سے تعبیر فرمایا ہے، حالانکہ جب تک حرام کو حرام سمجھے آدمی کافر نہيں ہوتا ۔ سو اس شبہ کا جواب یہ ہےکہ جو گناہ بہت شدید ہوتاہے اس پر محاورات شرعیہ میں اس کی شدت کے پیش نظر کفر کا اطلاق کردیا جاتاہے ۔ ہم اپنے محاورات عرفیہ میں اس کی مثالیں رات دن دیکھتے ہیں ، جیسے کسی ذلیل حرکت کرنے والے کو کہہ دیتے ہیں کہ تو تو بالکل چمار ہے، حالانکہ مخاطب چمار یقینا نہيں ہے ۔ اس سے مقصود شدت نفرت اور اس کام کی قباحت ظاہر کرنا ہوتاہے ۔ اور یہی معنی ہیں اس حدیث من ترك الصلوٰۃ متعمدا فقد کفر (جس نے جان بوجھ کر نماز ادا نہيں کیا گویا اس نے کفر کیا) وغیرہ کے "( معارف القرآن ج 1 ص 257 )

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔