مسلم قیادت: ہندوستان کے تناظر میں

ڈاکٹر محمد رفعت

ہر معاشرے میں قیادت موجود ہوتی ہے اور ہر دور میں موجود رہتی ہے، البتہ یہ ممکن ہے کہ کبھی قیادت بیدار مغز اور فعال ہو اور کبھی معاملہ اس کے برعکس ہو۔ یہ سوال بڑا اہم ہے کہ کیا عوامل قیادت کو فعال یا غیر فعال نیز مؤثر وغیر مؤثر بناتے ہیں ؟ اگر غور کیا جائے تو قیادت کی کارکردگی کے پیچھے تین اہم عوامل کام کرتے نظر آتے ہیں :

1- قیادت کے پیرو عوام کے شعور کی سطح اور ان کا عملی رویہ۔

2- پورے گروہ کے سامنے کسی اجتماعی نصب العین کا موجود ہونا یا نہ ہونا۔

3- قیادت پر فائز افراد کی اپنی صلاحیتیں، اوصاف او رکمزوریاں۔

اگر کوئی گروہ ایسا ہو، جس کے عوام و خواص باشعور ہوں، ایثار و قربانی کا جذبہ رکھتے ہوں، نظم و ڈسپلن کے خوگر ہوں اور اس گروہ کے سامنے ایک واضح نصب العین موجود ہو، جس سے عوام و خواص گہری وابستگی رکھتے ہوں، نیز اس گروہ کو ایسی قیادت میسر ہو جو باصلاحیت، باکردار اور مخلص ہو تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ گروہ ہمہ جہتی ترقی کرے گا۔ نہ صرف اپنے مسائل حل کرے گا بلکہ انسانیتِ عامہ ّکی امامت کرنے لگے گا۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہو، عوام بے شعور اور نظم و ضبط سے بے گانہ ہوں، گروہ کے سامنے کوئی مقصد یا ہدف نہ ہو اور اس کی قیادت مختلف کمزوریوں کا شکار ہو تو پھر اس گروہ کے تنزل میں بھی کوئی شبہ نہیں۔ ترقی ہو یا تنزل وہ ان عوامل سے وابستہ ہے۔ کسی گروہ کی صورتِ حال کے لیے محض اس کی قیادت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔

ہندوستان کے مسلمان اس وقت تنزل کے دور سے گزر رہے ہیں۔ اس صورت حال کا تجزیہ ضروری ہے۔ لیکن محض تجزیہ کافی نہیں ہے بلکہ یہ تجزیہ اس امر کی بنیاد بننا چاہیے کہ بحیثیت مجموعی پورا مسلمان معاشرہ اپنے اندر ہمہ جہتی تبدیلی کے لیے تیار ہو اور اس کا منصوبہ بنائے۔ اسی وقت اس تنزل کی کیفیت سے نکل کر ترقی کی جانب گامزن ہونا ممکن ہے۔

نصب العین

غوروفکر کا آغاز دوسرے عامل یعنی ’’نصب العین‘‘ سے کیا جاسکتا ہے۔ انگریزوں کی ہندوستان پر حکومت قائم ہونے کے بعد ہندوستان کے مسلمان جس مسئلے سے دوچار ہوئے، وہ ایک مخالف اسلام تہذیب کے فکری و سیاسی تسلط کا مسئلہ تھا۔ انھوں نے اس مغربی تہذیب سے کشمکش کرنے اور اس کے اثرات سے اپنے کو بچانے کی مختلف تدبیریں اختیار کیں اور ان کے کچھ نہ کچھ نتائج بھی نکلے۔ بیسویں صدی کے اندر مسلمانوں کے اس جذبے نے اجتماعی نصب العین کی شکل اختیار کرلی۔ یہ نصب العین تھا انگریز حکومت کی غلامی سے آزادی حاصل کرنا۔ اس مشترک نصب العین کے حصول کے طریقے میں مسلمانوں میں اختلاف ہوا اور ان کے دو بڑے گروہ بن گئے۔ ایک گروہ نے غیر مسلم باشندگانِ ملک کے ساتھ مل کر کانگریس کی قیادت میں آزادی کے حصول کی کوشش کی۔ دوسرے گروہ نے پاکستان کے حصول کو اپنا ہدف بنایا۔ دوسرے گروہ کے نزدیک مسلمانوں کو حقیقی آزادی قیام پاکستان کی شکل ہی میں مل سکتی تھی۔

1947ء میں ملک آزاد ہوا اور تقسیم بھی ہوا۔ انگریزوں سے آزادی کا نصب العین حاصل ہوگیا۔ کانگریس جس سیکولر ریاست کا قیام چاہتی تھی وہ وجود میں آگئی اور پاکستان کے لیے کوشش کرنے والوں کو بھی اپنی منزل مل گئی۔ مسلمانوں کے اجتماعی نصب العین کے حاصل ہوجانے کے بعد اب آزاد ہندوستان کے مسلمانوں کے سامنے کوئی نصب العین نہیں رہا، جس کے لیے وہ کوشش کریں اور جس پر اپنی سرگرمیوں کو مرکوز کریں۔ چنانچہ مسلمانوں کی سرگرمیاں منتشر کاموں تک محدود ہوکر رہ گئیں۔ اگر کبھی انھوں نے جوش و جذبے کامظاہرہ کیا بھی تو وہ محض اپنے مسائل کے حل کے لیے تھا اور مسائل کے حل کے لیے بھی گہرے شعور، تجزیے اور طویل مدتی منصوبہ بندی کے ساتھ کام نہیں کیا گیا۔

ملک کی آزادی سے پہلے مسلمان کانگریس اور مسلم لیگ کے حامیوں میں بٹے ہوئے تھے اور ان پارٹیوں کی قیادت میں اپنے اپنے طریقے سے آزادی کے لیے کوشاں تھے اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں میں ایک تیسری آواز بھی بلند ہوئی تھی۔ یہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی آواز تھی۔ انھوں نے مسلمانوں کو یاد دلایا کہ مسلمانوں کا اجتماعی نصب العین محض وقتی حالات سے متعین نہیں ہوسکتا۔ مسلمانوں کا ایک دائمی نصب العین ہے، جو ہر قسم کے حالات میں ان کا مطمح نظر بننا چاہیے۔ وہ نصب العین ہے ’’اسلام کا قیام اور اس کی اقامت‘‘ افراد کی انفرادی زندگی میں بھی، معاشرے اور اس کے تمام شعبوں میں بھی اور سیاست، حکومت اور ریاست میں بھی نیز اس نصب العین کے حصول کا راستہ یہ ہے کہ ایک طرف مسلمان اپنی انفرادی زندگیوں میں نیز اپنے اجتماعی طرزِ عمل میں اسلام کو اور صرف اسلام کو اختیار کریں اور دوسری طرف وہ تمام بندگانِ خدا کو اسلام کی طرف دعوت دیں۔ اس کے ساتھ وہ اسلام کو ایک ایسے نظامِ فکر و عمل کی شکل میں پیش کریں، جو افراد کی انفرادی الجھنوں کا جواب بھی ہو اور اجتماعی زندگی کے سوالات کا جواب بھی۔ سید مودودیؒ نے یہ دعوت بھی دی کہ اسلام کو اختیار کرنے، اس کی طرف دعوت دینے اور اس کو ایک ہمہ گیر نظام کی شکل میں پیش کرنے کا کام ایک تحریک کی شکل میں کیا جائے۔

سید مودودیؒ آزادیِ ملک کی اہمیت کے منکر نہ تھے، لیکن ان کے نزدیک یہ کام مسلمانوں کے دائمی نصب العین کے تابع تھا۔ عملاً اس کے معنی یہ تھے کہ آزادی کے لیے جدوجہد اسلامی نقطۂ نظر کے تحت، اسلامی حدود کے اندر اور اسلامی قیادت کی سربراہی میں کی جانی چاہیے تھی، نیز اس کا مثبت مقصد ایک صالح اجتماعی نظام کا قیام ہونا چاہیے تھا۔ سید مودودیؒ کی آواز پر بہت کم افراد نے توجہ دی اور جماعتِ اسلامی کے نام سے ایک چھوٹا سا گروہ اس کے لیے آمادہ ہوا کہ براہِ راست اسلام کی بنیا دپر اجتماعی زندگی میں تغیر کی کوشش کرے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد مسلم لیگ سے اور قلیل  تعداد کانگریس سے وابستہ رہی۔

اب آزاد ہندوستان میں آزادی کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزرجانے کے بعد مسلمانوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ انھوں نے یہ  طویل مدت بلا کسی نصب العین کے گزار دی ہے۔ اس دوران اقتدار پر فائز سیاسی پارٹیوں یا اقتدار کے خواہاں گروہوں سے مسلمانوں نے معاہدے بھی کیے ہیں، ان کی سرگرم تائید و حمایت بھی کی ہے اور ان کی خوشامد بھی کرتے رہے ہیں۔ بعض مواقع پر انھوں نے بعض سیاسی گروہوں کی سرگرم مخالفت بھی کی ہے۔ اس تائید و حمایت یا مخالفت کے اثرات ہر الیکشن پر پڑتے رہے ہیں، لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، انھیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ان کی سیاسی بے وزنی،معاشی پستی، سماجی انتشار، ناخواندگی اور بے بسی جوں کی توں موجود ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان لا حاصل کاموں کو چھوڑ کر اسلام کی اقامت کے نصب العین کو پوری یکسوئی، اخلاص اور ولولے کے ساتھ اختیار کریں۔

اس ضمن میں تین سوالات پیش کیے جاتے ہیں :

(الف)اسلام کی اقامت کو نصب العین قرار دینے کی شرعی بنیاد کیا ہے؟

(ب) اگر یہ نصب العین اختیار کرلیا جائے تو مسلمانوں کے مسائل کیسے حل ہوں گے؟

(ج) نیز اس نصب العین کو اختیار کرنے کے بعد غیرمسلموں سے اجتماعی کاموں میں اشتراک کس طرح کیا جاسکے گا، جب کہ موجودہ حالات میں یہ اشتراک عمل ضروری معلوم ہوتا ہے؟

ان سوالات پر ذیل میں کچھ عرض کیا جارہا ہے۔

اقامتِ دین

قرآنِ مجید کی مشہور ہدایت اقیموا الدین (دین کو قائم کرو۔ سورئہ الشوریٰ) اسلام کی اقامت کو نصب العین قرار دینے کی شرعی بنیا دہے۔ جن افراد نے اس تعبیر  سے اختلاف کیا ہے، ان کا کہنا یہ ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کو نصب العین نہیں قرار دیا جاسکتا بلکہ اسلامی ریاست کا قیام نتیجہ ہے اسلامی فرائض کی انجام دہی کا۔

اس اعتراض کو پیش کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ ’’اسلام کی اقامت‘‘ کے معنی محض ’’اسلامی ریاست کے قیام‘‘ کے نہیں ہیں بلکہ اس میں اسلام کی مخلصانہ پیروی، مسلمان معاشرے میں اسلام کا نفاذ، غیر مسلموں کو دعوت اور اسلامی سیاست سب شامل ہیں۔

مندرجہ بالا چاروں کام ’’اسلامی فرائض‘‘ کی فہرست میں آتے ہیں۔ جس طرح مسلمانوں کا فرض یہ ہے کہ اسلام کی مخلصانہ پیروی کریں اسی طرح ان کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام کو نافذ کریں اور غیرمسلموں کو اسلام کی طرف دعوت دیں۔ اسی طرح ان کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ اسلامی سیاست کو اختیار کریں۔ (یعنی سیاست میں ان کا طرزِ عمل اسلام کے مطابق ہو) ان میں سے کوئی کام بھی ’’نتیجہ‘‘ نہیں ہے جو خود بخود حاصل ہوتا ہو بلکہ ’’فرض‘‘ ہے جو انجام دیا جانا چاہیے۔ اسلام کی اقامت کوبطور نصب العین پیش کرنے والے یہی چاہتے ہیں کہ یہ سارے فرائض انجام دیے جائیں۔ کیا ان فرائض کے شرعاً واجب ہونے میں کوئی کلام ہوسکتا ہے؟ اگر ان فرائض کی انجام دہی کا نتیجہ اسلامی ریاست کے قیام کی شکل میں نکلے تو اس سے بہتر کیا بات ہوسکتی ہے؟ اور اگر ایسا نہ ہوتو بھی نتیجے کے بہرحال ہم مکلف نہیں لیکن ان فرائض کی انجام دہی کے بہر صورت مکلف ہیں۔

مسلمانوں کے مسائل

 مسلمانوں کے مسائل دو قسم کے ہیں۔ کچھ مسائل ایسے ہیں، جن کو مسلمان اپنی منصوبہ بند کوششوں کے ذریعے خود حل کرسکتے ہیں، مثلاً ناخواندگی کامسئلہ۔ اسلام کے اقامت کے نصب العین کے شعوری طور پر اختیار کرنے کا اولین تقاضا یہ ہے کہ مسلمان اجتماعی زندگی گزاریں اور صالح نظام سمع و طاعت سے وابستہ ہوں۔ نظم و اجتماعیت کے قائم ہونے کے بعد وہ منظم طریقے سے تعمیری کوششیں انجام دے سکتے ہیں اورجن مسائل کا حل کرنا خود ان کے بس میں ہے ان کو حل کرسکتے ہیں۔

مسلمانوں کے کچھ مسائل وہ ہیں، جن کا تعلق حکومت اور رائے عامہ سے ہے مثلاً مسلم پرسنل لا کے تحفظ کا مسئلہ۔ ان مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ صحیح اسلامی نقطۂ نظر عوام، اہلِ صحافت، سیاسی پارٹیوں اور اقتدار پر فائز افراد کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس صحیح اسلامی نقطۂ نظر کو پیش کرنا دعوت اسلامی ہی کا ایک جز ہے۔ چنانچہ یہ کام ’’اسلام کی اقامت‘‘ کے نصب العین سے الگ کوئی کام نہیں ہے۔ اس نصب العین کے شعوری طور پر اختیار کرنے کے بعد دین و شریعت کے تحفظ کے مسئلے کو زیادہ بہتر طور پر حل کرنے کی کوششیں ہوسکتی ہیں۔ ’’اسلام کی اقامت‘‘ کا نصب العین مسلمانوں کو اپنے مسائل کے حل کرنے کی کوشش سے نہیں روکتا بلکہ اس کے برعکس یہ نصب العین ان کی کوششوں کو زیادہ بہتر، منضبط، منصوبہ بنداور مؤثر بناتا ہے۔

جو لوگ یہ سوال پیش کرتے ہیں کہ ’’اگر اسلام کی اقامت کو بحیثیت نصب العین اختیار کرلیا جائے تو مسلمانوں کے مسائل کیسے حل ہوں گے؟‘‘ ان کی اصل الجھن کچھ اور ہے۔ غیرشعوری یا نیم شعوری سطح پر ان معترضین کا احساس یہ ہے کہ ہندوستان میں فی الوقت قائم سیکولر نظامِ حکومت مسلمانوں کی ایک محدود دینی و تہذیبی آزادی کا محافظ ہے۔ اگر مسلمان اس نظامِ حکومت کی سرگرم تائید و حمایت اور اس کے دفاع میں مصروف رہنے کے بجائے اسلام کی اقامت کے کام میں لگ جائیں تو مسلمانوں کی رہی سہی دینی و تہذیبی آزادی بھی خطرے میں پڑجائے گی اور ان کے مسائل حل ہونے کے بجائے پیچیدہ تر ہوجائیں گے، اس لیے جو کچھ حاصل ہے اس کا تحفظ کرنا چاہیے۔ اگر مکمل دین کے قیام کی جدوجہد چھیڑ دی گئی تو جو حاصل ہے وہ بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ اس نقطۂ نظر کے حاملین کے مطابق مسلمانوں کے لیے مناسب یہ ہے کہ ایک حد تک تو وہ دین کے بعض تقاضے بھی پورے کرتے رہیں لیکن وسیع تر اجتماعی زندگی میں وہ سیکولرزم کو اختیار کریں اور سیکولر پارٹیوں کا ساتھ دیں۔ اس طرح ان کو جو دستوری تحفظات، تعلیمی و ثقافتی حقوق اور بعض دینی و تہذیبی امور میں جو آزادی عمل حاصل ہے وہ باقی رہے گی۔ سردست ان تحفظات کے بقا کو ہی غنیمت سمجھنا چاہیے۔

اس نقطۂ نظر کو شعوری طور پر پیش کرنے والے تو کم ہیں، لیکن عملاً یہ نقطۂ نظر مسلمانوں کی پوری سرگرمیوں اور سیاسی رویے پر چھایا ہوا ہے اور کم و بیش ان کی ہر تنظیم اس سے متاثر ہے۔ اس معاملہ میں کسی صحیح نتیجے پر پہنچنے کے لیے پوری سنجیدگی کے ساتھ، حقائق کی روشنی میں اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ مسلمانوں کو جو کچھ تحفظات اور آزادیاں حاصل ہیں کیا وہ اس وجہ سے ہیں کہ اس ملک کے نظامِ حکومت کے بانی فراخدلانہ نقطۂ نظر رکھتے تھے اور انھوں نے اس بنا پر یہ تحفظات فراہم کیے؟ یا یہ محدود دینی و ثقافتی آزادی اس لیے حاصل ہے کہ مسلمان اس آزادی کو اتنا عزیز رکھتے تھے اور رکھتے ہیں کہ اگر یہ محدود آزادی چھین لی جاتی تو ان کا ردِ عمل انتہائی شدید ہوتا۔ جو شخص بھی اس معاملے پر تاریخی واقعات کی روشنی میں بے لاگ طریقے سے غور کرے گا وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ اصل بات یہی دوسری ہے۔ اس وقت بھی مثلاً مسلم پرسنل لا کے محفوظ ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ سیکولر گروہ اور پارٹیاں فراخدل واقع ہوئی ہیں اور انھوں نے اپنی وسعت نظری یا انصاف پسندی کی بنا پر مسلم پرسنل لاکو باقی رہنے دیا ہے بلکہ مسلم پرسنل لا کے باقی رہنے کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اس سے دستبردار ہونے پر یا اس میں کسی ترمیم پر آمادہ نہیں ہیں۔

جب بات یہ ہے تو پھر مسلمانوں کو حاصل دستوری حقوق و تحفظات کے بقا کی تدبیر یہ نہیں ہے کہ مسلمان سیکولر پارٹیوں کے حامی و ہم نوا بنیں بلکہ اس کی تدبیر یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایمان اور دینی جذبہ و شعور مزید بیدار اور پختہ کیا جائے اور جس طرح وہ مسلم پرسنل لا کو دین کا جز سمجھتے ہیں اور اس سے دستبرداری انھیں گوارا نہیں ہے اسی طرح دوسرے اجزاء سے دستبرداری کو بھی وہ گوارا نہ کریں۔ اگر کوئی چیز مسلمانوں کو حاصل دینی وثقافتی آزادی کے بقا کو یقینی بناسکتی ہے تو وہ ان کا اپنا اجتماعی ارادہ اور شعور ہے نہ کہ کسی سیکولر گروہ کی ’’عنایت‘‘ یا ’’فراخدلی‘‘ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے دینی تشخص کی بقا کے سلسلے میں کوئی فراخدلی سرے سے سیکولر حلقوں میں پائی ہی نہیں جاتی۔

اشتراکِ عمل

اسلام کی اقامت کے نصب العین کے سلسلے میں تیسرا تردد یہ ہے کہ اس نصب العین کو اختیار کرنے کے بعد غیرمسلموں کے ساتھ اشتراک عمل کس طرح ممکن ہے؟

مسلمانوں کی دین سے روایتی و بے جان وابستگی نے دین کے بعض انتہائی اہم پہلوؤں کو ان کی نگاہ سے یکسر اوجھل کردیا ہے۔ دین کی تعلیم صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ مسلمان اصطلاحی عبادات کو انجام دے لیں اور اپنا کردار درست کرلیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر دین کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان اپنے معاشرے کو ایک منضبط اور سمع و طاعت کے نظام کا پابند معاشرہ بنائیں۔ اس معاشرہ میں زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط اجتماعی ادارے قائم ہونے چاہئیں، جو ہر معاملے میں دین پر عمل کی راہیں ہموار کرسکیں۔ دین کے ان تقاضوں کے علاوہ دینی تعلیمات کا ایک دوسرا وسیع میدان وہ ہے جو غیر مسلموں کے سلسلے میں ہے۔ یہاں اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ امتِ مسلمہ کے افراد غیرمسلموں سے زندہ اور شعوری ربط رکھیں۔ یہ ربط و ارتباط متعدد مقاصد کے لیے ہے۔ غیر مسلموں کو اللہ کی طرف بلانا، ان کے سامنے حق کی شہادت دینا، ان کو نیکیوں کی تلقین کرنا اور برائیوں سے روکنا،مظلوموں کی داد رسی اور محروموں کی مدد کرنا اور بندگانِ خدا کے انسانی حقوق ادا کرنا یہ سب کام مسلمانوں کی ذمہ داریوں میں داخل ہیں۔ اسلامی حدود کے اندر تمام خیر کے کاموں میں اور زندگی کے معمولات میں غیر مسلموں کے ساتھ اشتراکِ عمل کی اسلام اجازت دیتا ہے۔ اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کی اقامت کا نصب العین نہ صرف غیر مسلموں سے اشتراک عمل کی راہ میں حائل نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ایجابی بنیادیں فراہم کرتا ہے۔

بات صرف اتنی ہی نہیں بلکہ اس سے کہیں آگے ہے۔ مسلمانوں کا اصل منصب یہ ہے کہ وہ اخرجت للناس ہیں۔ ان کو تمام انسانوں کے لیے برپا کیا گیا ہے، اس بنا پر پوری انسانیت کی قیادت کا کام مسلمانوں کو کرنا چاہیے۔ یہ کارِ قیادت بنیادی طور پر نیکیوں کی تلقین اور برائیوں سے روکنے کے عمل کا نام ہے۔ البتہ ایسے اشتراکِ عمل کااسلام قائل نہیں ہے جس میں اسلامی حدود پامال کی جائیں یا قیادت غیرمسلموں کی ہو اور مسلمان ان کے مقتدی ہوں۔ غیرمسلموں سے شعوری و ایجابی ربط کے دوران یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ان میں کچھ ایسے افراد بھی ہوں گے جو جان بوجھ کر اسلام اور مسلمانوں کی عداوت اور مخالفت کا رویہ اختیار کریں گے۔ ایسے افراد کے ساتھ فطری طور پر مسلمانوں کا رویہ بھی کش مکش کا ہوگا۔ لیکن اس کش مکش کے دوران بھی ان کے انسانی حقوق بہرحال ادا کیے جائیں گے اور عدل و انصاف کے خلاف کوئی رویہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔

شعور کی بیداری

اب تک کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام کی اقامت کے نصب العین کو سارے مسلمانوں کو شعوری طور پر اختیار کرنا چاہیے۔ نصب العین کے بغیر مسلمانوں کی قیادت کا سرگرم ہونا یا مؤثر ثابت ہونا ناممکن ہے۔ نصب العین کسی گروہ کے سامنے ہو تو اس کے اندر ایک متحرک اور فعال قیادت ابھرتی ہے اور اپنے وقتی مسائل کو سطحی طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کے علاوہ کوئی مقصد سامنے نہ ہو تو کسی اعلیٰ درجے کی قیادت کے نمودار ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

قیادت کے مسئلے کا دوسرا پہلو عوام کے شعور کی سطح اور ان کا رویہ ہے۔ مسلم عوام کو سب سے پہلے تو اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ امتِ مسلمہ کے وجود کی بنیاد دین ہے۔ اس لیے زندگی کے کسی معاملے میں خواہ وہ سماجی ہو یا معاشی ہو یا سیاسی، کوئی ایسی قیادت مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول نہ ہونی چاہیے، جو دین سے ناواقف و بے گانہ ہو یا دین بیزار ہو۔ غیر مسلموں کی قیادت کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا۔ اس وقت مسلمان عوام و خواص اس ابتدائی شعور سے بھی محروم ہیں اس شعور کے بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد مسلمان عوام کو اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ اگر کوئی دین دار اور دینی تقاضوں کو پورا کرنے والی قیادت موجود ہو تو اس سے وابستہ ہوجائیں، قطع نظر اس کے کہ بظاہر وہ قیادت کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو۔ یہ وابستگی دین دار قیادت کو مضبوط بنائے گی اور اس طرح ہر فرد مسلم کی وہ انفرادی ذمہ داری بھی ادا ہوگی جو اس سلسلے میں اس پر عائد ہوتی ہے۔

مسلمان عوام کو اس بات کا بھی شعور ہونا چاہیے کہ موجودہ حالات میں یک لخت کوئی متحد (United) دیندار قیادت وجود میں نہیں آسکتی۔ اس وقت ایسی متعدد قیادتیں موجود ہوسکتی ہیں اور ان کے تعداد میں ایک سے زائد ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ مسلمان سرے سے نظم و اجتماعیت ہی کو چھوڑ دیں یا کسی باطل قیادت کے ساتھ چلنے لگیں۔ عبوری دور میں متعدد صالح قیادتوں کو گوارا کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ ان کے درمیان تعاون ہو۔

قائدانہ اوصاف

قیادت کے مسئلے کا آخری پہلو قیادت پر فائز افراد کے اوصاف، صلاحیتیں اور کمزوریاں ہیں۔ یہ واقعہ ہے کہ مسلمانوں میں خواندگی کی سطح بہت کم ہے پھر تعلیم یافتہ افراد اور بھی کم ہیں۔ جو افراد تعلیم یافتہ ہیں ان کے اندر کردار، احساس ذمہ داری اور دیانت کے اعتبار  سے خاصی کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ مسلمانوں کا روایتی نظم اصلاح و تربیت بڑی حد تک معطل ہے اور بگاڑ کا شکار بھی ہے۔ چند مستثنیات کو چھوڑ کر عام طور پر مسلمانوں کی تنظیموں اور اجتماعی اداروں نے اپنے وابستگان کی اصلاح و تربیت پر کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ ان سارے عوامل کی بنا پر مسلمانوں میں ایسے افراد خال خال ہی ہیں، جو دین کا علم اور شعور رکھتے ہوں، اس کو عملاً اختیار کرنے پر آمادہ ہوں ایماندر اور دیانت دار ہوں، تعلیم یافتہ اور باصلاحیت ہوں اور اس کے ساتھ اس کے لیے بھی آمادہ ہوں کہ اپنے اوقات اور صلاحیتوں کو منصوبہ بند طریقے سے اسلام کی اقامت کے لیے  استعمال کریں۔ اس صورتحال میں ایک طرف تو ان افراد کو جو باصلاحیت اور باشعور ہیں اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے اور پوری سرگرمی کے ساتھ تعمیرملت اور اسلام کی اقامت کے کام میں لگ جانا چاہیے۔ دوسری طرف ان طویل المدت کاموں کو انجام دینے کا منصوبہ بنانا چاہیے، جن کا تعلق اس مسئلے کے پائیدار حل سے ہے۔ مثلاً مسلمانوں میں خواندگی اور تعلیم کا فروغ، ان کے نظامِ تزکیہ کی بحالی نیز اجتماعی اداروں اور تنظیموں کا اپنے وابستگان کی تربیت کا نظم کرنا۔

مسلمانوں کی کسی واقعی قیادت کے ابھرنے کو مختلف سیاسی گروہ پسند نہیں کریں گے اس لیے کہ اس وقت مسلمان ان کے آسان شکار ہیں۔ مسلمان ملک گیر ملی مسائل کے حل کے لیے سیاسی پارٹیوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان سے سودے بازی کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمان آبادیوں کے مقامی مسائل کے حل کے لیے بھی وہ سیاسی پارٹیوں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں اور اس سلسلے میں پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں اور ان کی تائید و حمایت کرتے ہیں۔ یہ سارا طریقِ کار اسلامی اجتماعیت کی جڑ کاٹ دینے والا ہے اور اس رویے کو جاری رکھتے ہوئے نہ کبھی کوئی مسلمان قیادت ابھر سکتی ہے، نہ مسلمان منظم ہوسکتے ہیں۔

اس لیے مسلمانوں کو ٹھنڈے دل کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے مسائل حل کرنے کے لیے منظم کوشش کریں گے، ملک گیر اور مقامی مسائل کے حل کے لیے مسلمانوں کو خود جدوجہد کرنی چاہیے اور اس کام کے لیے انجمنیں قائم کرنی چاہئیں جن کو اسلامی حدود کے اندر کام کرنا چاہیے اور اپنی دوڑ دھوپ کے ذریعے مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ ممکن ہے مسائل حل کرنے میں کامیابی کم ہولیکن یہ قیمتی نتیجہ حاصل ہوگا کہ مسلمانوں سیاسی پارٹیوں پر انحصار سے نجات پالیں گے، ان کے درمیان اسلامی اجتماعیت کا تصور واضح ہونے لگے گا، ان کی خود اعتمادی بحال ہوگی اور ان کے درمیان حقیقی اور معتبر قیادت ابھرے گی۔

خلاصہ بحث

(۱لف) کسی بھی گروہ کے عروج اور ترقی کے لیے نیز اس میں فعال قیادت کے ابھرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک واضح نصب العین رکھتا ہو اور گروہ کے افراد اس نصب العین کے ساتھ شعوری وابستگی اختیار کیے ہوئے ہوں۔

(ب) مسلمانوں کیلئے جو نصب العین موزوں ہے وہ کوئی وقتی مقصد نہیں بلکہ اسلام کی اقامت ہے۔

(ج) تمام مسلمانوں کو شعوری طور پر اسلام کی اقامت کو اپنا نصب العین بنانا چاہیے۔

(د) اسلام کی اقامت کے اولین تقاضے یہ ہیں کہ مسلمان صالح نظام سمع و طاعت کے تحت منظم ہوں، اپنے معاشرے میں ایسے سارے اجتماعی ادارے قائم کریں جو دین کی مختلف تعلیمات کو رو بہ عمل لاسکیں۔ غیرمسلموں کو دین کی طرف دعوت دیں نیز ہر معاملے میں عام انسانیت کی صحیح رہنمائی کریں۔ سارے انسانوں کو نیکی کی تلقین کریں اور بدی سے روکیں۔

(ہ) مسلمانوں کو صالح قیادت سے وابستہ ہونا چاہیے۔ اگر یہ قیادتیں متعدد ہوں تو ان کے درمیان تعاون  ہونا چاہیے۔ مسلمان عوام کو منتشر حالت میں بہرحال نہ رہنا چاہیے۔

(و) مسلمانوں کو ہر باطل قیادت سے اپنا رشتہ توڑ لینا چاہیے۔

(ز) اپنے مسائل کے حل کے لیے مسلمانوں کو اپنی انجمنیں  قائم کرنی چاہئیں جو دوڑ دھوپ کرکے مسائل حل کریں اور شرعی حدود کی پابند ہوں۔

جب پورا مسلم سماج اسلامی نصب العین کو اپنائے گا، اس کے خواص اپنی اصلاح کریں گے اور اپنی ذمے داریاں پوری کریں گے اور اس کے عوام صالح قیادت کے تحت نظم و ضبط کی پابندیاں قبول کرنے پر آمادہ ہوں گے اور تمام غیر صالح قیادتوں سے تعلق منقطع کرلیں گے تبھی مسلمانوں کی قیادت کا مسئلہ حل ہوسکے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ایک چھوٹا لڑکا بھاگتا ھوا شیوانا (قبل از اسلام کے ایران کا ایک مفکّر) کے پاس آیا اور کہنے لگا: میری ماں نے فیصلہ کیا ھے کہ معبد کے کاہن کے کہنے پر عظیم بُت کے قدموں پر میری چھوٹی، معصوم سی بہن کو قربان کر دے۔ آپ مہربانی کر کے اُس کی جان بچا دیں۔”
    شیوانا لڑکے کے ساتھ فوراً معبد میں پہنچا اور کیا دیکھتا ھے کہ عورت نے بچی کے ھاتھ پاؤں رسیوں سے جکڑ لیے ہیں اور چھری ھاتھ میں پکڑے آنکھ بند کئے کچھ پڑھ رہی ہے۔ بہت سے لوگ اُس عورت کے گرد جمع تھے, اور بُت خانے کا کاہن بڑے فخر سے بُت کے قریب ایک بڑے پتّھر پر بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ شیوانا جب عورت کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ اُسے اپنی بیٹی سے بے پناہ محبّت ہے اور وہ بار بار اُس کو گلے لگا کر والہانہ چوم رہی ہے۔ مگر اِس کے باوجود معبدکدے کے بُت اور کی خوشنودی کے لئے اُس کی قربانی بھی دینا چاہتی ھے۔
    شیوانا نے اُس سے پوچھا کہ وہ کیوں اپنی بیٹی کو قربان کرنا چاہ رہی ہے۔ عورت نے جواب دیا: "کاہن نے مجھے ھدایت کی ہے کہ میں معبد کے بُت کی خوشنودی کے لئے اپنی عزیز ترین ہستی کو قربان کر دوں تا کہ میری زندگی کی مشکلات ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں۔”
    شیوانا نے مسکرا کر کہا: "مگر یہ بچّی تمہاری عزیز ترین ہستی تھوڑی ہے؟ اِسے تو تم نے ہلاک کرنے کا ارداہ کیا ھے۔ تمہاری جو ہستی سب سے زیادہ عزیز ھے وہ تو پتّھر پر بیٹھا یہ کاہن ہے کہ جس کے کہنے پر تم ایک پھول سی معصوم بچّی کی جان لینے پر تُل گئی ہو۔ یہ بُت احمق نہیں ہے، وہ تمہاری عزیزترین ہستی کی قربانی چاہتا ہے۔ تم نے اگر کاہن کی بجائے غلطی سے اپنی بیٹی قربان کر دی تو یہ نہ ہو کہ بُت تم سے مزید خفا ہو جائے اور تمہاری زندگی کو جہنّم بنا دے۔”
    عورت نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بچّی کے ہاتھ پاؤں کھول دیئے اور چھری ہاتھ میں لے کر کاہن کی طرف دوڑی۔ مگر وہ پہلے ہی وہاں سے جا چکا تھا۔ کہتے ہیں کہ اُس دن کے بعد سے وہ کاہن اُس علاقے میں پھر کبھی نظر نہ آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    دنیا میں صرف آگاہی کو فضیلت حاصل ہے اور واحد گناہ جہالت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    جس دن ہم اپنے کاہنوں کو پہچان گئے ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تبصرے بند ہیں۔