کوئ شکوہ نہیں رہا تم سے!

سید عمر قادری عـیــــــــاں

کوئ شکوہ نہیں رہا تم سے

ہجر میں ہو گئے ہیں بے دم سے

اب کہاں جائیں زخم جاں لیکر

زخم سڑنے لگے ہیں مرہم سے

رونے والوں  کو روک لے کوئ

آگ تو بڑھ رہی ہے شبنم سے

درد دل میں اضافتوں کے سوا

اور کیا ہو رہا ہے ماتم سے

دشمنِ آدمی سے نفرت ہے

مجھکو نفرت نہیں ہے آدم سے

تم سدھر جاؤ ظالموں ورنہ

آگ نکلے گی آب زم زم سے

آندھیوں آؤ تم کو دعوت ہے

دوستی کرلنے موسم سے

روشنی چاند سے جدا ہو کر

گفتگو کر رہی ہے اب ہم سے

مثل سورج عیاں رہوں گا میں

یہ تـعـــــــلق رہا اگر تم سے

تبصرے بند ہیں۔