انقلاب کا اسلامی تصور! (دوسری قسط)

محمد آصف اقبال

ہرزمانے میں ایک کامیاب حکومت و اقتدار وہی کہلاتا ہے جس میں عدل و انصاف کی بنیادیں مضبوط ہوں ۔شہریوں کو ریاست کی جانب سے فراہم کردہ حقوق کی پاسداری کی جائے۔عدل و انصاف کے پیمانے امیر و غریب اور توانا و کمزورسب کے لیے یکساں ہوں۔برسراقتدار طبقہ اپنے مخصوص عقائد و نظریات کو جبر و تشدد اور ظلم و زیادتیوں کی بنا پر لوگوں پر مسلط نہ کرے۔شہریوں کو آزادی اظہار کے مواقع میسر ہوں۔ اور جو شخص وگروہ جس عقیدے و نظریہ کو اپنی ذاتی و اجتماعی زندگی میں اختیار کرنا چاہے اسے اس کے مکمل مواقع فراہم کیے جائیں ۔ساتھ ہی عدلیہ آزاد ہو،تعلیمی نظام عام شہریوں کی ضرورت اور عدل و انصاف کے پیمانہ پر تیار کیا جائے۔دولت کی تقسیم انصاف پر مبنی ہو اور غربت و افلاس کا خاتمہ ہو۔برخلاف ہر اس رائج الوقت نظام میں تبدیلی ضروری ہے جہاں نہ عدل و انصاف کے پیمانہ قائم ہوں، نہ عقائد و نظریات پر عمل کی گنجائش ،نہ تعلیمی نظام ایسے افراد کو تیار کرنے میں معاون ہوجو معاشرہ میں سدھار لائیں ،دولت چند لوگوں کے ہاتھ میں ہو اور بڑی اکثریت بنیادی سہولیات سے محروم ہو۔ایسے حالات میں ضروری ہوگا کہ

i) عدل و انصاف کی بنیادیں ،قانون اور نظام عدلیہ میں تبدیلی لائی جائے۔

ii) نظریہ تعلیم،نظام تعلیم اور طریقہ تعلیم میں تبدیلی ہو۔

iii) دولت کی تخلیق،دولت کی تقسیم،دولت کا حصول،دولت کی گردش پر کنٹرول ہو جس کے لیے معاشی نظریے میں تبدیلی ضروری ہے۔ ساتھ ہی

iv) طرز معاشرت اور طرز تمدن میں وہ مثبت تبدیلی لائی جائے جس کے ذریعہ امن و سکون قائم ہو،برائیوں کا ازالہ اور انتشار کا خاتمہ ہو۔

ان چار نکات پر خصوصاًاور عموماً اِن سے متعلق دیگر جزوی نکات پردور جدید میں جمہوری نظام اورجمہوری طریقہ سے اگر تغیر وتبدیلی لائی جائے تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ عمل کے نتیجہ میں جو نظام برپا ہوگاوہ عین انقلاب سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔اوریہی وہ انقلابی تصور ہے جس کے ذریعہ تمام شہریوں کی ہمہ جہت تعمیر و ترقی کے امکانات ممکن ہیں ۔دوسری جانب جمہوری نظام میں رہتے ہوئے چہروں کی تبدیلی کی نہ کوئی حیثیت ہے نہ معنویت اور نہ ہی اس قسم کی تبدیلیوں کے لیے کسی بامقصد قوم کو سرگرم عمل رہنا چاہیے ۔خصوصاً اُن حالات میں جبکہ وہ فکری و نظریاتی بنیادوں پر پختہ ہو ساتھ ہی آسمانی احکامات وتعلیمات سے اپنے آپ کو آراستہ کیے ہونے کی دعویٰ دارہو۔اِس موقع پر یہ غلط فہمی بھی دور کر لینی چاہیے کہ انقلاب کے نتیجہ میں تبدیلی ،جس کے ـ”ہم”ـخواہاں ہیں وہ جمہوری نظام حکومت کے خلاف نہیں ہے ،فرق صرف یہ ہے کہ جمہور جسے عوام کہا جاتا ہے اُن کے ذریعہ جس تبدیلی کو "ہم "چاہتے ہیں اسے نہ صرف بہتر انداز میں بہت کھول کے واضح شکل میں پیش کرنے کی ضرورت ہے بلکہ چھوٹی ہی سطح پر صحیح لیکن اسے قائم کرکے چلانے اوردکھانے کی بھی ضرورت ہے۔تب ہی ممکن ہے کہ افکار و نظریات اور نظام حکومت کے معاملات بیک وقت عوام الناس پر واضح ہو سکیں۔

 واقعہ یہ ہے کہ جب قومیں فکری وعملی غلامی میں مبتلا ہو جاتی ہیں تو ان کا ایک بڑا طبقہ اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے کہ مغلوب زدہ قوم کی نجات کا واحد راستہ علمی و فکری سطح پر بند کمروں میں علمی مشاغل میں مصروف عمل رہنے سے حاصل ہو جاسکتا ہے۔گویا ان کے نزدیک پوری قوم نری جہالت اور لاشعور ی کی حالت میں مبتلا ہے۔لہذا ایسے ہی لوگوں کو عموماً یہ خیال بھی ہوتا ہے کہ بند کمروں میں بیٹھ کر ان کے اس عمل سے علوم کے اسلامیانے کا بڑا کام انجام دیا جا رہا ہے اور جب یہ کام مکمل ہو جائے گا تو نظام اسلامی کی اساس بنے گا ساتھ ہی تبدیلی خود با خود رونما ہو جائے گی۔برخلاف اس کے تبدیلی جس کے آپ  خواہاں ہیں اس کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد اسی وقت ممکن ہے جبکہ اس پورے عمل میں دور کے تماشائی بنے رہنے کی بجائے قریب سے آپ خود اس میں شامل نہ ہو جائیں نیز ان تمام پیچیدگیوں کا آپ کو علم ہو جو دوران مدت پیش آئیں گی۔ساتھ ہی تجربات کی روشنی میں طریقہ کار میں وقتاً فوقتاً تبدیلی لائی جائے اور ایک مسلسل اور منصوبہ بند طریقہ پر کاربند رہتے ہوئے کامیابی سے ہمکنا رہوں ۔یہ بات پہلے بھی کہی جا چکی ہے کہ انقلاب کا داعی اور نظام کی تبدیلی کا خواہش مند کسی باطل نظام کو محض اکھاڑ پھینکنے پر قانع نہیں ہوتا کہ اس کے نزدیک اصل تبدیلی حکومتوں کی نہیں بلکہ نظام اقدار کی ہے۔جس کی بنا پر وہ معاشرے کا نظام تشکیل دینا چاہتا ہے۔

لہذا اس کا کام اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ جاہلی اقدار کا تابع معاشرہ اقدار پر مبنی معاشرہ کا تابع نہ ہو جائے۔یعنی لینے دینے کا انداز بدل جائے، غور و فکر کا زاویہ بدل جائے،نفع و نقصان کا میزانیہ بدل جائے اور ہر اعتبار سے ایک مختلف اقدار کا حامل معاشرہ وریاست وجود میں آجائے۔اس موقع پر یہ بات بھی خصوصیت کے ساتھ پیش نظر رہنی چاہیے کہ مروجہ اقدار میں تبدیلی کا نعرہ بلند کرنے کے بجائے انقلابی قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان محض اقدار کو معاشرے کے نازک، محسوس اور فوری مسائل سے وابستہ کردے۔خیالی دنیا میں جینا اور خالی خولی اقدار کا نعرہ بلند کرنا نہ تو انقلاب کی واقعی نوعیت کی مکمل تشریح کر سکتا ہے اور نہ ہی عوام کی فوری اور ناگزیر توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔لہذا جو لوگ اس عظیم کام کے لیے اٹھیں ان کے اندر صرف باطل نظام کو بدلنے کا شدید داعیہ ہی نہ موجود ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اعلیٰ درجہ کی دانشوارانہ اور تنظیمی صلاحیت کے حامل ہوں ۔ساتھ ہی ان کے عمل سے واضح ہو نا چاہیے کہ وہ اپنی فکر سے کس قدرچمٹے ہوئے ہیں ۔نیز ان روحوں میں وہ پاکیزگی بھی موجود ہونی چاہیے جو اس عظیم کام کے لیے مطلوب ہے۔ان ہی حالات میں یہ ممکن ہے کہ دوسروں کے قلوب اُن کی جانب کھنچتے چلے جائیں اور یہ دائرہ وسیع سے وسیع ترہوتا چلا جائے۔کیونکہ کامیابی کی ابتدا و انتہا قلوب کی تبدیلی ہی سے ممکن ہے یہاں تشدد اور ظلم و جبر یا طاقت کا بے جا استعمال مثبت کردار ادا نہیں کرسکتا۔

 اسی طرح تبدیلی نظام اور انقلاب کے نعرہ کے درمیان اجتماعی سطح پر تصورحیات کے بعد جو دوسرا دائرہ ہے وہ ایک تہذیب کے حسن وقبح کو جانچنے کا عمل ہے۔عمل کے دوران یہ بات خاص اہمیت رکھتی ہے کہ انسان کے سامنے وہ کون سا نصب العین ہے جس کے لیے وہ سرگرم عمل رہنا چاہتا ہے؟اس کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ انسان کے ارادوں اور اس کی عملی کوششوں کا رخ فطری طور پر اسی منتہا اور اسی مقصود کی طرف پھرتا ہے جس کو اُس نے اپنا نصب العین اور مطمح نظر قراردیا ہو۔اس کے صحیح یا غلط ہونے پر ذہن کی اچھی یا بری تشکیل اور زندگی بسر کرنے کے طریقوں کی درستی یا نادرستی کا انحصار ہے۔ اسی کے بلند یا پست ہونے پر افکار و تخیلات کی بلندی و پستی، اخلاق و ادب کی فضیلت ورذیلت اور معیشیت و معاشرت کی رفعت و دنائت کا مدار ہے۔ اسی کے واضح اور متعین ہونے یا نہ ہونے پر انسان کے ارادوں اور خیالات کا مجتمع یا پراگندہ ہونا، اس کی زندگی کے معاملات کا ہموار یا ناہموار ہونا،اور اس کی قوتوں اور قابلیتوں کا ایک رخ پرصرف ہونا یا مختلف راہوں میں منتشر ہوجانا موقوف ہے۔

بالجملہ نصب العین ہی وہ چیز ہے جس کی بدولت انسان فکر و عمل کی بہت سی راہوں میں سے کوئی ایک راہ انتخاب کرتا اور اپنی ذہنی و جسمانی قوتوں اور اپنے مادی و روحانی وسائل کو اسی راہ میں صرف کردیتا ہے۔ لہذا جب ہم کسی تہذیب کو نقد صحیح کے معیار پر جانچنا چاہیں تو ہمارے لیے اُس کے نصب العین کی جستجو ناگزیر ہے۔اس موقع پر یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ تہذیب کے نصب العین سے ہماری مراد کیا ہے؟یہ ظاہر ہے کہ جب ہم ‘تہذیب’کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ہماری مراد افراد کی شخصی تہذیب نہیں ہوتی بلکہ ان کی اجتماعی تہذیب مراد ہوتی ہے۔اس لیے ہر فرد کا شخصی نصب العین ،تہذہب کا نصب العین نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔(جاری)

تبصرے بند ہیں۔