مسلم مجلس مشاورت – منظرو پس منظر

تحریر: مولانا ابوالحسن علی ندویؒ         ترتیب: عبدالعزیز
کل ہند مسلم مجلس مشاورت کی بنیاد آج سے تقریباً 52سال پہلے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں ایک کل ہند مسلم مشاورتی اجتماع میں پڑی۔ مولانائے محترم ابوالحسن علی ندوی (علی میاں) کل ہند مشاورتی اجتماع کے داعیوں میں تھے اور مشاورت کے منظر اور پس منظر سے واقف کاروں میں سے بھی ایک تھے مگر اپنی کتاب ’’پرانے چراغ‘‘ (جلد اول) میں پہلے صدر مشاورت اور بانیِ مشاورت ڈاکٹر سید محمود مرحوم کی زندگی کے نقوش و تاثرات بیان کرتے ہوئے مشاورت کے قیام اور مقصد قیام اورمنظر و پس منظر پر جس طرح روشنی ڈالی ہے شاید ہی کسی نے ڈالی ہو۔ مولانا تاریخ پر گہری نظر رکھتے تھے۔ ان کی تحریر سے آج سے 52سال پہلے کے حالات بھی آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں اور مسلمانوں کی کسمپرسی کی صورت حال سے بھی واقفیت ہوجاتی ہے۔ جو حالات اُس وقت تھے وہ انتہائی پرآشوب تھے۔ فسادات پر فسادات ہورہے تھے۔ مسلمانوں کی عزت و آبرو، وقار و مرتبہ، سرمایہ حیات سب خطرے میں تھے۔ مسلمانوں پر نفسی نفسی کا عالم طاری تھا۔ اس وقت یہ سوچا گیاکہ مسلمانوں کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہونا چاہئے۔ آج جو حالات ہیں 52 سال پہلے سے بھی زیادہ خراب ہیں۔ مسلمان پہلے کے مقابلے میں کچھ زیادہ نرغے میں ہیں۔ پہلے حکومت مسلمانوں کے قتل و خون کو روک نہیں پاتی تھی مگر ظاہراً شرمندہ ضرور ہوتی تھی۔ اس وقت کی حکومت شرمندہ ہونا تو دور کی بات ہے فسادیوں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اس کے وزراء، ایم ایل اے اور ایم پی بھی فسادیوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ ان کے سر میں سر ملاتے ہیں۔ لہٰذا پہلے سے کہیں زیادہ اس وقت مشاورت جیسے مشترکہ پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جہاں مسلمانوں کی سب جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور مختصر المیعاد (Short term) اور طویل المیعاد (Long term) کیلئے لائحہ عمل مرتب کریں اور سلگتے مسائل کا حل نکالیں۔ مولانا علی میاںؒ میں کی تحریر ڈاکٹر سید محمود کی زندگی پر 61صفحات پر مشتمل ہے جس میں مشاورت کا ذکر خیر ہے۔ اس میں سے چند عبارتیں مطالعہ کیلئے پیش خدمت ہیں:
’’8، 9 اگست 1964ء کو کل ہند مسلم مشاورتی اجتماع کے نام سے دارالعلوم لکھنؤ میں منعقد ہوا اور جس میں مسلم مجلس مشاورت کی بنیاد پڑی اور جس سے میری زندگی کا ایک ایسا دور شروع ہوا جو مجھے اپنے گوشۂ عزلت سے نکال کر اجتماعی و ملی خدمت کے میدان میں لے آیا، اور جس نے مجھے مسلمانوں کے مسائل سے بہت قریب اور ڈاکٹر صاحب کا ایک حقیر رفیق سفر بنا دیا، یہ مسلمانوں کی ملی زندگی کی تاریخ میں ایک نیا ورق تھا، جس کو اگر چہ باد صرصر کے جھونکوں نے جلد الٹ دیا، لیکن اس کو ملت اسلامیہ ہند کا کوئی مورخ نظر انداز نہیں کرسکتا، اگر وہ اجتماعیت قائم رہتی جو ڈاکٹر صاحب کی قیادت میں مجلس مشاورت کے پلیٹ فارم پر وجود میں آئی تھی اور اس کو اپنا سفر جاری رکھنے کا موقع ملتا تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندستانی مسلمانوں کی تاریخ کچھ اور ہوتی اور وہ یقیناًانتشار، لاوارثی کی کیفیت نفسا نفسی کے عالم، احساس کمتری اور مایوسی کی اس تاریخ سے بہت مختلف ہوتی جو اس وقت لکھی جارہی ہے، اس کنونشن کے محرکات اور اسباب کیا تھے؟ وہ کس فضا میں منعقد ہوا؟ اس نے اپنا سفر کہاں سے شروع کیا اور کہاں ختم کیا؟ اس نے مسلمانوں اور ہندستان پر کیا اثر ڈالا؟ مسلمانوں نے کس طرح اس کا استقبال اور اس سے کیا توقعات قائم کیں؟ پھر وہ کس طرح مسلمانوں کے تمام اجتماعی کاموں کی طرح انتشار و اختلاف کا شکار ہوا اور بالآخر ایک تاریخی داستان بن کر رہ گیا، یہ وہ سوالات ہیں، جن کا جواب دل کو تھامے اور آنسوؤں کو روکے بغیر دنیا مشکل ہے، اب جبکہ ڈاکٹر صاحب اس دنیا میں نہیں ہیں، جن کو اس تحریک سے پدرانہ لگاؤ تھا اور جو ان کے خوابوں کی بہترین تعبیر اور ان کی تمناؤں کی بہترین تکمیل تھی اور جو اس کے مقاصد اور مزاج کی ترجمانی کا سب سے زیادہ حق رکھتے تھے، یہ فریضہ اور بھی دشوار اور نازک ہوجاتا ہے لیکن اس فریضہ کو بہر حال ضروری احتیاط اور امور خانہ ذمہ داری کے ساتھ ہر اس شخص کو ادا کرنا پڑے گا جو ڈاکٹر صاحب یا اس اہم تاریخی واقعہ پر لکھنے کیلئے قلم اٹھائے؟
دسمبر 1963ء اور جنوری 1964ء میں کلکتہ میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فساد ہوا، پھر مارچ اور اپریل 64ء میں مشرقی ہندستان کی اس صنعتی پٹی میں جس میں رانچی، جمشید پور اور راوڑ کیلہ واقع ہیں ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے ما تحت بھیانک فرقہ وارانہ فساد کی ایک لہر چلی، جس میں مسلمان اقلیت وحشیانہ مظالم کا شکار ہوئی، کارخانوں میں کام کرنے والے مسلمان مزدور امن پسند شہری آبادی، معصوم بچے اور کمزور اور بے دست و پا عورتیں ایسی بربریت کا نشانہ بنیں، جس کی مثال اس سے پہلے کے فسادات میں دیکھنے میں نہیں آئی تھی، یہ فرقہ وارانہ نفرت و اشتعال کی ایک ایسی ہسٹریائی کیفیت تھی جس میں طالب علموں نے طالب علموں کو، استادوں نے استادوں کو، پیشہ ور لوگوں نے اپنے ہم پیشہ ساتھیوں اور کمیونسٹوں نے اپنے کمیونسٹ ساتھیوں کو مارا جو محض نسلی طور پر مسلمان تھے، اس نے ایک بار پھر مسلمانوں کو اس ملک میں اپنے مستقبل پر غور کرنے پر مجبور کر دیا، اور قیادت کے خلاء کے احساس کو شدت کے ساتھ کے ساتھ ابھار دیا، دوسری طرف انسان دوست و شریف النفس ہندوؤں کی بھی ایک تعداد میدان میں آگئی، جس نے ثابت کیا کہ اس ملک کا ضمیر ابھی زندہ اور امید کی روشنی ابھی باقی ہے‘‘۔
’’میں نے اور رفیق محترم مولانا محمد منظور صاحب نعمانی مدیر ’’الفرقان‘‘ نے یہ سوچتے ہوئے کہ ان حالات میں نہ کسی تعمیری کام کی گنجائش ہے، نہ کسی تعلیمی اور تصنیفی مشغلہ کا جواز، وقت کا سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ انسانیت دشمنی کی اس لہر کو روکا جائے جو انسانیت اور ملک کی ہر چیز کو چیلنج کر رہی ہے، اس کیلئے اکثریت ہی کے فرقہ کے ان رہنماؤں اور درد مندوں کو میدان میں لایا جائے، جو اس رجحان کی ہلاکت خیزی اور انسانیت سوزی پر عقیدہ رکھتے ہوں اور کم سے کم جی کے اصول و تعلیمات پر ان کا یقین ہو، اسی سلسلہ میں ہم لوگ ونوبا بھاوے جی اور جے پرکاش نرائن کے پاس گئے اور ان کو اس پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ اس مسئلہ پر اپنی اولین توجہ مرکوز کریں اور اس کو ایک مہم کی طرح چلائیں۔ 28 مارچ 64ء کو ہم نے ناگپور سے میل دور ایک دیہات میں اچاریہ جی سے ملاقات کی اور انھیں اس مقصد کیلئے ایک واضح اور موثر میمورنڈم پیش کیا لیکن ان ملاقاتوں اور ان حضرات کی گفتگو نے ہم لوگوں کی زیادہ ہمت افزائی نہیں کی اور ہم کو اندازہ ہوا کہ جہاں تک ان حالات سے پنجہ آزمائی کرنے کا تعلق ہے اور اس کیلئے تمام کاموں کو ملتوی کرکے اسی ایک کام پر ہر خطرے اور ہر نتیجہ سے بے نیاز ہوکر جان کی بازی لگا دینے کا معاملہ ہے تو ع وہ کوہ کن کی بات گئی کوہ کن کے ساتھ
اس احساس کے بعد ہم لوگوں کے سامنے ایک ہی راستہ تھا، وہ یہ کہ ایک طرف مسلمانوں میں حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور عزم اور ’خدا اعتمادی اور خود اعتمادی‘ کی شان پیدا کی جائے، جس کو اس ناشدنی حالات کے پیدا کرنے میں بہت بڑا دخل ہے۔ دوسری طرف ملک میں ایسی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جائے جس سے یہ اعصابی تناؤ کم ہو، ملک کے شہری انسانوں اور ہم وطنوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے پر آمادہ ہوں اور انسانیت کا احترام پیدا ہو اور دلوں سے منافرت کا وہ زہر امکانی حد تک دور ہو جو فرقہ وارانہ سیاست، اشتعال انگیز تقریروں اور غیر ذمہ دار پریس نے پیدا کر دیا ہے۔
ڈاکٹر سید محمود صاحب اس صورت حال سے سب سے زیادہ فکر مند اور مغموم رہتے تھے، ان کا خیال تھا کہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ذہن ضرور بڑی حد تک مسموم ہوگئے ہیں لیکن ہندستان کے عوام ابھی سیاسی زہر سے محفوظ ہیں، ان کا ضمیر مردہ نہیں ہوا ہے اور ان سے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ ضرورت براہ راست ان تک پہنچنے اور اور ان کے دلوں کے دروازوں پر دستک دینے کی ہے۔ اس عرصہ میں ڈاکٹر صاحب برابر لکھنؤ آتے جاتے رہے اور ہم لوگ دہلی کا سفر کرتے رہے۔ گفتگو کا ایک ہی موضوع تھا کہ ’’اس غیر فطری صورت حال کو جلد سے جلد دور کرنے کی کوشش کی جائے، مسلمانوں کے انتشار کو دور کیا جائے اور ان کی منتشر قوتوں کو ایک شیرازہ میں مجتمع کرکے ملت کے وجود اور ملک کے استحکام اور سالمیت کو اس قریبی خطرہ اور تباہی سے بچایا جائے جو تلوار کی طرح دونوں کے سروں پر لٹک رہی ہے۔ اس عرصہ میں ان تعلیم یافتہ مسلمانوں اور عوام کی طرف سے جن کو صرف ملت کے مفاد سے دلچسپی تھی، بارہا مطالبہ ہوا تھا کہ مسلم جماعتیں اپنے باہمی اختلافات کو ختم کرکے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں اور ملت کے درد کی دوا اور اس زخم کا مرہم تلاش کریں ورنہ ہم ان تمام جماعتوں سے بغاوت کر دیں گے اور ان کے قائدین کے احترام کا لحاظ کئے بغیر جو ہماری سمجھ میں آئے گا وہ کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب پر جو خیال سب سے زیادہ طاری تھا وہ یہ کہ اس ملک میں اخلاقی قیادت کا ایک خلاء ہے جو صرف مسلمان ہی (قرآنی تعلیمات اور اسوۂ رسولؐ کی مدد سے) پُر کرسکتے ہیں‘‘۔ مسلمانوں کو اس قیادت کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔
وہ کہتے تھے افسوس ہے کہ اکثریت اس قیادت سے دست کش ہوگئی ہے اور اس نے اپنی اخلاقی ناکامی کا ثبوت دے دیا ہے۔ گاندھی جی کے بعد ہندو مسلم اتحاد کا کوئی داعی ملک میں نہیں رہا۔ ان کا پورا عقیدہ تھا کہ یہ ملک کی اولین ضرورت ہے، ا س کے بغیر اس ملک میں جو کام کیا جائے گا وہ سراب اور نقش بر آب ہے۔ ان پر شدت سے یہ بات طاری تھی کہ اگر اکثریت کے افراد یہ کام نہیں کرسکتے اور ان کو اس کی فرصت نہیں ہے یا اب وہ اس کی ضرورت نہیں سمجھتے تو مسلمانوں کو آگے بڑھ کر یہ جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہئے جس کا اٹھانے والا کوئی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب اس زمانہ میں سراپا تاثر و جذبات بن گئے تھے اور ان میں عجیب طرح کی سیمابی کیفیت آگئی تھی۔ ان کو کسی پہلو آرام نہیں تھا۔ دوڑ دوڑ کر لکھنؤ آتے اور ہم کو دہلی بلاتے۔ دہلی میں ان کا مفتی صاحب، مولانا ابواللیث صاحب اور مسلم صاحب سے برابر رابطہ قائم تھا۔ آخر میں گفتگو کا نتیجہ یہ نکلا کہ جلد سے جلد ایک مسلم مشاورتی اجتماع بلایا جائے، جس سے راہ عمل متعین کی جائے اور کام شروع کر دیا جائے۔ بعض مجبوریوں اور مصلحتوں کی بنا پر یہ مناسب معلوم ہوا کہ یہ اجتماع بجائے دہلی کے لکھنؤ میں رکھا جائے۔ میں نے اور مولانا محمد منظور صاحب نے اس کی ذمہ داری قبول کی اور طے پایا کہ اگست کے دوسرے ہفتہ میں یہ اجتماع دارالعلوم ندوۃ العلماء میں منعقد ہو‘‘۔
’’اسی عرصہ میں وسط جولائی میں مجھے اپنی آنکھ کے آپریشن کیلئے بمبئی جانا پڑا، اس دوران میں میں تفصیلات سے بے خبر اور عملی کاموں سے بے تعلق رہا۔ اگست کے پہلے ہفتہ میں میری واپسی ہوئی۔ سرجن نے مکمل احتیاط اور آرام کی ہدایت کی تھی اور چھ ہفتہ تک مطلق تقریر اور زور سے بات کرنے کو بھی منع کیا تھا۔ میں اپنے وطن رائے بریلی میں تھا کہ اچانک مولانا محمد منظور صاحب نعمانی کا پیغام پہنچا کہ 8 اگست کو ہونے والے کل ہند مسلم مشاورتی اجتماع کے خیر مقدم کیلئے مجھ کو کچھ لکھوا دینا چاہئے۔ اس فرمائش میں ملا جان صاحب کا ایما بھی شامل تھا جن سے ابھی میری ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی۔ خطبۂ استقبالیہ کی اصطلاح سے جو اپنے ساتھ خاص آداب و روایات رکھتی ہے، قصداً احتراز کیا گیا تھا لیکن میرا فریضہ تھا کہ میں اجمالی طور پر اس اجتماع کے محرکات و وداعی کا تذکرہ کروں اور کیلئے سنجیدگی، احساس ذمہ داری اور مسلمانوں کے مسائل کو دینی ذہن اور اخلاص و بے غرضی کے اس جذبہ کے ساتھ سمجھنے اور ان کا حل تلاش کرنے کی فضا پیدا کی جائے جو عام طور پر ایسے اجتماعات میں پیدا نہیں ہوتی، جہاں سیاسی نوعیت کے مسائل زیر بحث ہوتے ہیں اور جماعتوں کے مفادات ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ یہ کام یوں بھی دشوار تھا لیکن میری صحت کی اس وقت کی کیفیت کی بنا پر نہ صرف دشوار تر بلکہ خطرناک تھا، لیکن جس فضا میں یہ اجتماع ہونے جارہا تھا اس نے کسی اور چیز کو سوچنے اور اہمیت دینے کا موقع ہی نہیں دیا۔ میں نے ایک مضمون لکھوا دیا جس کو اس اجتماع کے پہلے اجلاس میں عزیز گرامی مولوی ابوالعرفان صاحب ندوی نے پرھ کر سنایا اور جو اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوا۔
اجلاس امید و بیم کی حالت میں اور جذبات سے بھری ہوئی اور تاثرات سے گرم فضا میں شروع ہوا۔ یہ اجلاس شہر کے ایک دور افتادہ حصہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے سلیمانیہ ہال میں دروازہ بند کرکے ہورہا تھا، شرکاء کی تعداد شاید سو سے زیادہ نہ رہی ہوگی لیکن اس محدود و مختصر اجتماع میں ہندستانی مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ ہونے نہیں جارہا تھا تو ان کی صلاحیت و شعور کا امتحان ضرور در پیش تھا۔ اس اجتماع کو زیادہ شہرت نہیں دی گئی تھی اور اس سے بچنے کی کوشش کی گئی تھی کہ وہ سیاسی بازیگروں کا اکھاڑا بن جائے لیکن اس پر ملک کے تمام درد مند مسلمانوں کی نگاہیں لگی ہوئی تھیں اور وہ اس کی تجاویز اور نتائج کیلئے گوش بر آواز تھے۔ ہندستان کی چار موقر جماعتوں جمعیۃ العلماء، جماعت اسلامی، مسلم لیگ اور خلافت کمیٹی کرسربراہ اور صدر و سکریٹری موجود تھے۔ بعض دوسری مسلم تنظیموں تعمیر ملت حیدر آباد، امارت شرعیہ بہار کے ذمہ دار بھی تھے۔ ہم جیسے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن کا کسی سیاسی پارٹی تعلق نہ تھا۔ ان میں بمبئی کے محمد یٰسین نوری صاحب بیرسٹر، حیدر آباد کے محمد یونس سلیم صاحب (جو بعد میں مرکزی حکومت میں نائب وزیر قانون ہوئے)، مدراس کے این ایم انور صاحب ممبر پارلیمنٹ اور بہا رکے سابق ایم پی سید مظہر امام صاحب لکھنؤ کے ڈاکٹر محمد عبدالجلیل فریدی اور مولوی سید کلب عباس صاحب صدر شیعہ کانفرنس خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ بعض سیاسی مشاہدین اور اخباروں کے نمائندے بھی شریک یا گوش بدیوار تھے جن میں سے بعض امریکہ کے کثیر الاشاعت اخبارات سے بھی تعلق رکھتے تھے۔ اجتماع تاثیر و جذبات سے ڈوبی ہوئی، فضا میں شروع ہوا، گویا ہندستانی مسلمانوں کی کشتی بھنور میں پھنسی ہے اور طوفان میں ہچکولے کھا رہی ہے اور کشتی کے ناخدا۔۔۔ اس کو بچانے کی فکر میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ قرآن شریف پھر پڑھا گیا۔ خلافت کے دیرینہ خادم و کارکن ملا جان کی فرمائش پر اقبال کی نظم ع ’’یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے‘‘ پڑھی گئی، جب خوش الحان کمسن طالب علم اس شعر پر پہنچا ؂
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل ۔۔۔ اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے
تو کئی آنکھیں پُرآب ہوگئیں اور بہت سے دل امنڈ آئے۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنا پرمغز خطبہ پڑھا، ان کی چوڑی پیشانی کی لکیروں میں نصف صدی کی تاریخ کے اتار چڑھاؤ اور مسلمانوں کی زندگی کے مد و جزر نظر آرہے تھے، جس سپاہی کا سفر تحریک خلافت کے ہنگامہ خیز اور پُر از اعتماد دور سے شروع ہوا تھا، جب ہندستان کے مسلمان اپنے کو اس قابل سمجھتے تھے کہ ہزاروں میل دور اور سات سمندر پار کے ایک ایسے مسئلہ پر اپنی رائے اور جذبات کا اظہار کریں جو دنیا کی بڑی طاقتوں کی زور آزمائی کا میدان بنا ہوا تھا، وہ سپاہی اب اس منزل پر اپنے کو کھڑا پاتا ہے کہ خود ان مسلمانوں کو اپنے اس ہزار سالہ وطن میں اپنے جینے اور رہنے کا استحقاق ثابت کرنا اور اپنی وفاداری کا ثبوت دینا ہے۔ ہندستان کے مسلمانوں نے ڈاکٹر صاحب کو بالواسطہ اور بلا واسطہ اپنا نمائندہ منتخب کیا تھا اور آج وہ اس اجتماعی قیادت کے مقام سے ان کے ضمیر اور ان کے دلوں و دماغوں کو خطاب کر رہے تھے، بہت کچھ کھونے کے بعد یہ یافت ڈاکٹر صاحب کیلئے بڑی کامیابی اور بڑا اعزاز تھا‘‘۔
راقم کے نزدیک کل ہند مسلم مجلس مشاورت اور مسلم پرسنل لاءء بورڈ مسلمانوں کیلئے تاج محل اور لال قلعہ سے بھی زیادہ خود کار اور کار آمد ہیں۔ محل اور قلعہ آج کی حکومت کی دیکھ ریکھ میں ہیں۔ مشاورت اور بورڈ مسلمانو کی سرپرستی میں قائم و دائم ہیں ضرورت ہے کہ نئی نسل اپنے اسلاف اور بزرگوں کے ان اداروں سے حفاظت کرے اور اسے پائیدار اور زیادہ سے زیادہ کار آمد بنانے کی سعی و جہد سے کام لے۔ علاقہ اقبالؒ نے ملت سے جڑے رہنے کی تلقین و نصیحت کی ہے اسے نوجوان نسل کو ہر گز بھولنا نہیں چاہئے:
اپنی اصلیت پر قائم تھا، تو جمعیت بھی تھی ۔۔۔ چھوڑ کر گل کو پریشاں کارواں بو ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آبرو باقی تیری ملت کی جمعیت سے تھی ۔۔۔ جب یہ جمعیت گئی دنیا میں رسوا تو ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں ۔۔۔ موج دریا میں ہے اور بیرون دریا کچھ نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ ۔۔۔ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ۔۔۔ ممکن نہیں ہری ہو سحاب بہار سے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔