تعارف وتبصرہ- تذکرہ حکیم محمد ایوبؒ

ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ بلریاگنج سے تعلق رکھنے والے ممتاز و مشہور طبیب  اور ہر دلعزیز سماجی شخصیت حکیم محمد ایوب ؒ کی شخصیت پر ایک کتاب ’’ تذکرہ حکیم محمد ایوبؒ ‘‘ حال ہی میں  زیور طبع سے آراستہ ہو کر منصہ ء شہود پر آئی ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر صباح الدین اعظمی نے بڑی عرق ریزی سے تیار کی ہے۔ یہ کتاب حکیم ایوب مرحوم کی حیات وخدمات کا ہمہ گیر احاطہ کرتی ہے۔  حکیم محمد ایوب ؒ نہ صرف ضلع اعظم گڑھ بلکہ مشرقی اتر پردیش اور اس سے بھی آگے ایک ماہر، دردمند طبیب کی حیثیت سے مشہور تھے۔ ان کی پیدائش 1924ء میں ضلع اعظم گڑھ کے ایک مشہور قصبہ بلریاگنج میں ہوئی۔ ہندوستان کی مشہور و معروف دینی درسگاہ ندوۃ العلماء لکھنؤ سے تعلیم حاصل کی، بعدازاں منبع الطب کالج لکھنؤ سے طب کی سند لی۔ ایک ایسے وقت اورماحول میں جب طبی سہولیات مفقود تھیں، حکیم صاحب نے خدمت کے جذبے سے اپنا طبی سفر شروع کیا اور بہت ہی قلیل عرصے میں پورے علاقے میں مسیحا کی حیثیت سے مشہور ہو گئے۔ آپ کا طبی سفر لگ بھگ چھ دہائیوں پر محیط رہا۔ درست تشخیص، سہل طریقہ علاج، واجبی ہدیہ، بہترین خدمت بلریا گنج میں واقع ان کے مطب کی نمایاں خصوصیات تھیں جن کی وجہ سے یہ چھوٹا سے قصبہ پورے ہندوستان میں پہچانا جاتا تھا۔
حکیم صاحب ایک ممتاز طبیب کے ساتھ ساتھ ہر دلعزیز سماجی شخصیت کے حامل تھے۔ سماج کے ہر طبقے میں ان کو قدر اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ نوجوانی کے ایام میں آپ جمعیت علمائے ہند سے متاثرتھے اور اس کی پالیسیوں کے تحت ملک کی آزادی کی تحریک میں کافی سر گرم رہے۔ بعد میں وہ جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہوگئے اور تاحیات اس کے فعال رکن رہے۔ اس کی مختلف کمیٹیوں کے ممبر رہے۔ حکیم صاحب کو لکھنے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ اپنے طبی تجربات کو انھوں نے کتابی شکل میں ترتیب دیا جو ’ معالجاتی مشاہدات‘ کے نام سے ان کی زندگی میں طبع ہوئی جس میں چار سو سے زائد مریضوں کے کامیاب علاج کا تذکرہ تفصیل سے کیا گیا ہے۔ حکیم صاحب کا انتقال 2004ء میں ہوا۔ بلریاگنج میں ان کا قائم کردہ مطب اب انھیں کے نام سے منسوب ایک شاندار اسپتال کی شکل اختیار کر چکا ہے جہاں ان کی اولاد بڑی ہی جانفشانی سے خدمت خلق کے اس سلسلے کو قائم رکھے ہوئے ہے۔
زیر نظر کتاب میں ان کی روشن اور تابناک شخصیت کے نمایاں پہلووں کو بہت پر اثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اسے ’حکیم محمدایوب ایجوکیشنل فاونڈیشن‘ نے شائع کیاہے۔ ذیل میں کتاب کے پہلے باب کا حصہ ملاحظہ ہو:

وہ خوبیوں کے پیکر
گھر میں ہم سب ان کو ابا کہتے تھے۔ میں نے جب ہوش سنبھالا (یہ گذشتہ صدی کی ستّر کی دہائی کے ابتدائی برسوں کی بات ہے) اس وقت وہ کافی مشہور ہو چکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ سب نعمتیں دے رکھیں تھیں جو کہ اس وقت اس خطے میں نایاب نہیں توکم یاب ضرور تھیں۔ ان کی بارعب لیکن شفیق شخصیت کے انمٹ نقوش میرے ذہن و دماغ پر کل کی طرح تر و تازہ ہیں۔ان کی گفتگو کا انداز،ان کالباس،ان کا رہن سہن، ان کا برتاؤ سب سے منفرد تھا ۔ لگ بھگ پچاس سال کی عمرمیں ان کو جو عزت، مرتبہ، مقام ، آسودگی اور کامیابی نصیب ہوئی تھی اسے دیکھ کربس یہی کہا جا سکتا تھا کہ حسن نیّت اور صالح اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی بے پایاں برکتیں نچھاور کر دی ہیں۔
اباکی زندگی بہت منظم تھی۔ وقت کا صحیح اور با مقصد استعمال ان کی عادت تھی۔فجر کی نمازکے بعدتفہیم القرآن کامطالعہ۔صبح سے عصر تک مطب۔عصر کے بعد گھر پر نشست، جس میں قریبی دوست و احباب، جامعۃ الفلاح کے اساتذہ و طلبہ، تحریک اسلامی سے متعلق افرادآتے رہتے اور چائے کا دور چلتا۔رات کا کھانا اہل خانہ کے ہم راہ کھاتے۔ عشاء کی نماز کے بعد بی بی سی کی خبریں سننا معمول تھا۔مطالعہ کا بے حدشوق تھا۔جب بھی فرصت ملتی کتابیں،اخبارات یا رسائل دیکھنے لگتے۔تحریکی لٹریچر کے ساتھ ساتھ دنیاجہان کے اخبارات و رسائل گھر پر آتے۔ مختلف زبانوں میں متنوع موضوعات پر کتابیں شیشے کے دروازوں والی چمکدار الماریوں میں سجی ان کے کمرے کی زینت تھیں۔
تحریک اسلامی سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔مقامی امارت کی ذمہ داری تھی۔ حلقہ کی شوریٰ اورمجلس نمائندگان کے لئے بھی منتخب ہوئے۔تحریکی رشتہ سب رشتوں پر بھاری اور مقدم تھا اور تحریکی ذمہ داریاں سب ذمہ داریوں سے بالاتر۔ تحریکی رفقاء اور ذمہ داران کی آمد ان کے لئے مسرت و طمانیت قلب کا باعث رہتی۔ان کی ضیافت سے جو آسودگی، جو چمک ان کے چہرے پرنظر آتی وہ میں نے کسی اور کی آمد پر نہیں دیکھی۔ ہفتہ میں دو دن بعد نماز مغرب باری باری گاؤں کی مختلف مساجد میں جماعت کااجتماع ہوتا۔ ایک سنہری چمکیلا جھولا جس میں شاید کچھ کتابیں اور رجسٹر رہتا رہا ہو گا،لے کر جاتے۔ ساتھ میں ایک روشن لالٹین ضرور ہوتی۔ماہانہ ضلعی اجتماعات میں پابندی سے شرکت کرتے۔روزانہ عصر کی نماز کے بعد بازار کی مسجد میں اور جمعہ کی نماز کے بعد گاؤں کی جامع مسجدمیں تحریکی لٹریچر پڑھ کر سنانا معمول تھا۔
تحریک کے علاوہ ان کی دوسری دلچسپی جامعۃ الفلاح، اس کے طلبہ ، اساتذہ، متعلقین اور زائرین تھے۔ صبح سے شام تک، گھر سے مطب تک، جامعہ سے منسلک و متعلق افرادکا آنا جانالگا رہتا ۔ ہمیشہ یہ کوشش رہتی کہ جامعہ کے مہمان ان کے مہمان بنیں۔ اس میں خاص و عام کی قید نہیں تھی۔ انجمن طلبۂ قدیم او رمجلہ حیات نو ان کی توجہ کے مرکز رہے۔
مجھے ان کی بلند وبالا شخصیت اور مقام کا اندازہ توبچپن سے تھا لیکن ان کی عظمت کا احساس بہت بعدمیں ہواجب میں نے عملی زندگی میں قدم رکھا اور ان کے بعض معمولات اپنانے کی کوشش کی۔میں ان کی سحر انگیز شخصیت کے اثرسے آج تک نہیں نکل سکا۔ ان کے بعد کوئی مجھے متاثر نہ کر سکا۔آج جب اس جہان فانی سے ان کے رخصت ہونے کے بارہ سال بعد میں ان کی یادوں کو،جو میرے ذہن سے کبھی محو نہ ہو سکی تھیں، ترتیب دینے کی کوشش کی تو دل کے نہاں خانے سے ان کی خوبیاں قطار در قطار در آنے لگیں۔
سادہ لیکن پروقار زندگی، قرآن و سنّت کا معیار،اقامت دین کا نصب العین، تحریک اسلامی سے بے لوث لگاؤ،بلند ارادے، اعلیٰ مقاصد،حق گوئی،صبرو شکر، عفو ودر گذر،تواضع او ر انکساری، اللہ کے حقوق کی ادائیگی، اللہ کے بندوں سے بلا تفریق محبت، خدمت خلق کا جنون، اصلاح معاشرہ کی تڑپ، علم دوستی، طلب علم کاجذبہ، صاحب علم کا احترام، طالب علم کی ہمت افزائی، مظلوم کی حمایت، ظالم کی مذمت، منافقت اور کذب سے چڑ، نام و نمود سے گریز، جہدمسلسل، فن میں مہارت، کام میں لگن، حسن کارکردگی، کارکنان کے ساتھ حسن سلوک،گھراوراہل خانہ کی ضروریات کاخیال، اولاد کے مستقبل کی فکر، بچوں سے شفقت، بزرگوں کی تعظیم،مہمان کی تکریم، رشتہ داروں اور اقرباء کی عزت، پڑوسی کی خبر گیری،یتیموں، بیواؤں ،مسکینوں کی مدد، ضرورت مندکا تعاون،سائل سے مروت…… میرے خدا !کہیں میں مبالغہ تو نہیں کر رہا ہوں۔ کیا یہ سب صفات کسی ایک شخصیت میں سما سکتی ہیں؟ مجھے شدت سے احساس ہوا کہ ان کی شخصیت میں نہ صرف یہ بلکہ ان کے علاوہ نہ جانے کتنی صفات اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ودیعت کر رکھی تھیں۔
اس جہان فانی میں خالق کائنات نے ازل سے بے پناہ افرادی و مادّی وسائل پیدا کئے ہیں اورابد تک کرتا رہے گا۔ اللہ کی کتاب ، اس کی نبی ﷺکی سنّت اورصحابہ کرامؓ کی عظمت کے دفاع کے لئے مر مٹنے والے دیوانے پہلے بھی تھے اور تا قیامت رہیں گے۔ تحریکوں کو بے لوث جانثاروں کی کبھی کمی نہیں رہے گی۔سماجی اداروں کومخلص کارکن پہلے بھی ملے تھے اور آگے بھی ملتے رہیں گے۔ فن طب کو کبھی بھی ماہرین کی کمی کی شکایت نہیں رہے گی۔ معاشرے کے اتحاد اور اصلاح کے لئے کوششیں ہمیشہ ہوتی رہیں گی۔ سماج میں ایسے لوگ کبھی کم نہیں ہوں گے جن کے دروازے ضرورت مندوں کے لئے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ مہمان نوازی و دریادلی کے مظاہربھی جا بجا ملتے رہیں گے۔ جب ہم ان کی زندگی کے ایک ایک جز ء کو دیکھتے ہیں تو ان کی شخصیت ایک عام سی ہی شخصیت لگتی ہے۔ لیکن ان کی شخصیت تو ان سب اجزا ء کا مرکّب تھی۔ ایک گنجینۂ صفات۔

(یہ کتاب [email protected] پر رابطہ کرکے حاصل کی جاسکتی ہے۔)

تبصرے بند ہیں۔