کہیں یہ یوپی الیکشن کی تیاری تو نہیں؟

گزشتہ کئی روز سے ملک کی صحافت میں بس ایک ہی شخص موضوع گفتگو بنا ہوا ہے۔ اور وہ ہیں مشہور اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظہ اللہ۔ اس مسئلے میں مسلمانان ہند مختلف طبقوں میں نظر آئے۔ بعض لوگ بہت کھل کر ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ وہیں بعض موقع پرست ان کی مخالفت پر اترے ہوئے ہیں۔ اور بعض لوگ خاموشی میں ہی عافیت سمجھ رہے ہیں۔ حال آں کہ بہت سارے غیر مسلمین ڈاکٹر صاحب کے اس میڈیا ٹرائل سے نالاں ہیں۔ اور ان پر لگائے گئے الزامات کو ایک سیاسی پروپیگنڈا تسلیم کرتے ہوئے انہیں یکسر مسترد کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف یہ بے ہودہ محاذ آرائی دراصل یوپی الیکشن کو بھنانے کے لئے ہے۔ بھاجپا اور اس کے حواریوں کا ایک بڑا مقصد ہے کہ وہ کسی طرح یوپی میں مسلمانوں کو تقسیم کردیں۔
حال ہی میں گجرات کے سابق ایم ایل اے یتِن اوزا (جو کہ اب عام آدمی پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں) کے بیان نے اس اندیشے کو مزید تقویت دی ہے۔
ان کے بیان کے مطابق بی جے پی کے بدنام زمانہ رہنما امیت شاہ (جن پر گجرات کے مسلم کش فساد انجام دینے کا الزام ہے) اور حیدرآباد کے شعلہ بیان سیاست دان اسد الدین اویسی کے درمیان ایک خفیہ مفاہمت ہوئی ہے۔ جس کے تحت اویسی صاحب کو بہار انتخابات میں کودنے کی پیش کش کی گئی تھی۔ تاکہ وہاں کے مسلم رائے دہندگان مختلف حصوں میں بٹ جائیں اور بی جے پی کو جیتنے کا موقع مل جائے۔ بہر حال اس معاملے میں کئی بار اسی قسم کے بیانات سامنے آئے۔ اور کچھ شواہد بھی اسی کی وکالت میں نظر آئے۔ لیکن یہ معاملہ اب بھی تحقیق کا طالب ہے۔ اور یہ بھی طے ہے کہ ایسے خفیہ معاملات کی تحقیق تقریبا ناممکن ہی ہوتی ہے۔

یوپی میں اکثر لوگ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مخالف ہیں! خود بعض اسلامی جماعتیں ان کی مخالف ہیں۔ جیسا کہ شیعہ اور بریلویہ نے عملا اس کا نمونہ بھی پیش کردیا ہے ۔ اب اس قدر بہترین موقع کو بھلا بی جے پی ہاتھ سے کیسے نکلنے دیتی۔ بس آنا فانا بنگلہ دیشی انگریزی اخبار کے حوالے سے ایک بے بنیاد بات کو لے کر میڈیا کو سونپ دیا گیا۔ اور بھاجپا نے ایک ہی تیر سے بریلوی، شیعہ اور ھندؤوں بلکہ تمام غیرمسلموں کو اپنی طرف لانے کی کوشش کی ہے۔

جب کہ سوشل میڈیا میں یہ خبر بھی گردش کررہی ہے کہ اس موقع کو کسی بھی قیمت پر نہ گنوانا پڑے اس لئے شدت پسند ہندو تنظیم RSS نے تقریبا 200 صحافیوں کو اس معاملے پر مامور کیا ہے۔ جنہیں یہ بتایا گیا ہے کہ جس طرح سے ممکن ہو ذاکر نائیک کو مجروح کیا جائے۔

اور یہ بات بہت حد تک معقول بھی لگتی ہے۔ جس کا جیتا جاگتا ثبوت موجود ہے۔ حال آں کہ ابھی تک ذاکر نائیک کے خلاف نہ تو تفتیش مکمل ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی الزام ثابت ہوا ہے۔ اس کے باوجود کچھ صحافی اپنی صحافت کی سوداگری کا ثبوت دے کر انہیں دہشت گرد تک بتا رہے ہیں۔ وہیں اخلاق وکردار تک کو بالائے طاق رکھ کر کچھ صحافی ان کا نام تک بھی درست انداز سے نہیں لے رہے ہیں۔ جب کہ بہت سارے ہندو شدت پسند مجرموں کا جرم ثابت بھی ہوچکا ہے لیکن یہ ان دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

خیر ایسے ماحول میں ہم تمام ہندوستانیوں کو بہت ہی سوجھ بوجھ سے کام لینا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ "اچھے دن” کے نام پر جو دھوکہ ہوا ہے اب ‌وہی دھوکہ "ذاکر نائیک” کے نام سے الگ انداز سے یوپی والوں کو دیا جائے!
http://www.aamee.me/2016/07/blog-post_11.html

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔